0
Friday 12 Jul 2013 03:28

دہشتگردی اور آل پارٹیز کانفرنس

دہشتگردی اور آل پارٹیز کانفرنس
تحریر: تصور حسین شہزاد

وزیراعظم میاں نواز شریف نے دہشت گردی کے خاتمہ کو اپنی حکومت کی اولین ترجیح قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ معاشی ترقی کیلئے پرامن ماحول کا ہونا اشد ضروری ہے، پاکستان دہشت گردی کے ہاتھوں شدید متاثر ہوا ہے، ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے کے مزید متحمل نہیں ہوسکتے۔ ہمارے پاس اس مسئلہ کا نتیجہ خیز حل تلاش کرنے اور اس حوالے سے ایک مربوط حکمت عملی پر سرگرمی سے عملدرآمد کے سوا کوئی راستہ نہیں۔ وزیراعظم نے ایک مرتبہ پھر مذاکرات کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ بات چیت کے دروازے ہر وقت کھلے رکھنے چاہئیں۔ وزیراعظم آفس میں فاٹا کے اراکین پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے میاں نواز شریف نے کہا کہ آپ حقیقی فریق ہیں اور خطے میں قیام امن کا روڈ میپ تشکیل دینے کیلئے آپ سے مشاورت ناگزیر ہے۔ ملک سے دہشت گردی کا ناسور ختم کرکے دم لیں گے، اس لعنت کے خاتمہ کیلئے مشترکہ اجتماعی کوششیں ضروری ہیں، دہشت گردی کے خاتمہ تک قیام امن ممکن نہیں اور جب تک امن قائم نہیں ہو جاتا معاشی ترقی کا خواب ادھورا ہی رہے گا۔ معیشت کی بحالی اور قوم کی حالت تبدیل کرنے کیلئے ہمیں ہرحال میں دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہوگا۔

وزیراعظم پاکستان کا دہشت گردی کیخلاف عزم کے اعادے پر بیان اس وقت سامنے آیا جب کراچی میں صدر آصف علی زرداری اور بلاول ہاؤس کے چیف سکیورٹی افسر بلال شیخ کو بھرے بازار میں خودکش حملے میں ہلاک کیا گیا۔ سربراہ مملکت کے ذاتی محافظ اعلٰی کی ہلاکت کوئی معمولی واقعہ نہیں، اسے خود صدر مملکت کیلئے انتباہ سمجھنے میں بھی کوئی دوسری رائے نہیں۔ یوں تو پورا پاکستان ہی اس وقت دہشت گردی کی دھمکیوں کی آماجگاہ ہے، عام آدمی تو دہشت گردوں کا آسان ہدف ہے، بلکہ دیکھا جائے تو گذشتہ دہائی میں پاکستان کے اہم اور حساس ترین مراکز بھی کب دہشت گردوں کی دست برد سے محفوظ رہے ہیں۔ جی ایچ کیو، کامرہ ایئربیس، مہران نیول بیس، پشاور کا ہوائی اڈہ، بنوں جیل، راولپنڈی میں اعلٰی فوجی افسران پر قاتلانہ حملے، سابق صدر پرویز مشرف پر حملہ، خود میاں نواز شریف و شہباز شریف کے راستے میں دہشت گردوں کی جانب سے گھات لگائی جانا اور اعلٰی پولیس افسران کیا، عام تھانوں چوکیوں، ناکوں پر دہشت گردوں کے حملے بھی ان کیلئے آسان ترین ہدف ہی رہے، جن میں وہ کامیاب واردات کرکے دنیا کو ہمارے حفاظتی حصار کی کمزوریوں سے آگاہ کرگئے۔

اتنے زیادہ واقعات کے رونما ہونے پر بھی ہماری حفاظتی ایجنسیاں بیدار ہونے کی بجائے مزید غفلت میں پڑی رہیں، ایبٹ آباد کمیشن کے روبرو آئی ایس آئی کے سابق سربراہ احمد شجاع پاشا کا اعترافی بیان چشم کشا بھی ہے اور دعوت فکر بھی دے رہا ہے کہ جس کے مطابق 2 مئی کا واقعہ تمام خفیہ ایجنسیوں کی نااہلی اور باہمی اعتماد و رابطے کے فقدان کے باعث رونما ہوا۔ ان کے مطابق ملٹری انٹیلی جنس، ایئر فورس انٹیلی جنس، نیول انٹیلی جنس، انٹیلی جنس بیورو، کرمنل انٹیلی جنس ڈیپارٹمنٹ اور سپیشل برانچ سمیت تمام خفیہ ایجنسیاں ناکامی کی ذمہ دار ہیں، کسی بھی ایجنسی نے 9/11 کے بعد اپنے کام کو مربوط نہیں کیا۔ جنرل پاشا کا یہ انکشاف چونکا دینے والا ہے کہ تمام ایجنسیوں اور فوجی خفیہ اداروں کے ساتھ دہشت گردی سے متعلق امور پر معلومات کے تبادلہ کے حوالے سے بہت کم تعاون پایا جاتا ہے۔

جنرل پاشا کے اس اعتراف کو آئندہ کیلئے قومی سلامتی پالیسی وضع کرنے کا بنیادی نکتہ مان کر چلنے کی ضرورت ہے، کیونکہ گذشتہ بارہ برسوں میں تخریب کاری و دہشت گردی کی وارداتوں میں پے در پے صدمات سہنے کے باوجود بھی ہم ابھی تک اپنے دشمن کی شناخت کرنے میں ناکام رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہم اپنے ملک میں اس ناسور کا خاتمہ کرنے سے عاجز آئے رہے۔ اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ آج کل پاکستان جن حالات سے دوچار ہے اس کی ذمہ داری سب سے زیادہ ہماری قومی سلامتی کے ضامن اداروں پر ہی عائد ہوتی ہے، جو ایک عرصہ تک سیاست بازی کا شکار رہے اور اسی باعث قومی سلامتی کو درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت سے عاری ہوتے چلے گئے۔ چند مفاد پرست طاقتور افراد نے اداروں کو یرغمال بنائے رکھا اور اپنی من مانی کارروائیاں کرکے قومی سلامتی کو داؤ پر لگا دیا۔

وزیراعظم نواز شریف سے بہتر کون جان سکتا ہے کہ وردی پوش طاقتور افراد کا گروہ کس طرح قومی مفاد کے اہم اور حساس ترین مسئلوں پر اصل اتھارٹیز کو بائی پاس کرتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جان ہتھیلی پر دھرے دفاع وطن کا فریضہ سرانجام دینے والے ادارے قوم کیلئے واجب الاحترام اور لائق استحسان ہیں، مگر یہ حقیقت تسلیم کرنے میں بھی عار محسوس نہیں کیا جانا چاہئے کہ چند افراد کا گروہ ان ساری قربانیوں کو ضائع کرنے کا سبب بنتا ہے، جو دفاعی اداروں کے باضمیر، باحمیت افراد اجتماعی طور پر دیتے ہیں۔ جنرل شجاع پاشا کے اس اعترافی بیان کی روشنی میں وزیراعظم کو ان سب افراد کو احتساب کے کٹہرے میں کھڑا کرنا چاہئے، جو اپنی بے بصیرتی کے سبب پاکستان کو ان برے حالوں میں چھوڑ گئے ہیں کہ نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن۔

وزیراعظم نواز شریف کی مذاکرات کیلئے دروازے کھلے رکھنے کی خواہش بے معنی نہیں کہ دنیا میں بڑی بڑی جنگوں کا اختتام بالآخر میز پر بات چیت کے ذریعے ہی ممکن ہوا، مگر روایتی جنگوں میں دشمن کھلا اور سامنے ہوتا ہے۔ فریقین ایک دوسرے کو جانتے اور پہچانتے ہیں۔ لہٰذا جب مذاکرات کیلئے سفید جھنڈا لہرایا جاتا ہے تو ہر دو جانب سے بندوقوں کے دہانے خاموش کرا دیئے جاتے ہیں، جبکہ ہم جس اندھی جنگ کا شکار ہیں، اس میں ہمارے کھلے دشمن بھی نقاب پوش ہیں اور پس پردہ ہاتھ بے نقاب ہوتے ہوئے بے چہرہ بنے ہوئے ہیں۔ اس میں خود ہم میں سے ہیں کچھ ہمارے ’’مہربان‘‘ ممالک کے فرسندہ ہیں۔ کسی کو ہم مروت میں پہچاننے سے انکاری ہو جاتے ہیں، کسی کو خوف سے شناخت نہیں کرتے، ان میں آستین کے سانپ بھی ہیں، جو اڑتے بھی ہیں اور ہمارے ماتھے پر ڈنگ مار کر ہمیں تڑپتا چھوڑ کر بھاگتے بھی نہیں بلکہ ہماری اذیت ناک حالت کا مزہ لیتے ہیں۔ ہم ان کے دعوے سنتے ہیں، دھمکیاں برداشت کرتے ہیں اور ان کی بلیک میلنگ میں بھی آتے ہیں، جب تک ہم ان سب پہلوؤں سے حالات کا جائزہ لیکر یکسو ہو کر اپنے دشمن کا تعین کرکے واضح ہدف طے نہیں کرتے نہ کوئی اے پی سی کام آئے گی نہ کوئی مفاہمتی پالیسی طے پا سکتی ہے اور تب تک ملک سے دہشت گردی کاخاتمہ بھی ممکن نہیں۔
خبر کا کوڈ : 282189
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش