1
0
Friday 6 Jan 2012 17:54

ایران امریکہ تعلقات

ایران امریکہ تعلقات
تحریر:جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم

برطانیہ کی اینگلو ایرانین آئل کمپنی (AIOC) جس کا بعد میں نام بڑٹش پٹرولیم رکھا گیا، 1950ء میں ایران کے تقریباً سارے تیل کے ذخیروں پر قابض تھی۔ اس طرح اس کا اس وقت ایران کی معاشی شہ رگ پر انگوٹھا تھا۔ یہ صورتِ حال اہل ایران کو ناپسند تھی لیکن جب ایرانی حکومت نے اینگلو ایرانین آئل کمپنی کو خود چلانے کی بات کی تو خون چوسنے والے انگریز لٹیروں نے یہ کہہ کر اُن کی حوصلہ شکنی کی کہ آپ تکنیکی طور پر اس قابل نہیں کہ اس کمپنی کے معاملات کو اپنے ہاتھ میں لے سکیں۔ 

برطانیہ نے صرف 1950ء کے سال میں اس کمپنی سے 170 ملین پاؤنڈز کمائے اور برطانیہ بھیجے۔ یہ آج سے ساٹھ سال پہلے ایک بہت بڑی رقم تھی۔ اس میں سے ایرانین حکومت کا حصہ صرف 10 سے 12 فیصدی تک تھا۔ 1951ء اپریل میں جب محمد مصدق ایران کا وزیراعظم بنا اور اس نے ایک دفعہ پھر انگریزوں کو اس تیل کمپنی کا کنٹرول ایرانیوں کے سپر د کرنے کو کہا تو انگریزوں نے جواب میں یہ مطالبہ کر دیا کہ آپ اس کمپنی پر ہونیوالی ساری لاگت اور اب سے 40 سال بعد تک اس کمپنی سے ہونے والا متوقع منافع بھی ہمیں ادا کر دیں تو ہم کمپنی آپ کے حوالے کر دیتے ہیں۔ 

یہ سودا ایرانین وزیراعظم کو قبول نہ تھا، وہ اس کمپنی کو قومیانے کو سوچ ہی رہا تھا کہ اگست 1953ء میں امریکی CIA اور برٹش MI-6 نے مل کر ایک جمہوری وزیراعظم کا تختہ الٹ دیا اور دنیا کو جمہوریت کا درس دینے والے مغربی آقاؤں نے ایران میں بادشاہت قائم کر دی۔ 1953ء سے 1979ء تک انسانی حقوق کے علمبردار امریکہ نے ایران کے بادشاہ کے گن گائے اور اس کو ہر طرح سے مضبوط کیا۔ اس زمانے میں ایران امریکہ کی مدد سے اس خطے کی مضبوط ترین نہ صرف معاشی بلکہ عسکری طاقت بھی بن گیا۔ اسرائیل کو بھی امریکہ نواز ایران کی طاقت سے کوئی ڈر نہ تھا۔ ایران نے مغرب سے بہت زیادہ اسلحہ، گولہ بارود، جہاز، آبدوزیں اور ٹینکس وغیرہ خریدے، اس پر کسی کو بھی کوئی اعتراض نہ ہوا۔ 

لیکن بادشاہ کی بے توقیر رخصتی اور اسلامی انقلاب کی آمد کے بعد اب پوری دنیا کو یہ بتایا جا رہا ہے کہ نیلے آسمان کے نیچے اگر کوئی خراب ملک ہے جو دنیا کو تباہ کر سکتا ہے تو وہ مسلمان ملک ایران ہے، یا پھر ایٹمی پاکستان ہے۔ اگلے دن میں امریکہ کے سابق صدر بل کلنٹن کو ایک TVچینل پر سن رہا تھا وہ کہہ رہے تھے کہ ایران پر فوجی یلغار کی آپشن ہر امریکی صدر کے میز پر رہنی چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہُ اوباما اب ایران کو حملے کی دھمکی دے رہا ہے۔ 

ادھر ایٹمی اسرائیل بھی ایران پر حملے کے لئے اس واسطے تیار بیٹھا ہے کہ ایران ایٹم بم بنانے والا ہے، جس کی اسرائیل کو تو اجازت ہے ایران کو نہیں۔ ان سب دھمکیوں کے جواب میں ایران یہ کہہ رہا ہے کہ ہمارا یٹمی پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے اور اگر آپ نے ایران پر مزید پابندیاں لگا کر ایران کی پیٹھ دیوار کے ساتھ لگا دی تو ایران خلیج فارس کی STRAIT OF HORMUZ کو بند کر دے گا۔ سٹریٹ آف ہرمز خلیج فارس کی وہ پتلی گردن ہے جس کی چوڑائی صرف 34 میل یا 54 کلومیٹر ہے۔ اس تنگ سمندری راستے سے دنیا کے 30% تیل بردار ٹینکرز ساری دنیا کی کل تیل سپلائی کا 20 فیصدی لے کر ہر روز گزرتے ہیں۔ اس کے اندر جہاز آنے اور جانے کی دو تین تین کلومیڑ چوڑی Lanes بنی ہوئی ہیں۔ جن کے درمیان تین کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔ اس طرح جہاز رانی کے لیے صرف تقریباً 10 کلو میٹر کی آبی پٹی استعمال ہو تی ہے۔
 
ایران کہہ رہا ہے کہ اگر اس کا حقہ پانی بند کیا گیا تو سرنگوں سے وہ اس آبی راستے کو بند کر سکتا ہے۔ ایران نے اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے کے لیے دس دن کے لیے اُومان کے ساحل کے ساتھ سمندری مشقیں بھی کی ہیں، جو تین جنوری کو ختم ہوئیں۔ چین اور روس نے بھی امریکہ کو متنبہ کیا ہے کہ ایران پر حملے پر تیسری ایٹمی جنگ شروع ہو سکتی ہے۔ امریکہ کو یہ سوچنا چاہیے کہ اگر وہ بحرالکاہل یا بحر اقیانوس کے اندر کسی دشمن فوج کی موجودگی کو اپنے لئے خطرہ سمجھتا ہے اور کیوبا اور ونزویلا کو برداشت کرنے کے لیے بھی تیار نہیں، تو ایران کو گلف کے اندر اپنی سمندری حدود کے اندر رہ کر اپنی قومی سلامتی کو یقینی بنانے کا حق حاصل کیوں نہیں۔ 

روس یا چین کیوبا تو کیا بحرالکاہل یا بحر اوقیانوس میں بھی جائیں تو امریکہ کی سلامتی کو خطرہ درپیش ہو جاتا ہے، لیکن اگر امریکہ افغانستان، تائیوان، عراق، جارجیا، خلیج فارس اور پاکستان میں بھی آجائے تو روس، چین اور ایران اس کو اپنی سلامتی کے لیے کوئی خطرہ نہ سمجھیں۔ یہ عجیب منطق ہے۔ پھر پاکستان کو یہ درس بھی دیا جاتا ہے کہ ہندوستان کی افغانستان میں موجودگی سے پاکستان کی سلامتی کو کوئی ڈر نہیں۔ لیکن افغانستان میں القاعدہ کی موجودگی سے 10 ہزار میل دور امریکہ کو خطرہ ہے۔
 
دراصل بات یہ ہے کہ امریکہ دوسروں کی بات سننے کو تیار نہیں اور اس کا اپنا اندازِ گفتگو غیر سفارتی اور ہتک آمیز ہی نہیں، بلکہ دھمکی آمیز بھی ہے۔ وہ اپنے پاکستان جیسے مخلص ساتھی کو دہشتگرد اور جھوٹا قرار دیتا ہے۔ انڈمرل ریٹائرڈ مولن کہتا ہے کہ آئی ایس آئی دہشتگردوں کی ایک برانچ ہے۔ بات سمجھنے کے لئے وہ تیار ہے، نہ اس کے پاس پاکستانی قیادت کو سمجھانے کے لئے کوئی لاجک ہے۔ وہ کہتا ہے کہ آپ صرف وہ کریں، جو میں کہہ رہا ہوں۔ پاکستان اپنی دلیلیں نہ دے۔ 

700 ملین ڈالرز کا بل تب ادا ہو گا جب امریکی سرکار مطمئن ہو گی کہ پاکستان اُن کے کہنے پر سب کچھ کر گزرے گا۔ 2000 ارب ڈالرز افغانستان اور عراق میں غرق کرنے والے امریکہ نے پچھلے دس سالوں میں پاکستان کی 1،47،000 فوج کے لیے صرف 20.7 ارب ڈالرز دیئے گئے۔ جبکہ صرف افغانستان میں اتحادیوں کی 1،30000 افواج صرف دو ہفتوں میں 20 ارب ڈالرز خرچ کر رہی ہیں۔ پاکستان کو دیئے گئے 20 ارب ڈالرز میں سے تقریباً 14 ارب ڈالرز ملٹری کے لیے مختص تھے۔ باقی دس سالوں کی معاشی امداد کوئی ساڑھے چھ ارب ڈالرز ہے جن میں سے 2.2 ارب ڈالرز تو ابھی تک دیئے بھی نہیں گئے۔ باقی ماندہ معاشی امداد تو صرف 500 ملین یا نصف ارب ڈالرز سالانہ بنتی ہے۔ جبکہ پاکستان کے سمندر پار باشندوں نے صرف ایک سال میں 11ارب ڈالرز بھیج دیئے ہیں۔ 

اگر ہم ان اپنے پاکستانی بھائیوں اور بچوں کو کہیں کہ گیارہ کی بجائے اب ساڑھے گیارہ ارب ڈالرز سالانہ بھیج دیا کرو تو امریکی معاشی امداد کی ضرورت نہیں رہتی۔ باقی رقم تو صرف ہمارے فوجی اخراجات کی تلافی ہے۔ امریکہ کو تو پاکستان کے قرضے، جن پر ہم ہر سال 3 ارب ڈالرز سود ادا کرتے ہیں، ختم کروانے کی کوشش کرنی چاہیے تھی اور ہمیں ہماری معاشی، عسکری، ذرائع رسل و رسائل پر پچھلے دس سالوں میں خرچ ہونے والی 68 ارب ڈالرز کی رقم ادا کرنی چاہیے تھی۔ امریکہ اور یورپ سے ہمیں اُن کی منڈیوں تک رسائی کا مطالبہ کرنا بھی چاہیے اور ساتھ یہ بھی کہنا چاہیے کہ ا س وقت پاکستان میں افغان مہاجرین کو واپس افغانستان بھیجا جائے۔ اس کے علاوہ پاکستان سے سی آئی اے کے جاسوسی کے اڈوں کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ 

امریکہ کو یہ بھی بتانا ضروری ہے کہ ایران پر حملہ اس صدی کی بہت بڑی حماقت ہو گا۔ ہم امریکہ سے بگاڑ نہیں چاہتے، لیکن 35000 لوگوں کی شہادتوں کے بعد اگر وہ ناراض ہے تو ہمارے پاس امریکہ کو راضی رکھنے کا اور کوئی طریقہ بھی تو نہیں۔ ہندوستان سے دوستی کی پنیگیں بڑھانے، اسرائیل کو خوش رکھنے اور افغانستان میں اپنی ناقص پالیسی پر پردہ ڈالنے کے لیے اگر امریکہ نے پاکستان پر برسنے کو اپنا شعار بنائے رکھا تو یہ بات نہایت قابل افسوس ہو گی۔ ہم اس وقت صرف یہی کہہ سکتے ہیں کہ
بچھڑنا ہے تو مت الفاظ ڈھونڈو
ہمارے واسطے لہجہ بہت ہے
خبر کا کوڈ : 128007
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

WELLSAID , SIR
منتخب
ہماری پیشکش