0
Sunday 2 May 2021 12:35

صلح امام حسن (ع) کے اسباب اور نتائج

صلح امام حسن (ع) کے اسباب اور نتائج
تحریر: سید حسین موسوی

جس وقت امام حسن (ع) نے امت کی باگ ڈور سنبھالی، اس وقت امت کی صورتحال کچھ اس طرح تھی۔
1۔ امت مسلمہ دو حصوں میں تقسیم ہوچکی تھی، حجاز، یمن، عراق اور ایران کے علاقوں میں امام حسن (ع) کی خلافت قائم تھی، تاہم حضرت علی (ع) کی شہادت کے بعد شام کے عوام نے معاویہ کی بیعت بحیثیت خلیفہ الرسول کی تھی۔ اس طرح مسلمانوں میں دو خلافتیں وجود میں آگئی تھیں۔ معاویہ نے حضرت علی کی حیات تک اپنی خلافت کا اعلان نہیں کیا۔ اس نے مطالبہ کیا کہ حضرت عثمان کے قاتلوں (عمار یاسر، محمد بن ابی بکر اور مالک اشتر وغیرہ) کو ان کے حوالے کیا جائے، تاکہ معاویہ ان سے قصاص لے سکے، لیکن حضرت علی (ع) کی شہادت کے بعد معاویہ خلیفہ الرسول کا دعویدار بن گیا۔ اس وقت صرف دو خلافتیں تھیں، لیکن اس کی واضح آثار تھے کہ اگر اختلاف جاری رہا تو دو مذاہب، دو کتابیں اور دو قبلہ وجود میں آئیں گے۔ اس تقسیم شدہ امت کو دوبارہ "امت واحدہ" بنانا امام حسن کا چیلنج تھا۔؟

2۔ جو علاقے امام حسن علیہ السلام کے زیر اقتدار تھے، ان کا امن و امان تباہ کر دیا گیا تھا۔ شام سے معاویہ کی طرف سے بھیجے گئے لشکروں نے کوفے کے علاوہ کوئی شہر نہیں چھوڑا تھا، جہاں قتل کا بازار گرم نہ کیا گیا ہو۔ حملے کے خوف سے  لوگوں کا دن کا سکون اور رات کی نیندیں حرام ہوچکی تھیں۔ امام حسن (ع) کیلئے اپنے زیر انتظام علاقے میں امن کا قیام بھی ایک چیلنج تھا۔
3۔ شام کا علاقہ جب سے اسلام کے زیر سایہ ہوا، تب سے بنی امیہ کے زیر تسلط رہا۔ پہلے معاویہ کے بڑے بھائی یزید ابن ابوسفیان  کی حکومت رہی، اس کے بعد معاویہ کی حکومت آگئی۔ شام میں جو بھی دین آیا تھا، وہ قرآن اور سیرت شیخین کی صورت میں پہنچا تھا۔ شام میں بانی اسلام بنی امیہ کو سمجھا جاتا تھا۔ شام میں قرآن مجید اور سنت کے اصل دین کو پہنچانا، جس میں امام علی اور اولاد علی کی حیثیت "محافظ سنت رسول اللہ" ہو، بڑا چیلینج تھا۔

ضرورت یہ تھی کہ:
ا: امت کو دوبارہ "امت واحدہ" بنایا جائے، جس کو معاویہ نے تقسیم کر دیا تھا۔
ب: ملک میں امن ہو۔
ج: شامی عوام اصل مذہب سے آشنا ہوں اور ان کے سامنے تحریف شدہ مذہب ظاہر ہو۔
ت: شام میں امام علی (ع) اور اولاد علی (ع) کو وارث سنت رسول اللہ تسلیم کیا جائے گا۔
ان تمام مقاصد کے حصول کے لئے امام حسن علیہ السلام کے پاس صلح کرنے کے سوا کوئی دوسرا آپشن نہیں تھا۔ امام حسن علیہ السلام نے فرمایا: عِلَّةُ مُصَالَحَتِي لِمُعَاوِيَةَ عِلَّةُ مُصَالَحَةِ رَسُولِ اللَّهِ ص لِبَنِي ضَمْرَةَ وَ بَنِي أَشْجَعَ وَ لِأَهْلِ مَكَّةَ حِينَ انْصَرَفَ مِنَ الْحُدَيْبِيَةِ أُولَئِكَ كُفَّارٌ بِالتَّنْزِيلِ وَ مُعَاوِيَةُ وَ أَصْحَابُهُ كُفَّارٌ بِالتَّأْوِيلِ (علل الشرايع) "معاویہ کے ساتھ میری صلح کی وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی ضمرہ، بنی اشجع اور مکہ مکرمہ کے ساتھ حدیبہ میں صلح کی اور خود واپس ہوئے۔ وہ قرآن مجید کے نازل ہونے (اللہ تعالٰی کے محمد رسول اللہ پر قرآن کے نازل ہونے) کے منکر تھے، جبکہ معاویہ اور اس کے ساتھی قرآن کی تاویل (رسول اللہ کی طرف سے اہلبیت کو بیان قرآن عطا کرنا) کے منکر ہیں۔"

امام باقر (ع) نے فرمایا: لَوْ لَا مَا صَنَعَ لَكَانَ أَمْرٌ عَظِيمٌ.(علل الشرائع) ”اگر امام حسن  صلح نہیں کرتے تو دین میں بڑا رخنہ پیدا ہوتا۔" پھر وہ فرماتے ہیں: وَ اللَّهِ لَلَّذِي صَنَعَهُ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ ( عليه السلام ) كَانَ خَيْراً لِهَذِهِ الْأُمَّةِ مِمَّا طَلَعَتْ عَلَيْهِ الشَّمْسُ (روضۃ الکافی) "اللہ کی قسم، جو کام امام حسن نے امت کیلئے کیا، وہ ہر اس شے سے بہتر ہے، جس پر سورج کی روشنی پڑتی ہے۔" امام حسن کی صلح کی وجہ کوفہ کی بے وفائی نہیں تھی۔ جن چالیس ہزار افراد نے جو امام علی علیہ السلام کی دعوت پر فوج میں شامل ہوئے تھے، وہ امام کی شہادت کی وجہ سے امام حسن (ع) کی فوج میں بڑے جذبے سے شامل ہوئے۔ لَمَّا سَارَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا إِلَى مُعَاوِيَةَ بِالْكَتَائِبِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ لِمُعَاوِيَةَ:‏‏‏‏ أَرَى كَتِيبَةً لَا تُوَلِّي حَتَّى تُدْبِرَ أُخْرَاهَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ مُعَاوِيَةُ:‏‏‏‏ مَنْ لِذَرَارِيِّ الْمُسْلِمِينَ ؟، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أَنَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَامِرٍ، ‏‏‏‏‏‏وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَمُرَةَ:‏‏‏‏ نَلْقَاهُ، ‏‏‏‏‏‏فَنَقُولُ لَهُ:‏‏‏‏ الصُّلْحَ. (صحيح بخاري) "جب امام حسن (ع) ایک بڑا لشکر لے کر معاویہ کی طرف روانہ ہوئے تو تو عمرو بن عاص نے معاویہ سے کہا کہ میں ایسا لشکر دیکھتا ہوں، جو اس وقت تک واپس نہیں آئے گا، جب تک کہ وہ اپنے حریف کو شکست نہ دے دیں۔ معاویہ نے چیخ کر کہا: کون (شام) کے مسلمانوں کے اہل و عیال کون بچائے گا؟ خود کہنے لگا: میں۔ پھر عبد الرحمن ابن سمرہ اور عبد اللہ ابن عامر نے کہا: کیا ہم ان (امام حسن) سے ملاقات کریں گے اور صلح کیلئے کہیں گے۔؟"

معاویہ نے اپنے لئے صرف شام چاہا تھا۔ روم کا بادشاہ بھی شام پر حملے کی تیاری کر رہا تھا، جبکہ معاویہ کا لشکر صفین میں شکست خوردہ تھا۔ چنانچہ اس لئے اس نے اپنے لئے شام اور باقی ملک امام حسن کے لئے کی پیش کش کی۔ امام حسن علیہ السلام نے تقسیم شدہ امت کو امت واحدہ بنانے کیلئے باقی ملک بھی ان شرائط پر دینے کی پیش کش کی۔
الف: معاویہ قرآن و سنت پر عمل کرے گا۔ (یعنی سیرت شیخین کی کوئی حیثیت نہیں ہے)
ب: معاویہ اپنے آپ کو امیرالمومنین نہیں کہلوائے گا۔(یعنی معاویہ شرعی حکمران نہیں ہے)
ت: معاویہ اور اس کے ساتھیوں کی طرف سے امام علی علیہ السلام کے لئے گستاخانہ کلمات بند کئے جائیں گے۔ (یعنی، امام علی اس کردار کے مالک نہیں ہیں، جو معاویہ نے شام میں لوگوں کے اندر مشہور کرکے گستاخی کیلئے آمادہ کیا ہے)
ث: امام علی علیہ السلام کے تمام شیعوں، جمل اور صفین میں جنہوں نے امام علی کی حمایت میں قتال کیا، ان کے لئے امان ہوگی۔
ج: معاویہ اپنے بعد کسی کو اپنا جانشین نہیں بنائیگا، اگر امام حسن زندہ ہوئے تو حکومت ان کی ہوگی۔

معاویہ نے صرف کاغذ بھیجا، امام حسن علیہ السلام نے شرائط لکھیں اور مہر ثبت کی، چونکہ کوفی لڑائی کے لئے تیار تھے اور امام (ع) کے صلح کے مقاصد سے واقف نہیں تھے، اس لئے انہوں نے امام حسن کے سامنے شدید احتجاج کیا۔ امام (ع) بھی صلح کے مقاصد حاصل ہونے سے پہلے ہی بیان نہیں کرسکتے تھے۔ حجر بن عدی جیسے امام علی علیہ السلام کے سرفروش صحابی نے امام کیجانب سے صلح کی حکمت نہیں سمجھ سکے، لہذا انہوں نے امام پر اعتراض کیا۔ اگر کوفے والے بے وفا ہوتے اور امام حسن (ع) نے ان کی بے وفائی کے سبب صلح کی ہوتی تو خود کوفے والے اعتراض کیوں کرتے۔؟

سن 41 ہجری میں صلح ہوئی اور معاویہ نے سن 50 ہجری تک صلح کی تمام شرائط کی پابندی کی۔ جس کیوجہ سے
الف: بنی امیہ کی طرف سے امت کو ٹکڑے کرنے کی سازش ناکام ہوئی، امت پھر امت واحدہ ہوگئی۔
ب: پورے ملک میں امن قائم ہوا اور لوگوں نے سکون کا سانس لیا۔
ث: امام علی علیہ السلام کی شان میں ہونے والی گستاخی کا سلسلہ بند ہوگیا۔
ج: کوفے کے مرد و زن نے وفود بنا کر شام کا رخ کیا۔ شام میں انہوں نے سنت نبی برزبان علی (ع) پیش کی۔ انہوں نے شامیوں کو اصل مذہب سے آگاہ کیا۔ امام علی علیہ السلام کی شان میں احادیث بیان کیں، جس کی وجہ سے شامیوں کی آنکھیں کھل گئیں۔ ان میں سے کئی وفود معاویہ کے دربار تک پہنچے اور بھرے دربار میں امام علی (ع) کی عظمت بیان کی۔ ابتدائی دور کے کچھ مورخین نے اس موضوع پر علیحدہ کتابیں لکھی ہیں، جن میں عباس بن بکار ضبی کی دو کتابیں اخبار الوفدات من النسا  اور الاخبار الوافدین آج بھی موجود ہیں۔

امام حسن علیہ السلام کا کردار:
امام حسن علیہ السلام کا کردار، سخاوت، زہد اور امت پر سے حکومت قربان کرنے کے سبب ان کی شخصیت امت کی نظر میں بہت محبوب بن گئی۔ جب آپ حج کے لئے روانہ ہوتے تو پوری دنیا سے مسلمان ان سے ملنے کے لئے بے چین ہوتے تھے۔ مدینہ میں امام حسن کی زندگی کے بارے میں بلاذری لکھتے ہیں کہ "ان معاوية قال لرجل من أهل المدينة من قريش: أخبرني عن الحسن. فقال: يا أمير المؤمنين إذا صلى الغداة جلس في مصلاه حتى تطلع الشمس، ثم يساند ظهره فلا يبقى في مسجد رسول اللّه صلى اللّه عليه و سلم أحد له شرف إلّا أتاه، فيتحدثون عنده حتى إذا ارتفع النهار، صلى ركعتين ثم ينهض فيأتي أمّهات المؤمنين فيسلم عليهنّ فربّما اتحفنه [2] ثم ينصرف إلى منزله ثم يروح إلى المسجد فيصلي و يتحدث الناس إليه." (بلاذری، انساب الاشراف، ۱۴۱۷ق، ج۳، ص۲۵؛)

"معاویہ نے مدینہ کے رہائشی ایک قریش سے سوال کیا کہ حسن کے بارے میں بتائو۔ اس نے کہا: اے امیرالمومنین! جب وہ (مسجد میں) صبح کی نماز پڑھتا ہے، سورج طلوع ہونے تک وہ مصلے پر بیٹھا رہتا ہے۔ پھر اپنی پیٹھ جھک کر ٹیک دیتے ہیں، پھر کوئی بھی شخص مسجد میں بیٹھا نہیں رہتا، جس کی کوئی حیثیت ہو، لیکن یہ اس کے پاس آتا ہے۔ پھر وہ آپس میں بات کرتے ہیں، یہاں تک کہ سورج چڑھتا ہے، پھر وہ  واپس جاتے ہیں، پھر امہات المومنین کے پاس جاتے ہیں، ان کو سلام کرتے ہیں، کبھی ان کو تحفے دیتے ہیں، پھر اپنے گھر آتے ہیں،(ظہر کی نماز کے وقت) مسجد میں آتے ہیں اور لوگ ان سے گفتگو کرتے ہیں۔" سن 50 ہجری میں معاویہ نے دیکھا کہ اس کا کھیل ختم ہونے والا ہے، اس نے صلح کو توڑ دیا اور امام حسن علیہ السلام کو زہر دلوا کر شہید کروا دیا۔ امام حسن علیہ السلام نے فتح مبین حاصل کی، اپنے رب کے بارگاہ میں سرخرو پہنچے۔
خبر کا کوڈ : 930315
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش