0
Sunday 7 Aug 2011 17:37

کوئٹہ کب تک جلتا رہے گا؟

کوئٹہ کب تک جلتا رہے گا؟
تحریر:تصور حسین شہزاد
بلوچستان میں امن و استحکام، ترقی و خوشحالی کے تمام حکومتی دعووں کے برعکس بلوچستان میں زیتون کی شاخ سلگ رہی ہے۔ بلوچستان کے گلی کوچوں میں گولیوں کی گونج، بم دھماکوں کے ساتھ موت رقصاں ہے اور حکمران آج بھی "سب اچھا ہے" کا روایتی راگ الاپ رہے ہیں۔ صرف دو روز کے واقعات میں ایک درجن سے زائد انسانی جانیں لقمہ اجل بن گئیں۔ ان واقعات نے حکمرانوں کے تمام تر دعووں کی قلعی کھول کر رکھ دی۔
کراچی کی طرح بلوچستان بھی اس وقت پاکستان دشمن قوتوں کے نرغے میں ہے۔ آئے روز فائرنگ، بم دھماکے، دہشت گردی اور ایسے ہی واقعات سے دل دہل جاتے ہیں۔ لوگ مر رہے ہیں، لاشیں گر رہی ہیں اور حکمران ہیں کہ’’سب اچھا ہے‘‘ کا راگ الاپ رہے ہیں۔ وفاقی حکومت تو ایسے چپ ہے جیسے بلوچستان انڈیا کاحصہ ہو، یا کوئی مقبوضہ علاقہ، جب کہ امریکی سفیر کی سرگرمیاں اس حوالے سے ’’حدود و قیود‘‘ سے بڑھ کر ہیں۔ کسی بھی ملک کا سفیر اس طرح کسی شہر میں جا کر عوامی رہنماؤں سے ملاقاتیں نہیں کرتا اور نہ ہی تنظیموں سے روابط رکھتا ہے۔ بلوچستان میں امریکی مداخلت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، اب کیمرون منٹر نے توحد ہی کر دی ہے۔ بلوچستان کا دارالحکومت کوئٹہ اس وقت زیادہ نشانہ پر ہے۔ 
29 جولائی کو کوئٹہ میں نامعلوم مسلح افراد نے ایران جانے والے سات زائرین پر اندھا دھند فائرنگ کر دی اور فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ سریاب روڈ پر واقع سروے آف پاکستان کے دفتر کے سامنے ایک بس اڈے پر جمعہ کی سہ پہر ایران جانے کے لیے مسافروں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی کہ اچانک دو مسلح افراد نے سٹینڈ میں داخل ہو کر اندھادھند فائرنگ شروع کر دی، جس کے نتیجے میں تین مسافر موقع پر جاں بحق ہوگئے اور پانچ زخمی ہو گئے، جنہیں فوری طور پر بولان میڈیکل کمپلیکس منتقل کر دیا گیا، جہاں چار افراد زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے۔ ان میں زیادہ تعداد پنجاب سے تعلق رکھنے والوں کی تھی، جن میں تین منڈی بہاؤالدین اور ایک کاتعلق فیصل آباد سے تھا۔ اس واقعہ میں زخمی ہونے والے ایک شخص محمد سلیم کا کہنا ہے کہ حملہ آوروں نے آتے ہی فائرنگ شروع کر دی، اس کے بعد انہیں نہیں معلوم کہ فائرنگ کے بعد مسلح افراد کہاں اور کس طرف فرار ہوئے۔ محمد سلیم کے مطابق یہاں سے روزانہ ایک بس تفتان روانہ ہوتی ہے اور آج بھی مسافروں کی بڑی تعداد ایران جانے کے لیے یہاں انتظار کر رہی تھی۔
پولیس کے مطابق واقعہ میں جاں بحق ہونے والوں کی اکثریت ان لوگوں کی ہے جو زیارتوں کے لیے ایران جا رہے تھے۔ اس کارروائی کے بعد حملہ آور دو موٹر سائیکلوں پر فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔
اس سے قبل بھی ایران جانے والے زائرین کی بسوں پر اس طرح کے حملوں میں درجنوں شیعہ مسلمان جاں بحق ہو چکے ہیں، جن میں سے اکثر واقعات کی ذمہ داری کالعدم تنظیم لشکرجھنگوی نے قبول کی ہے۔ سریاب روڈ پر تفتان جانے والے والے زائرین پر حملے کی ذمہ داری بھی کالعدم تنظیم لشکر جھنگوی نے قبول کی اور کہا کہ یہ مولوی عبدالکریم مینگل کے قتل کا بدلہ ہے، جنہیں ایک روز قبل کوئٹہ میں قتل کیا گیا تھا۔
29 جولائی کو وزیراعلٰی بلوچستان نواب محمد اسلم رئیسانی کے حلقہ انتخاب اور انکے آبائی گاوں مستونگ کے فٹ بال سٹیڈیم میں بم دھماکہ اور فائرنگ کا واقعہ رونما ہوا۔ نوروز خان فٹ بال سٹیڈیم میں سراوان فٹبال ٹورنامنٹ کے سلسلے میں میچ کھیلا جا رہا تھا۔ اس ٹورنامنٹ کے مہمان خصوصی وزیراعلٰی بلوچستان نواب محمد اسلم رئیسانی کے چھوٹے بھائی اور بلوچستان متحدہ محاذ کے سربراہ نوابزادہ سراج رئیسانی تھے، جو میچ کے اختتام پر کھلاڑیوں میں انعامات تقسیم کر کے واپس جا رہے تھے تو اچانک زوردار دھماکہ ہوا، جس کے بعد فائرنگ کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ نوابزادہ سراج رئیسانی کے محافظوں، اے ٹی ایف اور فرنٹیئر کور کے اہلکاروں نے فائرنگ شروع کر دی۔ فائرنگ کی زد میں آ کر وزیراعلٰی بلوچستان نواب رئیسانی اور پیپلز پارٹی بلوچستان کے سابق صوبائی صدر سینیٹر نوابزادہ حاجی لشکری رئیسانی کے بھتیجے اور نوابزادہ سراج رئیسانی کے جواں سال صاحبزادے میرحقمل رئیسانی، ایف سی کے چار، اے ٹی ایف کے آٹھ اہلکاروں سمیت 18 افراد زخمی ہو گئے جنہیں فوری طور پر مستونگ ہسپتال منتقل کیا گیا۔ ابتدائی طبی امداد کے بعد کوئٹہ کے سی ایم ایچ ہسپتال لایا گیا لیکن میر حقمل رئیسانی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے۔ جنہیں دوسرے روز انکے آبائی علاقے کانک میں سپردخاک کر دیا گیا۔ اس واقعہ کی ذمہ داری آخری اطلاعات تک کسی نے قبول نہیں کی۔
 30 جولائی بروز ہفتہ کو کوئٹہ کے علاقے اسپینی روڈ پر دو موٹر سائیکلوں پر سوار چار نامعلوم مسلح افراد نے ایک سوزوکی وین پر اندھا دھند فائرنگ کر دی، جس کے نتیجے میں خاتون سمیت گیارہ افراد جاں بحق اور تین زخمی ہو گئے۔ جاں بحق اور زخمی ہونے والے افراد کو فوری طور پر بولان میڈیکل ہسپتال منتقل کیا گیا۔ جاں بحق اور زخمی ہونیوالے تمام افراد کا تعلق شیعہ مکتب فکر سے ہے، جو ہزارہ ٹاون سے ایک وین میں مری آباد جا رہے تھے۔ پولیس کے مطابق یہ فرقہ وارانہ دہشت گردی اور نشانہ وار قتل کا واقعہ ہے۔ واقعہ کے خلاف ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی نے کوئٹہ میں فرقہ وارانہ دہشت گردی کے واقعات کے خلاف شٹرڈاؤن ہڑتال کی اور کوئٹہ شہر کے چھ اراکین صوبائی اور دو قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرتے ہوئے پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد کے سامنے دھرنا دینے کی دھمکی دی۔ سیکرٹری جنرل احمد کوہزاد نے کہا کہ اسپینی روڈ پر پیش آنے والے سانحہ میں گیارہ افراد شہید اور کئی بے گناہ زخمی ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خطے میں فرقہ واریت، انتہاپسندی اور مسلح دہشت گردی کے واقعات کے ذریعے بے گناہ نہتے اور معصوم افراد کا قتل عام سیاسی کارکنوں کی گرفتاریاں، ٹارگٹ کلنگ، اغوا برائے تاوان، قومی شاہراہ پر لوٹ مار، ڈکیتی کی وارداتوں کے ذریعے خوف و ہراس اور انتشار پھیلایا جا رہا ہے، جس نے کوئٹہ سمیت صوبہ بھر میں بسنے والے عوام کو بری طرح متاثر کرتے ہوئے ذہنی مریض بنا دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک منظم سازش کے تحت ریاستی اداروں کی سرپرستی میں مسلح انتہاپسند دہشت گردوں کو تربیت دی جاتی ہے اور ان کی سرپرستی کی جا رہی ہے۔ شہر کو ایک سازش کے تحت مذہبی منافرت پھیلا کر تباہی و خانہ جنگی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ فرقہ واریت انتہا پسندی، لسانی و قومی تعصبات کی بنیاد پر خانہ جنگی کے حالات پیدا کیے جا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پرہجوم علاقوں میں انتظامیہ، پولیس اور ایف سی کی موجودگی میں خونی کھیل کھیل کر دہشت گردی کرنے والے عناصر آرام سے فرار ہو جاتے ہیں۔ ہزارہ قوم پرامن جدوجہد کے ذریعے حکومت اور انتظامیہ پر دباؤ ڈال کر ان کی ذمہ داریاں یاد دلاتی رہی ہے، اس کے باوجود حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے عدم دلچسپی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرقہ وارانہ سرگرمیوں کی سرپرستی کی جا رہی ہے جس کی واضح مثال ایف سی اور پولیس چوکیوں کے زیر سایہ رونما ہونے والے واقعات ہیں۔ انہوں نے کہا کہ فرقہ واریت اور دہشتگردی کے تناظر میں صوبائی حکومت اور وزیر اعلٰی کا اخلاقی فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے عہدوں سے مستعفی ہو جائیں، لیکن ایسا اقدام دیانتدار عوامی نمائندے کر سکتے ہیں، کرپٹ اور رشوت خور صوبائی حکومت سے توقع نہیں۔ انہوں نے کہا کہ کوئٹہ شہر کے تاریخی بھائی چارے اور رواداری کو بحال کرنے کے لیے تمام سیاسی و جمہوری قوتوں کو ہزارہ قوم کے شانہ بشانہ جدوجہد کرنا ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ سعودی عرب اور ایران کی جانب سے پاکستان میں فرقہ واریت کے حوالے سے کشت و خون ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2001ء سے لے کر اب تک مذہبی دہشت گردی کے واقعات میں ہزارہ برادری کے 350 افراد شہید اور 900 کے قریب زخمی ہوئے ہیں۔
بلوچ قوم پرست جماعتوں، جماعت اسلامی، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی سمیت مختلف سیاسی جماعتوں نے دہشت گردی کے واقعات کو حکومت کی ناکامی و نااہلی قرار دیا ہے، لیکن انسپکٹر جنرل پولیس بلوچستان راؤ امین ہاشم کا کہنا ہے کہ دہشت گردی سے نمٹنا صرف پولیس کے بس کی بات نہیں۔ امن دشمن قوتوں کا محاسبہ کرنے کیلئے عوام کو صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کا ساتھ دینا ہو گا۔ دہشت گردوں کی پناہ گاہیں ختم کرنے اور بلوچستان کو امن کا گہوارہ بنانے کیلئے تمام وسائل بروئے کار لائے جائیں گے۔ سریاب روڈ واقعہ کے بعد اب تک 250 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے، جن سے تحقیقات کی جاری ہیں۔ فرقہ وارانہ واقعات میں غیرملکی ہاتھ ملوث ہونے کے بارے میں سوال کے جواب میں آئی جی بلوچستان نے کہا کہ اس حوالے سے کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہو گا۔ تاہم دہشت گردوں کے خلاف بغیر کسی دباؤ کے کارروائی کی جائے گی اور تمام وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے انکے نیٹ ورک کو توڑا جائے گا۔ تاہم ہم عوام سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں کیونکہ شرپسند عناصر بلوچستان میں بسنے والی اقوام کو آپس میں دست و گریبان کر کے یہاں کے امن کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں۔
ادھر بلوچستان کے علاقے اوتھل کے قریب دو لاپتہ افراد کی مسخ شدہ لاشیں ملی ہیں۔ لیاری کے تحصیلدار الٰہی بخش کا کہنا تھا کہ مقتولین کی جیبوں سے ملنے والی پرچیوں کے مطابق انکے نام شربت ولد احمد خان مری اور زمان ولد بنگل مری سکنہ وندر تحریر ہے، لیکن لواحقین میں سے کوئی بھی شناخت کیلئے نہیں پہنچا۔ اس لیے وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ یہ کون ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ لاشیں پرانی اور مسخ شدہ ہیں۔ مقتولین کو تشدد کے بعد فائرنگ کر کے ہلاک کیا گیا۔ مقامی ذرائع کے مطابق زمان خان مری ولد میرو خان شربت خان ولد احمد خان مری وندر کے رہائشی ہیں اور دونوں چچا زاد بھائی ہیں، جنہیں ان کے خاندان کے دیگر انیس افراد کے ہمراہ 30 اپریل کو اغوا کرنے کے بعد لاپتہ کر دیا گیا تھا رواں سال دو جون کو شربت مری کے والد احمد خان مری کو دوران حراست قتل کر کے ان کی گولیوں سے چھلنی لاش اوتھل میں پھینک دی گئی۔ ان کے ساتھ لاپتہ کیے گئے ایک اور رشتہ دار وزیر خان کی لاش وندر میں پھینکی گئی۔
اس سے قبل چودہ فروری کو زمان خان کے بھائی عرضی خان کی لاش اوتھل جبکہ گزشتہ سال 26دسمبر کو شربت کے بھائی صحبت خان مری کی گولیوں سے چھلنی مسخ شدہ لاش ڈیگاری کراس کے مقام پر پھینک دی گئی تھی۔ وندر سے تعلق رکھنے والے اس ایک خاندان کے چھ افراد کی گولیوں سے چھلنی مسخ شدہ لاشیں پھینکی جا چکی ہیں، جبکہ ایک درجن سے زائد افراد آج بھی لاپتہ ہیں، جن کی ماورائے آئین و قانون گمشدگی کے حوالے سے سپریم کورٹ اور بلوچستان ہائیکورٹ میں رٹ پٹیشن بھی دائر کی گئی ہے، جس پر تاحال کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔
ان واقعات کو دیکھا جائے تو ایسے لگتا ہے کہ کچھ ایسی قوتیں بلوچستان میں سرگرم ہیں جو امریکہ کی آلہ کار ہیں اور اس کے ایجنڈے کی تکمیل میں مصروف ہیں۔ کوئٹہ میں جہاں لشکر جھنگوی کا نیٹ ورک موجود ہے، وہاں جنداللہ بھی موجود ہے اس کے علاوہ سی آئی اے اور را بھی اپنے کام کر رہی ہیں۔ امریکی سی آئی اے اور بھارتی خفیہ ایجنسی را مقامی مذہبی شدت پسندتنظیموں کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتی ہیں۔ سی آئی اے کا طریقہ واردات یہ ہے کہ یہ مذہبی لبادے میں ہی ان شدت پسند گروہوں سے رابطے کرتی ہے اور انہیں استعمال کرتی ہے۔ امریکہ نے کوئٹہ میں اپنا سفارت خانہ قائم کرنے کی درخواست حکومت پاکستان کو دی ہے، جسے حکومت نے مسترد کر دیا ہے۔ ملکی سلامتی کے اداروں نے اس بات کی کلیئرنس نہیں دی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ان اداروں نے وزارت داخلہ کو رپورٹ دی ہے کہ اگر کوئٹہ میں امریکی قونصلیٹ قائم ہو گیا تو انہیں دہشت گردی کے لئے جنداللہ سے رابطے میں آسانی ہو جائے گی اور جہاں کوئٹہ میں شیعہ آبادی کو نشانہ بنایا جائے گا وہاں جنداللہ کو ایران کے خلاف بھی استعمال کیا جائے گا، جس سے پاک ایران تعلقات خراب ہونے کا خدشہ ہے۔
یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے کہاں ہیں، بلوچستان میں اور کوئٹہ میں بے گناہ شہریوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے اور دہشت گرد فرار ہونے میں بھی کامیاب ہو جاتے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے اور پولیس کس کام کی تنخواہ لے رہی ہے؟ کوئٹہ میں ہزارہ برادری کو شیعہ ہونے کی سزا دی جا رہی ہے۔ ایک ہی مکتب فکر دہشت گردوں کا نشانہ ہے اور ہر بار ذمہ داری لشکر جھنگوی قبول کر کے انتظامی اداروں کے منہ پر طمانچے رسید کرتی ہے۔ آخر کوئٹہ کب تک جلتا رہے گا؟ آخر انتظامیہ کب تک اسی بے حسی کا مظاہرہ کرتی رہے؟ جو قومیں اور ادارے اپنی نااہلی کی بدولت معاملات سنبھالنے میں ناکام ہو جائیں ان سے قدرت بھی ناراض ہو جایا کرتی ہے جو قوم اپنی حالت خود نہ بدلے، خدا اس قوم سے توجہ ہٹا کر اسے حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 89929
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش