1
0
Thursday 22 Sep 2011 22:51

یمن پھر سلگ اٹھا!

یمن پھر سلگ اٹھا!
تحریر:طاہر یاسین طاہر 
یمنی صدر علی عبداللہ صالح اپنے میزبانوں کے گھر سے عوامی آواز دبانے کے احکامات جاری کر رہے ہیں، صدر علی عبداللہ صالح جون میں آزادی پسندوں کے ایک حملے میں زخمی ہوئے اور ملک چھوڑ کر سعودی عرب علاج کرانے کی غرض سے بھاگ گئے۔ ان کا 33 سالہ اقتدار آخری ہچکیاں لے رہا ہے، بزور طاقت اب اس گرفت کو مضبوط نہیں کیا جاسکتا۔ گولیاں، برچھیاں اور جبر کے تندوتیز موسم حریت کیش لوگوں کے جذبوں کو مہمیز کیا کرتے ہیں۔ ایک علی عبداللہ صالح ؟ نہیں، عہد شکنی تمام آمروں اور بادشاہوں کا مشترکہ شیوہ ہے، تاریخ کے اوراق اس بات پر شاہد ہیں۔ اپنی خواہشات کو آئین قرار دینے والوں نے ہمیشہ عوامی جذبات کو کچلنے کیلئے طاقت کا استعمال کیا۔ یمن کے ہمسایہ ممالک پر مشتمل چھ ریاستی خلیجی تعاون کونسل نے ابتدائی طور پر اپریل میں صدر صالح کو یہ تجویز دی تھی کہ وہ ملک میں جاری حکومت مخالف تحریک ختم کرنے کیلئے اقتدار سے الگ ہو جائیں لیکن صدر صالح اس تجویز سے اتفاق کرنے کے باوجود تین بار دستخطوں کے وقت اس عہد سے منحرف ہو گئے۔ تاہم بعض مبصرین کی رائے ہے کہ علاقے میں پنجے گاڑے ہوئے بڑی طاقتیں چند ماہ سے اس نتیجے پر پہنچ چکی ہیں اور یمن میں انقلابی قوتوں کا رُخ موڑنے کے لیے علی عبداللہ صالح کو تبدیل کرنا ضرور ہو گیا ہے۔ اسی امر کے پیش نظر اُسے زخمی حالت میں سعودی عرب میں پناہ لینے پر مجبور کیا گیا جہاں خلیج تعاون کونسل کا نام استعمال کرکے من پسند تبدیلی کے لیے راہ ہموار کر نے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ 
یمن میں حکومت مخالفین اور قبائلی، فروری سے صالح کے 33 سالہ اقتدار کے فوری خاتمے پر زور دینے کیلئے مظاہرے کر رہے ہیں جبکہ صدر کی حامی فورسز مظاہرین اور مخالف قبائل کو کچلنے کیلئے ان کے خلاف کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ حکومتی جبر کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب کئی گروہ حکومت کے خلاف ہتھیار اٹھا چکے ہیں، یاد رہے کہ انسانی حقوق کی ایک عالمی تنظیم نے بھی یمن کی حکومت پر یہ الزام لگایا ہے کہ وہ آزادی اور اصلاحات کے حق میں آواز بلند کرنے والے مظاہرین کے خلاف طاقت کا بہت زیادہ استعمال کر رہی ہے۔ حال ہی میں صنعا میں حکومت کی حامی فورسز نے صدر عبداللہ صالح کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں پر گولی چلائی جس کے نتیجے میں کئی افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
اس امر میں کلام نہیں کہ تقریباً دو کروڑ چالیس لاکھ مفلوک الحال لوگوں کے اس ملک میں عالمی استعماری مفادات بھی پلتے ہیں اور بعض "مقدس" مسلم ممالک بھی یہاں اپنے مقاصد کی غرض سے مصروف ہیں۔ اقتدار کی چاٹ ایسی لگی ہے کہ علی عبداللہ صالح سعودی عرب میں مقیم ہونے کے باوجود اپنے عہدے سے استعفیٰ نہیں دے رہا۔ حقیقتاً وہ سعودی عرب ہی سے سیاسی بیانات بھی دیتا ہے اور عملاً حکومت بھی کر رہا ہے۔ جبکہ میزبان نے یمنی عوام اور دنیا سے عہد کیا تھا کہ صالح یہاں علاج کی غرض سے آیا ہے اور وہ یہاں سے سیاست نہیں کرے گا۔ مگر صالح میزبانوں کے گھر بیٹھ کر سیاست کر رہا ہے۔ اس روش پر بھی یمنی عوام سیخ پا ہیں اور کئی مرتبہ سعودی عرب سے احتجاج بھی کر چکے ہیں لیکن بادشاہ سارے ایک جیسے ہوتے ہیں ہمیں ایک بار پھر یمن کی ڈیموکریٹک پارٹی کے سیکرٹری جنرل سیف الوشلی کے بیان کو سامنے رکھنا ہو گا، انہوں نے ایک عرب ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کچھ عرصہ قبل کہا تھا "کہ سعودی عرب یمن کے عوامی انقلاب کو کچلنے کیلئے کوشاں ہے اور وہ اس عظیم عوامی انقلاب کو ناکام بنانے کیلئے مختلف حربے استعمال کر رہا ہے"۔
حالات ایک بار پھر کسی بڑی مگر خونریز تحریک کی جانب گامزن ہیں۔ مہینہ ڈیڑھ مہینہ صنعا کی سڑکوں پر کشت و خون نہیں ہوا۔ یمنی عوام انتقال اقتدار چاہتے ہیں،  لیکن کیا صرف صالح کی رخصتی ہی انتقال اقتدار ہو گا؟ ابھی تک مختلف قبائل اس ایک نقطے پر تو متحد ہیں کہ عبداللہ صالح سے جان چھوٹ جائے مگر ہنوز انہوں نے یہ طے نہیں کیا کہ عالمی استعمار اور اس کے" مقدس" ایجنٹوں سے یمن کو کس طرح محفوظ کرنا ہے جنھوں نے خطے کی حقیقی انقلابی قوتوں کو دبانے کے لیے استعماری طاقتوں سے گٹھ جوڑ کر رکھا ہے۔ یمن کی ڈیموکریٹک پارٹی کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل محمد محسن العابد نے الزام عائد کیا ہے کہ "یمن کے اندرونی مسائل میں ایک پڑوسی مقدس ملک کی مداخلت نے سیاسی صورتحال کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا یمن کے خاص حالات کے پیش نظر یہاں یتونس اور مصر کی طرح انقلاب پوری طرح کامیاب نہیں ہو سکا۔" اقتدار کی تبدیلی کا یہ منظر نامہ انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے یا نہیں؟ اس کیلئے ہمیں چند ساعتیں انتظار کرنا پڑے گا۔ شنید ہے کہ یمنی نائب صدر منصور ہادی خلیج تعاون کونسل کے پیش کردہ منصوبے کے تحت ایک ہفتے کے اندر انتقال اقتدار کے ایک منصوبے پر دستخط کر دیں گے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو خانہ جنگی کو کوئی بھی نہیں ٹال سکے گا۔
یمن میں انقلابی گروپوں نے اعلان کیا ہے کہ صدر عبداللہ صالح کی جانب سے عوام کے خلاف طاقت کے مسلسل استعمال کو برداشت نہیں کریں گے اور اگر حکومت نے یہ پالیسی جاری رکھی تو سکیورٹی فورسز کے خلاف مسلح جدوجہد کا آغاز کر دیا جائے گا۔ حکومت مخالف انقلابی عوام کے ساتھ ملحق ہونے والے اعلیٰ فوجی افسر جنرل علی محسن الاحمر نے واضح کیا کہ صدر عبداللہ صالح شدت پسندانہ اقدامات کے ذریعے گزشتہ آٹھ ماہ سے جاری پرامن عوامی احتجاج کو خانہ جنگی میں تبدیل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ یمن کی انقلابی فورس لیبیا کی طرح حکومت کے خلاف مسلح جدوجہد کا آغاز کر سکتی ہے۔ جنرل الاحمر نے مزید کہا کہ ملک کو خانہ جنگی سے بچانے کیلئے حکومت کے خلاف مسلح جدوجہد کا آغاز بہترین انتخاب ہو سکتا ہے۔ یمنی عوام عبداللہ صالح کے جبر سے تنگ آچکے ہیں۔ پہلی کوشش میں وہ ہرحال میں عبداللہ صالح اور اس کے جانشینوں سے چھٹکارا چاہتے ہیں۔ مگر اہم سوال یہ ہے کہ کیا انتقال اقتدار کے بعد یمن کی خارجہ پالیسی تبدیل ہو جائے گی یا یونہی چلتی رہے گی؟ تبدیلی کے جس ایجنڈے پر خلیج تعاون کونسل کے ذریعے کوشش کی جا رہی ہے وہ عوام کے انقلاب کو بیچ راہ میں اچک لینے اور منحرف کرنے کی ایک کوشش معلوم ہوتی ہے کیونکہ اس کونسل کا سرغنہ وہی ہے جس کے خلاف اپوزیشن کے ممتاز راہنماﺅں کے بیانات کی طرف اشارہ کیا جا چکا ہے۔ یمن میں "القاعدہ" کے نام سے ایک گروہ کو متحرک کرنے کا ایک مقصد "ناٹو" کو ضرورت پڑنے پر میدان میں لانے کی راہ ہموار کرنے کے مترادف ہے۔ عالمی بدمعاش، دہشتگردی کیخلاف جنگ کو یمن اور صومالیہ تک پھیلاﺅ دینا چاہتا ہے اور اپنے ان مذموم مقاصد کیلئے وہ یمن میں خانہ جنگی کو صدر عبداللہ صالح کے میزبانوں کی مدد سے ضرور فروغ دے گا۔ یمن پھر سلگ اٹھا ہے اور یہ شعلے بہت دور تک پھیلیں گے۔ اپنے محلات میں خود کو محفوظ سمجھنے والے "مقدس " بادشاہوں کا دامن بھی اس آگ کی لپیٹ میں ضرور آئے گا مگر انہیں ہوش نہیں۔
خبر کا کوڈ : 100666
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
good
ہماری پیشکش