0
Wednesday 2 Jun 2010 12:33

اسرائیل کی بحری قذاقی اور امریکی سرپرستی

اسرائیل کی بحری قذاقی اور امریکی سرپرستی
مظفر اعجاز
 اسرائیلی بحریہ نے ایک مرتبہ پھر ثابت کر دیا کہ دنیا کی واحد بدمعاش ریاست اسرائیل ہے۔اس نے غزہ کے لیے امداد لے جانے والے 6 بحری جہازوں پر مشتمل قافلہ آزادی"فریڈم فلوٹیلا"پر حملہ کر دیا اور اس حملے میں 20 افراد کی ہلاکت اور 60 افراد کے زخمی ہونے کی ابتدائی اطلاعات ملی ہیں اور بقیہ لوگوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔اسرائیلی بحریہ نے اپنی بحری حدود سے تجاوز کر کے یہ کارروائی 68 ناٹیکل میل پر پہنچ کر کی ہے۔یہ 6 بحری جہاز غزہ کے لوگوں کے لیے امدادی سامان لے جا رہے تھے ان میں دنیا بھر کے 40 ممالک کے 750 افراد سوار تھے ان لوگوں میں پاکستانی میڈیا سے تعلق رکھنے والے معروف اینکر طلعت حسین بھی ہیں۔
 دلچسپ امر یہ ہے کہ امریکا اور اسرائیل نے ایک فضا بنا کر غزہ کا محاصرہ کروایا تھا۔لیکن اب دنیا کے 40 ممالک کے لوگوں پر مشتمل اس امدادی قافلے نے عالمی برادری کے دباﺅ کی شکل اختیار کر لی ہے،لیکن کیا یہ عالمی دباﺅ اسرائیلی بدمعاش اور اس کے سرپرست کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دے گا۔فریڈم فلوٹیلا یا قافلہ آزادی کو پیر کی صبح کسی وقت غزہ پہنچنا تھا اور اسرائیلی حکام نے دھمکی دی تھی کہ ہم سب کو گرفتار کر کے ملک بدر کر دیں گے۔لیکن راتوں رات انہوں نے اپنے اصل منصوبے پر عمل کیا اور 68 ناٹیکل میل سمندری حدود میں گھس کر اس بیڑے پر حملہ کیا اور لوگوں کو ہلاک اور گرفتار کیا۔
 اسرائیلی بحریہ اس طرح مستعد اور چوکس تھی جیسے اس پر حملہ ہونے والا ہے اور اسرائیلی بحریہ نے حملہ بھی کر ڈالا۔فلسطینی وزیراعظم اسماعیل ہانیہ نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ ہر صورت غزہ کی فتح ہو گی اگر قافلہ پہنچ گیا اور نہیں پہنچا تب بھی۔جہازوں کے منتظمین کو خدشہ تھا کہ اسرائیل رات کو کسی قسم کی کارروائی کر سکتا ہے،لیکن انہیں یہ خدشہ نہیں تھا کہ بین الاقوامی سمندری حدود میں بھی اسرائیلی دہشت گردی یا بحری قذاقی ہو سکتی ہے۔غنڈہ ریاست کے ذمہ داروں کا حوصلہ دیکھیے کہ انہوں نے پہلے ہی ایک قید خانہ بنا رکھا تھا کہ ان تمام لوگوں کو قید کر دیا جائے گا،جو غزہ کے محصورین کا محاصرہ توڑنے کے لیے آنا چاہتے تھے۔
اسرائیل گزشتہ 62 برس میں پہلی مرتبہ شدید عالمی دباﺅ کا شکار ہے،لیکن یہ دباﺅ کس طرح کام کرے گا،اس کے بارے میں ہمیں شبہ بلکہ یقین ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہو گا۔اسرائیل اور اس کا سرپرست امریکا جب تک عالمی سطح پر ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے رہیں گے،اس وقت تک کچھ نہیں ہو گا۔جن 40 ممالک کے لوگ ان جہازوں میں سوار تھے جب تک یہ ملک اسرائیل اور امریکا پر سرکاری دباﺅ نہیں ڈالتے اس وقت تک یہ بدمعاش ریاست ٹس سے مس نہیں ہو گی۔اسرائیل اور امریکا کی اس ڈھٹائی اور اسرائیلی حکومت کی بدمعاشی کے پیچھے ایک تاریخ ہے۔دونوں ممالک ایک دوسرے کی مدد جس طرح کرتے ہیں اس میں سے بہت سی باتیں تو ریکارڈ پر نہیں ہیں،بس ان کے بارے میں وہ جاننے والے جانتے ہیں۔لیکن جو باتیں ریکارڈ پر ہیں ذرا ان کو ایک دفعہ دہرا دیا جائے تو دنیا کے سامنے ساری حقیقت ایک بار پھر آ جائے گی۔
 1987ء میں اقوام متحدہ کی جنرل کونسل میں بین الاقوامی دہشت گردی کے خلاف ایک قرارداد منظور ہوئی تھی اس کی مخالفت دنیا کے صرف دو ملکوں نے کی تھی،ایک اسرائیل اور دوسرا امریکا.... اندازہ لگائیں کہ بین الاقوامی دہشت گردی کے خلاف قرارداد کی مخالفت کا کیا مقصد ہوسکتا ہے۔اسرائیل تو فلسطینیوں کے علاقوں پر قابض تھا ہی لیکن امریکا کے عزائم تھے اس لیے دونوں ملکوں نے اس کی مخالفت کی۔جب یہ ممالک بین الاقوامی دہشت گردی کے حامی ہوں گے تو کچھ بین الاقوامی جرائم بھی سرزد ہوں گے۔چنانچہ 1998ء میں امریکا نے انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کے قیام کی مخالفت کی کیونکہ وہ دنیا میں کسی اسرائیلی یا امریکی کو اس عدالت میں گھیسٹے جانے سے روکنا چاہتا تھا۔
اگر ہیروشیما اور ناگاساکی کے ایٹمی حملوں اور اس کے بعد مسلسل انسانوں پر بمباری امریکی جرائم کو شامل کیا جائے تو اب تک صرف امریکا کروڑوں انسانوں کو بموں کے ذریعہ ہلاک کر چکا ہے۔ یہودیوں کی نسل کشی کے بارے میں ایک اصطلاح ہولوکاسٹ کی استعمال کی جاتی ہے لیکن 1980 کے عشرے میں اقوام متحدہ کے ٹوتھ کمیشن نے امریکا پر الزام لگایا کہ اس نے گوئٹے مالا میں مایان انڈینز کی نسل کشی میں براہ راست اور بالواسطہ امداد دی ہے۔اس الزام کا نوٹس نہیں لیا گیا اور امریکا کی سرپرستی میں اسرائیلی فلسطینیوں کی نسل کشی اور ہولوکاسٹ میں مصروف ہے۔
اگر مختلف ملکوں میں دہشت گردی کو دیکھا جائے تو پتا چلے گا کہ اس کی بھی پہلے سے منصوبہ بندی تھی۔دنیا میں کسی پہلے کار بم دھماکے کی بات کی جائے تو 1985ء میں بیروت میں پہلا کار بم دھماکا ہوا،جس میں امریکا ہی ملوث تھا۔اس دھماکے میں 80 افراد ہلاک ہوئے۔1986ء میں لیبیا پر بمباری بھی امریکا نے ہی کی تھی،جس کو اقوام متحدہ کی لیگل کمیٹی نے دہشت گردی کا واضح کیس قرار دیا تھا۔یہ امریکا ہی تھا،جس نے 1986ء میں نکاراگوا کے خلاف طاقت کو روکنے کے بین الاقوامی عدالت انصاف کے حکم کو مسترد کیا تھا۔ذرا بتایئے جو ملک اسرائیل کے ساتھ اتنی ساری بدمعاشیوں میں ملوث ہو اس کو چھوڑ کر دنیا صرف اسرائیل کو مورد الزام ٹھہرائے،یہ کیا تضاد ہے۔دراصل یہ دونوں ملک ایک دوسرے کے معاون ہیں۔
امریکی صدر بارک اوباما جوہری عدم پھیلاﺅ کے معاملے میں بھی اسرائیل کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ ہم اسرائیل سے روا رکھے جانے والے سلوک سے متفق نہیں ہیں۔لیکن اس معاملے میں وہ خاموش ہیں کہ اسرائیل فلسطینیوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھے ہوئے ہے۔اس پر ان کی خاموشی اسرائیل کے ساتھ تعاون کا اظہار ہے۔40 ممالک کے 750 لوگوں نے غزہ کے محاصرے کے خلاف قافلہ آزادی غزہ تک پہنچا دیا ہے،20 لوگوں نے جان بھی قربان کر دی ہے۔لیکن اس پر پاکستان کی حکومت دیر تک خاموش رہی ہے۔یہ ایسا مسئلہ ہے جس پر امت مسلمہ کو بھرپور مشترکہ موقف اختیار کرنا چاہیے۔ترکی نے جہازوں کو روانہ کر کے اور حملے پر بھرپور ردعمل ظاہر کر کے ایک بار پھر عالم اسلام کی قیادت کا حق ادا کیا ہے یہ عالم اسلام جب تک سوتا رہے گا ایسے حملے ہوتے رہیں گے۔
 "روزنامہ جسارت"

خبر کا کوڈ : 27400
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش