1
Tuesday 10 Aug 2021 23:46

خطے میں بدامنی پھیلانے کیلئے امریکہ کی ناکام کوششیں

خطے میں بدامنی پھیلانے کیلئے امریکہ کی ناکام کوششیں
تحریر: ہادی محمدی
 
گذشتہ بیس برس سے امریکہ نے عالمی سطح پر اپنے سیاسی مفادات کے حصول کیلئے جو مختلف ہتھکنڈے بروئے کار لا رکھے ہیں ان میں سے ایک "تعمیری افراتفری" یا constructive chaos ہے۔ یہ ہتھکنڈہ امریکہ کے مختلف تحقیقاتی اداروں اور تھنک ٹینکس کی جانب سے باقاعدہ تحقیق اور منصوبہ بندی کے ذریعے پیش کیا گیا ہے اور امریکہ کی قومی ڈاکٹرائن تصور کیا جاتا ہے۔ گذشتہ دو عشروں کے دوران امریکہ کی خارجہ سیاست میں یہ ہتھکنڈہ مستقل طور پر اپنایا گیا ہے۔ اس کا مقصد عالمی اور علاقائی سطح پر اپنی حریف قوتوں اور حکومتوں کو ختم یا کمزور کر کے زیادہ سے زیادہ مفادات کا حصول یقینی بنانا ہے۔ تعمیری افراتفری پر مبنی ماڈل تمام مختلف شعبوں پر مشتمل ہے اور اس میں سکیورٹی، سماجی، اقتصادی اور بعض حالات میں فوجی شعبے بھی شامل کئے جاتے ہیں۔
 
دنیا کے مختلف حصوں اور خطوں میں وہاں کے حالات کے مدنظر تعمیری افراتفری پھیلانے کیلئے ایک یا چند مخصوص شعبے چنے جاتے ہیں۔ امریکہ گذشتہ کافی عرصے سے مغربی ایشیا (مشرق وسطی) خطے میں سنجیدہ قسم کے چیلنجز سے روبرو ہے۔ آج بھی اس کیلئے سب سے بڑا چیلنج اس خطے میں اپنی فوجی موجودگی برقرار رکھنا ہے۔ اس وقت عراق اور افغانستان میں امریکہ پر فوجی انخلاء کیلئے شدید دباو پایا جاتا ہے۔ افغانستان میں ذلت آمیز شکست، عراق میں اسلامی مزاحمت کی جانب سے شدید دباو، شام میں فوجی موجودگی کے باوجود ناکامیاں اور خطے میں موجود امریکی فوجی اڈوں کے خلاف روز بروز بڑھتے خطرات کے باعث امریکی حکومت نے ایک بار پھر تعمیری افراتفری والے فارمولے پر عمل پیرا ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔
 
البتہ اس ہتھکنڈے کے ساتھ ساتھ امریکہ خطے میں موجود اپنی فورسز کی پوزیشن بھی تبدیل کر رہا ہے اور خفیہ طور پر اپنے فوجیوں کو عراق اور افغانستان سے نکال کر جنوب مشرقی ایشیا منتقل کرنے میں مصروف ہے۔ امریکہ نے افغانستان پر بیس برس تک فوجی قبضہ جمائے رکھا اور اس مدت میں مطلوبہ اہداف حاصل نہ کر پایا۔ دوسری طرف اس عرصے میں اس کے حریف ممالک جیسے چین، روس اور ایران مختلف شعبوں میں بہت زیادہ ترقی کر گئے اور امریکہ ان کے خلاف کسی قسم کی جیوپولیٹیکل یا جیو اسٹریٹجک سرگرمیاں انجام دینے سے قاصر رہا۔ لہذا امریکی حکمرانوں نے فوراً طالبان سے مذاکرات اور معاہدے کا ڈھونگ رچایا تاکہ افغانستان سے اپنی جان چھڑا کر جنوب مشرقی ایشیا میں چین اور روس کا مقابلہ کر سکے۔
 
امریکہ نے افغانستان سے فوجی انخلاء کیلئے جان بوجھ کر ایسا انداز اپنایا جو ملک میں خانہ جنگی اور بدامنی پر منتج ہوا۔ دنیا والوں کو دھوکہ دینے کیلئے امریکہ بظاہر طالبان کے ٹھکانوں کو ہوائی حملوں کا نشانہ بھی بناتا ہے لیکن یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ امریکہ نے جان بوجھ کر طالبان کو اس قدر آسانی اور تیزی سے فوجی پیشقدمی کا موقع فراہم کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان تمام اقدامات سے امریکہ کا مقصد افغانستان میں انارکی اور افراتفری پیدا کرنا ہے اور اس ملک کو شدید سیاسی اور سکیورٹی بحران کا شکار کرنا ہے۔ یوں امریکہ افغانستان کو چین، روس اور ایران کیلئے ایک پھندے میں تبدیل کر دینا چاہتا ہے۔ کسی بھی ملک میں شدید سیاسی اور سکیورٹی بحران اور طاقت کا خلاء ہمسایہ ممالک کو بھی متاثر کرتا ہے۔ افغانستان کے علاوہ عراق میں بھی امریکہ اسی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔
 
عراق میں امریکہ کی فوجی موجودگی کے خلاف شدید نفرت پائی جاتی ہے۔ اس وقت صورتحال ایسی ہو چکی ہے کہ نہ صرف بغداد بلکہ کرد نشین علاقوں میں بھی امریکی فوجیوں کا رہنا دوبھر ہو چکا ہے۔ کردستان کا علاقہ امریکی اور اسرائیلی جاسوسی مراکز اور ایجنٹس کیلئے پرامن تصور کیا جاتا تھا لیکن آج وہاں بھی ان پر راکٹ برسائے جا رہے ہیں۔ عراق کے علاقے کردستان میں واقع حریر فوجی اڈے میں اسرائیلی جاسوسی ادارے موساد نے بھی اپنے مراکز قائم کر رکھے ہیں۔ لہذا امریکی حکمرانوں نے عراقی وزیراعظم مصطفی الکاظمی کے ساتھ اسٹریٹجک مذاکرات میں اپنے دس ہزار فوجیوں کو کم کر کے 2500 فوجیوں کی موجودگی کا وعدہ کیا ہے۔ لیکن درپردہ حقائق کچھ اور ہیں اور امریکہ عراق میں بھی سیاسی بحران پیدا کرنے کی سازش کر رہا ہے۔ امریکہ نے اربیل اور دیگر علاقوں میں دہشت گرد نیٹ ورکس تیار کرنا شروع کر دیے ہیں۔
 
امریکی سرپرستی میں "جوکرز" نامی دہشت گرد عناصر کی ٹریننگ کا کام جاری ہے۔ ان اقدامات کا مقصد عراق میں عنقریب منعقد ہونے والے پارلیمانی الیکشن کو سبوتاژ کرنا ہے۔ یہ بھی اسی "تعمیری افراتفری" پر مبنی ڈاکٹرائن کا حصہ ہے اور امریکہ افغانستان اور لبنان کی طرح عراق کو بھی ایک مضبوط مرکزی حکومت سے محروم کرنے کے درپے ہے۔ امریکہ اور اسرائیل کے زیر سرپرستی دہشت گرد عناصر لبنان اور شام میں بھی انہی مقاصد کے تحت سرگرم عمل ہو چکے ہیں۔ شام کے جنوب میں واقع صوبہ درعا میں دہشت گردانہ سرگرمیاں تیز کر دی گئی ہیں۔ امریکہ عالمی سطح پر اپنا اثرورسوخ کھو چکا ہے اور اب مایوسی کے عالم میں آخری سانسیں لینے میں مصروف ہے۔ واضح ہے کہ خطے میں روز بروز طاقتور ہوتے ہوئے اسلامی مزاحمتی بلاک کا مقابلہ ایسے اقدامات سے ممکن نہیں۔
خبر کا کوڈ : 947872
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش