0
Sunday 27 Dec 2020 14:56

غير الله سے مدد مانگنا(6)

غير الله سے مدد مانگنا(6)
تحریر: انجنئیر سید حسین موسوی

ب: توحید عبادت
دعاء اور عبادت:
سلفی حضرات کا عقیدہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالی کے علاوہ کسی کو پکارنا اصل میں دعاء ہے جبکہ دعاء عبادت ہے:
"الدعا هو العبادہ" دعا عبادت ہے۔ عبادت کے لائق صرف اللہ تعالٰی ہی ہے اسلیے کسی اور سے دعا کرنا شرک ہے۔ مثال کے طور پر قرآن مجید میں ہے کہ:
1. بندہ اپنے رب کے آگے کہتا ہے:
"إِيَّاكَ نَعْبُدُ وإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ" (الفاتحة/5)
ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔
2. اللہ تبارک و تعالیٰ حکم فرماتا ہے:
"فَلَا تَدْعُ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ فَتَكُونَ مِنَ الْمُعَذَّبِينَ" (الشعراء/213)
اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو نہ پکارو، ورنہ سزا پانے والوں میں سے ہو جاؤ گے۔
3. دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے:
"وَ أَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَدًا" (الجن/18)
حقیقت یہ ہے کہ مساجد اللہ کی ملکیت ہیں اللہ کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو۔
اس مفہوم کی اور بھی کئی آیات ہیں۔

وضاحت:
پکارنے کی دو اقسام ہیں:
الف: کسی کو خدا یا اِ لٰه سمجھ کر پکارنا جیسے کہا گیا "فَلَا تَدْعُ مَعَ اللّهِ إِلَهًا آخَرَ"۔ اللہ کے ساتھ کسی اور الٰہ کو نہ پکارو۔
ب: کسی کو اللہ کی مخلوق سمجھ کر پکارنا۔
جو چیز شرک ہے وہ اللہ تعالی کے علاوہ کسی کو خدا سمجھنا ہے۔ پھر جب خدا سمجھ کر پکارا جائیگا اور مدد مانگی جائے گی تو یہ اس کی عبادت ہوگی۔ جبکہ مخلوق کو اللہ تعالی کے فیض کا وسیلہ سمجھ کر پکارنا عبادت نہیں ہے۔ خود سلفی مذہب کے بانی ابن تیمیہ نے بھی دعاء کو ان ہی دو اقسام میں تقسیم کیا ہے کہتا ہے: لَفْظُ "الدُّعَاءِ وَالدَّعْوَةِ فِي الْقُرْآنِ يَتَنَاوَلُ مَعْنَيَيْنِ"۔ "دُعَاءُ الْعِبَادَةِ وَدُعَاءُ الْمَسْأَلَةِ۔" قرآن مجید میں لفط الدعاء اور الدعوه دو معنون میں آئے ہیں ایک دعاء عبادت ہے اور دوسری دعاء حاجت ہے۔ (مجموع فتاویٰ: ج: 10: ص:273) لیکن بعد میں دونوں کو لازم و ملزوم قرار دیکر دونوں کو اللہ تبارک و تعالیٰ کے لیے مخصوص کر دیتا ہے۔ جبکہ مخلوق کو مخلوق سمجھ کر پکارنے کی مثالیں خود قرآن مجید میں موجود ہیں اور ان آیات میں لفظ دعاء سے ہی بنا کوئی لفظ آیا ہے:

1. رسول اللہ جنگ احد میں اپنے ساتھیوں کو پکار رہے ہیں:
"إِذْ تُصْعِدُونَ وَلاَ تَلْوُونَ عَلَى أحَدٍ وَالرَّسُولُ يَدْعُوكُمْ فِي أُخْرَاكُمْ" (آل عمران/153)
جب تم اوپر چڑھے جا رہے تھے اور پیچھے مڑ کر کسی کو نہیں دیکھ رہے تھے اور تمہارے پیچھے والوں میں رسول تمہیں پکار رہے تھے۔ اس آیت میں لفظ "یدعو" آیا ہے جو دعا سے ہی نکلا ہے۔ لیکن یہاں دعا سے مراد عبادت نہیں بلکہ خالی مدد کے لیے پکارنا ہے۔
2. آیت مباہلہ میں اپنے ساتھیوں کو پکارنے کے لیے لفظ ندع آیا ہے:
"فَمَنْ حَآجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْاْ نَدْعُ أَبْنَاءنَا وَأَبْنَاءكُمْ وَنِسَاءنَا وَنِسَاءكُمْ وَأَنفُسَنَا وأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَةَ اللّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ" (آل عمران/61) پھر علم (سچی خبر) آ جانے کے بعد بھی جو کوئی اس (عیسیٰ کے بارے ) میں آپ سے حجت کرے تو آپ کہہ دیجئے کہ آؤ ہم اپنے بیٹوں کو اور تم اپنے بیٹوں کو بلائیں اور اپنی عورتوں کو بھی اور تمہاری عورتوں کو بھی (بلائیں ) اور ہم خود اپنی جان کو اور تم اپنی جان کو (پکاریں)۔ پھر ہم سب خوب التجا کریں، پھر جھوٹوں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت بھیجیں۔ اس آیت میں لفظ "ندع" آیا ہے لیکن یہاں پر جن کو پکارا جا رہا ہے ان کو بیٹے، عورت اور جان کی حیثیت سے پکارا جا رہا ہے اس لیے یہ شرک نہیں ہے۔

3. دینی تعلیمات کی طرف دعوت دینے کے لیے لفظ دعا آیا ہے: "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اسْتَجِيبُواْ لِلّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُم لِمَا يُحْيِيكُمْ" (الأنفال/24) اے ایمان والو۔ اللہ اور رسول کا حکم مانو جبکہ رسول تمہیں ایسی بات کی طرف بلائیں جس میں تمہاری زندگی ہے۔ یہاں پر لفظ "دعا" آیا ہے لیکن یہاں پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم لوگوں کو انسان سمجھ کر دین کی طرف بلا رہے ہیں، اسلیے یہ بھی عبادت نہیں ہے۔
4. انبیاء علیہم السلام بھی قوم کو نجات کی طرف دعوت دیتے تھے:
"وَ يَا قَوْمِ مَا لِي أَدْعُوكُمْ إِلَى النَّجَاةِ وَتَدْعُونَنِي إِلَى النَّارِ" (غافر/41)
اے میری قوم! یہ کیا بات ہے کہ میں تو تمہیں نجات کی طرف بلاتا ہوں اور تم مجھے آگ کی طرف بلاتے ہو۔ اس آیت میں بھی لفظ "ادعو" اور "تدعو" آیا ہے لیکن یہ بھی عبادت نہیں ہے۔
5. نیکی کی طرف دعوت دینے کے لیے بھی لفظ دعا، یدعو آیا ہے:
"وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَأُوْلَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ" (آل عمران/104) اور تم میں ایک ایسی جماعت ہونی چاہئے جو لوگوں کو بھلائی کی طرف بلائے اور نیک کاموں کا حکم کرے اور بری با توں سے منع کرے۔ اور وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔ اس آیت میں بھی لفظ "یدعون" آیا ہے لیکن یہ بھی عبادت کے معنیٰ میں نہیں ہے۔

6. قرآن مجید میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو پکارنے کے لیے بھی لفظ دعاء ہی آیا ہے لیکن یہ شرک نہیں ہے: "لَا تَجْعَلُوا دُعَاء الرَّسُولِ بَيْنَكُمْ كَدُعَاء بَعْضِكُم بَعْضًا قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنكُمْ لِوَاذًا فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ" (النور/63) تم رسول کے بلانے (دعاء) کو ایسا نہ قرار دو جیسا کہ تم آپس میں ایک دوسرے کو بلاتے ہو۔ بیشک اللہ ان کو جانتا ہے جو تم میں سے آنکھ بچا کر نکل جاتے ہیں۔ پس جو لوگ رسول کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں ان کو اس بات سے ڈرنا چاہیئے کہ ان پر کوئی آفت آ جائے یا ان کو کوئی اور دردناک عذاب پہنچے۔ اس آیت میں لفظ "دعاء" ہی آیا ہے ، لیکن یہ دعاء بھی عبادت نہیں ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہر پکار (دعاء) عبادت نہیں ہے۔ کسی کو اپنا معبود سمجھ کر پکارنا عبادت ہے۔ اگر کوئی غیر اللہ کو معبود قرار دیتے ہوئے پکارے تو یہ شرک ہوگا۔ "فَلَا تَدْعُ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ فَتَكُونَ مِنَ الْمُعَذَّبِينَ" (الشعراء/213) اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو نہ پکارو، ورنہ سزا پانے والوں میں سے ہو جاؤ گے۔ اس آیت سے واضح ہے کہ جب کسی کو معبود قرار دے کر پکارا جائے گا تو یہ اس کی عبادت ہوگی۔ لیکن کسی کو اللہ کی مخلوق سمجھ کر مدد کے لیے پکارنانہ شرک ہے نہ ہی منع ہے۔

بت بھی وسیلہ ہیں؟ اگر یہ کہا جائے کہ بت پرست بھی بتوں کو اللہ تبارک و تعالیٰ تک پہنچنے کا وسیلہ قرار دیتے ہیں: "أَلَا لِلَّهِ الدِّينُ الْخَالِصُ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاء مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّهِ ۔۔۔۔"(الزمر/3) یاد رکھو! خالص دین (عبادت) اللہ ہی کے لئے ہے اور جن لوگوں نے اس کے سوا اولیاء بنا رکھے ہیں (اور کہتے ہیں) کہ ہم تو ان کی عبادت صرف اس لئے کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اللہ کا مقرب بنا دیں۔ پھر فرمایا: "وَ يَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللّهِ مَا لاَ يَضُرُّهُمْ وَلاَ يَنفَعُهُمْ وَ يَقُولُونَ هَؤُلاء شُفَعَاؤُنَا عِندَ اللّهِ قُلْ أَتُنَبِّئُونَ اللّهَ بِمَا لاَ يَعْلَمُ فِي السَّمَاوَاتِ وَلاَ فِي الأَرْضِ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ" (يونس/18) اللہ کو چھوڑ کر وہ جن کی عبادت کرتے ہیں وہ نہ ان کو نقصان دے سکتے ہیں نہ ہی فائدہ اور وہ کہتے ہیں اللہ کی بارگاہ میں یہ ہماری شفاعت کرنے والے ہیں۔ ان سے پوچھو کیا تم اللہ کو یہ خبر دے رہے ہو؟ (یعنی ان کو اللہ نے تو شفیع نہیں بنایا تو پھر تم بنا کر اللہ کو خبردار کر رہے ہو) جسے وہ نہ آسمانوں میں جانتا ہے نہ زمین میں۔ وہ پاک ہے اور بلند ہے ان سے جسے وہ شریک قرار دیتے ہیں۔ تو پھر وہ مشرک کیوں ہوئے؟ آیت میں غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان بت پرستون نے تین کام کیے تھے:

1۔ انہوں نے خدا تک پہنچنے کے لیے بتوں، ارواح اور ملائکہ وغیرہ کو اپنا وسیلہ بنایا۔
2۔ جن کو بت پرستوں نے وسیلہ بنایا تھا انکو معبودیعنی عبادت کے لائق بھی قرار دے دیا۔
3۔ پھر عملی طور پر ان کی عبادت کی۔
وہ مشرک اس لیے ہیں کیونکہ وہ ان بتوں کو عبادت کے لائق سمجھتے تھے جو کہ عقیدہ میں شرک ہے وہ خود کہہ رہے ہیں کہ "مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا " ہم تو ان کی صرف اسلیے عبادت کرتے ہیں۔ یا خدا ان کے متعلق کہتا ہے کہ "وَ يَعْبُدُونَ" اور وہ ان کی عبادت کرتے ہیں۔ انہوں نے بتوں کو عبادت کے لائق سمجھا اسلیے عقیدے میں شرک کے مرتکب ہوئے، پھر انہوں نے بتوں کو اپنا معبود سمجھ کر پکارا اسلیے عمل میں بھی شرک کے مرتکب ہوئے۔ یہ بھی یاد رہنا چاہیئے کہ کسی کو اللہ کے قرب کا وسیلہ قرار دینا اس کی عبادت کرنا نہیں ہے۔ جب ایک مسلمان اللہ کے کسی پیارے بندہ کو وسیلہ قرار دیتا ہے تو نہ ہی اس کو عبادت کے لائق سمجھتا ہے نہ ہی اس کی عبادت کرتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر یہ لوگ بتوں کو عبادت کے لائق نہ سمجھتے اور نہ ہی ان کی عبادت کرتے بلکہ مجسموں کو صرف اللہ کے قرب کا وسیلہ سمجھتے تو بے وقوف ہوتے مشرک نہ ہوتے۔

وہ لوگ مشرک اللہ تبارک و تعالیٰ کے ساتھ بتوں کو عبادت کے لائق سمجھنے اور انکی عبادت کرنے سے ہوئے ہیں نہ کہ عقیدہ و توسل کے سبب یاد رہنا چاہیئے کہ کوئی بھی مجسمہ تب تک مجسمہ ہے جب تک اسکی عبادت نہ کی جائے۔ جب اس کی عبادت کی جائے تو وہ مجسمہ بت بن جاتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں مجسمے انکے عقیدے میں صرف وسیلہ نہیں تھے بلکہ معبود بھی تھے اسلیے وہ مجسموں سے بت بن گئے اور یہ لوگ انکو معبود ماننے کی وجہ سے مشرک ہوئے نہ کہ وسیلہ سمجھنے کی وجہ سے۔ (غور کریں) ہمیں کیسے معلوم ہوگا؟ ہو سکتا ہے کہ کوئی یہ کہے کہ ہمیں کیسے پتا چلے گا کہ یہ خدا سمجھ کر پکار رہا ہے یا مخلوق سمجھ کر؟ جواب واضح ہے کہ ہمارے لیے اپنے ایمان کو انسان خود ہی بیان کریگا اور دین ظاہر پر ہی ہے جو وہ کہے گا اسی کو قبول کیا جائے گا۔ اس وسیلہ کی حیثیت سے مدد مانگنے پر کچھ بنیادی سوال اٹھائے جاتے ہیں۔ ضرورت ہے کہ ان کی وضاحت کردی جائے۔
(جاری ہے)
خبر کا کوڈ : 903651
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش