2
0
Monday 21 Apr 2014 20:03

رضا رومی کے بعد حامد میر

رضا رومی کے بعد حامد میر
 تحریر: عمران خان

 صحافی تو آئینہ ہوتا ہے، جو افراد اور معاشرے کو اپنے آپ سے روشناس کراتا ہے۔ کریہہ الصورت، بیمار سوچ کے مالک کیسے ان آئینوں کا وجود برداشت کرسکتے ہیں، جن آئینوں میں انہیں اپنا آپ دکھائی دیتا ہو، جس کی تاب نہیں لا پاتے اور آئینہ توڑنے کی مکروہ کوششیں کرتے ہیں۔ انہی آئینوں کی کرچیوں سے قاتلوں کے ہاتھ تو زخمی ہوجاتے ہیں، مگر ایک آئینہ ٹوٹ کر کئی آئینوں میں تبدیل ہوجاتا ہے اور ہر کرچی میں ان بیماروں کو اپنی وہی شکل نظر آتی ہے جسے وہ دیکھنا نہیں چاہتے۔ قاتل ایک آئینہ توڑ کر مطمئن ہے اور بکھری کرچیوں میں دکھائی دینے والی اشکال سے اس ابہام کا شکار ہے کہ اب اس کی تعداد اور قوت میں اضافہ ہوچکا ہے۔ شائد بے خبر ہے کہ اس کی تعداد میں نہیں بلکہ آئینوں میں اضافہ ہوچکا ہے۔ 

رضا رومی کے بعد حامد میر بھی دشمن کی گولیوں کا نشانہ بن گئے۔ رضا رومی پر حملے کے بعد پاکستان کے کئی شہروں میں صحافیوں نے احتجاج کیا۔ حملہ آوروں کی گرفتاری اور انہیں کڑی سزائیں دینے کا مطالبہ کیا۔ ملک کے طول و عرض میں صحافیوں کا یہ احتجاج کوئٹہ کے ہزارہ قبائل کی نسل کشی کے خلاف ملک بھر میں دیئے جانیوالے دھرنوں سے زیادہ موثر ثابت ہوا۔ پولیس نے نہ صرف ان حملہ آوروں کو گرفتار کرلیا بلکہ ان سے حاصل ہونیوالی معلومات بھی میڈیا کے سامنے پیش کر دیں۔ 18 اپریل کو پولیس کی جانب سے دی جانیوالی میڈیا بریفنگ میں تمام تفصیلات بتائی گئی۔
 
سی سی پی او لاہور چوہدری شفیق نے دعویٰ کیا کہ پولیس نے ایکسپریس نیوز کے اینکر پرسن رضا رومی سمیت مختلف سیاسی و مذہبی شخصیات پر قاتلانہ حملوں میں ملوث کالعدم لشکر جھنگوی کے ماسٹر مائنڈ سمیت چھ ملزمان عبدالرؤف، محمد صابر شاہ عرف اکرام، شیخ فرحان، محمد رفیق، شفاقت علی فاروقی عرف معاویہ، محمد ہاشم اور سلمان پٹھان کو گرفتار کر لیا ہے۔ چوہدری شفیق کا کہنا تھا کہ ملزمان رضا رومی، اہلسنت والجماعت پنجاب کے صدر شمس الرحمن معاویہ، ڈرامہ نگار اصغر ندیم سید سمیت سنی اور شیعہ مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹروں، وکیلوں اور تاجروں پر حملوں میں ملوث رہے ہیں۔ ملزمان سے حاصل شدہ معلومات سے متعلق سی سی پی او نے کہا ہے کہ دہشت گردی کی وارداتوں کا ماسٹر مائنڈ عبدالرؤف گجر بادامی باغ لاہور کا رہائشی ہے۔
 
اس نے دوران تفتیش انکشاف کیا ہے کہ وہ ملک اسحاق اور ہارون بھٹی کے ذریعے اس طرف مائل ہوا اور اپنے ساتھ مختلف لوگوں کو شامل کرکے ایک نیٹ ورک قائم کرچکا ہے۔ تنظیمی انتخابات میں ہارون بھٹی کی شکست پر شمس الرحمن معاویہ کے قتل کا منصوبہ بنایا گیا۔ قوی امکان یہی تھا کہ میڈیا کی جانب سے اس دہشت گرد گروہ اور اس گروہ سے منسلک سیاست کاروں کا ٹرائیل شروع ہوجائے گا۔ اگر یہ ٹرائیل کامیاب رہا تو ممکن ہے کہ یہ دہشت گرد اتنی آسانی سے اپنی رہائی کے عدالتی پروانے حاصل نہ پائیں، جتنی آسانی سے ان کے سربراہ ملک اسحاق کو جاری ہوگیا تھا۔
 
سی سی پی او لاہور کی جانب سے دی جانیوالی میڈیا بریفنگ کے فوراً بعد کراچی میں حامد میر دہشت گردی کا نشانہ بن گئے۔ ڈاکٹروں کے مطابق ان کے جسم میں چھ گولیاں لگی ہیں، تاہم ان کی حالت خطرے سے باہر ہے۔ ان کے بھائی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ حامد میر نے پہلے ہی خدشہ ظاہر کر دیا تھا کہ انہیں نشانہ بنایا جائے گا اور ان پر حملے میں اور کوئی نہیں بلکہ آئی ایس آئی اور جنرل ظہیر الاسلام ملوث ہونگے۔ عامر میر کے اس بیان کے بعد کچھ صحافتی حلقوں کی توپوں کا رخ بالواسطہ یا بلاواسطہ آئی ایس آئی کی جانب مڑ گیا۔ حامد میر پر ہونیوالے حملے اور عامر میر کے بیان کا سب سے نمایاں اثر یہ ہوا کہ ملک اسحاق، لشکر جھنگوی اور رضا رومی کے حملہ آوروں کا ہونیوالا ممکنہ میڈیا ٹرائیل شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہوگیا اور بجائے دہشت گردوں یا گرفتار ملزمان کے آئی ایس آئی قلم و کیمروں کی نوک پر آگئی۔
 
حملے کی جزئیات پر غور کریں تو چند امور نہایت توجہ طلب ہیں۔ اول یہ کہ کیا واقعی آئی ایس آئی اتنی بے خبر تھی کہ حامد میر نے اپنا وڈیو پیغام ریکارڈ کرایا ہوا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ میرے اوپر ہونیوالے کسی بھی ممکنہ حملے کی صورت میں ڈی جی آئی ایس آئی ذمہ دار ہونگے، جس کے امکانات انتہائی کم ہیں۔ کسی دفاعی ادارے کو اس صحافی کے قتل میں کتنی دلچسپی ہوسکتی ہے، جس کی رپورٹس اور ذرائع سے گاہے بگاہے وہ خود بھی مستفید ہوتے ہوں۔ آئی ایس آئی ملک کے نامور صحافی پر ایسا حملہ کیوں کرے گی، جس میں ان کا مقصد بھی پورا نہ ہو اور مورد الزام بھی ٹھہرائی جائے۔ 

اسلام آباد میں 2 مارچ 2011ء کو وفاقی وزیر برائے اقلیتی امور شہباز بھٹی پر ہونیوالے حملے اور کراچی میں حامد میر پر ہونیوالے حملے میں کافی حد تک مماثلت پائی جاتی ہے، جبکہ وفاقی وزیر پر حملے کی ذمہ داری طالبان نے قبول کی تھی۔ دوسری جانب تحریک طالبان پنجاب نے ٹوئیٹر کے ذریعے اپنے پیغام میں حامد میر پر ہونیوالے حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے، تاہم طالبان کے ذمہ دار ذرائع نے اس کی تصدیق نہیں کی ہے۔ صحافیوں پر ہونیوالے حملوں اور دہشت گردی کی جاری لہر کے تناظر میں چند لمحوں کے لیے ہی سہی، اگر عامر میر کے بیان کو نظر انداز کیا جائے تو اس حملے کی کڑیاں بھی اسی دہشت گردی سے جاکر ملتی ہیں، جس کا شکار سیاستدان بھی ہیں، صحافی بھی، فوج، پولیس، اور دیگر اداروں کے علاوہ پاکستان کے عوام بھی۔ 

میڈیا میں جس طرح حامد میر کی بہادری کو خراج پیش کیا جا رہا ہے۔ عدلیہ کے جج صاحبان بھی اگر اتنی ہی جرات و بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے حق و انصاف پر مبنی فیصلے کریں اور دہشت گردوں کو سزائیں سناتے ہوئے خوف، دہشت اور دھمکیوں کو مسترد کر دیں تو کوئی شک نہیں کہ دنیا کے کئی دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی دہشت گردوں کو نشان عبرت بنایا جاسکتا ہے۔ جس ملک میں ڈاکٹرز، انجنئیرز، صحافی، استاد سمیت کوئی بھی محفوظ نہ ہو۔ دہشت گردی کا جواز پیش کرنے کے لیے اسٹیج و منبر و محراب اور ٹاک شوز میں طرح طرح کی تاویلیں پیش کی جائیں۔ اس ملک میں کوئی نامور صحافی ایک وڈیو بیان ریکارڈ کرا کے محفوظ ہونے کا کیسے دعویٰ کر سکتا ہے۔ 

اگر آئی ایس آئی کو بطور ادارہ حامد میر کے قتل میں دلچسپی ہوتی تو شائد وہ ایسا راستہ اختیار کرتی، جس میں اسے حادثے کا رنگ دیا جاسکے، یعنی روڈ ایکسیڈنٹ۔ پاکستان کی سرزمین بھی انوسٹی گیٹیو جرنلزم کے حوالے سے کافی زرخیز ہے۔ اگر قانون نافذ کرنیوالے ادارے دہشت گرد گروہوں کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے صحافیوں کا تعاون حاصل کریں تو دہشت گردی کی کئی کارروائیاں قبل از وقت ناکام بھی بنائی جاسکتی ہیں۔ حامد میر پر حملہ کرنیوالے اس امر سے بخوبی آگاہ تھے کہ اس حملے میں آئی ایس آئی کو مورد الزام ٹھہرایا جائے گا، وہ لاہور میں ایک روز قبل سی سی پی کی میڈیا بریفنگ اور اس کے اثرات سے بھی بخوبی آگاہ تھے اور اس حوالے سے وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 375124
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

United States
Nice one
Pakistan
ایک عمر طالبان کی وفاداری بلکہ دفاع کیا، مگر قبول نہ ہوا۔ نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے۔۔
سید سردار حسین میم
منتخب
ہماری پیشکش