0
Monday 17 Aug 2020 00:22

کیا ہم غدیری ہیں؟؟؟

کیا ہم غدیری ہیں؟؟؟
تحریر: عبدالحسین آزاد
abdulazadjournalist@gmail.com

یہی چند دن قبل کی بات ہے کہ راقم کی لکھی ہوئی تحریر پر قم المقدس میں تشریف فرما ایک عزیز کا صوتی پیغام موصول ہوا، صوتی پیغام سن کر غدیر پر تحریر لکھنے پر مائل ہوا۔ دوست نے حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے خطبہ غدیر کا وہ حصہ سنایا، جس میں آپﷺ نے اس بات کی تاکید فرمائی کہ جو یہاں موجود ہیں، وہ پیغام غدیر کو ان لوگوں تک پہنچا دیں، جو یہاں موجود نہیں، یعنی کہ پیغام غدیر کو ہر مسلمان تک پہنچنا چاہیئے، تاکہ پھر کوئی نہ کہہ سکے کہ وہ غدیر سے آشنا نہیں۔ ویسے تو بہت ہی کم صحابہ تھے، جنہوں نے رسول اکرمﷺ کی حیات طیبہ کے بعد خطبہ غدیر کی گواہی دی۔ خطبہ غدیر اور پیغام غدیر لوگوں تک پہنچانا حکم رسولﷺ ہے۔ غدیر اور خطبہ غدیر ایک عظیم موضوع ہے۔ خطبہ غدیر علم، حکمت، فلسفہ، ہدایت، راہنمائی، حقوق العباد، زندگی گزارنے کے آداب اور تفکر سے مزین ہے۔ خطبہ غدیر جیسا خطبہ روئے زمین پر نہ کوئی دے سکا، نہ آئندہ ایسا خطبہ سننے کو ملے گا، یہ اپنی نوعیت کا پہلا اور آخری خطبہ تھا، جو کہ تاریخ رقم کرگیا۔

خطبہ غدیر کے حوالے سے تاریخی، تحقیقی، فلسفی اور قرآن و احادیث کی تفسیر پر مبنی لاکھوں کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ موضوع غدیر ہی وہ واحد موضوع ہے، جس کے متعلق سب سے زیادہ لکھا جاچکا ہے اور لکھا جا رہا ہے۔ مسلمانوں نے اپنے مفادات کے عین مطابق خطبہ غدیر کا مطلب و مقصد لینا شروع کیا۔ کسی نے کچھ تو کسی نے کچھ۔ جس جس نے جو جو بھی مقصد و محور لیا، وہ اپنی جگہ لیکن خطبہ غدیر پر عمل کرنے والے آج بھی دنیا میں بہت ہی قلیل تعداد میں پائے جاتے ہیں، جو کہ افسوسناک امر ہے۔ خطبہ غدیر کی صحیح معنوں میں تشریح مکتب اہلبیت ؑ کے پیروکاروں اور علمائے کرام نے کی ہے، لیکن عمل کے میدان میں صحیح معنوں میں مکتب اہلبیت کے پیروکار بھی نہیں اترے۔ رسول کرمﷺ جو پیغام پہنچانا چاہتے تھے، جس کے لیے رب العالمین نے رسول کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: "اے رسول جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل ہوچکا ہے، اسے پہنچا دیجیئے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو گویا آپ نے کار رسالت انجام نہ دیا، خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا۔" (سورہ مائد67 )

خطبہ غدیر کی اہمیت کے لیے یہی پہلو کافی ہے کہ اس پر غور کیا جائے، آج خداوند متعال اپنے پیارے حبیب کو نہ طہٰ کہہ کر مخاطب کرتے ہیں اور نہ ہی  یاسین، نہ ہی مزمل، بلکہ بلا تمہید و تکلف مخاطب کرتے ہیں۔ ساتھ ہی یہ بھی ارشاد ہوتا ہے کہ آج کے اس پیغام کو اگر آپ نے نہیں پہنچایا تو گویا رسالت کا حق ادا نہیں کیا۔ اس کا مطلب یہی ہوا کہ جو زحمتیں نبی پاکﷺ نے دین اسلام کے پھیلاو کے لیے اٹھائیں ہیں، دین کے لیے ہجرت کی، کئی جنگیں لڑیں، تبلیغ دین کے لیے ہزاروں مشکلات جھیلیں، اس کے بعد بھی رب الکریم کی طرف سے ارشاد ہوتا ہے کہ اگر آپ نے یہ پیغام نہیں پہنچایا تو گویا رسالت کا حق ادا نہیں کیا۔ یقیناً یہ پیغام بہت ہی اہم پیغام تھا۔ یہی وہ پیغام تھا، جس نے نظام مصطفیٰ، دین مصطفیٰ کو بچانا تھا، آپﷺ نے جو زمانے کی سنگین نزاکتوں کے باوجود جس دین کو پھیلایا تھا، اس کی حفاظت کے لیے یہ پیغام ضروری تھا۔

اگر یہ پیغام عام نہ کر دیا جاتا تو آدم سے لے کر خاتم النبین تک تمام انبیاء و اولیاء و رسولوں کی تبلیغ رائیگاں چلی جاتی۔ آج کا یہ پیغام زمین میں خلفۃ اللہ کے انتخاب کا پیغام تھا۔ یہ پیغام رب کائنات کی طرف سے زمین میں نظام ولایت و امامت کا پیغام تھا۔ یہ پیغام حق کا پیغام تھا، نظام الہیٰ کے معیار کا پیغام تھا۔ لیکن آج ہم زبانی کلامی غدیر کے ماننے والے ہیں، نہ ہمارے اندر وہ صفات ہیں اور نہ ہی ہم غدیر کے صحیح معنوں میں ماننے والے بننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ راقم ایک دن اپنے ایک پروفیسر کے ہمراہ علمی گفتگو میں مصروف تھا اور گفتگو کا رخ غدیر کی طرف موڑ گیا۔ راقم نے پروفیسر موصوف سے سوال کیا کہ غدیر کے ماننے والے اور غیر غدیر کے نہ ماننے والوں میں کیا فرق ہونا چاہیئے۔ پروفیسر صاحب نے بڑے مہذب انداز ایسا جواب دیا، جو آج تک مجھے کسی خطیب، عالم اور ممبر سے سننے کو نہیں ملا۔ پروفیسر موصوف نے فرمایا بیٹا غدیر معیار ہے، ایسا معیار جس کا انتخاب رب کائنات نے کیا۔

پس اگر غور کرو تو غدیر کے ماننے والوں اور نہ ماننے والوں میں فرق واضح ہوگا، غدیر کے دن جو فیصلہ ہوا، جس معیار پر فیصلہ ہوا، وہ الٰہی معیار ہے۔ اس معیار اور میرٹ کی پائمالی کی گئی، سقیفہ کے دن، پس غدیر کے ماننے والے میرٹ کے پاسدار ہونگے۔ کبھی میرٹ کی پائمالی نہیں کریں گے اور جو میرٹ کی پائمالی کرے گا، وہ غدیری نہیں رہے گا بلکہ سقیفائی بنے گا۔ جو کرپشن کرے گا، حقوق العباد و حقوق اللہ کا خیال نہیں رکھے گا، کسی پر ظلم کرے گا، کسی کا حق چھینے گا تو گویا اس نے خود کو غدیر سے علیحدہ کر لیا۔ البتہ زبانی کلامی خود کو غدیری کہہ سکتا ہے، لیکن عملََا وہی غدیری ہوگا جو میرٹ کا پابند ہوگا۔ حضرت علی ؑ شہید کیے گئے شدت عدل کی وجہ سے۔ پس جو غدیر کا ماننے والا ہوگا، وہ عدل و انصاف پر پختہ یقین رکھتا ہوگا۔

بدقسمتی سے ہم غدیر پر عمل کی بجائے دلائل کے پیچھے پڑھ گئے ہیں۔ حالانکہ غدیر کے دلائل سوچنے، سمجھنے والوں کے لیے قرآن اور احادیث میں واضح ہیں۔ ہمیں بجائے غدیر کے متعلق دلائل دینے کے پہلے خود کو غدیر کے لیے آمادہ کریں۔ ایسا نہ ہو کہ ہمارے دعوے کہیں کے نہ رہیں۔ امام رضا علیہ السلام سے ملنے کچھ لوگ آئے اور کہا کہ مولا ہم آپ کے شیعہ ہیں، امام نے سخت لہجے میں انہیں منع کیا اور فرمایا نہیں آپ ہمارے شیعہ نہیں ہیں، بلکہ آپ ہمارے محب ہیں۔ اگر کل کو ہم امام عصر کے سامنے بھی کہیں گے کہ ہم غدیر کے ماننے والے ہیں تو کہیں ایسا نہ ہو کہ امام کا یہی جواب ہوگا، کیونکہ ہمارے عمل میں غدیر نہیں ہے، ہمارے اعمال سقیفہ والے ہیں اور دعوے غدیر کے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اس مملکت خداداد میں نظام امامت اور ولایت کی راہ ہموار نہیں کرسکے۔

نہایت ہی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ نظام امامت کے نفاذ کے حوالے سے علمائے کرام کی اکثریت کا نظریہ واضح نہیں، معلوم نہیں علمائے کرام نظریہ ولایت کو کیا سمجھ بیٹھے ہیں۔ علمائے کرام نظام امامت اور نظام ولایت کو ایسا نظام سمجھ بیٹھے ہیں، جس کا تعلق صرف اور صرف مکتب اہلبیت ؑ سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علمائے کرام اس نظریہ کو لے کر نظام امامت کے نفاذ کے لیے عملی کوششیں کر ہی نہیں پا رہے ہیں۔ دو سال قبل راقم کی طویل ملاقات پاکستان کے ایک جید عالم سے ہوئی۔ ملاقات میں ملت جعفریہ پاکستان کے سیاسی، عملی پالیسیز، ملت کو درپیش مشکلات و مسائل، ٹارگٹ کلنگ، مستقبل کے لائحہ عمل اور نظام امامت و ولایت کے نفاذ کے متعلق گفتگو ہوئی۔ گفتگو جب پاکستان میں نفاذ نظام امامت پر پہنچی تو راقم نے یہی سوال پوچھا کہ کیا پاکستان میں نظام امامت کا نفاذ ممکن ہے؟

چند علمائے کرام اس سرزمین پاک میں نظام نفاذ امامت کی کوششیں کر رہے ہیں۔؟ آپ کا نقطہ نظر کیا ہے اس حوالے سے؟ تو جناب مولانا صاحب یوں گویا ہوئے، پاکستان میں نفاذ نظام امامت ممکن ہی نہیں اور دلائل بھی دیئے۔ اب ایک لمحے کے لیے ذرا غور کیجیے کہ ہمارے علمائے کرام کا یہ نظریہ ہو کہ نفاذ نظام امامت سرزمین پاکستان میں ممکن ہی نہیں تو پھر ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ہم غدیری ہیں، غدیر کے دن تو یہی اعلان کیا رسول اکرمﷺ نے حکم خدا سے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا، آج کے بعد آپ کا ولی اور زمین پر اللہ کا خلیفہ اور میرا جانشین علی ؑہے اور امامت کے بارہ ستاروں کا تعارف بھی آپﷺ نے کرایا اور امام صاحب العصر والزمان کا بھی تعارف کیا اور فرمایا آپ زمین پر نظام الٰہی کو نافذ کریں گے۔ آپﷺ کے خطبہ کے اس حصے پر غور کیا جائے تو یہ بات سمجھ آتی ہے کہ ہمیں ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا نہیں رہنا بلکہ اس الٰہی نظام کے نفاذ کے لیے زمینہ سازی کرنا ہے۔

ہمارے علماء کرام نے نظام امامت کو صرف مکتب اہلبیت تک محدود رکھا ہے اور وہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ جہاں مکتب اہلبیت ؑ کے ماننے والے کم تعداد میں ہوں، وہاں یہ نظام نافذ نہیں ہوسکتا۔ بقول ان علمائے کرام کے پاکستان میں شیعہ آبادی اہل تسنن کے مقابلے میں کم ہے۔ جہاں شیعہ آبادی کم ہے۔، وہاں یہ نظام نافذ نہیں ہوسکتا تو پھر ہم منتظرین کا دعویٰ کیوں کرتے ہیں، کیوں لبیک یامہدی کی صدائیں بلند کرتے ہیں، کیوں العجل کی صدائیں بلند کرتے ہیں۔ بقول ان علمائے کرام کے جب پاکستان میں ملت جعفریہ کی آبادی بہ نسبت اہل سنت کم ہے تو یہاں نظام امامت کا نفاذ ممکن نہیں ہے تو پھر ہم اس عقیدے کی نفی کرتے ہیں کہ مہدی قائم آل محمد ؑ کی پوری دنیا میں حکومت ہوگی۔ مہدی ؑ کی حکومت ہی تو نظام ولایت و امامت ہے۔ اگر آبادی کے تناسب سے دیکھا جائے تو شیعہ پوری دنیا میں کم تعداد میں پائے جاتے ہیں تو نعوذ بااللہ پھر مہدی ؑ کی حکومت پوری دنیا میں نہیں ہوگی، ایسا ہرگز نہیں ہے۔

نفاذ نظام امامت کا تعلق آبادی سے نہیں ہے بلکہ آمادگی سے ہے۔ نظام امامت کے نفاذ کو ممکن نہ سمجھنے والوں کو چاہیئے کہ وہ پہلے نظام امامت کا بغور مطالعہ کریں۔ ہمیں یہ سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ نظام امامت صرف کسی ایک خاص مکتب فکر کے لیے مخصوص نہیں ہے۔ نظام امامت دراصل الٰہی نظام ہے۔ نظام امامت میں روئے زمین پر حق حکمرانی صرف اللہ کے منتخب کردہ برگزیدہ بندوں ہی کا ہے، یعنی ایسا نظام جس میں نمائندہ بھی الٰہی ہو، نظام بھی الٰہی ہو اور قوانین بھی الٰہی ہوں۔ جہاں نہ اپنی مرضی سے قوانین بنتے ہیں اور نہ ہی اپنی مرضی سے حکومت کسی کو سونپی جاسکتی ہے۔ نظام امامت میں سب کو یکساں حقوق حاصل ہیں۔ یہ جمہوریت یا آمریت نہیں کہ یہاں کسی کے لیے زیادہ حقوق تو کسی کے کم ہونگے۔

پس اگر ہم نے پاکستان سمیت دنیا بھر کے ممالک میں نظام امامت کو نافذ کرنا ہے تو ہمیں سب سے پہلے اپنے پانچ سے چھ فٹ کے بدن پر نظام امامت کو نافذ کرنا ہوگا، ہمیں عمل کے شیعہ بننا ہوگا، ہمیں عملاََ غدیری بننا ہوگا، بصورت دیگر ہمارے اور ان کے درمیان کوئی فرق نہیں رہے گا، جنہوں نے ولایت علی ابن ابو طالب ؑکا اعلان سنا اور عمل نہیں کیا، گواہی نہیں دی۔ نظام امامت الہیٰ و آفاقی نظام ہے۔ اس نظام کے نفاذ کے لیے کوششیں ہمیں آج سے جاری رکھنا ہوگا، یہیں سے زمینہ سازی ہوگی اور راہ ظہور امام زمانہ ہموار ہوگی، ایسا نہیں ہے کہ امام کا ظہور ہوگا، ہم آپ کے لشکر میں شامل ہونگے تو نفاذ امامت کے لیے کوشاں ہونگے، امام اس وقت حکم خدا سے ظہور فرمائیں گے، جب ہم یعنی امام کا لشکر آمادہ ہوگا، امام کے لیے زمینہ سازی ہوگی اور ہم زبانی کلامی نہیں بلکہ عمل سے العجل کی صدائیں بلند کریں۔

آخر میں یہی لکھوں گا کہ خدا مجھ سمیت تمام مومنین، مومنات اور خاص کر علمائے کرام کو توفیق عنایت فرمائے کہ ہم نظام امامت کو سمجھیں اور اس نظام کی ہمیں معرفت عطا فرمائے، تاکہ ہم دل و جان سے اس الٰہی نظام کے نفاذ کے لیے کوششیں کریں اور خود کو آمادہ کریں اور راہ ظہور امام زمانہ کے لیے زمینہ سازی کریں۔ دنیا جن کے لیے خلق کی گئی ہے، وہی اس دنیا میں رب کے نمائندے ہیں، خلفۃ اللہ ہیں، پس اس پاک و پاکیزہ نظام کے نفاذ کے لیے ہمیں پوری دنیا میں کوششیں تیز کرنا ہونگی۔
دنیا کو ہے اس مہدی برحق کی ضرورت 
ہے جس کی نگاہ ولولہ عالم افکار
خبر کا کوڈ : 880086
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش