1
0
Saturday 22 Sep 2012 10:40

اسلوبِ احتجاج

اسلوبِ احتجاج
تحریر: سید قمر رضوی
qamaraza@gmail.com

آج اس ملک کی تاریخ کا ایک انوکھا دن تھا، جب مسلمانانِ پاکستان نے اپنے رسول (ص) سے عشق کا دن منایا۔ ویسے یہ ایک کم مضحکہ خیز بات نہیں کہ سراپا عشق و معشوقِ خدا سے عشق کرنے کے لئے بھی اب دن کے اختصاص کی ضرورت پڑگئی۔ یہ ضرورت پڑی بھی یوں کہ عشقِ رسول (ص) کا دم بھرنے والے غفلت کی گہری نیند سوئے رہے اور وہاں طاغوت کی حکمتِ عملی اپنی اگلی منزل میں داخل ہوگئی، جسکے نتیجے میں رسولِ گرامیء قدر کی شانِ اقدس میں پے در پے دو حملے کئے گئے۔ مسلمان جاگے تو سہی، لیکن دیر بہت ہو چکی تھی۔ کاش یہ سوتے ہی نہ تو آج اس دن کو منانے کی ضرورت پیش آتی اور نہ ہی یہ دن دیکھنا پڑتا۔

ہائے ہائے ۔۔۔۔ کیا دن دیکھنا پڑ گیا کہ جسے مختص تو اپنے رسول (ص) سے اظہارِ محبت کے لئے کیا گیا تھا، لیکن وائے مسلمانوں کی بدنصیبی کے یہ تو احتجاج بھی نہیں کرسکتے! ہزاروں عاشقانِ رسول (ص) اپنے عشق کے اظہار کے لئے جہاں اپنے گھروں سے نکل کر سڑکوں پر آئے، وہیں اپنی رگوں میں آگ لئے ایک ٹولے کی آتش فشانی نے سب کچھ ہی جلا ڈالا۔ ایسے غیر محسوس طریقے سے یہ لشکر پرامن احتجاج میں شامل ہوا کہ کسی کو خبر بھی نہ ہوئی کہ عزائم کیا ہیں۔ حیران ہوں طاغوت کی قوتِ خبیثہ پر کہ وہ رسول (ص) جو خود ایک لاکھ تئیس ہزار نو سو ننانوے انبیاء و مرسلین کے اوصافِ عالیہ کا تنہا مرقع تھا، کی شان کی میں پہلے تو امریکہ اور یورپ میں گستاخیاں کی گئیں اور پھر اسی کی محبت میں منائے جانیوالے دن کو وطنِ عزیز میں کس طرح خاک و آگ کی نذر کر دیا گیا۔ 

پورے ملک میں آج طے شدہ منصوبے کے تحت پرامن احتجاج کے پروگرام مرتب کئے گئے تھے کہ دنیا کو یہ دکھانا مقصود تھا کہ اگرچہ رسولِ ختمی مرتبت (ص) کی شان میں کسی قسم کی کوئی گستاخی نہیں ہونی چاہئیے تھی، لیکن اگر کوئی ملعون یہ قبیح کام کر گزرے تو اس کو یہ جان لینا چاہیئے کہ کوئی بے عمل کلمہ گو بھی اپنے رسول (ص) کی شان کی حفاظت میں اپنی جان قربان کرنا اپنا فخر سمجھے گا۔ لیکن خدا کے خوف سے بالکل عاری آگ سے بنے ہوئے مہلت شدہ شیطان نے دیکھتے ہی دیکھتے لاکھوں عاشقانِ رسول (ص) کے احتجاج کے جلوسوں کو یرغمال بنا کر رکھ دیا اور ایسی آگ لگائی کہ جس سے ملک کی املاک تو راکھ ہوئیں ہی، لیکن اسکے شعلے تادیر مسلمانوں کے دلوں میں بھڑکتے رہیں گے۔

یہ نکتہ قابلِ غور ہے کہ سادہ لباس میں ملبوس شیطانی فوج کی بظاہر تمام تر کوشش ایک مخصوص مقام تک جا کر اس پر حملہ کرنے کی تھی، لیکن تمام دنیا نے دیکھا کہ ایسا ہوا نہیں۔ کیوں؟ کیونکہ آقا کی جانب سے حکم ہی اتنا تھا کہ شہر بھر کا امن و امان تباہ کرکے سرحد سے ہی لوٹ جانا۔ ابھی وہاں تک جانے کا وقت نہیں آیا۔ جب ضرورت پڑے گی تو آگے تک بھی بلوالیا جائیگا اور پھر شاید وردی والی فوج کمان سنبھال لے گی۔ (خاکم بدہن) یہ کیسا یومِ عشق تھا جو یومِ وحشت میں ڈھل گیا۔ وہ وحشت کہ جو کبھی جان نہ چھوڑے گی۔

پرامن حالات میں اپنے شیطانی ہیجان سے بے چینی پیدا کرنا، اشراف کی شان میں گستاخی کرنا، امن و امان کو جنگ و جدال کی جانب لیکر جانا، قتل و غارت گری کرنا، معصوم لوگوں کو ہراساں کرنا، آگ لگانا اور اسکے بعد لوٹ مار کرنا، یہ محض آج کے دن کا قصہ نہیں ۔۔۔۔ میں جب یہ چار پانچ کام ہوتے دیکھتا ہوں تو چشمِ تصور میں کربلا و مدینہ نظر آتے ہیں۔۔۔۔

وہاں بھی امن و امان کی خرابی، شرفاء کی اہانت، مسلط کردہ جنگ، خوف و ہراس کی فضا، جلا ہوا دروازہ یا جلے ہوئے خیمے اور لوٹ مار کے مناظر ہی نظر آتے ہیں۔ وہاں بھی اکثریت کی خاموشی کی وجہ سے خانوادہء رسول کی اہانت ہوتی رہی۔ اور آج بھی اکثریت کی غفلت کے باعث پہلے تو رسول اللہ (ص) کی اہانت کی جاتی ہے اور پھر اکثریت ہی کی مہر بہ لبی اور مصلحت انگیز خاموشی کی وجہ سے آجکا ابنِ زیاد کمالِ تسلی سے آگ اور خون کا اپنا کھیل کھیل کر رقصِ شیطانی میں مگن نظر آتا ہے۔

دوسری جانب نظر کروں تو سو فیصد متضاد ایک اور عجب صورتِ حال ہے ۔۔۔
رسولِ کریم (ص) کی کریم آل (ع) نے اپنے عاشقان کو اپنے بحرِ عشق میں غلطاں ہو کر جہاں لہو میں شناوری کا ڈھنگ سکھایا، وہیں اگر زندہ رہنا پڑ جائے تو باطل کے خلاف ڈٹ کر احتجاج کرنے کا بھی خوب ہی اسلوب سکھلایا ہے۔ چنانچہ زینب و سجاد علیہم السلام کے رائج کردہ اس احتجاج کا سلسلہ و طریقہ آج بھی جاری ہے کہ جس سے نہ صرف اس دور کا یزید برہنہ ہوا ہی تھا بلکہ ہر زمانے کا طاغوت بے نقاب ہوتا رہا۔ کاروانِ آلِ رسول (ع) کے کربلا سے کوچ کی گھڑی سے ہی احتجاج کا اٹوٹ سلسلہ شروع ہوا، جو آج تک جاری ہے۔ 

اس احتجاج کو جاری رکھے ہوئے آل و عاشقانِ رسول (ص) کا پاکیزہ خون تو غذائے خاک بنتا رہا، لیکن احتجاج کناں مظلومین کی جانب سے ایک پتے کا نقصان بھی چشمِ فلک نے نہ دیکھا ہوگا۔ آج بھی بیروت ہو یا تہران! وارثانِ سیدِ سجاد (ع) جب اپنے آقا کی سنت ادا کرتے ہوئے میدان میں آتے ہیں تو ایوانِ یزید میں لرزہ طاری ہو جاتا ہے۔ نہ توڑ پھوڑ، نہ جلاؤ گھیراؤ، نہ پتھراؤ، نہ لوٹ مار اور نہ ہی گالم گلوچ!۔ کیا کرتے ہیں یہ کربلا والوں کو رونے والے؟ بس اپنے گھر چھوڑ کر سڑک پر ہی تو آتے ہیں۔
 
لیکن جب عشقِ رسول (ص) کی شمع دلوں میں روشن ہو تو نہ کسی اسلحے کی ضرورت رہتی ہے اور نہ ہی باطل کا خوف دلوں کو ملول کرسکتا ہے، کہ خدا کی مدد بھی مومنین کے ساتھ ہوتی ہے اور اس نے سکون کو بھی قلوبِ مومنین پر ہی نازل فرمایا ہے۔ یہ عیاں ہے کہ یہی وہ حزب اللہ اور حزب العاشقین ہے جو نہ صرف آج اپنے رسول (ص) کی ناموس کی محافظ ہے، بلکہ کل وارثِ رسول (ع) کی سرکردگی میں اب تک کی گئی ایک ایک اہانت کا حساب چکائے گی۔ انشاءاللہ۔
خبر کا کوڈ : 197501
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

United Kingdom
Thought Provoking Article
متعلقہ خبر
ہماری پیشکش