0
Tuesday 24 Jan 2012 13:17

ڈرون حملوں کا تسلسل اور پاکستان امریکہ انٹیلی جنس تعاون جاری رکھنے کا عندیہ

حکومتی اور عسکری قیادتوں کو اب دوٹوک پالیسی کا اعلان کرنا چاہیے
ڈرون حملوں کا تسلسل اور پاکستان امریکہ انٹیلی جنس تعاون جاری رکھنے کا عندیہ
برطانوی نیوز ایجنسی ”رائٹرز“ نے قبائلی علاقوں میں موجود ایک پاکستانی سکیورٹی ایجنسی کے ذرائع سے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان اور امریکہ میں انٹیلی جنس شراکت داری اب بھی جاری ہے اور اس ماہ دس جنوری کا ڈرون حملہ اور اسکے دو روز بعد دوسرا حملہ بھی دونوں ممالک کے مشترکہ آپریشن تھے۔ پاکستانی ذرائع سے جاری کی گئی رپورٹ کے مطابق 10 جنوری کے حملے کا ہدف ایبٹ آباد سے تعلق رکھنے والا پاکستانی شہری اسلم اعوان تھا، جسے شمالی وزیرستان میں میرانشاہ کے قریب نشانہ بنایا گیا۔ یہ شخص عبداللہ خراسانی کے نام سے بھی جانا جاتا تھا اور مبینہ طور پر القاعدہ کا ایک اہم آدمی تھا، تاہم اس ہدف کو نشانہ بنانے میں معاونت کرنے والا پاکستانی ذریعہ اسکی تصدیق نہیں کر سکا کہ حملے میں مرنے والا اسلم اعوان ہی تھا۔
 
پاکستانی ذریعے نے اس امر کا بھی انکشاف کیا کہ وہ اپنے امریکی اور برطانوی دوستوں کے ساتھ مل کر مشترکہ مانیٹرنگ آپریشن کرتے ہیں اور برٹش انٹیلی جنس سے بھی ان کا وسیع تعاون جاری ہے۔ رپورٹ کے مطابق جب ایک ہدف کی نشاندہی ہونے کے بعد اسے مارک کر دیا جاتا ہے تو اس کا نیٹ ورک امریکہ کے ڈرون اپریٹرز کے رابطے میں آ جاتا ہے، جسکی روشنی میں ڈرون حملہ کیا جاتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق امریکی ڈرون اڈے کابل کے نزدیک بگرام میں ہیں۔
 
سلالہ چیک پوسٹوں پر نیٹو حملوں کیخلاف پاکستان کی حکومتی، سیاسی اور عسکری قیادتوں کے سخت ردعمل کے اظہار سے ڈرون حملوں کا سلسلہ کم و بیش ڈیڑھ ماہ تک رکا رہا، جس سے یہ حوصلہ افزاء تاثر پیدا ہوا کہ گزشتہ سال 12 دسمبر کو وزیراعظم سے آرمی چیف اور دوسری عسکری قیادتوں کی ملاقات میں آئندہ ہر ڈرون کو گرانے کے فیصلہ کی روشنی میں ہی امریکہ ڈرون حملوں سے باز آیا ہے۔ 

اس تناظر میں امریکہ کے ساتھ تعلقات کے معاملہ میں پاکستان کی نظرثانی شدہ پالیسی ملکی سلامتی کے تقاضوں اور قومی جذبات سے ہم آہنگ نظر آتی تھی اور جب ڈیڑھ ماہ کے وقفے کے بعد 10 جنوری کو میرانشاہ میں امریکہ نے پھر ڈرون حملہ کیا تو قوم کو اسی پس منظر میں تشویش لاحق ہوئی کہ کہیں پاک فوج کو کمزور بنانے کی حکومتی حکمت عملی سے تو امریکہ کے حوصلے دوبارہ بلند نہیں ہوئے؟ اس حملے پر حکومتی اور عسکری قیادتوں کی جانب سے بھی کسی قسم کا ردعمل سامنے نہ آیا، حتٰی کہ اسی دوران قومی اسمبلی کے طلب کردہ اجلاس میں بھی امریکہ کی جانب سے ڈرون حملے دوبارہ شروع کرنے کا نوٹس نہ لیا گیا جبکہ امریکہ نے ایک روز کے وقفے سے پھر ڈرون حملہ کر دیا۔
 
چاہیے تو یہ تھا کہ ان ڈرون حملوں پر نہ صرف سخت ترین ردعمل کا اظہار کیا جاتا بلکہ 12 دسمبر کے فیصلہ کے تحت ڈرون گرانے کا سلسلہ بھی شروع کر دیا جاتا، اسکے برعکس وزیر دفاع احمد مختار کی یہ درفنطنی ضرور سامنے آئی کہ ہم کوشش کرنے کے باوجود ابھی تک ڈرونز کا توڑ نہیں کر سکے۔ حالانکہ پاک فضائیہ کے سابقہ اور موجودہ سربراہان کے علاوہ خود آرمی چیف بھی واضح طور پر یہ اعلان کر چکے تھے کہ ہمارے پاس ڈرون گرانے کی استعداد اور صلاحیت موجود ہے مگر اس کیلئے مجاز حکومتی اتھارٹی کی اجازت درکار ہے۔ 

ایران پاکستان سے کم دفاعی صلاحیت کے باوجود تین ڈرون گرا چکا ہے۔ اس مہینے کے گزشتہ دونوں ڈرون حملے ہضم کرنے اور ان پر کسی قسم کا ردعمل ظاہر نہ کرنے کا منطقی نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ گزشتہ روز ہمارے قبائلی علاقے پھر امریکی ڈرون حملے کی زد میں آ گئے، جس میں پانچ مزید انسانی جانیں ضائع ہوگئیں۔
 
اگر ڈرون گرانے کا فیصلہ کرنے کے باوجود اب تک کوئی ایک ڈرون بھی نہیں گرایا گیا اور نہ ہی حکومتی اور عسکری سطح پر ان ڈرون حملوں پر کسی ردعمل کا اظہار کیا گیا ہے تو اس سے بادی النظر میں پاکستان اور امریکہ کے مابین انٹیلی جنس تعاون برقرار ہونے کے بارے میں ”رائٹرز“ کی رپورٹ درست نظر آتی ہے اور اگر ایسا ہی معاملہ ہے تو سلالہ چیک پوسٹوں پر نیٹو حملے کے بعد امریکہ کو سخت پیغامات دینے اور سخت اقدامات بروئے کار لانے کا مقصد کیا عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک کر ان کے جذبات ٹھنڈے کرنے کا تھا۔
 
بالخصوص ایبٹ آباد آپریشن اور پھر سلالہ چیک پوسٹوں پر نیٹو حملے کے بعد تو امریکی جنگ میں شریک رہنے کا کوئی جواز ہی نہیں بنتا جبکہ یہ دونوں کارروائیاں پاکستان کی سلامتی اور آزادی و خودمختاری کو کھلا چیلنج تھیں۔ اگر اسکے بعد بھی امریکہ کے ساتھ انٹیلی جنس تعاون جاری ہے جس کی بنیاد پر امریکہ نے ڈرون حملوں کا سلسلہ دوبارہ شروع کر دیا ہے تو پھر یہ معاملہ سیدھا سیدھا پاکستان کی آزادی کو امریکہ کے پاس گروی رکھنے کا ہے۔
 
سلالہ چیک پوسٹوں پر حملے کے بعد کور کمانڈرز میٹنگ میں تو یہ بھی طے کر لیا گیا تھا کہ آئندہ سرحد پار سے کسی بھی جارحیت کی صورت میں جوابی کارروائی کیلئے ہائی کمان کی اجازت کا انتظار نہیں کیا جائیگا اور متعلقہ علاقے میں تعینات فورسز کے متعلقہ افسران خود ہی صورتحال کی مناسبت سے جوابی کارروائی کے اقدامات بروئے کار لائیں گے، تاکہ دشمن کو موقع پر ہی دنداں شکن جواب دیکر اسکے آئندہ کے عزائم کا توڑ کیا جا سکے، مگر اب جس انداز میں امریکہ نے پھر ڈرون حملوں کا سلسلہ شروع کیا ہے، اس سے امریکہ کے ساتھ نظرثانی شدہ تعلقات کے حوالے سے حکومتی اور عسکری قیادتوں کے سارے دعوے نقش بر آب ثابت ہو رہے ہیں جبکہ اب تک امریکہ کے ساتھ نظرثانی شدہ تعلقات کے معاملہ میں قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی کی مرتب کردہ 36 نکاتی رپورٹ بھی منظر عام پر نہیں آئی، جس سے قوم کو یہ اندازہ ہو سکے کہ امریکہ کے ساتھ کس نوعیت کے تعلقات برقرار رکھنے کا طے ہوا ہے۔
 
حکومتی پالیسیوں، اقدامات اور بیانات سے آثار تو یہی نظر آ رہے ہیں کہ امریکہ کو صرف ڈرون حملوں کی ہی دوبارہ سہولت نہیں ملی بلکہ اب کسی نہ کسی حیلے بہانے سے نیٹو کی سپلائی بحال کرنے کا بھی راستہ نکالا جا رہا ہے۔ گزشتہ روز لاہور میں ارفع کریم کے والد سے تعزیت کے موقع پر وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے بھی میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے یہی عندیہ دیا ہے کہ نیٹو سپلائی وسیع تر ملکی مفاد میں بحال کی جائیگی۔ گویا سپلائی بحال کرنے کا فیصلہ کیا جا چکا ہے اور اب اس کیلئے امریکہ کے ساتھ شرائط طے ہو رہی ہیں۔
 
اس بارے میں بھی ملکی اور غیرملکی میڈیا پر رپورٹس سامنے آ چکی ہیں کہ ہر نیٹو کنٹینر پر معقول ڈیوٹی عائد کی جائیگی اور راہداری کا محصول بھی لیا جائیگا۔ اگر ایسی مادی شرائط کے عوض ہی نیٹو کی سپلائی کی سہولت دوبارہ فراہم کی جانی ہے تو پھر امریکی مفادات کی جنگ میں اسکے ساتھ تعاون کی پالیسیاں تو جوں کی توں برقرار رہیں گی جبکہ ان پالیسیوں کی بدولت ملک کو پہلے ہی ناقابل تلافی جانی اور مالی نقصان پہنچ چکا ہے۔ امریکی جنگ میں ہماری معیشت کو 70 ارب ڈالر کے قریب جو نقصان اٹھانا پڑا ہے، امریکہ نے اسکی کیا تلافی کی ہے کہ اب تعاون برقرار رکھ کر ان نقصانات کا ازالہ کرانا مقصود ہے۔ 

درحقیقت یہ تعاون ہماری ملکی اور قومی سلامتی کی قیمت پر ہو رہا ہے جو کسی بھی خودمختار مملکت اور غیور قوم کےلئے قابل قبول نہیں ہو سکتا۔ یقیناً اسی تناظر میں گزشتہ روز لیاقت باغ راولپنڈی میں ہونیوالی دینی، سیاسی جماعتوں اور عسکری، سفارتی مفکرین کی دفاع پاکستان کانفرنس میں یہ دوٹوک اعلان کیا گیا ہے کہ حکومت نے نیٹو سپلائی بحال کی تو پارلیمنٹ کا گھیراﺅ کرینگے۔ جماعت اسلامی کی جانب سے تو نیٹو کی سپلائی بحال ہونے کی صورت میں متعلقہ بارڈر ایریا پر اپنے کارکنوں کو لے جا کر بزور یہ سپلائی روکنے کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔ 

دفاع پاکستان کانفرنس میں ڈرون مار گرانے اور نیٹو کی فضائی حد بندی کرنے کا بھی تقاضا کیا گیا ہے۔ اس تناظر میں حکمرانوں کو تو امریکی مفادات سے زیادہ ملکی سلامتی اور قومی مفادات عزیز ہونے چاہئیں جبکہ قومی مفادات کا تقاضا امریکہ سے تعاون برقرار رکھنے کا نہیں، اسے دشمن قرار دیکر اسکے جارحانہ عزائم کا توڑ کرنے اور اس حوالے سے ہر ڈرون کو گرانے کا ہے۔ اسی طرح نیٹو کی سپلائی بحال کرنا بھی ہماری سلامتی کے تقاضوں کے منافی ہے،چاہے اس سے ہمیں کتنے ہی مالی مفادات کیوں نہ حاصل ہو جائیں۔ 

اگر حکمرانوں نے اب نیٹو کی سپلائی بحال کرنے کی حماقت کی اور آئندہ بھی ڈرون حملے قبول و برداشت کئے رکھے تو قوم کی جانب سے انہیں یقیناً سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑیگا۔ اس تناظر میں عسکری قیادتوں کو بھی اب اپنی دوٹوک دفاعی پالیسی کا اعلان کرنا چاہیے کیونکہ انکی گومگو کی پالیسی سے ملکی دفاع و سلامتی کے حوالے سے قوم میں مایوسی کی فضا پیدا ہو سکتی ہے۔
 "روزنامہ نوائے وقت"
خبر کا کوڈ : 132715
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش