0
Friday 4 Jun 2010 10:08

انقلاب اسلامی افکار امام خمینی کی روشنی میں

انقلاب اسلامی افکار امام خمینی کی روشنی میں
 ایران میں انقلاب اسلامی امام خمینی رہ کی قیادت میں کامیاب ہوا۔ جس کے نتیجے میں اسلامی جمہوریہ ایران معرض وجود میں آیا۔اس سے قبل ایران میں پہلوی بادشاہت قائم تھی،جو 2500 سالہ شاہی نظام کی آخری کڑی ثابت ہوئی۔امام خمینی رہ انقلاب اسلامی کے ذریعے ملک میں بنیادی تبدیلیاں لائے۔ایران جہاں تین عشرے پہلے تک ایک سامراجی مرکز تھا،انقلابی قوتوں کا مرکز نگاہ بن گیا۔شاہ ایران کو امریکا نے مشرق وسطیٰ میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے پولیس مین مقرر کیا تھا،لیکن آج ایران کے صدر احمدی نژاد دنیا میں امریکا کی ظالمانہ پالیسیوں کی مذمت میں پیش پیش ہیں،شاہ کے دور میں ایران نے اسرائیل کو تسلیم کیا،لیکن انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد ایران فلسطینیوں کی جدوجہد آزادی کا سہارا اور قبلہ اول بیت المقدس کی آزادی کے لیے امید کی کرن بن گیا ہے۔ تہران جہاں نائٹ کلبوں میں لوگ رنگ رلیاں منانے جاتے اور ہر طرف فحاشی و عریانی،شراب اور جوئے کے اڈے دکھائی دیتے تھے،آج انقلابی و دینی سرگرمیوں کا مرکز بنا ہوا ہے اور دنیا کی نگاہیں تہران کی نماز جمعہ کے خطبوں،دفتر رہبری انقلاب اور ایوان صدر کے فیصلوں اور دیگر اہم اداروں کی طرف اٹھتی ہیں جو عالمی سیاسی منظر نامے میں اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔
شاہ ایران نے 1972ء میں جشن تاج پوشی منعقد کیا،جس میں دنیا بھر کے حکمرانوں نے شرکت کی،اسی دوران تہران کی کچی بستیوں سمیت ملک کے پسماندہ علاقوں میں لوگ پانی اور ایندھن جیسی بنیادی ضرورتوں کو ترس رہے تھے۔لیکن آج ایران کے دوردراز کے پسماندہ علاقوں میں بجلی،گیس،پینے کا پانی،طبی مراکز،اسکول کالجز اور دیگر سہولتیں فراہم کی گئی ہیں۔تہران کے شاہی محل میں وزراء اور درباری قطار میں کھڑے ہو کر باری باری شاہ ایران کے سامنے جھکتے اور اُن کے ہاتھوں کو چومتے تھے،آج قائد انقلاب اور صدر مملکت سے لے کر دیگر اعلیٰ سرکاری عہدیداروں تک سب دفاتر میں نماز کے اوقات میں اپنے عملے کے ساتھ جماعت کے لیے کھڑے ہوتے اور اپنے رب کے حضور سجدہ ریز ہوتے ہیں۔
سعد آباد،مرمر،نیاوران و دیگر شاہی محلات اور عمارات جن میں شاہ ایران اور اس کے پٹھو درباری پرتعیش زندگی گزارتے تھے،انقلاب کے بعد فلاحی و ثقافتی اداروں کے حوالے کیے گئی۔شاہ کے دور میں حکمران تقریباً ایک ہزار خاندانوں پر محیط شاہی منظور نظر خاندانوں کے افراد ہوتے تھے،لیکن آج بڑے عہدوں پر عوام کے نمائندے فائز ہوتے ہیں،جو خود بھی عوامی ہیں اور لوگوں کے دکھ درد سے واقف ہیں۔ امام خمینی رہ نے کہا تھا : ”آج ایران میں مستضعفین (غریب طبقات) مستکربین پر غالب آگئے ہیں۔“سپاہ پاسداران،بسیج (رضا کار) فورسز، مستضعفین فاﺅنڈیشن،امام خمینی رہ امدادی کمیٹی،جہاد سا زندگی (تعمیراتی جہاد) وغیرہ ایسے ادارے انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد قائم کیے گئے۔جو اقتصادی،ثقافتی،عسکری،دفاعی، رفاہی اور دیگر شعبوں میں عوام کے لیے بنیادی سہولتیں فراہم کرتے ہیں۔ان میں سے اکثر ادارے امام خمینی رہ کے حکم پر قائم کیے گئے ہیں۔ 
امام خمینی رہ اعلیٰ مذہبی پیشوا اور انقلاب اسلامی کے بانی و رہبر تھے۔لیکن کہتے تھے ”مجھے رہبر نہیں بلکہ خادم کہو“ بسیج رضا کار فورسز کی اہمیت بیان کرتے ہوئے آپ رہ کہتے تھے ”مجھے فخر ہے کہ میں خود بھی ایک بسیج رضا کار ہوں“ امام خمینی رہ  خدا پر ایمان راسخ رکھتے اور عوام پر بھرپور اعتماد کرتے تھے،ملکی و سیاسی فیصلوں کے بارے میں آپ کہتے تھے ”معیار عوام کی رائے ہے“ آپ رہ کے عوام پر بھروسہ اور عوام کی آپ رہ سے والہانہ عقیدت کی وجہ سے انقلاب اسلامی کامیاب ہوا اور دنیا کی طاغوتی طاقتوں اور ان کے پٹھوﺅں کی مخالفت کے باوجود امام خمینی رہ کے ہاتھوں لگایا ہوا پودا آج تناور درخت بن چکا ہے۔
اس دور میں امریکا اور سوویت یونین سے ٹکر لینے کا تصور عبث سمجھا جاتا تھا،لیکن امام خمینی رہ نے عالمی سپر طاقتوں کی نفی کرتے ہوئے کہا : ” امریکا سویت یونین سے بدتر ہے،سویت یونین امریکا سے بدتر اور برطانیہ ان دونوں سے بدتر ہے۔“انقلاب اسلامی کی کامیابی امریکا کے غرور کو توڑنے کی واضح دلیل تھی،کیونکہ امریکا نے شاہ ایران کو ہر قسم کے جدید ہتھیاروں سے لیس کر رکھا تھا اور ایران کے حاکم دراصل ہزاروں امریکی مشیر اور فوجی جرنلز تھے۔ایران کی خارجہ و داخلہ پالیسیاں غیرملکی ماہرین مرتب کرتے تھے۔
امریکا ایران کے ذریعے اسرائیل کو تحفظ دینا چاہتا تھا،شاہ نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا تھا،شاہ اور اسرائیل کے درمیان تعلقات اتنے مضبوط تھے کہ ایران اسرائیلی مصنوعات اور اشیاء کی مندی میں تبدیل ہو گیا تھا،شاہی دور میں اسرائیل کے خلاف تقریر کرنے کے جرم میں بعض علماء اور مقررین پر پابندی لگی اور ان کو گرفتار کیا گیا تھا، امام خمینی رہ نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اپنے ابتدائے انقلاب کی تقریر میں کہا تھا ”شاہ،اسرائیل کے خلاف بولنے سے کیوں منع کرتا ہے؟ کیا شاہ خود اسرائیل کا باشندہ ہے؟“لیکن انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد ایران،فلسطینیوں کی جدوجہد آزادی کا سب سے بڑا حامی بن گیا،امام خمینی رہ کا خیال تھا کہ مذاکرات اور نام نہاد صلح کانفرنسوں کے ذریعے مسئلہ فلسطین حل نہیں ہو گا بلکہ آپ رہ کہتے تھے : ”فلسطین اور قدس شریف کی آزادی کے لیے ایمانی طاقت سے مسلح بازوﺅں پر بھروسہ کرنا چاہیے۔“چنانچہ انقلاب کے بعد فلسطینیوں کی جدوجہد آزادی میں تیزی آئی اور فلسطینیوں کی دو انتفاضہ تحریکیں،حماس کی تشکیل اور لبنان میں حزب اللہ کی جدوجہد افکار امام خمینی رہ کا نتیجہ ہیں۔
انقلاب اسلامی ایران کا ایک نمایاں پہلو اتحاد بین المسلمین ہے،امام خمینی رہ عصر حاضر میں وحدت مسلمین کے سب سے بڑے داعی تھے۔ آپ رہ کا خیال تھا کہ مسلمانوں کے زوال و انحطاط کا اصل سبب تفرقہ و انتشار ہے۔آپ رہ آج کی دنیا میں عالم اسلام کے مسائل کی اصل وجہ مسلمانوں کی صفوں میں عدم اتحاد کو سمجھتے تھے۔ایک تقریر میں آپ رہ نے کہا تھا : ”اگر مسلمان متحد ہوتے،تو نہ فلسطین کا مسئلہ رونما ہوتا اور نہ ہی افغانستان و کشمیر کے مسائل پیدا ہوتی۔“امام خمینی رہ نے اسرائیل کے وجود کو ”اسلام عالم کے پیکر میں سرطانی غدود قرار دیتے ہوئے اس کو کاٹ پھینکنے اور صفحہ ہستی سے مٹانے“ کا اعلان کیا اور ایک مقام پر کہا"َاگر دنیا کا ہر مسلمان ایک ایک بالٹی پانی پھینکے تو یہ پانی سیلاب بن کر اسرائیل کو بہا لے جائے گا۔“امام خمینی رہ عالم اسلام کے تمام مسائل و مشکلات کی بنیادی وجہ امریکا کو قرار دیتے تھے۔
جس طرح علامہ اقبال نے فرنگیوں کے مکر و فریب کے بارے میں انتباہ کیا تھا،امام خمینی رہ بھی امریکا کی ریشہ دوانیوں کو ناکام بنانے کی دعوت دیتے تھے۔آپ رہ کہتے تھے : ”امریکا ہمارا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا۔“امام خمینی رہ فوجی اور سیاسی حملوں سے زیادہ دشمن کی ثقافتی و فکری یلغار سے مقابلے کو اہم سمجھتے تھے۔ اسی لیے آپ رہ نے انقلابی نسل کی تربیت کی اور ایرانی قوم کی فکری بنیادوں کو مستحکم کیا۔انقلاب کی کامیابی کے کچھ عرصے بعد کالج یونیورسٹیوں کو بند کر کے نصاب تعلیم کی ازسرنو تدوین کی گئی اور تعلیمی ڈھانچے کو یکسر تبدیل کیا گیا۔آپ رہ نے اس عمل کو ثقافتی انقلاب کا نام دیا اور کہا : ”یہ انقلاب،اصل انقلاب سے بڑا انقلاب ہے۔“ 
امام خمینی رہ ایک استاد کی حیثیت سے طلبہ و طالبات کی فکری نشوونما اور ثقافتی تربیت کو انقلاب اسلامی کے تسلسل کے لیے اہم سمجھتے تھے۔لیکن آپ رہ تعلیم کے ساتھ تزکیہ نفس کو بھی ضروری سمجھتے تھے،آپ کا کہنا تھا تعلیم بغیر تہذیب و تزکیہ نفس کے فائدہ مند نہیں ہے۔“ آپ رہ تزکیہ نفس اور تعمیر ذات کو اصلاح معاشرہ کا بنیادی جز سمجھتے اور کہتے تھے : ” پہلے اپنی ذات کی تعمیر کرو،پھر معاشرے کی تعمیر کے لیے اقدام کرو۔“امام خمینی رہ نے اعلیٰ انسانی و اسلامی اقدار کو اجاگر کیا،انقلاب اسلامی کے بہ دولت،ایران میں طبقاتی امتیاز کا خاتمہ ہوا، صدر مملکت یا وزراء عام لوگوں کے ساتھ نماز جمعہ اور مختلف دیگر تقریبات میں شرکت کرتے ہیں اور ایک ہی دستر خوان پر لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں،شہید صدر محمد علی رجائی کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ اکثر نانوائی کی دکان پر عام لوگوں کے ساتھ قطار میں کھڑے ہو کر روٹی لیتے تھے۔
شاہ ایران نے امریکی منظور نظر اصلاحات کے ذریعے آزادی نسواں کے نام پر ایران میں عریانی و فحاشی کو فروغ دیا۔امام خمینی رہ اس قسم کی آزادی کو عورت کی تذلیل سمجھتے تھے،آپ رہ کہتے تھے کہ شاہ نے ”عورتوں کو گڑیوں میں تبدیل کیا ہے اور معمولی اشیائے صرف کی فروخت کے لیے ان کو تشہیر کا ذریعہ بنا دیا ہے۔“ جب کہ آپ رہ کی نظر میں ”عورت انسان ساز ہے“ اور اس کی قدر و منزلت ان چیزوں سے بڑھ کر ہے۔آپ رہ کہتے تھے : ”عورت کی آغوش سے مرد عروج کو پہنچتا ہے۔“امام خمینی رہ اسلامی حجاب کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے تمام شعبہ ہائے زندگی میں خواتین کی شرکت کے حامی تھے۔انقلاب اسلامی کی کامیابی کو آپ رہ خواتین کی مرہون منت سمجھتے تھے۔آپ رہ کہتے تھے : ”اگر خواتین نہ ہوتیں،تو انقلاب کامیاب نہ ہوتا اور یہ خواتین تھیں جنہوں نے اپنے جگر کے ٹکڑوں کو قربان کیا اور اپنے سہاگ اجاڑ دیے،تب جا کر انقلاب کامیاب ہوا۔“
امام خمینی رہ کا مشن اسلام کی تبلیغ اور احکام خداوندی کا نفاذ تھا،چنانچہ آپ رہ نے سوویت یونین کے آخری حکمراں گوربا چوف کو دعوت اسلام پر مبنی خط لکھا،اس خط میں کمیونزم کے خاتمے کی پیشگوئی کرتے ہوئے لکھا کہ ”آج کے بعد کمیونزم کو دنیا کے سیاسی عجائب گھروں میں ڈھونڈنا پڑے گا“ وفات سے چند ماہ قبل آپ رہ نے شیطانی آیات نامی کتاب کے مصنف شاتم رسول سلمان رشدی کے واجب القتل ہونے کا فتویٰ صادر کیا۔اپنے وصیت نامے میں امام خمینی رہ نے لکھا ”میں سکون خاطر اور مطمئن ضمیر کے ساتھ قوم کو الوداع کہہ رہا ہوں،اگر ذمہ داریوں کی انجام دہی میں مجھ سے کوئی کوتاہی ہوئی ہو،تو امید ہے قوم مجھے معاف کر دے گی۔“ آپ رہ کی رحلت 4 جون 1989ء کو ہوئی۔آج ان کی 21 ویں برسی منائی جا رہی ہے۔
 "روزنامہ جسارت"
خبر کا کوڈ : 27566
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش