0
Tuesday 19 Feb 2013 20:18

افغانستان، مذاکرات مذاکرات، نتیجہ کچھ بھی نہیں

افغانستان، مذاکرات مذاکرات، نتیجہ کچھ بھی نہیں
تحریر: رشید احمد صدیقی 

چار فروری کو لندن میں برطانوی وزیراعظم کی میزبانی میں پاکستان اور افغان صدور کے درمیان مذاکرات ہوئے۔ پاکستانی وفد میں مسلح افواج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی اور وزیر خارجہ شامل تھے۔ مذاکرات کے اختتام پر اعلامیہ کا خلاصہ یہ تھا کہ طالبان امریکہ کے ساتھ مذاکرات کریں، پاکستان اور افغان حکومتیں تعاون کریں گی۔ اگلے روز امریکہ نے اعلامیہ کا خیر مقدم کرتے ہوئے طالبان کو دوہا قطر میں دفتر کھولنے کی درخواست یا پیشکش بھی کر دی۔ فروری کے دوسرے ہفتے میں دوہا قطر میں طالبان کے نمائندے اور امریکہ کے سرکاری لوگ مذاکرات کے لیے موجود تھے۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ لندن مذاکرات میں انتہائی اعلیٰ اختیاراتی پاکستانی وفد کی موجودگی میں طالبان سے مذاکرات کی جو اپیل کی گئی ان مذاکرات میں پاکستان کی شرکت کی کوئی بات نہ تھی۔ البتہ جب دوہا میں مذاکرات شروع ہوئے تو پاکستان کے ایک انتہائی اہم سیاستدان مولانا فضل الرحمان وہاں پہنچ گئے۔ یہاں ان کی جماعت کے اہم رہنماء حافظ حسین احمد نے نوشہرہ میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ مولانا فضل الرحمان ضامن کے طور پر امریکہ طالبان مذاکرات میں شرکت کے لیے قطر چلے گئے ہیں۔ یہ بھی بتایا گیا کہ فاٹا ارکان کے پارلیمانی لیڈر منیر اورکزئی بھی ا ن کے ہمراہ تھے۔ 

قطر میں پانچ روز تک مذاکرات ہوئے اور ان میں کوئی پیشرفت نہ ہوئی۔ ایجنڈا کوئی نہ تھا البتہ افغان مسئلہ موضوع تھا۔ میڈیا میں وہی بات دہرائی جاتی رہی کہ طالبان گوانتا ناموبے اور پاکستان میں اپنے اہم ترین رہنمائوں کی رہائی چاہتے ہیں جب کہ امریکہ کا ایک سپاہی بور باغدی طالبان کی قید میں ہیں۔ وہ اس کی رہائی چاہتے ہیں۔ پاکستان میں طالبان کے اہم ترین رہنماء قید میں ہیں۔ ان میں درجن کے قریب رہائی پا چکے ہیں اور باقی کے لیے پاکستان تیار ہے۔ یہ سب کچھ امریکہ کی خواہش پر ہو رہا ہے۔ اس کے باوجود پاکستان کو دوہا مذاکرات میں راہ نہیں دی جا رہی ہے۔ پاکستانی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے لندن سربراہ کانفرنس کے بعد اشارہ دیا تھا کہ افغان مسئلہ کے حل کے لیے پاکستان کا کردار بنیادی نوعیت کا ہے اور ہمارے بغیر کوئی پیشرفت نہیں ہوگی۔ 

طالبان اور امریکہ کے درمیان روابط 2010ء میں میونخ جرمنی میں استوار ہو چکے تھے اور مارچ 2012ء میں دوہا قطر میں ایک بےنتیجہ دور بھی ہو چکا ہے۔ ان مذاکرات کے لیے پاکستان، سعودی عرب، انگلینڈ، قطر، جرمنی اور امریکہ کوشاں ہیں۔ پھر بھی پاکستان کو براہ راست شریک نہیں کیا جا رہا ہے۔ گذشتہ سال مذاکرات میں طالبان اپنے پانچ اہم رہنمائوں جو گوانتا ناموبے میں قید ہیں کی رہائی چاہتے تھے۔ ان میں سابق وزیر داخلہ ملا خیر اللہ خیر خواہ، ملا نور اللہ نوری اور شہاب الدین شامل ہیں۔ یہ بھی عجیب بات ہے کہ ایک امریکی سپاہی کے لیے طالبان اپنے انتہائی اہم پانچ رہنمائوں کی رہائی چاہتے ہیں۔ رہائی کی شرط اتنی سادہ نہیں۔ صومالیہ اور یمن میں القاعدہ نے 13 امریکی اغواء کیے ہوئے ہیں جو غیر فوجی لیکن انتہائی اہم شخصیات ہیں۔ امریکہ ان کے لیے سودا بازی چاہتا ہے، لیکن دوسری جانب اس نے 2014ء میں افغانستان سے 34 ہزار فوجی نکالنے کا فیصلہ کیا ہے، وہ اصل میں کوئی ایسا طریقہ چاہتا ہے کہ افغانستان میں اس کا اثر و رسوخ  بھی قائم رہے اور جو ہزیمت اس کو اٹھانا پڑ رہی ہے اس سے چھٹکارا بھی مل جائے۔

دوہا میں مذاکرات کا ڈول ڈال کر وہ ایک نفسیاتی کیفیت کا اظہار کر 
رہا ہے۔ وہ طالبان کی سفارتی صلاحیت کو آزما رہا ہے اور اس راستے ان کے اعصاب کو جانچنا چاہتا ہے۔ اس طرح وہ ان کے عزائم سے آگاہی چاہتا ہے۔ دوسری جانب طالبان ایک نفسیاتی برتری کے ساتھ مذاکرات میں شریک ہیں۔ وہ امریکہ کو شکست خوردہ سمجھتے ہیں کہ کل تک ہمارا نام سننا گوارا نہ کرنے والا امریکہ اب مذاکرات کی میز پر آ گیا ہے اور ہمیں دفتر تک کھولنے کی پیشکش کر رہا ہے۔ تیسری جانب اس کی جنگی شریک کار القاعدہ ہے۔ وہ اتنی سخت گیر تحریک ہے کہ امریکہ کا نام سننا گوارا نہیں کرتی۔ افغانستان میں مشکلات کے بےشک وہ شکار ہیں لیکن ان سے زیادہ مشکل امریکہ کو درپیش ہیں۔ القاعدہ نے یہ طریقہ اپنا رکھا ہے کہ امریکہ کے لیے محاذوں کی تعداد بڑھائی جائے۔ چناچہ مصر، لیبیا اور تیونس کے بعد جہاں امریکہ کو ہزیمت اٹھانی پڑی اور القاعدہ کے خوف سے وہاں انتخابی میدان اس کو گورار کرنا پڑا۔ اس کے باوجود تینوں ممالک میں امریکہ کے بہی خواہ شکست سے دوچار ہوئے ہیں۔

القاعدہ اب افریقہ کا رخ کر گئی ہے اور وہاں مالی اور صومالیہ میں امریکہ کو مصروف کر رہی ہے۔ عراق میں بھی امریکہ کو شدید مشکل کا سامنا ہے، چنانچہ دوہا مذاکرات ایک پنج آزمائی تھا جو ناکام ہوا لیکن فریقین اس کو جاری رکھنے کی رائے پر تاحال قائم ہیں۔۔۔ اس میں مولانا فضل الرحمان کا کردار کافی دلچسپ رہا۔ ان کی جماعت کی جانب سے پہلا اعلان اہم ثالثی کا تھا۔ دوسرا اس کی تردید میں آیا اور مذاکرات کے اختتام پر ان کی سرگرمیوں کے بارے میں اطلاعات ہیں کہ قطر کے حکمرانوں سے ملاقاتیں کر رہے ہیں اور اسے ان کے لوگ طالبان مذاکرات کی ثالثی کا تسلسل گردانتے ہیں۔ لیکن طالبان نے ان کو ثالث مانا نہ ان سے ملاقات گوارا کی۔ اس خفت کو مٹانے کے لیے ان کے ترجمان نے ان کی قطر موجودگی کو ذاتی دورہ قرار دیا حالانکہ وہ پاکستان کی کشمیر کمیٹی کے چئیرمین ہیں اور ذاتی نہیں بلکہ سرکاری دورے کرتے ہیں۔ ان مذاکرات میں ضرورت پڑنے پر ان کو وہاں موجود رہنے کا کہا گیا اور ریتض شارلتون نامی ہوٹل میں ان کو ٹہرایا گیا۔ جہاں ایک رات کا خرچہ چار ہزار ڈالر بنتا ہے۔

مولانا ضامن نہیں ہو سکتے اس لیے کہ ان کے پاس کوئی قوت نافذہ نہیں۔ آج کسی نکتہ پر اتفاق ہو جائے اور کل کلاں کوئی فریق نہ مانیں تو ضامن اس کا کیا بگاڑ سکے گا۔ چنانچہ یہ حیثیت ان کی نہ تھی۔ ثالث بھی نہیں تھے کہ ان سے طالبان نے کوئی رابطہ ہی نہیں کیا تھا اور نہ ان کا پہلے سے طالبان سے کوئی رابطہ تھا۔ فریق بھی وہ نہیں تھے۔ البتہ ایک فریق کے معاون کے طور پر وہ وہاں موجود تھے تاکہ بوقت ضرورت ان سے مدد حاصل کی جا سکے لیکن اس کی نوبت نہ آئی۔ ان کے ترجمان کی وضاحت کافی تھی کہ وہ نجی دورے پر تھے لیکن اس سے پہلے ان کے بطور ضامن والی خبر کیوں نکالی گئی اور ایک ایسے موقع پر وہ کیوں وہاں گئے جب وہاں مذاکرات ہو رہے تھے۔ بن بلائے وہاں جانا ایک بڑے لیڈر کی شان کے ساتھ مناسبت نہیں رکھتا۔ 

اس کے ساتھ اے این پی کی جانب سے آل پارٹیز کانفرنس 14 فروری کو اسلام آباد میں بلائی گئی تھی۔ اگرچہ مولانا فضل الرحمان نے پہلے ہی روز اس کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا اعلان کر رکھا تھا اور اسے اے این پی کی اپنی ناکامیاں دوسروں کے گلے ڈالنے کے مترادف قرار دیا تھا لیکن بعد میں وہ شرکت پر راضی ہوئے، اچھا ہوتا کہ وہ خود اپنی جماعت کے وفد کی قیادت کرتے ہوئے ان مذاکرات میں شریک ہوتے لیکن وہ ا س اجلاس کو چھوڑ کر دوہا جا پہنچے۔ اے این پی کی آل پارٹیز کانفرنس کے اختتام پر مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا جس میں غیر مشروط مذاکرات کا اعادہ تھا اور آئین پاکستان کے اندر مذاکرات کی بات تھی کیونکہ طالبان کسی آئین اور قاعدہ کو نہیں مانتے۔ چنانچہ احتیاط کے طور پر آئین پاکستان کے اندر مذاکرات کی بات کی گئی۔ اجلاس کے اختتام پر اے پی سی کے میزبان اسفند یار ولی کی دو باتیں قابل غور ہیں کہ ہم کسی خوف سے یہ کانفرنس نہیں منعقد کر رہے ہیں کیونکہ جو نقصان ہونا تھا وہ تو ہو گیا ہے اب کیا کھونا ہے۔
 
مبصرین اس بات کو درست نہیں سمجھتے۔ اس جنگ میں اے این پی نے بلاشبہ سب سے زیادہ نقصان اٹھایا ہے لیکن انتخابات سر پر ہیں اور اگر یہ صورتحال برقرار رہتی ہے تو اس کے اہم قائدین انتخابی مہم نہیں چلا پائیں گے اور ان کی جانوں کو بھی خطرہ ہے۔ اس نقصان سے بچنے کے لیے اے این پی مذاکرات، غیر مشروط مذاکرات اور ہر حال میں مذاکرات کے لیے بےچین ہے۔ دوسری قابل غور بات یہ تھی کہ اسفند یار ولی خان نے پارلیمنٹ کی مشترکہ قرارداد سے اس کے اعلامیہ کا موازنہ کرتے ہوئے کہا کہ اس اجلاس میں پارلیمنٹ سے باہر کی جماعتیں بھی شریک ہیں۔ اس لحاظ سے اے پی سی کی وسعت اس سے زیادہ ہے، حالانکہ پارلیمنٹ میں غیر موجود جماعت اسلامی اور تحریک انصاف اے پی سی میں بھی موجود نہیں تھیں۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں جماعت اسلامی کے سینیٹر موجود تھے۔ محمود خان اچکزئی واحد فرق تھے جو پارلیمنٹ میں نہ تھے اور اس اجلاس میں شریک تھے۔ جو 24جماعتیں اور تنظیمیں اجلاس میں شریک ہوئیں، ان میں شیرپائو گروپ، مسلم لیگ ن، جے یو آئی (ف) اور میزبان جماعت کی اتحادی پیپلز پارٹی کے صف اول کے قائدین شریک نہیں ہوئے۔

نواز شریف نے چوہدری نثار کو بھیجا جو نامکمل شرکت کے بعد نکل گئے۔ قومی وطن پارٹی کے آفتاب شیرپائو نے تیسرے درجے کی قیادت کو بھیجا۔ اتحادی حکمران جماعت کے سربراہ بلاول بھٹو یا اہم وفاقی وزراء کے بجائے جنرل سیکرٹری جہانگیر بدر اور نسبتاً غیر معروف وزیر نذر محمد گوندل شریک ہوئے۔ اے این پی کو اے پی سی سے کچھ حاصل اس لیے بھی نہیں ہوا کہ جو کچھ کرنا ہے وفاقی حکومت کو کرنا ہے۔ اے این پی اس کی اتحادی ہے۔ وہ کسی صورت اتحاد سے نکلنے کو تیار نہیں اور موجودہ حکومت امریکہ سے آزاد خارجہ پالیسی تشکیل دینے پر کسی طور تیار نہیں۔ لگتا یہ ہے کہ اب الیکشن کے بعد آنے والی حکومت اصل کام کرے گی، تب تک اے این پی الیکشن مہم کیسے چلاتی ہے اور ملک میں کیا سیاسی صف بندی ہوتی ہے، فی الحال اس کا انتظار ہے اور افغان مسئلے میں کوئی بڑی پیشرفت ہونے کا بظاہر کوئی امکان نظر نہیں آرہا۔ تمام تر انحصار پاکستان کے آنے والے انتخابات پر رہے گا۔ اور الیکشن میں افغان پالیسی کی بازگشت بہرصورت سنائی دے گی۔
خبر کا کوڈ : 240664
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش