0
Monday 20 Feb 2012 10:06

بلوچستان پر نظرِ کرم .... کیوں؟؟

بلوچستان پر نظرِ کرم .... کیوں؟؟
تحریر:بشری رحمن

یوں کہئے کہ بلوچستان ایک چھپا ہوا خزانہ ہے۔ پرانے وقتوں میں خزانے زیرزمین دبا دیئے جاتے تھے اور شنید ہے کہ اندر ہی اندر خزانے چل پڑتے تھے اور اس زمین پر پہنچ جاتے تھے۔ جہاں کسی خوش نصیب کا مقدر بننا ہوتے تھے۔ شاید ان زمانوں میں سوئس بنک جیسے عالمی بنک نہیں ہوتے تھے، جن کا اب کوئی خاص اعتبار نہیں رہا۔
مگر بلوچستان کی خوبصورت زمین اور سربلند پہاڑوں کو یہ خزانے قدرت نے بخشے ہیں۔ یہ سب زیرزمین خزانے ہیں۔ یہاں معدنی ذخائر ہیں، دنیا کی قیمتی دھاتیں پائی جاتی ہیں۔ ماربل کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔ گیس کے خفیہ و جلی ٹھکانے ہیں۔ تانبے اور سونے کی کانیں ہیں۔ زنک، لوہا اور قیمتی پتھر اس قدر ہیں کہ دنیا بھر میں ان کی کھپت ہو سکتی ہے۔ جڑی بوٹیاں، وائیلڈ لائف سپیشل، قسم قسم کے پھل، ڈرائی فروٹ، بھیڑ بکریوں کے علاوہ سینکڑوں اشیاء گنوائی جا سکتی ہیں۔ گوادر کی بندرگاہ کو شامل کر لیں تو پھر سمندری خوراک کا کوئی انت نہیں ہے۔ 

اس کے علاوہ اس سرزمین کے اندر اور باہر جو کچھ ہے اس کو گنوانے بیٹھیں تو تنگی داماں کا احساس ہو گا۔ ہم صرف یہ عرض کرنا چاہتے تھے کہ یکایک دنیا کی سپر پاور کی نظر التفات بلوچستان کے لوگوں پر کیوں پڑنے لگی ہے.... اور بھی ہیں پاکستان مخالف قوتیں جو بلوچستان کے لوگوں کو مختلف انداز میں بھڑکاتی رہتی ہیں اور قائداعظم محمد علی جناح (رح) کی سرزمین سے علیحدگی پسندی کی آوازیں، انہی قوتوں کی شہہ پر آتی رہتی ہیں۔ قومی اسمبلی کے اندر بھی اکثر بلوچستان کے مسائل اور اس قسم کی تحریک کے بارے میں باتیں ہوتی رہتی ہیں۔ مگر آج تک پاکستان کے عوام کو پتہ نہیں چل سکا کہ اصل مسئلہ کیا ہے۔ اور ان آوازوں کے پیچھے کون ہے؟ 

ابھی ابھی جب امریکہ کے ایوان نمائندگان میں کیلیفورنیا سے تعلق رکھنے والے رکن کانگرس نے ایک دل آزار قسم کی قرارداد پیش کر دی ہے۔ جس کا متن کچھ یوں ہے کہ بلوچ عوام کو آزاد ملک حاصل کرنے کا حق ہے۔ ان کا حق خودارادیت تسلیم کیا جائے اور یہ کہ بلوچستان، پاکستان ایران اور افغانستان میں تقسیم ہے۔ ان تینوں ملکوں کے اندر بلوچوں کو خودمختاری حاصل نہیں ہے۔ بقیہ مندرجات یہاں درج کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ 

سب سے پہلے یہ سوال پوچھنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ اس سینیٹر محترم کی نظر میں حق خودارادیت ہوتا کیا ہے اور کب کب حاصل کیا جاتا ہے....؟ اگر یہ بات ان کی سمجھ میں آ جاتی ہے تو پھر عرصہ دراز سے کشمیری جو اپنے لہو میں نہا کر اپنے حق خودارادیت کی آواز بلند کر رہے ہیں، ان کی نظر اس طرف کیوں نہیں جاتی۔ کشمیریوں جو اپنے حق خودارادیت کی آواز بلند کر رہے ہیں۔ ان کی نظر اس طرف کیوں نہیں جاتی۔ کشمیریوں کو ان کا حق خودارادیت دلوانے کیلئے کوئی قرارداد کیوں پیش نہیں کی جاتی۔ کشمیر ایک سلگتا ہوا دیرینہ مسئلہ ہے۔ کشمیریوں کی کئی نسلیں اس پہ قربان ہو چکی ہیں۔ ایک دنیا نے اس مسئلے کو تسلیم کیا ہے۔ اب تو انڈیا بھی کہنے لگا ہے کہ یہ مسئلہ ہے.... کانگرس میں اس مسئلے پر بحث کیوں نہیں ہوتی۔ کیا کشمیریوں کے لہو کا رنگ لال نہیں ہے....؟
اس قرارداد کے کانگرس میں پیش ہوتے ہی نیم خوابیدہ پاکستانی 
حکومت کی ایک دم سے جیسے آنکھ کھل سی گئی۔ وزیراعظم کے بیانات آنے لگے.... وزارت خارجہ کی طرف سے مذمت آنے لگی۔ محب وطن آوازوں نے شور بپا کر دیا۔ حتیٰ کہ بلوچستان کے اندر سے بھی اس قرارداد کی مذمت کی گئی۔ 

اس کو صریحاً پاکستان کا اندرونی معاملہ کہا گیا ہے.... بلوچستان پاکستان کا اندرونی اور نہایت حساس معاملہ ہے۔ بلوچستان کے عوام کو، بلوچیوں کو کسی بھی طرح انگیخت کرنا گویا پاکستان کی خودمختاری پر حملہ کرنا ہے۔ اور بھی بہت کچھ کہا جا رہا ہے۔ مگر ہمیں سب سے پہلے اپنے گھر کی جانب دیکھنا ہو گا....؟ ظاہر ہے جب انسانی جسم پر کوئی بیماری حملہ کرتی ہے تو سب سے پہلے جسم کا سب سے کمزور حصہ متاثر ہوتا ہے۔ کئی سالوں سے بلوچستان کے اندر سے مختلف قسم کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔ احساس محرومی کا ذکر ہو رہا ہے۔ احساس تنہائی اور لاتعلقی کی بھی باتیں ہو رہی ہیں۔ حکومت کے اندر بیٹھے ہوئے لوگ بھی باتیں کر رہے ہیں۔ واک آوٹ بھی جاری ہے.... مگر یہ ایک ایسی تلخ حقیقت ہے جس کی طرف آنکھ بھر کر، حوصلہ کر کے کوئی سیاسی لیڈر نہیں دیکھتا، یا دیکھنا نہیں چاہتا.... 

پرانا سوال ہے کہ احساس محرومی کیوں پیدا ہوا؟ محرومی نے لاتعلقی کو کیوں جنم دیا؟ جو بلوچ سردار اور جاگیردار منتخب ہو کر اسمبلیوں میں آتے رہے۔ ان کا کیا کردار رہا۔ کیا وہ محض سٹیج سجا کر اپنا گھر پورا کرتے رہے۔ یا انہوں نے بلوچیوں کیلئے دروازےکھولے..
..؟ وہ جب تک حکومت میں رہے۔ احساس محرومی کا ذکر کر کے حکومت کو بلیک میل کرتے رہے اور جب حکومت میں نہ رہے۔ تو احساس محرومی کی آگ بھڑکا کر بلوچیوں کو یا عوام کو بلیک میل کرنے لگے۔ پاکستان کے اندر ایسا کیا ہے کہ جس کا حصہ بلوچیوں کو بلوچیوں کی مرضی اور منشا کے مطابق نہیں دیا جا سکتا.... موجودہ حکومت جب آئی تھی تو اس نے بھی "آغاز حقوق" بلوچستان کا ایک بستہ پیش کر دیا تھا.... اب تک اس پر کہاں تک عملدرآمد ہوا۔ یہ کبھی سامنے نہیں آیا۔ 

کسی بھی موجود حکومت سے جب بلوچستان کے مسائل کا ذکر کیا جاتا ہے تو وہ پیچھے کی طرف دوڑنے لگتی ہے اور گزری ہوئی یا مرحوم حکومتوں کے کھاتے میں سب کچھ ڈالتی چلی جاتی ہے.... اگر کسی حکومت میں اتنی توفیق نہیں ہے کہ وہ جا کر بلوچستان میں بیٹھ جائے اور ان کے مسائل حل کر کے اٹھے تو پھر اس کو پاکستان کے اندر ووٹ مانگنے کا حق بھی نہیں ہونا چاہیئے۔ ٹیلیویژن کے مذاکروں میں بہت سے سوال اٹھائے جاتے ہیں اور یہ بھی اکثر پوچھا جاتا ہے کہ بعض بلوچی سردار غیر ملکی کرنسی کے اشاروں پر چل رہے ہیں۔ کسی کے دل میں کتنا ایمان ہے؟ ابھی تک کوئی ایسا آلہ ایجاد نہیں ہو سکا جو اس کی حد متعین کر سکے۔ جب اپنی ہی زمین کے بڑے.... چھوٹے اور غریب لوگوں کے حقوق فروخت کرنے لگ جاتے ہیں تو پھر لین دین کا ایک بازار سا لگ جاتا ہے۔ 

پاکستان کے حساس اداروں کو سب معلوم ہے کہ ہمارے کن کن دوست نما دشمنوں کی بلوچستان پر نظریں لگی ہیں.... اب یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے اور امریکی کانگرس کی قرارداد کے بعد اس کو اب چھپانا بھی نہیں چاہیئے.... کون وہاں پیسہ لگا رہا ہے۔ کون وہاں طاقت لگا رہا ہے۔ کون وہاں نقب لگا رہا ہے.... مگر سب سے بڑی ذمہ داری موجود حکومت کی ہوتی ہے۔ کم از کم حکومت جانے سے پہلے یہ تو بتا کر جائے کہ ناراض بلوچیوں کو راضی کرنے میں وہ کس حد تک کامیاب ہوئی ہے؟ کیا اسے بلوچستان کا مسئلہ سمجھ میں آ گیا ہے....؟ اور جن حقوق کا انہوں نے دندنا کے آغاز کیا تھا وہ انجام کو پہنچے ہیں کہ آغاز میں ہی لٹکے ہوئے ہیں۔ 

امریکی قرارداد کے بعد پاکستان کی ساری قوتوں کو ہوش میں آ جانا چاہیئے۔ اس روز ایک پرائیویٹ چینل پر بلوچستان کے ایک لیڈر نے ایک فقرہ کہا تھا.... یہ کہ موجودہ حکومت نے روٹی کپڑا اور مکان دینے کا وعدہ کیا تھا۔ روٹی کے بدلے ہمیں گولی دی، کپڑے کی جگہ کفن اور مکان کی جگہ قبر.... کچھ لوگ یہ فقرہ سن کر زور سے ہنسے.... مگر میری آنکھوں میں آنسو آ گئے.... صورت حال یہ ہے تو حکومت کو رات کو نیند کیسے آتی ہے.... تمہاری مصلحت کی فصیلیں اتنی کمزور ہیں تو حملہ آور کیوں نہ آئیں گے۔ ایک بھلے سے شاعر نے کیا خوب کہا تھا
دیوار کیا گری میرے کچے مکان کی
لوگوں نے گھر کے صحن میں رستے بنا لئے
 
خبر کا کوڈ : 139213
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش