0
Friday 14 May 2010 13:12

شیطانی اتحادِ ثلاثہ

شیطانی اتحادِ ثلاثہ
فضل حسین اعوان
بھارت میں آج علیحدگی اور آزادی کی ایک سو سے زائد تحریکیں موجود ہیں لیکن ان میں سے سوائے آزاد کشمیر کی تحریک کے کسی دوسری کی کامیابی کا مستقبل قریب میں کوئی امکان نظر نہیں آتا۔آزاد کشمیر کی تحریک بھی کامیاب ہو چکی ہوتی۔اگر اقوام متحدہ غیر جانبداری سے اپنا کردار ادا کرتی۔اقوامِ متحدہ کی کشمیریوں کو حقِ خودارادیت کے حوالے سے دو قراردادیں موجود ہیں لیکن ان پر عمل درآمد نہیں ہو رہا۔اس کی بڑی اور واحد وجہ کشمیریوں کا مسلمان ہونا ہے۔پوری دنیا میں ایک بھی علیحدگی اور آزادی کی تحریک موجود نہیں،جس کا تعلق عیسائیت اور یہودیت سے ہو۔ 
انڈونیشیا میں مشرقی تیمور نے مسلمان ریاست سے الگ ہونے کی تحریک شروع کی تو اقوامِ متحدہ اس کی فوری مدد کو آ پہنچی اس کی فوجوں نے جہاں بندوق کی نوک پر ریفرنڈم کرایا،دنیا کے نقشے پر ایک اور عیسائی ریاست لا کھڑی کی اور بلا تاخیر مشرقی تیمور کو اقوام متحدہ کی رکنیت بھی عطا کر دی گئی۔اس سے قبل اقوام متحدہ اسرائیل کی صورت میں ناجائز بچے کو جائز قرار دے چکی ہے۔ مسلمانوں کے حوالے سے اقوامِ متحدہ،ہنود و یہود و نصاریٰ کا رویہ یکساں دشمنی پر مشتمل ہے۔فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کا نوٹس لیا جاتا ہے نہ کشمیریوں پر 8 لاکھ سے زائد بھارتی فوج کی یلغار کی کہیں شنوائی ہوتی ہے۔مسلمانوں کی تباہی اور بربادی یہود و ہنود اور نصاریٰ پر مشتمل اتحادِ ثلاثہ کا مخصوص اور متفقہ ایجنڈہ ہے۔جس میں اقوامِ متحدہ اس شیطانی اتحاد کی معاون ہے۔ 
نائن الیون کے بعد امریکہ نے افغانستان پر چڑھائی کی،دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دیکر ان کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا سلسلہ شروع ہوا،جو بڑھتے بڑھتے اور پھیلتے پھیلتے عراق اور پاکستان پر بھی محیط ہو گیا۔ایران اور شام کو دھمکانے کا سلسلہ جاری ہے۔اس حوالے سے غور طلب بات یہ ہے کہ نائن الیون کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی مسلمانوں پر یلغار کے ساتھ ہی بھارت میں مسلمانوں کا عرصہ حیات بھی تنگ کر دیا گیا۔
سوا ارب کی آبادی کے ملک میں جاری علیحدگی کی سو سے زائد تحریکوں میں ایک بھی مسلمانوں کی نہیں ہے،سوائے کشمیر کے۔ اس کے باوجود مسلمانوں کو دہشتگرد قرار دیا جاتا ہے۔بھارت میں مسلمانوں کو دہشتگرد قرار دینے کا سلسلہ امریکہ میں نائن الیون برپا ہونے کے بعد مسلمانوں کو اس کا ذمہ دار قرار دئیے جانے کے ساتھ ہی شروع ہو گیا جو دہشتگردی کے خلاف امریکہ کی نام نہاد جنگ کے متوازی چل رہا ہے۔بھارت میں حملہ چرچ پر ہو یا مندر پر۔پارلیمنٹ پر یا ٹرین پر،سینما گھر پر ہو یا ہوٹل پر،اس کا الزام بلا سوچے سمجھے مسلمانوں پر لگا دیا جاتا ہے۔غضب تو یہ ہے کہ مسلمانوں کے قبرستان،مساجد اور درگاہوں پر ہونے والے حملے بھی مسلمانوں کے کھاتے میں ڈال دئیے جاتے ہیں۔بھارت میں 12 فیصد مسلمان آباد ہیں۔ یہی بھارت کی بڑی اقلیت بھی ہیں۔روسی بلاک سے دوری اور امریکی بلاک سے قربت کے بعد بھارت کو ہر مسلمان دہشتگرد نظر آتا ہے۔اس سے شیطانی اتحادِ ثلاثہ کا گٹھ جوڑ کھل کر سامنے آ جاتا ہے۔
بھارت کے مسلم میڈیا کے مطابق بھارت میں بم دھماکوں اور دہشتگردانہ حملوں سے پتہ چلتا ہے کہ اس میں ہندو دہشتگردوں اور انٹی ٹیررسٹ سکواڈ (اے ٹی ایس) اور پولیس کا ہاتھ ہے۔ان حملوں کا مقصد مسلمانوں کو بدنام کرنا اور دہشت گرد قرار دینا ہے۔مہاراشٹر میں 2002ء میں جالنہ،پورنا اور پربھینی کی مساجد پر بم پھینکے گئے لیکن بجرنگ سے تعلق رکھنے والے نامزد ملزموں کی گرفتاری نہیں ہوئی۔انہی بجرنگیوں نے 8 ستمبر 2006ء کو مالیگاوں پر شب برات کے روز قبرستان پر اس وقت حملہ کیا،جب لوگوں کا ہجوم اپنے پیاروں کی قبروں پر فاتحہ پڑھ اور قبروں کی مرمت کر رہا تھا،بم حملہ کیا۔12 اکتوبر 2007ء کو درگاہ پر بھی دھماکہ ہوا ان حملوں کا الزام مسلمانوں پر لگایا گیا۔ 
آج عدالت میں ہندو انتہا پسند حملوں کا اعتراف کر رہے ہیں۔بجرنگ کے دفتر میں ٹائم بم بنا کر ایک مسجد کو اڑانے کی تیاری ہو رہی تھی کہ بم پھٹ گیا۔اس خفیہ بم ساز فیکٹری سے نقلی داڑھی اور مسلمانوں کا لباس پاجامہ کرتا اور ٹوپیاں برآمد ہوئیں،جو ایک بڑی سازش اور تباہی کا منصوبہ تھا۔لیکن پولیس نے اس کا کوئی نوٹس نہ لیا۔18 مئی 2007ء کو حیدرآباد کی مکہ مسجد میں بم دھماکہ ہوا،اس کا الزام مسلمانوں پر لگا کر ایک دینی تنظیم درسگاہ جہاد و شہادة کے کارکنوں کے خلاف کریک ڈاون شروع کر دیا گیا۔ 
نائن الیون کے بعد بھارت میں 2002ء میں مسجدوں پر حملوں سے لے کر 13 فروری 2010ء پونے میں جرمن بیکری پر دھماکے سمیت 16 بم دھماکے اور حملے ہو چکے ہیں،جن میں ہر ایک کا الزام مسلمانوں پر لگا کر انہیں دہشتگرد قرار دیا گیا اس کا مقصد ایک طرف امریکہ کی خوشنودی اور دوسری طرف آزادی کشمیر کے لئے کشمیریوں کو بھی دہشتگرد ثابت کر کے ان کی تحریک کو سبوتاژ کرنا ہے۔بھارت میں 18 کروڑ مسلمان 25 کروڑ دلت 2 کروڑ سکھ،ہندو برہمن کے ظلم و جبر کا نشانہ بن رہے ہیں،دیگر مظلوم اقوام بھی ان کے ساتھ شامل ہوں تو تعداد پچاس کروڑ بنتی ہے۔پچاس کروڑ ایک بڑی طاقت ہے۔متحد ہو جائیں ہر قوم اپنے لئے الگ ریاست حاصل کر سکتی ہے۔اقلیتوں کے لئے بھارتی جبر سے خلاصی حاصل کرنے کا آپس کا اتحاد ہی بہترین طریقہ ہے۔
خبر کا کوڈ : 25849
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش