0
Tuesday 2 Jun 2020 14:39

امام خمینی ؒ تاریخ ساز شخصیت

امام خمینی ؒ تاریخ ساز شخصیت
تحریر: مجتبیٰ ابن شجاعی

طول تاریخ میں کھربوں انسانوں نے اس دھرتی پر جنم لیا اور مختصر مدت تک دنیا کو اپنا عارضی مسکن بناکر یہاں سے کوچ کیا۔ دہائیوں کے بعد مرحومین کا نام و نشان تک مٹ گیا۔ عزیز و اقارب کے سوا کسی نے آہ تک بھی نہ کی۔ لیکن انسانی تاریخ نے ایسے فرشتہ صفت انسانوں کو بھی جنم دیا جو اس دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی اپنی ذہانت اور عظیم الشان کارناموں کے سبب ایک ابدی اور زندہ و جاوید حقیقت بن گئے۔ یہ روشن فکر طبقہ آنے والی نسلوں کے لیے نمونہ عمل بن گیا۔ حضرت امام خمینی ؒبھی اسی طبقہ سے وابستہ ایک زندہ و جاوید حقیقت اور تاریخ ساز شخصیت کا نام ہے، جنہوں نے اپنی ذہانت، جرائت، عزم و ارادہ، ہمت و استقلال اور مذہبی جوش و جذبہ کے بنا پر سرزمین ایران میں ظلم و استبداد اور مطلق العنان حکومت کا خاتمہ کرکے اسلامی انقلاب برپا کیا اور اس طاغوتی سرزمین پر نظام شریعت نافذ کرکے اﷲ کی حکومت قائم کی۔

امام خمینی کا اصل نام سید روح اللہ موسوی تھا، جو 24ستمبر 1902ء کو ایران کے شہرِ خمین میں ایک مذہبی اور دیندار گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آباؤ اجداد دین شناس تھے، لہٰذا امام خمینی ؒ بھی اپنے آباﺅ اجداد کے نقش قدم پر چل کر زندگی کی آخری سانس تک دین محمدی کے بے لوث خدمت گزار کے طور پر اُبھرے۔ زندگی کے شروعاتی دور میں ہی والد محترم آقا مصطفٰی خمینی ؒ کا سایہ سر سے اُٹھ گیا جس کے بعد والدہ گرامی کی آغوش میں تربیت حاصل کی۔ والدہ محترمہ نے امام خمینی ؒ کی تربیت اس انداز سے کی کہ بچپن کے ایام میں ہی دین شناسی کا ماحول امام خمینی کی زندگی میں سرایت کرگیا۔ آپ حصول علم کے تلاش میں نکلے، اپنے آبائی شہر کے علاوہ امام راحل ؒ نے حصول علم کی خاطر اراک ایران کی دیگر ریاستوں کا سفر کیا لیکن تشنگی علم اس قدر تھی کہ دونوں جگہ پیاس نہ بجھ سکی، جس کے بعد عراق کی جانب رُخ کیا اور وہاں کے علمی مرکز میں داخلہ لے کر جید و بزرگ علمائے کرام سے علم دین حاصل کرکے دینی علوم کی تکمیل کی۔

تاریخ کی ورق گردانی سے معلوم ہوتا ہے کہ دین اسلام کو ابتدا سے یہ افتخار حاصل ہے کہ دین شناس روشن فکر طبقہ نے اسلام کے تئیں بے پناہ خدمات انجام دی ہیں اور ایک مدت تک زحمتیں اٹھا کر تکالیف برداشت کرکے اس دین کو زبان در زبان، نسل در نسل منتقل کیا ہے لیکن امام راحل امام خمینیؒ نے جس انداز سے مذہب اسلام کے تئیں خدمات انجام دی ہیں وہ اپنی مثال آپ ہے۔ آپ نے انقلاب کربلا کی مثال دہرا کر کفر و طاغوت کی چوٹیوں پر اسلام کی کامیابی کا جھنڈا گاڑ دیا۔ ایک ایسی سرزمین جو طاغوت کے نرغے میں تھی، جہاں طاغوت کی پیروی کی جارہی تھی اور احکام الٰہی کو پیروں تلے روندھا جارہا تھا۔ تاریخ گواہ ہے کہ اسلامی انقلاب سے پہلے سرزمین ایران نے کئی نشیب و فراز دیکھے ہیں ہزاروں سالہ شہنشاہیت اور مطلق العنان حکومتوں نے ایران کا بیڑا غرق کردیا تھا۔ سرزمین ایران پر مسلمانوں کی تاریخ اگرچہ پرانی تھی لیکن اسلامی اور انسانی نظام مفلوج ہوکر رہ گیا تھا۔ حکمران مسلمان تھے لیکن اسلامی قواعد و ضوابظ کا کوئی نام و نشان تک بھی نہ تھا۔

ہزاروں سالہ شہنشاہیت کے آخری دور میں حکمرانوں کی عیش پرستی اور مغرب نوازی سے ایران ادبی، مذہبی، تعلیمی نیز اقتصادی لحاظ سے زوال پذیری کی جانب گامزن تھا۔ ظلم و استبداد کا دور دورہ تھا صدائے حق کا انجام سولی،گولی اور قید خانہ تھا علمائے کرام کی توہین معمول اور خواتین کی عصمت غیر محفوظ تھی۔ اس معاشرے میں عورت کو ایک کھلونے کے طور پر پیش کیا جارہا تھا، رسم و رسوم، فیشن پرستی، عریانیت اور بے ہودگی کو رواج اور پردہ کا مذاق اڑایا جارہا تھا۔ ان تمام مسائل و مشکلات کا خاتمہ کرنے کے لیے ملت اسلامیہ ایران کو ایک قائد اور صالحانہ قیادت کی ضرورت تھی۔ روشن فکر علمائے کرام کی ایک بڑی تعداد اگرچہ موجود تھی لیکن ظلم و استبداد کے آگے ان کے ہاتھ پیر بندھے ہوئے تھے۔ اس شیطانی نظام کے خلاف زبان کھولنے والوں کو گولی اور سولی کا تحفہ دیا جاتا تھا اور عوام بھی تحریک آزادی سے ناآشنا تھے۔

اس وقت ملت ایران کو ظالم کے مقابلے میں جرائت، ہمت اور عزم و استقلال کی ضرورت تھی۔ ایک نڈر قائد کی ضرورت تھی، اللہ تبارک و تعالٰی نے ملت ایران کے اس درد کا مداوا کرکے امام خمینی ؒکو مقام و منزلت عطا کی۔ امام خمینی ؒ ایرانی سیاست کے افق پر عظیم رہنما کی حیثیت سے ابھرے انہوں نے اپنی ذمہ داریوں کو سنھبالا اور ظلم و جبر کے مقابلے میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار مانند کھڑے ہو گئے اور ملت ایران کو راہ حقیقت سے آگاہ کیا۔ اسلام کے اصول اور تحریک آزادی سے آشنا کیا۔ اس زندہ ضمیر شخصیت نے اسلامی حکومت کی تشکیل نو کا نظریہ پیش کیا۔ امام خمینی ؒ کا نظریہ” اسلامی حکومت“ کے قیام کے نظریہ تک محدود نہ رہا۔ روشن فکر علمائے کرام نے امام خمینی ؒ کی قیادت میں ظالم حکومت کے خلاف درپردہ سرگرمیاں شروع کردیں، قائد اور روشن فکر طبقہ کی انتھک کاوشوں سے انقلابی نظریات کی ترویج میں دن دگنی رات چوگنی ترقی ہوتی چلی گئی۔ شہنشاہیت کے جڑیں اکھڑنے لگیں اور کئی سالوں بعد یہ تحریک کامیاب ہوگئی۔ 11فروری 1979ء کے دن ظلم و جور پر مبنی سلسلہ شہشاہیت کے خاتمے کا اعلان ہوگیا اور ایرانی قوم نے اپنی تقدیر کے فیصلہ اپنے ہاتھوں میں لیا۔

امام خمینیؒ فرد واحد کا نام نہیں بلکہ ایک مکتب کا نام ہے اس مکتب میں لاکھوں جوانوں نے تربیت حاصل کرکے طاغوت اور مطلق العنان حکومتوں کا بیڑا غرق کردیا۔ اس مکتب نے انسانیت کی ڈوبتی کشتی کو کنارے لگایا اور خفتہ ضمیر افراد کو جگا کر انہیں اپنی ذمہ داریوں کا احساس دلایا۔ اس مکتب کے بانی کار حضرت امام خمینیؒ ایک غیر معمولی شخصیت کے حامل ہیں، جنہوں نے بغیر ساز و سامان ”ید ﷲ فوق ایدیھم“ پر یقین محکم رکھ کر ظالم و جابر پہلوی حکومت کا مقابلہ بآسانی کیا۔ سولہ سال طویل جلا وطنی اور جسمانی و ذہنی اذیتوں کا سامنا کیا لیکن قوم کی خدمت گزاری اسلام و مسلمین کی سرفرازی اور مظلومین جہاں کی حمایت سے دستبرداری کا نام تک نہ لیا اور اس لاقانونیت جارحیت و خوف و دہشت کے آگے کھبی ڈرنے، تھکنے، جھکنے یا بکنے کا احساس تک نہ کیا۔

عالم اسلام کے اس عظیم سپہ سالار قائد و رہبر نے ملک میں وحدانیت کا پرچم بلند کیا، دعوت حق اور انسانیت کی بقاء کی خاطر دن کا کھانا اور رات کا سونا ترک کیا۔ امام خمینی نے سوئے ہوئے ضمیروں کو جگا کر کہا کہ ہمارا دین ایک ایسا مکتب ہے جو انسان کی اس طرح تعلیم و تربیت کرتا ہے کہ وہ خداوند متعال کے سوا کسی طاقت یا فکر کے آگے نہیں جھکتا ہے، لہٰذا آپ اپنے ملک کے مسئلہ کو کسی بھی طرح ہاتھ سے نہ دیں اور اپنی و دوسروں کی آزادی و خودمختاری کا دفاع کریں، اس سلسلے میں لالچ، خوف، خود پرستی سے کام نہ لیں کیونکہ یہ بدبختی اور پریشانی کا سبب ہے۔ امام خمینی کی ولولہ انگیز قیادت نے اسلامی حکومت اور انقلابی نظریہ کو روز افزوں پروان چڑھایا، غیور اور باہمت ملت نے اس قیادت پر مکمل اعتماد کیا اور من و عن اس قیادت کے ساتھ جُڑ گئے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ 17 فروری 1979ء کو شاہ ایران ملک سے فرار ہوگیا اور 11فروری 1979ء کے دن اسلامی انقلاب کا سورج بڑی آب و تاب کے ساتھ طلوع پذیر ہوا اور ملک میں ہزاروں سالہ شہنشاہیت کا پردہ چاک ہوگیا اور سرزمین ایران پر حکومت الٰہی قائم ہوگئی۔

انقلاب مخالف اسلام دشمنوں نے اس انقلابی تحریک کو کچلنے کیلئے سازشوں کا دائرہ وسیع کردیا اقوام عالم کو گمراہ کرنے کے لیے دشمن نے اس انقلاب کو کھبی شیعہ ،کھبی خمینیؒ ،کھبی کرسی اور کھبی ایران سے منصوب کرنے کی کوشش کی اور اس انقلاب کو حقوق بشی خاص طور پر حقوق نسواں کے خلاف قرار دیا لیکن دشمن کی تمام تر کوششیں ایک ایک کرکے ناکام ثابت ہوئیں یہ تحریک دن بدن ترقی کے منازل تیزی کے ساتھ طے کرتی رہی۔انقلاب کی کامیابی کے بعد بھی اس انقلاب نے دشمن کی سازشوں کا قلع قمع کرکے ترقی کے مراحل طے کیے۔یہ انقلاب ایرانی سرحدوں تک باقی نہیں رہا بلکہ دنیا بھر میں اس انقلاب کی کرنیں پھیل چکی ہیں اسی انقلاب کے بدولت حزب ا ﷲ لبنان کے ہاتھوں جدید ساز و سامان سے لیس غاصب اسرائیل کو ۳۶ دنوں میں بدترین شکست کھانی پڑی ۔فلسطین مزاحمت میں نئی روح داخل ہوگیا اور حال ہی میں امریکی نوزاد دہشتگروتنظیموں کو دنیا کے مختلف ممالک میں بدترین پسپائی کا سامنا کرنا پڑا۔

 امام راحل امام خمینی ؒنے فرمایا کہ ہمارا انقلاب کوئی ظالم انقلاب نہیں ہے یہ ایک انسانی قیام ہے، اسلامی قیام ہے، ہم کتاب اور سنت پر عمل کرنا چاہتے ہیں آپ کو کتاب و سنت پر عمل کرنا چاہیئے، امام خمینی ایک ہمہ گیر اور آفاقی شخصیت کا نام ہے جس نے بلا لحاظ مسلک و ملت اسلام و مسلمین کی سرفرازی کے لیے اپنے فرائض انجام دیئے۔ آپ ایک ایسے سیاست مدار تھے جن کے کارناموں سے دنیا بھر کے سیاست مدار انگشت بہ دندان رہ گئے۔ امام خمینی ؒ ایک بے نظیر معلم، عالم با عمل اور منادی اتحاد تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ مسلمانوں کے اتحاد و اتفاق کے لیے وقف کردیا جس کی اعلیٰ مثال فلسطینی عوام کی حمایت ہے۔ امام خمینی نے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے چند ماہ بعد سب سے پہلے یوم القدس کا تاریخ ساز فتویٰ جاری کردیا اور بلا لحاظ مسلک و ملت مسلمانان عالم کو ایک ہی جھنڈے تلے جمع ہونے کی پرزور تلقین کی۔ امام خمینیؒ کی دلی تمنا تھی کہ مسلمان فروعی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر کلمہ لا الٰہ الا ﷲ کے جھنڈے تلے جمع ہوجائیں۔ آپ نے "لاشرقیہ لاغربیہ، اسلامیہ اسلامیہ" کا نعرہ لگا کر امت کو متحد کرنے کی انتھک کوشش کی۔ امام خمینی ؒ فرماتے ہیں کہ "تفرقہ شیطان کی طرف سے ہے اور اتحاد و وحدت رحمان کی طرف سے۔"

بانی انقلاب حضرت امام خمینی ؒ مجسمہ اخلاق تھے، انہوں نے اپنے رہبر اعلٰی پیامبر گرامی اسلام حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ سے درس اخلاق حاصل کرکے اس کو اپنی زندگی میں عملایا۔ آپ نہایت ہی پارسا اور انسان دوست لیڈر تھے جو نہ صرف ایران بلکہ مسلمانان عالم کے دکھ درد کو اپنے سینے میں لیے ہوئے اس کو اپنا درد سمجھتے تھے۔ انہوں نے اپنی تحریک کو مظلوم لوگوں کی آواز بنایا، جن کی کوئی آواز نہ تھی۔ آپ نے تعلیمات قرآنی اور سیرت آئمہ کو اپنی زندگی میں عملایا اور مسلمانوں کو درس دیا کہ وہ تعلیمات قرآنی اور سیرت اہلبیت طاہرینؑ پر عمل پیرا ہو جائیں۔ امام خمینی ؒ فرما رہے ہیں کہ مسلمانوں کی پریشانی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ تعلیمات قرآنی اور سیرت آئمہ اطہار ؑ سے منھ موڑ کر دوسروں کے جھنڈے تلے جمع ہوگئے ہیں۔ اگر مسلمان کلمہ توحید کے جھنڈے تلے جمع ہوجائیں گے تو ان کے تمام مسائل کسی کے جھنڈے تلے جمع ہوئے بغیر حل ہو جائیں گے۔

امام راحل ؒ اپنی آخری سانس تک مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے کوشاں رہے اور مستضعفین و مظلومین جہاں کے لیے ایک مسیحا کے طور پر اُبھرے۔ امت مسلمہ کے یہ وسیع القلب ترجمان 4 جون 1989ء کو مسلم امہ کو داغ مفارقت دے کر اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ امام خمینی ؒ کے جنازہ کا اجتماع تاریخ کا منفرد اجتماع تھا۔ جس میں کروڑوں عقیدتمندوں نے اپنے رہنما کو پرنم آنکھوں سے سپرد خاک کردیا۔ امام خمینی کی وفات کے بعد افکار خمینی ؒ نے طاغوت اور اسلام دشمن قوتوں کا دائرہ حیات تنگ کردیا۔ آج بھی رہبر انقلاب اسلامی حضرت امام خامنہ ای ؒ کی شکل و صورت میں افکار خمینی ؒ سامراج کے آنکھوں میں کانٹے کا کردار نبھا رہے ہیں۔ مکتب خمینی ؒ دن بدن پروان چڑھ رہا ہے، اس مکتب سے آج بھی آغا سید حسن نصر ﷲ، شہید قاسم سلیمانی، شہید محسن حججی، خالد مشعل، شیخ نعیم قاسم، شہید باقر نمر النمر اور شیخ ابراہیم زکزکی، آغا سید جواد نقوی جیسے شاگرد تربیت پاکر دشمنان اسلام کے مقابلے میں سپر بن کر سامنے آجاتے ہیں۔ بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی ؒ کی 31ویں سالگرہ پر انہیں دل کی عمیق گہرائیوں سے سلام پیش کرتے ہیں اور مجاہدین راہ حق خاص طور پر شہید قاسم سلیمانی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 866177
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش