0
Thursday 6 Aug 2020 10:30

مثالی عزاداری

مثالی عزاداری
تحریر: انجنئیر سید حسین موسوی

آج کے دور میں ہم کونسی عزاداری کو مثالی عزاداری کہہ سکتے ہیں۔؟ اِس کا ایک ہی جملے میں جواب یہ ہے کہ "جو عزاداری سارے معین مقاصد کو اچھی طرح پورا کرے۔" اس بات کو سمجھنے کے لئے لازم ہے کہ ہم دیکھیں کہ ہماری عزاداری کے مخاطب کون ہیں۔؟ ہماری عزاداری کے مخاطب تین اقسام میں تقسیم ہوتے ہیں۔
(1) مذہبِ اہلبیتؑ کو ماننے والے یعنی شیعہ
(2) دوسرے مذاہب کو ماننے والے مسلمان
(3) غیر مسلم
ان تین گروہوں کے لئے عزاداری کے پیغامات بھی الگ الگ ہیں، اس لئے اِن تین گروہوں کے بارے میں ہم الگ الگ بحث کریں گے۔

(1) شیعہ کیلئے عزاداری:
مذہبِ اہلبیتؑ کو ماننے والوں کے لئے کربلا دینی جوش، ولولہ اور قوت عطا کرنے والا پاور ہاؤس ہے۔ یہ طاقت شیعہ کو جس آخری منزل کی طرف لے جانے والی ہے، وہ امام مہدی (عج) کا انقلاب ہے اور اس منزل تک پہنچنے کا راستہ دین ہے۔ اس لئے اِس گروہ کے لئے عزاداری ایسی ہوگی، جو اچھی طرح سے مقاصد کو حاصل کرکے خالص دین کی حقیقت پہنچائے، امام زمانہ (عج) کی تفصیلی معرفت عطا کرے اور ایک عزادار کو امام کا سپاہی بنائے، ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ:
Ø کربلا کی تاریخ اس کے حقیقی تناظر میں بیان ہو، اس کی تاریخ میں جو جو چیزیں اضافی ڈال دی گئی ہیںو ان کو نکال دیا جائے۔ کربلا میں امام حسین علیہ السلام اور اصحابِ حسینؑ کا کردار اور مقصد صحیح طور پر آسان الفاظ میں بیان ہو۔ اس مقصد کے لئے اِس وقت ہمارے پاس موجودہ عزاداری میں یہ چیزیں موجود ہیں: کربلا کی تاریخ میں جوش اور جذبہ پیدا کرنے کے لئے مصائب کا بیان، شاعری، ماتم (ہر قسم کا) جلوس اور جلوس میں شامل عَلم، تعزیہ، ذوالجناح، جھولے وغیرہ شامل ہیں۔ کربلا کی تاریخ کو صحیح بیان کرنے کے لئے جدید دؤر میں تمثیلی ڈارمے اور پریزنٹیشن (Presentation) کے استعمال کی بھی ضرورت ہے۔ جدید دور کی یہ چیزیں کسی بھی بات کو زبانی بیان کرنے سے کہیں زیادہ مؤثر ہیں، اس لئے موجودہ طرز کی مجلسوں کو جاری رکھتے ہوئے اِن جدید ذرائع کو بھی استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔

Ø عزاداری کا مقصد بلکہ منزل جیسا کہ امام زمانہ (عج) کا انقلاب ہےو اس لئے مہدویت کو تفصیل سے بیان کرنے کی ضرورت ہے۔ اس موضوع کے بابت نہ صرف ہم شیعہ طبقے کے ذہنوں میں کوئی تفصیلی بنیاد موجود نہیں بلکہ اس کے برعکس بہت ساری غلط فہمیاں موجود ہیں۔ ہمارے خطباء اور شاعروں کو چاہیئے کہ اس موضوع پر تفصیلی مطالعہ کریں اور ملت کو مہدویت کی حقیقی سوچ فراہم کریں۔
Ø دین کی معرفت پہنچانے کے لئے ہمارے پاس اس وقت مجلس کا شروعاتی حصہ جس کو ہم فضائل کہتے ہیں، موجود ہے۔ اس حصے میں جس چیز کی ضرورت ہےو وہ یہ ہے کہ اس کا انداز جتنا ہوسکے جذباتی سے کم کرکے سنجیدہ بنایا جائے۔ مجلس کا یہ جذباتی انداز صرف ہمارے پاس برِصغیر میں بلکہ خاص طور پر پاکستان میں موجود ہے۔ باقی ہر ملک میں اس کا انداز سنجیدہ ہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دین کو نظامِ حیات کے طور پر بیان کیا جائے۔ منفی مناظروں سے نکلنا چاہیئے۔ ہماری مجالس کے موضوعات آج سے پچاس سال پرانے ہیں، جبکہ آج کے معاشرے کی ضرورت بالکل ہی بدل گئی ہے، آج کے نوجوان کی ضرورت صرف فضائل سے پوری نہیں ہوتی اور اس کو آج کے دؤر کے ظلم و زیادتی سے نکلنے کا راستہ چاہیئے ہوتا ہے۔ جیسا کہ ہم نوجوان نسل کو ایسا راستہ نہیں فراہم کرتے، اِس لئے وہ عدل و انصاف کی تلاش میں اُن پارٹیوں کے پاس جاتا ہے، جو ایسے راستوں کے نعرے لگاتے ہیں، جب ہمارا نوجون اُن پارٹیوں میں جاتا ہے تو پھر یا تو برملا اللہ اور رسول کا منکر ہو جاتا ہے یا کم از کم عمل میں بے دین ضرور ہو جاتا ہے اور صرف زبان سے دین کا اظہار کرتا ہے۔

دوسرے اسلامی مذاہب والوں کیلئے عزاداری:
دوسرے اسلامی مذاہب بھی اہلبیت علیہم السلام سے محبت رکھتے ہیں، البتہ وہ اہلبیت علیہم السلام کے حقیقی مقام و منزلت اور ان کی عملی سیرت سے ناآشنا ہیں۔ اہلبیت علیہم السلام کے مذہب کو ماننے والوں میں بعض لوگ ایسے بھی ہیں، جو یہ سمجھتے ہیں کہ اہلسنت والے اہلبیت علیہم السلام کو نہیں مانتے، جبکہ حقیقت یہ کہ اہلبیت علیہم السلام کے دشمن دنیا میں انتہائی کم ہیں اور باقی اہلسنت حضرات اہلبیت علیہم السلام سے محبت کرتے ہیں، البتہ ان کو ہماری عزاداری کے کچھ طریقوں پر اعتراض ضرور ہے۔ اس سلسلے میں پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمیں خود بھی دیکھنا چاہیئے کہ ہماری عزاداری کے طریقوں میں ایسی چیزیں تو نہیں پائی جاتیں، جن پر ہمارے ہی مراجع عظام نے اعتراض کیا ہو اور ان سے منع کیا ہو۔ ہمیں چاہیئے کہ اہلسنت برادارن کو عزاداری میں شامل کرنے کے لئے ان چیزوں سے اجتناب کریں، جن کی ہمارے مراجع عظام نے ممانعت کی ہے، چاہے عام حالات میں وہ طریقے جائز ہی کیوں نہ ہوں۔ اہلسنت برادران کو عزت و احترام سے عزاداری میں شامل ہونے کی دعوت دی جائے اور ان کے مزاج کا خیال رکھا جائے۔

اس کے ساتھ ساتھ اہلبیت علیہم السلام کے حقیقی مقام یعنی آپ کی ولایت اور ذریعہ فیض ہونے کو اجاگر کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہمارے خطباء اور شاعر حضرات آیاتِ قرآن اور "متفق علیہ" سنت کے ذریعے اس کو بیان کریں۔ یاد رکھنا چاہیئے کہ منفی مناظرہ نقصان کے علاوہ کسی کو کچھ بھی فائدہ نہیں دے سکتا۔ اس لئے جتنا جلد ہم اس مرض سے نجات حاصل کریں، اتنا بہتر ہوگا، یہاں منفی مناظرہ سے مراد دوسروں کے مقدسات کی توہین کرنا ہے۔ موجودہ دور میں ہمارا پورا معاشرہ (شیعہ اور غیر شیعہ) اہلبیت علیہم السلام کی عملی سیرت، خاص طور پر سماجی اور اخلاقی سیرت سے ناواقف ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارا منبر آئمہ اہلبیت علیہم السلام کی عملی سیرت کو بیان کرے اور یہ ہمارے منبر کا سب سے اہم ترین فرض ہے۔ ہم بیان کرچکے ہیں کہ عزاداری کی منزل امام مہدی (عج) کی عالمی اسلامی حکومت ہے، اہلسنت برادران بھی امام مہدی (عج) کا عقیدہ رکھتے ہیں، البتہ ان کے پاس ان کی کتابوں میں امام مہدی (عج) کی اتنی تفصیلی معرفت موجود نہیں ہے جتنی ہمارے پاس ہے۔

اس لئے ہمارے منبر کی ایک یہ بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ ہمارے پاس موجود مہدویت کی تفصیلی معرفت کو دوسرے مذاہب تک پہنچایا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں سب مسلمانوں کے درمیان افہام و تفہیم پیدا کرنے کے لئے سارے اسلامی مذاہب کا احترام قائم رکھتے ہوئے مکتبِ اہلبیت علیہم السلام کے عقائد اور احکام کو قرآن، سنت اور عقلی دلیلوں سے بیان کرنے کی ضرورت ہے، اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ مکتبِ اہلبیت علیہم السلام کو نہ ماننے والوں کو بھی یہ معلوم ہوگا کہ کس کے پاس اپنے عقیدے اور عمل کے لئے دلائل موجود ہیں، البتہ یہ بات الگ ہے کہ کسی کو ایک دلیل پسند ہے تو کسی کو دوسری پسند ہے۔ یہ عمل بھی نہایت ہی فائدہ مند رہے گا کہ سب مسلمانوں کے لئے فقہی مسائل بیان کئے جائیں، جیسا کہ ہمارے ہاں اہلسنت کے بھائیوں کی اکثریت فقہ حنفیہ کی پیروکار ہے، اس لئے فقہ جعفریہ کے ساتھ ساتھ فقہ حنفیہ کو بھی بیان کیا جائے۔ مثال کے طور پر اگر قربانی کے مسائل بیان کئے جائیں تو دونوں فقہوں کو بیان کیا جائے، اس کا یہ فائدہ بھی ہوگا کہ دونوں فقہوں کی خصوصیات نکھر کر سامنے آجائیں گی۔

غیر مسلموں کیلئے عزاداری:
ہمارے ملک میں ہندو طبقے کی اکثریت اہلبیت علیہم السلام اور خاص طور پر امام حسین علیہ السلام کا احترام کرتی ہے، بلکہ اس آگے بڑھ کر اُن سے محبت بھی کرتی ہے اور بہت سارے تو عزاداری میں بھی شامل ہوتے ہیں۔ دوسرے ادیان کے لوگ بھی امام حسین علیہ السلام کی شخصیت اور کردار سے متاثر ہیں۔ امام حسین علیہ السلام سے غیر مسلموں کے متاثر ہونے کے کئی اسباب ہیں۔ سب سے پہلا سبب یہ ہے کہ امام حسین علیہ السلام کے صدقے ان کی حاجتیں پوری ہوتی ہیں، دوسرا سبب یہ ہے کہ آمریت اور ظلم کے خلاف امام علیہ السلام کا قیام، تیسرا سبب ہے اعلیٰ مقصد حاصل کرنے کے لئے ان کی دی گئی قربانی اور ان کی مظلومیت۔ جبکہ چوتھا سبب اہلبیت علیہم السلام میں موجود کمال ہے، جو ہر انسان کے دل کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔

ہمارے منبر کی ذمہ داری ہے کہ عزاداری کے اس طبقے کو بھی نظر میں رکھا جائے۔ امام حسین علیہ السلام نے جن اعلیٰ انسانی اقدار اور آدرشوں کے واسطے قربانی دی ہے، ان کو تفصیل سے بیان کیا جائے، انسانی اور اخلاقی اقدار کسی خاص دین یا قوم کے لئے مخصوص نہیں ہوتی بلکہ ان کا تعلق ساری انسانیت سے ہوتا ہے۔ یہ اعلیٰ انسانی اقدار ہی ہیں جو پوری انسانیت کو آپس میں جوڑتی ہیں۔ اس ربط کی وجہ سے ہی ایک عالمی انسانی معاشرہ وجود پاتا ہے۔ امام حسین علیہ السلام کی سیرت کے ذریعے ہم ان اقدار کو جتنا زیادہ بیان کریں گے، اس قدر امام علیہ السلام کی شخصیت دنیا کے انسانوں کا مرکز بنے گی اور ہر انسان امام حسین علیہ السلام سے اپنی حیثیت کے مطابق فیض حاصل کرسکے گا۔

اب اگر ہم ان تینوں اقسام کو سامنے رکھ کر دیکھیں گے تو مثالی عزاداری وہ ہوتی ہے جس میں:
· دنیا کا ہر انسان شامل ہو، چاہے اس کا دین یا مذہب کوئی بھی ہو۔
· دنیا کے ہر انسان تک کربلا کا پیغام نہایت مؤثر طریقے سے پہنچے۔
· ہر انسان کربلا سے اپنی زندگی سنوارنے کے واسطے سبق حاصل کرے۔
مثال موجود ہے:
اس طرح کی عزاداری کو ترتیب دینے کے لئے ہمیں کچھ زیادہ سوچنے کی ضرورت نہیں۔ دنیا کے مختلف ممالک اور عراق کے مختلف شہروں میں خاص طور پر نجف اشرف سے کربلا تک کا ملین مارچ ہمارے لئے ایک مثالی عزاداری کا جلوس ہے، اس جلوس میں ہر طبقے کے حسینی عزادار، مزدور سے لیکر فوج کے جنرل تک اور طالب علم سے لیکر دینی مرجع تک سارے اپنے طبقاتی فرق بھلا کے ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ اس جلوس میں ہر دین اور مذہب کے لوگ شامل ہوتے ہیں اور انتہائی سادگی سے لبیک یاحسینؑ کے نعرے کے تحت کربلا میں جمع ہوتے ہیں۔ اس جلوس کی عظمت اِس کی سادگی میں ہی ہے۔

اس کی عظمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس میں بڑے بڑے عہدوں پر فائز لوگ عزداروں کے بوٹ پالش کرتے ہوئے اپنے لئے عزت محسوس کرتے ہیں، اس ملین مارچ نے عزاداری (مثالی جلوس) ہونے کے لئے سارے معیار پورے کئے ہیں۔ اب ہماری ذمہ داری ہے کہ ملک کے ہر شہر اور گاؤں میں اس جلوس کو ماڈل جلوس قرار دے کر اپنے جلوسوں کو مرتب و منظم کریں۔ اس ملین مارچ میں جو حسینی شعائر موجود ہیں، ان میں اپنی طرف سے کوئی بھی اضافہ نہ کریں اور اس کی سادگی کو برقرار رکھیں۔ اگر ہم اس طرف قدم بڑھائیں تو یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ ہماری عزاداری بھی ہر انسان تک وسیع ہو جائے گی اور ہر انسان کو حسینی بنا سکے گی۔ اُس جلوس کو عملی صورت میں قائم کرنے کے لئے ہمیں روایتی سوچ سے نکلنا ہوگا۔ عزاداری کے مقاصد کو دوبارہ سمجھنا ہوگا اور اپنا لائحہ عمل نئے سرے سے ترتیب دینا پڑے گا۔

سال 2016ء مین چین کے سفیر نے بھی اپنی بیگم کے ہمراہ جلوس کے راستے میں کمپ لگایا تھا، جس میں سفیر کی بیگم حجاب کے ساتھ زواروں کو اپنی طرف سے نیاز میں کچھ نہ کچھ پیش کر رہی تھی۔ ان کے کمپ پر جو بینر لگا ہوا تھا، وہ بتا رہا تھا کہ اُس کمیونسٹ جوڑے نے امام حسین علیہ السلام کے کردار سے کیا سبق حاصل کیا ہے۔ بینر پر لکھا تھا: "اعترفنا بالحسین اباالاحرار" "ہم اعتراف کرتے ہیں کہ حسینؑ حریت پسند انسانوں کے والد ہیں۔" ابتدائی طور پر نکلنے والے جلوس کے آگے یا پیچھے اس طرح کا سادہ جلوس منظم انداز میں نکالا جائے، جس میں ہر طبقے اور ہر مذہب کے لوگوں کو شامل کیا جائے۔ جب اس جلوس نے اپنی افادیت ثابت کی تو دوسرے لوگ بھی اس میں شامل ہوں گے۔
خبر کا کوڈ : 878786
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش