0
Wednesday 22 Aug 2012 03:09

دہشت گردوں کی طرز فکر کے عناصر ترکیبی

دہشت گردوں کی طرز فکر کے عناصر ترکیبی
تحریر: ایم کے بہلول

بچوں کا قتل فرعونیت کی انتہا ہے لیکن عورتوں پر تشدد اور ان کی بے حرمتی، عبادت گاہوں کی بے حرمتی کرکے انہیں جلا دینا، تھکے ہارے نہتے مسافروں پر تشدد اور ان کا سفاکانہ قتل، لاشوں کی بے حرمتی، لاشوں پر پتھراؤ، ان کی توہین کرنا اور صرف عقیدے میں اختلاف رائے کی بناء پر انسانوں کو بے دریغ قتل کرنا یہ ایسے جرائم ہیں جسے فرعون، نمرود، چنگیز خان اور ہلاکو خان جیسے خونخوار افراد نے بھی انجام نہیں دیا۔ ان غیر انسانی جرائم کی ابتداء یزید کی دادی ہندہ سے ہوئی۔ جس نے جنگ احد میں حضرت حمزہ سید الشہداء (ع) کا سینہ چاک کیا، جگر کو نکال کر چبایا اور اعضاء کاٹ کر ہار بنایا۔ اس کے بعد خوارج نے یہ سلسلہ آگے بڑھایا اور یزید نے اسے انتہاء تک پہنچایا اور پست ترین حرکتوں کا نمونہ پیش کیا۔

آج انہی خوارج اور یزید کی ناجائز اولاد بھی انہی کے نقش قدم پر چل کر وحشی پن اور ظلم و بربریت کے نت نئے طریقے ایجاد کر رہی ہے۔ لیکن افسوس کا مقام ہے کہ آج کے یہ خارجی اور یزیدی خود کو اہل سنت کے بھیس میں پیش کر رہے ہیں اور مسلمانوں کا یہ مکتب فکر مفت میں بدنام ہو رہا ہے لیکن پھر بھی وہ اس پر خاموش ہیں۔ لگتا ایسا ہے کہ وہ یزیدوں کے اس فعل پر راضی ہیں یا پھر مکمل بےبس؟ نہ صرف اہل سنت بلکہ ارباب اختیار اور آزاد عدلیہ بھی ان سے مرعوب دکھائی دیتی ہے، جس کی وجہ سے وطن عزیز اور اسلام کی ساکھ کو بڑا دھچکا لگ رہا ہے۔

آئیے ذرا دیکھتے ہیں کہ اس طرز فکر کے عناصر ترکیبی کیا ہیں؟ اس رویئے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ اور ہماری ذمہ داری کیا بنتی ہے؟ وطن عزیز کا ہر باشعور فرد جانتا ہے اور اس حقیقت سے بخوبی آگاہی رکھتا ہے کہ مذہب کے نام پر بننے والی دہشت گرد تنظیمیں جنرل ضیاء الحق کی باقیات ہیں۔ جنرل ضیاء الحق نے امت مسلمہ کی صفوں میں انتشار پھیلانے اور امریکی عزائم کو للکارنے والے طبقے کو ختم کرنے کے لیے اربوں ڈالر خرچ کرکے ایک مخصوص طبقے کی پرورش کی اور ان کے دل و دماغ میں خارجیت اور ناصبیت کو کوٹ کوٹ کر بھر دیا۔

ان افراد کی شخصیت کی عمارت کھڑی کرنے کے لیے مندرجہ ذیل مواد سے استفادہ کیا۔ خارجیوں کی تنگ نظری، شدت پسندی اور مخالف رائے و عقیدہ رکھنے والوں کو کافر و واجب القتل قرار دینا، آل محمد (ع) سے دشمنی و عداوت، فرعون و نمرود کی سفاکی و بربریت، چنگیز خان، مسولینی اور ہٹلر کی درندگی، ہندؤں اور یہودیوں کی دھوکہ دہی و مکاری، عصر حاضر کے سربوں سے انسانی اخلاقیات سے انحراف، عورتوں اور نہتے مسافروں کا قتل، نسل کشی اور لوٹ مار، جبکہ کمیونیزم اور مغربی فلسفہ حیات سے دینی اقدار کی پامالی اور اپنی نفسانی خواہشات کو حق و باطل کا معیار سمجھنا ہے۔

ان تمام عناصر سے جو معجون تیار ہوا وہ پاکستان میں ’’ طالبان اور مذہبی دہشت گرد ‘‘ کے نام سے متعارف ہوا۔ اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ طالبان یا مذہبی دہشت گرد مذہب کے نام پر جو بھی قدم اٹھاتے ہیں اُس میں قرآن و اسلام کا صرف نام ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ لوگ اہل سنت مکتب فکر سے تعلق رکھنے کا دعویٰ تو کرتے ہیں، لیکن عملاً اپنی خواہشات کے علاوہ کسی بھی آئمہ مذاہب کے فتاویٰ و تعلیمات پر عمل نہیں کرتے۔

سچ بات تو یہ ہے کہ دہشت گردوں کی ان سفاکانہ کاروائیوں، بہیمانہ رویوں، جارحانہ عزائم، مسلمانوں اور اسلامی تعلیمات کے خلاف کی جانے والی بغاوتوں نیز مسلمان ریاست میں کسی کے مال و دولت کی لوٹ مار اور قتل و غارت گری کے جواز پر قرآن و سنت میں کوئی دلیل موجود نہیں اور نہ ہی آئمہ مذاہب کا کوئی فتویٰ موجود ہے۔ واضح اور روشن طور پر کہا جاسکتا ہے کہ ان کا رویہ اور حرکات ناجائز، غیر اسلامی اور دین سے کھلی بغاوت ہیں۔ لہذا یہ لوگ دین سے خارج ہیں۔ مسلمان ریاست اور عوام پر فرض ہے کہ وہ ان انسان نما درندوں کے ساتھ قانونی محاسبہ کے تحت نمٹیں۔

چلاس اور کوہستان میں اگرچہ معتدل مزاج اہل سنت برادری کی اکثریت ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ علاقہ عرصہ دراز سے دہشت گرد تنظیموں کے لئے افرادی قوت فراہم کر رہا ہے اور یہاں خوارج کی ذہنیت کے حامل افراد کی کثیر تعداد بھی موجود ہے۔ ان کی سفاکانہ روش اور فرعونیت کے سامنے حقیقی اہل سنت برادری مرعوب نظر آتی ہے۔ اس مرعوبیت کی وجہ سے وہ خلوت میں بھی اختلاف رائے کے اظہار سے ڈرتی ہوئی نظر آتی ہے کہ کہیں یہ دہشت گرد ہمیں بھی اپنی دہشت گردی کا نشانہ نہ بنائیں کیونکہ وطن عزیز میں متعدد اہل سنت شخصیات اور مذہبی مقامات دہشت گردی کا نشانہ بن چکے ہیں۔

بظاہر دہشت گردی کا یہ سرکش طوفانی ریلا بڑا طاقتور، ناقابل شکست اور ہولناک نظر آتا ہے لیکن قرآن پر اگر ہمارا پختہ ایمان ہو اور اللہ کے وعدوں پر اعتماد و یقین ہو تو یہ جان لینا چاہیے کہ اللہ تعالی نے اس قسم کی باطل تحریکوں کے وقتی اٹھان، ظاہری غلبہ و تسلط اور رعب و دبدبے کو جھاگ سے تشبیہ دی ہے جو پانی کی سطح پر چند لمحوں کے لئے پیدا ہوتے ہیں، مسحور کن رقص کرتے ہیں اور پھٹ کر اپنا نام و نشان تک مٹا دیتے ہیں ( سورہ رعد آیت نمبر 17 )۔ جبکہ دوسری جانب خدا فرماتا ہے کہ جب کسی معاشرے میں عقیدتی و فکری خلاء پیدا ہوجائے تو باطل اسے پر کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن جب اس خلاء کو پر کرنے کے لئے حق آگے بڑھتا ہے تو باطل پر کاری ضرب لگاتا ہے، باطل کا سر کچل دیتا ہے اس طرح باطل نیست و نابود ہوجاتا ہے ( سورہ اسراء آیت 81 اور سورہ انبیاء آیت 18 )۔

مذکورہ بالا حقائق کی روشنی میں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ مملکت خداداد پاکستان کے سچے وفادار، مہذب باشعور سنجیدہ فکر و نظر کے حامل، قرآن و سنت کا گہرا و عمیق مطالعہ رکھنے والے اور ملکی سالمیت و اتحاد امت کے حامی علماء و دانشور، سیاست دان اور ارباب حل و عقد مل بیٹھیں اور شیعہ سنی عوام کو اسلام کی حقیقی تعلیمات سے روشناس کرائیں۔ ساتھ ہی ساتھ فتنہ خوارج و ناصبی عناصر کے تباہ کن اثرات سے لوگوں کو آگاہ کریں اور اپنی صفوں میں وہ مثالی اتحاد، برادری و اخوت، یکجہتی و ایثار و فدا کاری کا جذبہ پیدا کریں جو تحریک پاکستان کے ان مسلمانان ہند کے درمیان موجود تھا۔ اگر ہمارے سیاسی و مذہبی قائدین، اہل قلم، دانشور، میڈیا، عدلیہ، مجریہ ذرا ہمت و جرات سے کام لے اور دینی و ملی ذمہ داریوں کو پچاس فی صد بھی درست انجام دیں تو استحکام پاکستان کا مخالف یہ شرپسند طبقہ اپنی موت آپ مر جائے گا۔
خبر کا کوڈ : 189025
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش