0
Friday 13 Jan 2012 14:59

اتحادی اہداف اور پاکستان

اتحادی اہداف اور پاکستان
تحریر: پروفیسر محمد یوسف عرفان

اتحادی ممالک پاک افغان خطے سے نامراد واپس جانے کے لئے نہیں آئے۔ امریکہ یا نیٹو، ایساف افواج کی ناکامی اتحادی اہداف سے دستبرداری نہیں ہے۔ اتحادی ممالک کے اصل سرپرست عالمی یہودی (صہیونی) اور بھارتی برہمن (ہندو) ہیں اور یہ دونوں اقوام اور قوتیں تاحال تازہ دم ہیں۔ امریکہ بحیثیت عالمی قوت ہنود و یہود کے عالمی مفادات کا آلہ کار ہے۔ امریکی دولت اور عسکری قوت نے ہنود و یہود کے لئے بگرام ریاست کو خطے کی ایک طاقتور قوت بنا دیا ہے، بگرام، اسرائیل کی طرح، زمین کا چھوٹا سا ٹکڑا ہے، مگر یہ اتحادی ممالک کے جملہ مثبت اور منفی وسائل بشمول مہلک جوہری ہتھیاروں کا مرکز ہے۔ امریکہ و یورپ کے سارے مالی اور افرادی وسائل بگرام ریاست کے جبری قیام میں کام آگئے ہیں۔
 
یہودی نے جس طرح انتہا پسند مذہبی و فوجی عیسائی ریاستوں مثلاً جرمنی، فرانس، برطانیہ وغیرہ کو یہودی اہداف کا آلہ کار بنایا ہے، اسی طرح آج عالمی یہودی نے بھارتی برھمن (ہندو) کے ساتھ سازشی گٹھ جوڑ کے ذریعے پاک افغان اور وسط ایشیائی راسخ العقیدہ مسلم ریاستوں کو سرنگوں کرنے کا عمل شروع کر رکھا ہے۔ ہنود و یہود کے مذموم سازشی عزائم میں نظریاتی، جوہری اور جہادی پاکستان حائل ہے، جبکہ استعماری اشتراکی روس کے خلاف کامیابی حاصل کرنے والے پاک افغان مجاہدین بھی استقامت کے ساتھ حملہ آور اتحادی ممالک کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں۔
 
اتحادی ممالک نے مذکورہ پاک افغان اور کسی حد تک چینی مزاحمت کے باوجود بگرام ریاست بنا لی ہے۔ بگرام ریاست کے قیام میں پاکستان کی سیکولر سیاسی، سماجی، عسکری اور سرمایہ دار مقتدر طبقے نے بھرپور مدد کی۔ بگرام ریاست بن گئی، اب اسرائیل جیسی بگرام ریاست کے استحکام اور استعمار کا کام باقی ہے، جس کے لئے فوجی گولہ بارود سے زیادہ تجارتی ساز و سامان کی ضرورت ہے۔ پاک افغان تجارتی راہداری (ٹریڈ ٹرانزٹ) اور پاک بھارت تجارت اور دوستی مذکورہ بالا مذموم عزائم کے حصول کا ذریعہ ہیں۔

 اتحادی ممالک کی اہدافی حکمت عملی کے چند پہلو درج ذیل ہیں:
 
1۔ مسلمانوں کے ملی شعور کو مسخ کرنا، یہی وہ ملی وحدت کا شعور تھا جو قیام پاکستان کی نظریاتی اساس بنا۔ حملہ آور عالمی ہنود و یہود پاک افغان اور وسط ایشیائی مسلم علاقوں کو قومیتی ریاستوں میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں، جس کے لئے خطے میں Nation States کا نظریہ متعارف کرایا گیا جو پاکستان کو نسلی، لسانی، صوبائی، علاقائی اور قبائلی علاقوں اور انتظامی یونٹوں میں تقسیم کر کے ریاست ہائے متحدہ پاکستان (USP) میں ڈھالنا ہے۔
 
2۔ خطے میں تجارتی منصوبہ بندی کے تحت مفاہمتی پالیسی کا قیام، جس کے باعث حملہ آور اتحادی ممالک پاک افغان مجاہدین (طالبان) سے بات چیت اور مذاکرات کر رہے ہیں جبکہ اتحادی ممالک کے خود ساختہ مکتی باہنی طالبان بھی سرگرم ہیں۔ خیرسگالی کے طور پر قیدی مجاہدین کی رہائی بھی اسی مفاہمتی پالیسی کا حصہ ہے۔ اگر اتحادی ممالک اور پاک افغان مجاہدین میں مفاہمت ہو گئی تو پاکستان بگرام اور بھارت کے درمیان سینڈوچ بن جائے گا۔ اس وقت خطے کے مسلمانوں کو ملی وحدت کا ادراک کرنا چاہئے، جس کے لئے ہمارے قومی اور اسلامی شاعر علامہ اقبال رہ نے بجا فرمایا تھا کہ ....
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے!
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر! 

3۔ اتحادی ممالک کا تیسرا ہدف مسئلہ کشمیر کی تھرڈ آپشن (تیسرا راستہ) کے تحت بندربانٹ کرنا ہے، جس میں اتحادی ممالک کے اہم ترین رکن عالمی یہودی کو جنت نظیر علاقہ بغیر جنگ کے میسر آ جائے گا۔ کشمیر کابل کی طرح خطے کا اہم ترین دفاعی خطہ ہے، جو بگرام کے استحکام، استعمار اور چین کی ناکہ بندی کے لئے بھی ضروری ہے۔ خودمختار یا نیم آزاد کشمیر عالمی یہودی کا ہدف ہے کیونکہ اس کے بعد یہودی کو خطے میں کام کرنے کے لئے ہندو بیساکھیوں سے بھی کسی حد تک نجات مل جائے گی۔ کشمیر کی تھرڈ آپشن کے بعد پاکستان (خاکم بدھن) کی قطع و برید کا عمل تیز تر ہو جائے گا، جس میں پنجاب کی نام نہاد انتظامی تقسیم سرفہرست ہے۔
"روزنامہ جنگ"
خبر کا کوڈ : 129933
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش