0
Saturday 15 May 2010 19:42

گروپ پندرہ ایک قدم آگے

گروپ پندرہ ایک قدم آگے
آر اے سید
ایک ایسے وقت جب گروپ پندرہ کا اجلاس تہران میں منعقد ہو رہا ہے امریکہ نے اس اجلاس کے اثرات کو کم کرنے کے لئے اپنی پروپیگنڈا مشینری کو متحرک کر دیا ہے۔بے بنیاد پروپیگنڈے کے ساتھ ساتھ امریکہ اور اسکے حواریوں نے سفارتی سرگرمیوں میں بھی تیزی پیدا کر دی ہے۔
گروپ پندرہ کے یوں تو انیس ارکان ہیں،لیکن چونکہ ابتداء میں اس گروپ کے صرف پندرہ اراکین تھے لہذا اس کا نام گروپ پندرہ معروف ہو گیا۔براعظم ایشیا کے ممالک میں سے اسلامی جمہوریۂ ایران، ہندوستان،انڈونیشیا،ملائیشیا اور سری لنکا جبکہ دنیا کے دیگر ممالک میں سے ارجنٹائن،چلی،کولمبیا،پیر اور جمائیکا و غیرہ شامل ہیں بلکہ مجموعی طور پر امریکہ،ایشیا اور افریقہ کے ترقی پذیر ممالک گروپ پندرہ میں شامل ہیں۔
اسلامی جمہوریۂ ایران کے وزیر خارجہ منوچہر متکی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ گروپ پندرہ کے اجلاس کے کورم کے لئے چھ ممالک کی نمائندگی ضروری ہے،لیکن تہران کے اجلاس میں دس ممالک کے صدور یا نائب صدور شرکت کر رہے ہیں،جس سے اس اجلاس کی اہمیت کا آسانی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔اس اجلاس میں جن ممالک کے سربراہوں کی شرکت حتمی ہے ان میں الجزائر،برازیل، سینگال،زیمبابوے،ونزویلا اور سری لنکا شامل ہیں جبکہ قطر کے امیر شیخ حمد بن خلیفہ آل ثانی شام کے صدر بشار اسد اور ترکی کے وزير اعظم رجب طیب اردوغان اس اجلاس میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت کر رہے ہیں۔ 
عالمی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ گروپ پندرہ کے اجلاس میں اتنی بڑی تعداد میں سربراہاں مملکت اس سے پہلے کبھی بھی شریک نہیں ہوئے تھے،اس شرکت سے عالمی سفارتکاری کے میدان میں اسلامی جمہوريۂ ایران کی اہمیت اور اسکی حیثیت روز روش کی طرح واضح ہو جاتی ہے۔اسلامی جمہوریۂ ایران اس وقت گروپ پندرہ کا سربراہ ہے اور اسے یہ سربراہی سن دو ہزار چھ میں کیوبا کے دارالحکومت ہوانا میں ہونے والے اجلاس میں ملی تھی۔ایران کے بعد سری لنکا گروپ پندرہ کا سربراہ ہو گا۔
تہران میں منعقد ہونے والے گروپ پندرہ کے اجلاس میں رکن ممالک کے ماہرین نے گزشتہ روز ایجنڈے اور دوسرے مسائل کو حتمی شکل دی تھی جبکہ آج اس اہم عالمی ادارے کے وزراء خارجہ کا اجلاس جاری ہے۔دنیا کے مختلف براعظموں کے ترقی پذیر ممالک کا یہ اجلاس موجودہ عالمی اقتصادی بحران کے تناظر میں انتہائي اہمیت کا حامل ہے۔اسی اہمیت کے پیش نظر جہاں دنیا بھر کا میڈیا اسے کوریج دینے کے لئے تہران میں موجود ہے اور اس وقت ایک سو ستر ملکوں کے ذرائع ابلاغ اجلاس کی کوریج کے لئے اپنی پیشہ ورانہ سرگرمیوں میں مصروف ہیں وہاں امریکہ اور اسکے حواریوں نے بھی اپنی سازشوں میں تیزي پیدا کردی ہے۔
امریکی وزير خارجہ ہلیری کلنٹن نے گزشتہ روز نئے برطانوی وزیر خارجہ ویلیم ہیک کے ساتھ پریس کانفرنس میں ایران کے خلاف گھسا پٹا بیان دہرایا ہے اور کہا ہے کہ ہمیں اس بات کی ہرگز توقع نہیں ہے کہ ایران سلامتی کونسل کی نئی اقتصادی پابندیوں کے بغیر ایٹمی پروگرام کے حوالے سے کوئی سنجیدہ جواب دے گا۔امریکی وزیر خارجہ نے برازیل کے صدر کے دورہ ایران کی طرف بھی اشارہ کیا اور کہا اس دورے سے بھی کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہو گا۔اس مشترکہ پریس کانفرنس میں نئے برطانوی وزیر خارجہ نے بھی امریکی وزير خارجہ کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا کہ ایران کے بارے میں امریکہ اور برطانیہ کا موقف یکساں ہے۔ 
امریکہ اور اسکے حواریوں کی طرف سے بے بنیاد الزامات کے باوجود اسلامی جمہوریۂ ایران اپنے مسلمہ حقوق کے دفاع کے لئے سرگرم عمل ہے اور تمام مسائل کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر پختہ یقین رکھتا ہے۔ایران نہ صرف اپنے مسلمہ حقوق کی بات کرتا ہے بلکہ علاقائی ممالک کے حوالے سے بھی ایسا موقف رکھتا ہے جو یقینا" واشنگٹن کے لئے قابل قبول نہیں۔ایران عراق میں امریکی فوجیوں کی موجودگی کا مخالف ہے،وہ مشرق وسطی میں اس خطے کے ممالک کے علاوہ امریکی اور مغربی ملکوں کی مداخلت کو عالمی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیتا ہے،جبکہ ایٹمی ہتھیاروں کے حوالے سے بھی اس کا موقف " ایٹمی ٹیکنالوجی سب کے لئے اور ایٹمی ہتھیار کسی کے لئے نہیں" پر استوار ہے۔
اسلامی جمہوریۂ ایران نے تہران کے تحقیقی ری ایکٹر کے لئے افزودہ یورینیم کے تبادلہ کے لئے مذاکرات کے دروازوں کو بھی کھلا رکھا ہوا ہے۔لیکن امریکہ اپنی من مانی کرنے پر بضد ہے جو ایران جیسے کسی بھی آزاد اور خود مختار ملک کے لئے قابل قبول نہیں ہے۔ اسلامی جمہوریۂ ایران کے وزير خارجہ نے سلامتی کونسل کے اراکین کو ایک عشائیے کی دعوت میں تمام تفصیلات سے آگاہ کیا ہے۔لیکن امریکہ " میں نہ مانوں " کی ضد پر قائم ہے اور عالمی سیاست میں ایران مخالف فضا تیار کرنے میں مصروف ہے۔
ایران مخالف امریکی رویے کے پیش نظر گروپ پندرہ کے اجلاس اور اسکے نتائج کے بارے میں بھی امریکہ کی پوری کوشش ہے کہ اوّل تو اس اجلاس کے اراکین کو کسی متفقہ نتیجے پر نہ پہنچنے دیا جائے اور اگر یہ اجلاس ایک متفقہ رائے پر پہنچ بھی جائے کہ جسکے واضح و روشن امکانات ہیں۔امریکہ اپنے ذرائع ابلاغ کے ذریعے اسے بے اثر اور ناکام بنانے کی سعی لاحاصل ضرور کرے گا۔تہران میں منعقدہ گروپ پندرہ کے حالیہ اجلاس اور اس میں مختلف ممالک کی بھرپور شرکت سے اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ شمال و جنوب اور جنوب جنوب کے یہ ترقی پذیر ممالک اس اجلاس میں اقتصادی تعاون کے حوالے سے اہم فیصلہ کریں گے اور اسلامی جمہوریۂ ایران جسے مشرق وسطی سمیت عالمی منظر نامے میں انتہائي بنیادی اہمیت حاصل ہے وہ گروپ پندرہ کے رکن ملکوں کے ساتھ ملکر انتہائی اساسی کردار ادا کر سکتا ہے۔ 
اسی تناظر میں اسلامی جمہوریۂ ایران کے وزير خارجہ منوچہر متکی نے گروپ پندرہ کے لئے ایک روڈ میپ بھی تیار کر لئے جانے کی اطلاع دی ہے اور کہا ہے کہ مختلف شعبوں کے حوالے سے پچاس موضوعات پر مشتمل مشترکہ بیان بھی تیار کر لیا گیا ہے جو تمام اراکین کی منظوری کے بعد گروپ پندرہ کی ایک اہم دستاویز میں تبدیل ہو جائیگا جس پر عمل درآمد کی صورت میں اس ادارے کی افادیت میں مزيد اضافہ ہو جائیگا اور امریکہ اور اسکے حواریوں کی تمام تر منفی کوششوں اور سرگرمیوں کے باوجود یہ اجلاس اپنے حقیقی اہداف کی طرف قدم بقدم بڑھتا رہے گا۔
خبر کا کوڈ : 25930
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش