1
0
Friday 9 Nov 2012 10:02

اوباما کی فتح اور مسلم دنیا کی توقعات

اوباما کی فتح اور مسلم دنیا کی توقعات
تحریر: جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم 
 
اٹھارویں صدی کے دوسرے حصے میں جب امریکہ نے اپنا آئین بنایا اور ملک کو چلانے کے لیے ایک سیاسی ڈھانچہ تشکیل دیا تو پھر دیانتداری کے ساتھ اس کی حفاظت بھی کی۔ امریکہ میں کمزور حکومتیں بھی آئیں لیکن شاید ہی کوئی صدر ایسا آیا ہوگا کہ جس نے ملکی وسائل کو لوٹ کر اپنے آپ کو دنیا کے چند امیر ترین افراد میں شامل کیا ہو اور ریاست کو کنگال کر دیا ہو، یہی وجہ ہے کہ امریکہ بیسویں صدی میں دنیا کا بے تاج بادشاہ بن گیا۔ اس میں شک نہیں کہ آج بھی اکیسویں صدی میں امریکہ سیاسی، معاشی اور فوجی لحاظ سے دنیا کا مضبوط ترین ملک ہے۔ جس کے ساتھ بہترین سیاسی، سفارتی اور معاشی تعلقات ہر ملک کے مفاد میں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تقریباً تمام ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے دانشور حاکموں اور سمجھدار قیادت نے امریکہ کے ساتھ تعلقات میں ایک ایسا خوبصورت توازن قائم رکھا کہ اپنے مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے وہ امریکی غضب کا نشانہ بنے، نہ امریکہ کی گود میں گھس کر اپنی آزادی اور خودمختاری سے دستبردار ہوئے۔ پاکستان دنیا کا واحد بدنصیب ملک ہے جس نے گنڈھے کھائے اور سزا بھی کاٹی۔ 

ہم نے سویت یونین کی جاسوسی کے لیے امریکہ کو یوٹو ڈراؤن اڑانے کے لیے بڈبیر پشاور کا اڈہ دیا۔ چین کے ساتھ امریکہ کے تعلقات قائم کرنے کے لیے راہ ہموار کی۔ دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ میں نہ صرف پڑوسی افغان مسلمان ملک کے ساتھ تعلقات میں یوٹرن لیا بلکہ افغانی سفیر کو پکڑ کر امریکیوں کے حوالے کر دیا۔ پھر چالیس ہزار بے گناہ پاکستانیوں کی جانوں کا اس بے ہودہ اور بے مقصد یکطرفہ قتل و غارت میں نذرانہ پیش کر ڈالا۔ ہوائی اڈے، بندرگاہیں اور ہوائی راستے بھی اس گناہ بے لذت کے لیے امریکہ کی ہتھیلی پر رکھے، اس کے باوجود امریکہ نے پاک فوج اور آئی ایس آئی کو دہشت گردوں کا ساتھی کہا اور اپنے صدارتی مذاکروں میں پاکستانی حکومت کو کٹھ پتلی کہا جس کی باگ ڈور آئی ایس آئی اور فوج جیسے ماتحت اداروں کے ہاتھ میں بتائی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ صدر اوباما نے یمن کے صدر کو تو ملاقات کا وقت دیا لیکن پاکستانی صدر امریکہ پہنچ کر بھی امریکی صدر سے ملاقات سے محروم رہے۔ یہ بھی پاکستان کی تذلیل کا ایک بھونڈا انداز تھا۔ پاکستان کی 65 سالہ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ہماری معاشی خوشحالی کا دارومدار بین الاقوامی معاشی فضا پر کم اور امریکی امداد اور آشیر باد پر زیادہ رہا ہے۔
 
1947ء سے 1958ء تک ہم امریکی امداد پر چلے، اس لیے کہ سیٹو اور نیٹو پر دستخط کئے۔ 1958ء سے 1969ء تک امریکہ نے ایوب خان کی فوجی حکومت کو ہر طرح کی مدد دی، اس لیے کہ سرد جنگ میں کیمونسٹ سویت یونین کے خلاف پاکستان کو استعمال کیا گیا۔ 1960ء میں ہونے والا U2 جاسوس جہاز کا واقعہ سب کو یاد ہے۔ امریکی امداد اور پاک امریکہ خوشگوار تعلقات کی وجہ سے پاکستان کی GDP 6.8 فیصدی ہوگئی۔ پاکستان کی برآمدات ملیشیاء، انڈونیشاء اور تھائی لینڈ کی مشترکہ برآمدات سے بھی زیادہ تھیں۔ کراچی دنیا کا مالیاتی رول ماڈل شہر بنا۔ جنوبی کوریا نے ہمارا دوسرا پنجسالہ منصوبہ نقل کیا۔ امریٹ ہوائی کمپنی نے پی آئی اے سے مدد حاصل کی۔ تربیلا اور منگلا ڈیم بنے۔ یہ وہ دور تھا جب امریکہ پاکستان سے بہت خوش تھا۔
 
1972ء سے 1979ء تک سول حکومت آئی، جس نے ایٹمی طاقت بننے کی خواہش ظاہر کی تو امریکہ ناراض ہو گیا۔ سائمنگٹن پابندی لگا کر ہماری امداد روک لی اور پاک امریکہ سرد جنگ شروع ہوگئی۔ پاکستان نے چین اور غیر جانبدار ممالک کے ساتھ روابط بڑھانے کی کوشش کی تو امریکہ نے ذوالفقار علی بھٹو کو Horrible Example بنانے کی دھمکی دے دی۔ امریکی پابندیوں کی وجہ سے ہماری GDP 6.8 فیصدی سے گر کر پھر 3 فیصد تک جا پہنچی۔ 1979ء سے لے کر 1988ء تک جب سویت یونین افغانستان پر قابض ہوگیا تو امریکہ کو ایک بار پھر پاکستان کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اس وقت کی فوجی حکومت کو ہر طرح کی معاشی اور فوجی امداد دی گئی۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کو ہاتھ ہلکا رکھنے کا اشارہ کیا تو پاکستان کی GDP کی شرح نمو پھر 3 فیصدی سے بڑھ کر 6.6 فیصدی ہو گئی۔ 

1988ء کے بعد جب سویت یونین افغانستان چھوڑ کر بھاگا تو امریکہ نے پاکستان پر پریسلر ترمیم لاگو کر دی اور بے نظیر اور نواز شریف سول حکومتوں پر اتنی پابندیاں لگائیں کہ پاکستان کا جینا محال کر دیا۔ GDP کی شرح پھر 3 فیصدی تک گر گئی۔ 1999ء میں فوجی بغاوت اور 2001ء کے نیویارک ٹون ٹاورز پر حملے کے بعد امریکہ پھر فوجی حکومت سے گھی شکر ہوگیا۔ معاشی اور فوجی امداد اور امریکی آشیرباد کی بدولت GDP کی شرح نمو تقریباً 7 فیصدی ہوگئی۔ فوجی حکومت کے جانے کے بعد جب منتخب عوامی حکومت نے ہر امریکی مطالبہ ماننے سے انکار کر دیا اور ڈرون حملوں پر تنقید کی تو امریکہ نے اعلان جنگ کیے بغیر پاکستان کے خلاف ننگی جارحیت کا ارتکاب شروع کر دیا۔
 
ریمنڈ ڈیوس کے ہاتھوں پاکستانیوں کا قتل، ایبٹ آباد پر ہوائی حملہ، سلالہ پوسٹ پر امریکی یلغار اور سینکڑوں ڈرون حملوں نے پاکستان کی خود مختاری اور آزادی کی دھجیاں اڑا کر رکھ دیں۔ نتیجہ کیا نکلا، اس ایشین صدی میں جہاں چین، جاپان، ہندوستان اور بنگلہ دیش اور سری لنکا جیسے ممالک معاشی لحاظ سے مضبوط ترین ہوئے ہیں، پاکستان کی GDP کی شرح نمو 3 فیصدی سے بھی نیچے گر گئی ہے۔ چونکہ امریکہ کی طفیلی ریاست ہونے کے ناطے ہماری خوشحالی کا دارومدار بین الاقوامی معاشی فضا پر کم اور امریکی خوشنودی پر زیادہ ہے۔ 

اب اوباما دوسری ٹرم کے لیے صدر منتخب ہوچکا ہے، جو اس کو مبارک ہو۔ امریکی انتخابات سے پاکستان بہت سارے اسباق حاصل کرسکتا ہے۔ امریکی قوم نے میرٹ پر ایک کالے کو گورے پر فوقیت دی۔ انتخابی مہم میں امیدواروں نے ایک دوسرے پر ذاتی حملے کرکے اپنے آپ کو ننگا نہیں کیا۔ زیادہ بڑا ایشو ملکی معاشی صورتحال رہا۔ اوباما کی پالیسیوں پر کھل کر تنقید بھی ہوئی۔ انتخابات دھماکوں اور قتل و غارت سے پاک تھے۔ ہارنے والوں نے وقار کے ساتھ ہار قبول کی اور جیتنے والے کو مبارک دی، کوئی دھاندلی ہوئی نہ اس کا کوئی الزام سامنے آیا۔
 
قارئین مذکورہ بالا اچھی روایات کے علاوہ اس انتخابی مہم میں چند تلخ حقائق کا بھی ذکر ہونا چاہیے۔ 1۔ پوری دنیا جانتی ہے کہ بش کی ری پبلکن حکومت کا عراق اور افغانستان پر حملہ غیر قانونی، غیر اخلاقی اور غیر انسانی تھا۔ اقدار اور Values کی بات کرنے والی غیور امریکی قوم کا ڈیموکریٹ صدارتی امیدوار اس معاملے پر کیوں خاموش رہا اور ری پبلکن امیدوار نے اس جرم کا اعتراف کیا نہ معافی مانگی۔
2۔ امریکہ کی حالیہ صدارتی انتخابات کی مہم میں پاکستان، افغانستان، عراق اور یمن میں امریکہ کے ہاتھوں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر امیدواروں نے اپنی قوم اور پوری دنیا سے کیوں معافی نہ مانگی؟
3۔ دونوں امیدوار گوانتاناموبے کے قیام اور اس میں ہونے والے انسانیت سوز مظالم پر کیوں خاموش رہے۔ ری پبلکن نے یہ جیل بنائی اور ڈیموکریٹس نے اسے ختم کرنے کا وعدہ کیا لیکن پھر وعدہ خلافی کی، کیوں؟
 
4۔ ڈرون حملے کولڈ بلڈڈ قتل کے مترادف ہیں، جن میں آپ خود ہی جج، جیوری اور سزا دینے والے بن جاتے ہیں۔ امریکی ماہرین قانون اس کو بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کہتے ہیں۔ دونوں امیدواروں نے اس پر نادم ہونے کی بجائے پاکستان پر ڈرون حملے جاری رکھنے پر بے شرمی سے اتفاق کیا اور کسی نے بے گناہ مقتولین کے لواحقین سے ہمدردی نہ کی۔
5۔ دونوں امیدواروں نے ایران پر کڑی تنقید کی، لیکن فلسطینیوں کے حقوق پر دونوں خاموش تھے۔ کیا اس کو ہم امریکی قوم کی عظمت سمجھیں۔
6۔ پچھلی صدارتی انتخابی مہم میں اوباما نے کہا تھا کہ جنوب ایشیاء کا مسئلہ اس وقت حل ہوگا جب کشمیر کے فلیش پوائنٹ کو ختم کیا جائے گا۔ اس دفعہ دونوں امیدواروں میں اتنی اخلاقی جرات نہ تھی کہ وہ ہندوستان کو ناراض کرتے۔ امریکہ کی انصاف پسندی اور وہ High Values کدھر ہیں، جن پر امریکی قوم نازاں ہیں۔

قارئین کرام!
امریکہ کا نو منتخب صدر امریکی قوم کی معاشی حالت کو ضرور بہتر کرے لیکن دوسرے ممالک جہاں امریکیوں جیسے ہی انسان بستے ہیں، ان کا جینا محال نہ کر دے۔ صدر اوباما کو پتہ ہونا چاہیے کہ اس کی پچھلی ٹرم کی پالیسیوں کو تو امریکی عوام نے اس کو دوبارہ منتخب کرکے سراہا ہے لیکن باقی تیسری دنیا اور خصوصاً مسلمان ریاستیں صدر اوباما کے دور میں امریکی عذاب کا شکار رہی ہیں، جس میں جانی قربانیوں کے حساب سے پاکستان سرفہرست ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ صدر اوباما اب اپنی خارجہ اور سکیورٹی پالیسی میں بنیادی تبدیلیاں لائے گا اور دوسری قوموں کو بھی جینے کا حق دے گا، چونکہ اس نے خود اپنی جیت کے بعد تقریر میں کہا ہے کہ بہتر حالات ابھی آنے ہیں۔
 اوباما نے کہا:
"The road has been hard and our journey has been long. Now we have picked our selves up, but we know the best is yet to come".
مسلمان دنیا کے مظلوم واقعی سمجھتے ہیں کہ
The best in yet to come.
اللہ کرے ایسا ہو۔ آمین
خبر کا کوڈ : 210433
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
we are indepandent nation so we are depand in another nation polcies so can do ourself and batter then other nation but we will have to enhance the passasion of sacrifice . it is most integral part of developing our confidance all over the world . regard M.yaqoob jaffery?????f
ہماری پیشکش