0
Monday 20 Feb 2012 22:42

امریکی عزائم بالکل واضح ہیں!

امریکی عزائم بالکل واضح ہیں!
تحریر: طاہر یاسین طاہر 
 
بہت کچھ آشکار ہے، مگر جو بصیرت سے عاری ہیں ان کا کیا بنے گا؟ امریکی عزائم بالکل واضح اور قطعی ہیں، وہ بلوچوں کی ”ہمدردی“ میں اٹھ کھڑا ہوا اور ہم ابھی تک بیان بازی کی شعبدہ بازی سے باہر نہ آسکے۔ جمعتہ المبارک کو امریکی ایوان نمائندگان میں بلوچستان کے حق خوداردایت کے متعلق قرارداد پیش کر دی گئی، یہ قرارداد رکن کانگریس ”روہرا بارکر“ نے پیش کی، جس میں کہا گیا ہے کہ بلوچ عوام کو اپنے لئے آزاد ملک کا حق حاصل ہے۔ لہٰذا بلوچ عوام کا حق خودارایت تسلیم کیا جائے۔ قرارداد میں مزید کہا گیا کہ پاکستان میں بلوچوں کو ماورائے عدالت قتل کیا جا رہا ہے اور بلوچوں کو سیاسی و نسلی امتیاز کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، جبکہ امریکہ بلوچ عوام پر ظلم کرنے والوں کو اسلحہ اور امداد فراہم کر رہا ہے۔ قرارداد میں یہ بھی کہا گیا کہ بلوچستان پاکستان، ایران اور افغانستان میں تقسیم ہے اور تینوں ممالک میں بلوچوں کو خودمختاری حاصل نہیں۔
 
پاکستان نے امریکی قراراداد کو انتہائی غیر ذمہ دارانہ، اندرونی معاملات میں مداخلت اور عالمی قوانین اور اصولوں کی تذلیل قرار دیا ہے۔ امریکہ کی جانب سے بلوچستان کو آزادی دلوانے اور بلوچوں کا حق خودارادیت تسلیم کرانے کی قرارداد عین اس وقت منظر عام پر آئی جب برادر اسلامی ملک ایران اور افغانستان کے صدور سہ فریقی سربراہی کانفرنس کے سلسلے میں پاکستان کے دورے پر تھے۔ یہ بات ہمیں ضرور دیکھنا ہو گی کہ امریکہ نے ڈاکٹر احمد نژادی کی پاکستان موجودگی کے موقع پر اس طرح کی شرانگیزی کر کے اس سہ فریقی سربراہی کانفرنس کی اہمیت کو نہ صرف کم کرنے کی کوشش کی بلکہ سہ فریقی مذاکرات کو ناکام بنانے کیلئے پاکستان پر ایک طرح کا جارحانہ دباﺅ بھی ڈال رہا ہے۔
 
حقائق کا اگر ٹھنڈے دماغ سے تجزیہ کیا جائے تو جو تصویر ابھرتی ہے وہ بڑی ہی خوفناک ہے۔ کیونکہ بحیثیت مجموعی ہم جذباتیت کا عصا ہر وقت ہاتھ میں اٹھائے رکھتے ہیں اور امریکہ کو ایک آن میں فتح کر دینے کی باتیں کرنے لگتے ہیں۔ سہ فریقی سربراہی کانفرنس میں یہ فیصلہ ہوا کہ خطے کے سارے مسائل باہر والوں کے مسلط کردہ ہیں، لہٰذا تینوں ممالک ان مسائل کے خاتمے کیلئے مل کر کام کریں گے۔ یہاں صدر آصف علی زرداری نے بڑی جرات سے کہا کہ ہم پاک ایران گیس پائپ لائن پر کسی بھی غیر ملکی دباﺅ کو قبول نہیں کریں گے اور یہ منصوبہ ہر حال میں پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے گا جبکہ پاک ایران تعلقات کی نئی اڑان کو بھی بڑی پذیرائی ملی، جب صدر نے کہا کہ اگر خدانخواستہ ایران پر حملہ ہوا تو ہم ایران کا ساتھ دیں گے۔
 
میرا خیال ہے کہ ہمیں بلوچستان کے حوالے سے پیش کردہ امریکی قرارداد کو اس حوالے سے بھی دیکھنا چاہیے۔ امریکہ بارہا پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کی مخالفت کر چکا ہے اور اس حوالے سے نہ صرف امریکہ بلکہ وفاقی وزیر پٹرولیم ڈاکٹر عاصم اور پاکستانی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کے بیانات بھی ریکارڈ کا حصہ ہیں۔ پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر پیش رفت کے عزائم دیکھ کر امریکہ نے آخری حربہ استعمال کرنے کی ٹھان لی اور یوں وہ ایران اور پاکستان کے بیچ ایک ایسا آزاد بلوچستان بنانے کی طرف پیش قدمی کر رہا ہے، جہاں امریکہ کی مرضی چلے گی۔
 
اگرچہ اسلام آباد میں بھی امریکہ دخیل ہے، مشترکہ اعلامیے میں جب اس بات کا عہد کیا گیا کہ تینوں برادر اسلامی ملک، مل کر کام کریں گے تو امریکہ راستے میں دیوار کھڑی کرنے نکل آیا۔ ہم بلوچستان میں ہونے والی قتل وغارت گری اور تشدد کو کسی صورت درست نہیں سمجھتے، مگر حقیقت یہ ہے کہ وہاں نہ صرف بلوچوں پر تشدد کیا جا رہا ہے بلکہ غیر بلوچ بھی کسی اندھی نفرت کا نشانہ بن رہے ہیں۔ دراصل امریکی دفاعی حکام، خارجہ امور کے ماہرین اور امریکی ٹکڑوں پر پلنے والی نام نہاد انسانی حقوق کی تنظیمیں ایک عرصہ سے بلوچستان پر نظر رکھے ہوئے ہیں، مگر اس سنجیدہ معاملہ پر لاتعلق صرف ہمارے حکمران ہیں۔

کیا انسانی حقوق کے جھوٹے دعویداروں کو آزاد کشمیر، بوسنیا، فلسطین و عراق اور افغانستان کے مسلمانوں کا حق خودارادیت یاد نہیں؟ ان پر بھی امریکہ اور اس کے حواریوں کی جانب سے ظلم ہو رہا ہے اور یہ لوگ بھی اس ظلم سے نجات چاہتے ہیں، مگر یہاں آ کر کیوں امریکہ، بھارت و اسرائیل اور دیگر غاصب قوتوں کی سرپرستی کرتا ہے۔؟
 
ہم سمجھتے ہیں کہ ایرانی صدر کی پاکستان موجودگی کے دوران امریکہ کی جانب سے بلوچستان کی آزادی کی قرارداد پاکستان کے خلاف ایک عملی اقدام ہے کہ پاکستان اگر امریکی ڈکٹیشن کے بغیر ایران کے ساتھ اپنے تعلقات کی نوعیت طے کرتا ہے تو امریکہ اس پل کو ہی اڑا دے گا جو پاکستان کو ایران کے ساتھ ملاتا ہے۔ ہم بلاشبہ اپنے حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کے باعث ایک بند گلی میں آ چکے ہیں اور یہاں سے بقاء کی ایک ہی صورت ہے اور وہ ہے جرات مندانہ عملی اقدامات۔ جارحانہ سفارت کاری کے ذریعے امریکی سازشوں کو دنیا بھر کے انصاف پسندوں کے سامنے لایا جا سکتا ہے۔ 

امریکی عزائم اب بالکل واضح ہو چکے ہیں اور وہ پاکستان کو ٹکڑوں میں تقسیم کر کے اس کی چھوٹی چھوٹی ریاستیں بنانا چاہتا ہے۔ جبکہ پاکستانی حکمران طبقہ فقط اتنا ہی کہہ رہا ہے کہ ہم کسی کو اندرونی معاملات میں مداخلت کی اجازت نہیں دیں گے۔؟ ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا دشمن اجازت لے کر وار کرتا ہے۔؟ عالمی سیاسی منظر نامے پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ امریکہ خطے میں وسیع تر مفادات کے حصول کیلئے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔ بلوچستان اس کی دلچسپی کا اب خاص مرکز ہے۔ ہمیں اپنے آشکار دشمن سے جرات کے ساتھ بات کرنا ہو گی۔
خبر کا کوڈ : 139405
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش