1
0
Thursday 10 Jun 2010 09:27

سلامتی کونسل کا قوموں کے حقوق پر ڈاکہ

سلامتی کونسل کا قوموں کے حقوق پر ڈاکہ
آر اے سید
اس سے بڑی ستم ظریفی اور کیا ہوسکتی ہے کہ وہ اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل جسے اقوام عالم کی سلامتی اور امن عالم کی پاسداری کے لئے معرض وجود میں لایا گیا تھا،بجائے اس کے اس خطرے کا جو اس وقت پوری دنیا کو لاحق ہے،مقابلہ کرے اور اسرائیل جیسے امن کے دشمن کے خلاف کاروائی کرے،دنیا کے آزاد و خود مختار ملکوں کے حقوق پر ہی ڈاکہ ڈالنے کے لئے کمربستہ ہو چکی ہے۔آج جب پوری دنیا میں غزہ کے محصور عوام کے لئے امداد لے جانے والے بین الاقوامی امدادی قافلے پر صہیونی حکومت کے دہشت گردانہ حملوں کی مذمت ہو رہی ہے اور پوری دنیا سراپا احتجاج ہے،تو بہتر اور قابل ستائش اقدام تو یہی ہوتا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل،اسرائیل کے جرائم پیشہ حکام پر عالمی عدالتوں ميں جنگی جرائم کا ارتکاب اور انسانیت کا قتل عام کرنے کے الزام میں مقدمہ چلاتی،اور اس غاصب حکومت کو تنبیہ کرتی،جیسا کہ سلامتی کونسل کا قانونی فریضہ بھی ہے۔
مگر وہ ایسا کرنے کے بجائے امریکہ و چند سامراجی طاقتوں کے دباؤ میں آ کر ایران جیسے آزاد و خودمختار ملکوں کو ان کے مسلمہ حقوق سے محروم کرنے کے لئے غیرقانونی طریقے سے قرارداد پاس کر رہی ہے۔جبکہ ایٹمی معاملات میں کوئی اقدام کرنا یا کسی بھی طرح کی رائے دینا نہ تو اس کے دائرہ اختیار میں آتا ہے اور نہ ہی وہ ایسا کرنے کی مجاز ہے۔خود اقوام متحدہ کے ہی بنائے ہوئے ذیلی ادارے آئی اے ای اے کے منشور کے مطابق این پی ٹی پر جن ملکوں نے بھی دستخط کئے ہيں پرامن ایٹمی ٹیکنالوجی سے استفادہ ان کا قانونی اور مسلمہ حق ہے۔مگر اس سے بڑا مذاق اور کیا ہو سکتا ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل خود اپنے ہی بنائے ہوئے قانون کی صرف اس لئے خلاف ورزی کر رہی ہے کہ وہ امریکہ اور چند بڑی طاقتوں کی لونڈی بن کر رہ گئي ہے۔
جب دنیا کے ڈیڑھ سو سے زائد ممالک ایران کے پرامن ایٹمی پروگرام کی حمایت کر رہے ہيں،صرف امریکہ اور اس کے چند اتحادی ممالک کے دباؤ میں آ کر سلامتی کونسل امریکہ کے تجویز کردہ مسودہ قرارداد کو جو ایران کے پرامن ایٹمی پروگرام کے خلاف ہے،منظور کرنے کی تیاری کر رہی ہے۔ یہاں پر ایک سوال جو لوگوں کے ذہنوں میں اٹھ رہا ہے وہ یہ کہ موجود قرارداد کے مسودہ کو تو امریکہ نے کافی عرصہ پہلے ہی تیار کر لیا تھا۔مگر اس وقت اتنی عجلت میں اسے سلامتی کونسل میں منظوری کے لئے کیوں پیش کیا جا رہا ہے۔مبصرین کا کہنا ہے کہ اس اقدام کا مقصد واضح ہے۔ایک ایسے وقت جب اسرائیل کی سمندری دہشت گردی پر،جس میں امریکہ اور برطانیہ جیسے ممالک بھی برابر کے شریک ہيں،پوری دنیا سراپا احتجاج ہے اور صہیونی حکومت کی پشتپناہی کرنے کی وجہ سے امریکہ اور اسرئیل کے دیگر حامیوں کو اپنے منہ چھپانے کی جگہ بھی نہيں مل رہی ہے،ایران مخالف قرارداد پاس کرا کے اسرائیل اور امریکہ کی دہشت گردانہ کاروائیوں سے عالمی رائے عامہ کی توجہ ہٹانے کی کوشش ہو رہی ہے۔
کیا ایران کا پرامن ایٹمی معاملہ جس کے بارے میں بیس سے زائد بار آئي اے ای اے نے اپنی رپورٹوں میں صاف لفظوں میں کہا ہے کہ اس میں کسی بھی طرح کا انحراف نہيں پایا جاتا اور ناوابستہ ممالک کے ساتھ ساتھ ستاون سے زائد اسلامی ملکوں اور اسی طرح افریقہ اور لاطینی امریکہ کے ملکوں نے بھی جس کی حمایت کی ہے،مشرق وسطی میں رونما ہونے والے انتہائی خطرناک حالات سے زیادہ سنگین ہے کہ جس کا سلامتی کونسل میں جائزہ لیا جا رہا ہے اور جس کے خلاف قرارداد پاس کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔کیا گذشتہ دنوں اسرائیل نے امریکہ اور اپنے مغربی حامیوں کی پشتپناہی سے جس طرح سمندری دہشت گردی کا ارتکاب کر کے دنیا کے مختلف ملکوں کی سیاسی سماجی اور صحافتی شخصیات کو خون میں نہلا دیا،اور محصور فلسطینی عوام کے لئے امداد لے کر جانے والے لوگوں کو جن میں مسلمان،عیسائی اور یہودی سبھی شامل تھے،کس طرح یرغمال بنایا،وہ خطرناک اقدام ایسا نہيں تھا،جس پر سلامتی کونسل کے کان پر جوں رینگتی؟ دنیا کے احتجاج کے بعد اگر سلامتی کونسل نے اجلاس تشکیل دیا بھی تو اس میں بھی اس نے ایک بہت ہی نرم لب و لہجے والا مذمتی بیان جاری کر کے اسرائیل کو اور زیادہ گستاخ بنا دیا۔جس کے بعد اسرائیل نے نہ صرف غزہ کے عوام پر اپنے حملے اور تیز کر دیئے بلکہ اس نے آئرلینڈ کے اس امدادی جہاز کو بھی پکڑ لیا جو غزہ کے عوام کے لئے انسان دوستانہ امداد لے کر جا رہا تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ عالمی لٹیرے جو اس وقت اسرائیل کے لئے اپنی بے شرمانہ حمایت جاری رکھنے کی بنا پر دنیا کی نظروں میں گر کر رہ گئے ہيں اور خاص طور پر اسرائیل اور امریکہ کے خلاف پوری دنیا میں نفرتوں میں کا لاوا ابل رہا ہے،ایسے میں خود کو عالمی تنہائی سے نکالنے کے لئے ایران پر دباؤ ڈالنے کے اپنے گھسے پٹے حربے کو استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔خود کو دنیا کے سب سے بڑے سیاستداں کہنے والے امریکی اور برطانوی سیاستدانوں کو کیا اتنا بھی شعور نہیں ہے کہ پٹے ہوئے مہروں اور گھسے پٹے حربوں کو بار بار آزمانا حماقت سے زیادہ کچھ بھی نہيں ہوتا۔کیا امریکہ اور اس کے حامی اس سے پہلے ایران کے خلاف سلامتی کونسل سے غیرقانونی قرارداد پاس نہيں کراچکے ہيں؟ ان قراردادوں سے انھوں نے ایران اسلامی کا کیا بگاڑ لیا؟۔
گذشتہ اکتیس برسوں کی تاريخ شاہد ہے جب جب بھی اسلامی جمہوریہ ایران کے دشمنوں نے اس طرح کے معاندانہ اقدام کا سہارا لیا ہے ایران کے جوانوں نے مختلف علمی و سائنسی میدانوں میں بڑے بڑے کارنامے انجام دے کر انھیں مبہوت و مات کیا ہے۔آج کا ایران،ایٹمی ٹیکنالوجی کے حصول میں شاندار کامیابی پانے،فضا میں سٹلائٹ سیارہ بھیجنے اور دفاعی و اقتصادی میدانوں میں کمال و ارتقاء کی بلندیوں کو سر کرنے کے بعد عالمی لٹیروں کے دھمکیوں اور پابندیوں کے حربوں کی کمند سے کہیں دور نکل چکا ہے اور اب وہ خود آسمانوں پر کمند ڈال رہا ہے۔
دوسری طرف اگر آج سلامتی کونسل اتنی ہی باوقار ہوتی تو وہ اسرائیل کے خلاف اپنی لاتعداد اور بے شمار قانونی قرارداداوں میں سے کم از کم ایک ہی قرارداد پر عمل کرالیتی؟ بیشک امریکہ اور اس کے ہم خیال ممالک ایک بار پھر ایران کے خلاف اپنی قرارداد پاس کرانے کا شوق پورا کر لیں،مگر اس کا انجام اس کے علاوہ اور کچھ بھی نہيں ہو گا کہ سلامتی کونسل دنیا کی نظر میں پہلے سے بھی زیادہ غیر معتبر اور بے اعتبار ہو جائے گی۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اسی ممکنہ غیرقانونی اقدام کے پیش نظر ہی اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر جناب احمدی نژاد نے کہا ہے کہ اگر اس نے ایران کے خلاف پھر کوئی قرارداد پاس کی تو تہران ایٹمی معاملات پر ہر طرح کے مذاکرات کا دروازہ بند کر دے گا۔اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر نے ترکی کے شہر استنبول میں سیکا کے اجلاس کے موقع پر ایک پریس کانفرنس کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں بارہا کہہ چکا ہوں کہ امریکہ اور اس کے اتحادی بہت بڑی بھول کر رہے ہيں۔اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ پابندیوں کا ڈنڈا ہلا کر ہم سے مذاکرات کی توقع کريں گے،تو انھیں جان لینا چاہئے کہ یہ ان کی بہت بڑی بھول ہے۔صدر مملکت ڈاکٹر احمدی نژاد نے کہا کہ ہم بات چیت کے حامی ہیں اور سب سے مذاکرات کے لئے تیار ہیں اور اس کے لئے شرط یہ ہے کہ یہ بات چیت دوطرفہ احترام کی بنیاد پر ہو۔صدر ڈاکٹر احمدی نژاد نے کہا،لیکن اگر کوئی یہ چاہے کہ وہ اپنی تسلط پسندانہ اور سامراجی سرشت کے ساتھ ہم کو بات چیت کے لئے راضي کر لے گا،تو اسے یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ ہمارا جواب پہلے سے ہی روشن اور واضح ہے۔
خبر کا کوڈ : 27988
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Gee whiz, and I thohgut this would be hard to find out.
ہماری پیشکش