0
Saturday 19 Sep 2020 11:02

پاکستان میں سر اُٹھاتا نیا فتنہ اور ہماری قومی ذمہ داریاں

پاکستان میں سر اُٹھاتا نیا فتنہ اور ہماری قومی ذمہ داریاں
تحریر: تصور حسین شہزاد

پاکستان جب بھی ترقی کی جانب سفر کرنا شروع کرتا ہے، بعض قوتیں جو دوست کے روپ میں بھی ہیں اور دشمن کی شکل میں بھی، راستے میں رکاوٹوں کے پہاڑ کھڑے کرنا شروع ہو جاتی ہیں۔ امریکہ جیسا دوست ہو یا بھارت جیسا دشمن، یہی سمجھتا ہے کہ پاکستان خوشحال ہوگیا، یہ مسائل سے نکل آیا تو اس کا رُخ دوسری  دنیا کی طرف ہو جائے گا۔ بھارت اور  مغربی دنیا یہ سمجھتی ہے کہ پاکستان چونکہ کلمہ طیبہ کی بنیاد پر معرضِ وجود میں آیا ہے اور اسلامیان یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ کلمہ توحید کا پرچم پوری دنیا پر لہرائے گا، اسی خوف کے تابع وہ پاکستان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ڈال دیتے ہیں کہ پاکستان سے ہی کوئی لشکر پرچم توحید لے کر دنیا فتح کرنے نہ نکل پڑے، اسی لشکر کا راستہ روکنے کیلئے مسلسل پاکستان میں الجھاو میں رکھا جاتا ہے۔

بدقسمتی سے اس میں ایسے ممالک بھی، جنہیں ہم اپنا دوست سمجھتے ہیں، پاکستان کے دشمنوں کے معاون و مددگار دکھائی دیتے ہیں۔ بھارت اور یو اے ای کا اس حوالے سے مضبوط گٹھ جوڑ ہے۔ بھارت نے پہلے ہمارے خلاف افغانستان کا کندھا استعمال کیا اور ساتھ ہی اُسے یو اے ای کی جانب سے بھی مدد مل گئی، یوں ہماری مغربی سرحد بھی غیر محفوظ ہوگئی۔ بھارت نے یو اے ای کو یہ باور کروایا ہے کہ اگر گوادر پورٹ فنکشنل ہوگئی تو دبئی اور ممبئی کا کھاتہ کلوز ہو جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں حالیہ دہشتگردی و فرقہ واریت کے پیچھے کچھ آگاہ لوگ یو اے ای کا نام ڈھکے چھپے انداز میں لے رہے ہیں۔ سی پیک منصوبہ پاکستان کی ترقی کیلئے ایک اہم سنگ میل کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، جب سے اس منصوبے کا اعلان ہوا ہے، دشمن نے پاکستان کیخلاف کمر کس لی ہے۔ پاکستان میں فرقہ واریت کا جن ایک بار پھر بوتل سے نکال دیا گیا ہے۔

پاکستان میں سر اُٹھاتی اس فرقہ واریت کیساتھ ہی پاکستان کو یہ پیشکش بھی کر دی گئی ہے کہ پاکستان کو فرقہ واریت کی آگ سے بچا سکتے ہیں مگر ایک شرط پر، شرط یہ ہے کہ پاکستان چین کیساتھ اپنے تعلقات ختم کرکے سی پیک کی بساط لپیٹ دے۔ پاکستان کو پہلے دن سے اس حساسیت کا علم تھا، یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی حکومت نے سی پیک کی ذمہ داری پاک فوج کے حوالے کی۔ سی پیک منصوبے کے نگران عاصم سلیم باجوہ ہیں، لیکن دشمن نے ان کیخلاف بھی ایک مہم شروع کی اور انہیں داغدار کرکے عوام کے سامنے پیش کیا گیا۔ ساتھ ہی مطالبہ کیا گیا کہ وہ ایک کرپٹ افسر ہیں، اس لئے انہیں تمام عہدوں سے ہٹایا جائے۔ عاصم سلیم باجوہ نے وزیراعظم کے مشیر برائے اطلاعات کے عہدے سے استعفیٰ دیا لیکن سی پیک کے حوالے سے اپنی خدمات جاری رکھنے کا عندیہ دیا، جس پر دشمن کے ارادوں پر اُوس پڑ گئی۔

اب دشمن کی کوشش ہے کہ پاکستان میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر فسادات شروع کروا دیئے جائیں۔ اس حوالے سے محرم سے قبل فرقہ واریت پھیلانے کیلئے کچھ شرپسند عناصر کی خدمات حاصل کی گئی۔ علماء نے اس حوالے سے ذمہ دارانہ کردار ادا کیا اور محرم سے قبل ہی شرپسندوں سے اعلان لاتعلقی کیا، جس سے واضح ہوتا ہے کہ پاکستان کے شیعہ اور سنی باہمی تصادم نہیں چاہتے، مگر ایک گروہ جس نے ماضی قریب میں اعتراف بھی کیا کہ انہیں استعمال کیا گیا، اسے اب دوبارہ استعمال کیا جا رہا ہے، جبکہ پاکستان دشمن قوتوں نے طالبان کے تمام دھڑوں کو بھی متحد کر دیا ہے، جو اب پاکستان میں دہشتگردی کی وارداتیں کریں گے۔ اس وقت تکفیری گروہ ریلیاں نکال رہا ہے، مخالف فرقے کیخلاف کفر کے فتوے دے رہا ہے، جبکہ اسی کشیدہ صورتحال میں طالبان کی انٹری ہوگی اور دہشتگردی کا سلسلہ ایک بار پھر شروع ہو جائے گا۔

مبصرین کہتے ہیں کہ ماضی میں سکیورٹی اداروں نے غفلت کا مظاہرہ کیا، جنرل ضیاءالحق اور جنرل پرویز مشرف کے دور میں دہشتگردی کے مراکز و محور کا علم ہونے کے باوجود ان کیخلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی، مگر قوم اس بار پُراُمید ہے کہ سکیورٹی ادارے چند شرپسندوں کو ملک کو دہشتگردی کی آگ میں نہیں جھونکنے دیں گے۔ اس حوالے سے حکومت اور فوج کو ایک پیج پر آنا ہوگا، ملک میں قیام امن کیلئے بیوورکریسی اور دیگر اداروں میں موجود شرپسندوں کے سہولت کاروں کیخلاف بھی کارروائی کرنا ہوگی۔ ماضی میں پاک فوج اور قوم نے دہشتگردی کیخلاف نام نہاد جنگ میں بڑی قربانیاں دی ہیں، جن کا کوئی صلہ بھی نہیں دیا گیا اور اب پھر وہ دشمنِ اعظم امریکہ ایک بار پھر پاکستان کو آگ و خون میں جھونکنے کی کوشش کر رہا ہے۔ پاکستان شیعہ اور سنی دونوں کی مشترکہ میراث ہے، دونوں کو اس کی حفاظت بھی متحد ہو کر کرنا ہوگی اور تکفیریوں کو ماضی کی طرح اب بھی نکال باہر کرنا ہوگا۔

شیعہ سنی علمائے کرام کی کوششوں سے ماضی میں یہ تکفیری تنہا ہوگئے تھے، لیکن اب دوبارہ انہیں بیرونی سپورٹ ملی ہے، جس سے یہ ایک بار پھر کھڑے ہوگئے ہیں۔ ایک دو شرپسندوں کے جرم کی سزا پورے مکتب کو نہیں دی جا سکتی بلکہ اس کیلئے ذمہ دار علماء کو دوبار اور فوری میدان میں آنا ہوگا۔ اسلام آباد میں شیعہ علماء کا اجتماع ایک احسن اقدام ہے، لیکن اب ایک ایسے اجتماع کی بھی ضرورت ہے، جس میں تمام شیعہ سنی علمائے کرام شریک ہوں اور پیغام پاکستان بیانیے کے حوالے سے مشترکہ موقف دے کر تکفیریوں کو ایک بار پھر اپنی صفوں سے نکال باہر کریں۔ پاکستان کے اہل تشیع کو نصیریت اور اہلسنت کو ناصبیت سے خطرہ ہے، یہ دونوں ناسور (نصیریت اور ناصبیت) اسلام کیلئے خطرہ ہیں، یہ دونوں پاکستان کیلئے خطرہ ہیں، اس لئے اس کا سدباب پاکستان کی سلامتی کیلئے انتہائی ضروری ہے۔ اس بار بھی اگر غفلت کا مظاہرہ کیا گیا تو ماضی کی نسبت اس بار بہت زیادہ نقصان ہوسکتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 887106
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش