0
Saturday 16 Jul 2011 19:35

قومی مفادات اور قومی سلامتی

قومی مفادات اور قومی سلامتی
تحریر:لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم 
قومی سلامتی کے تحفظ کی سو فیصد ذمہ داری صرف کسی ملک کی افواج پر نہیں ڈالی جاسکتی، اس لیے یہ سوچ بلکل غلط ہے کہ اگر افواج جدید ہتھیاروں سے لیس اور بہت تربیت یافتہ ہوں گی تو پھر ملک کی سلامتی پر کوئی آنچ نہیں آئیگی۔ اگر یہ ممکن ہوتا تو سابقہ فوجی اعتبار سے طاقتور سوویت یونین معاشی دباؤ کے نیچے گاڑی کی ونڈ سکرین کی طرح چکنا چور نہ ہو جاتی، اس لئے ملکی سلامتی کے تحفظ اور ملکی مفادات کے دفاع کیلئے کسی بھی ملک کی افواج کو دوسرے طاقت کے قومی ستونوں کی مکمل تائید اور تعاون کا حاصل ہونا نہیایت ضروری ہے۔ اسکے ساتھ یہ بات بھی ٹھیک ہے کہ خطرات کی نوعیت کو دانشوری سے صحیح پرکھے بغیر آپ اِن کا مقابلہ کرنے کیلئے مؤثر حکمت عملی یا رساپنس تیار بھی نہیں کرسکتے۔ ایک پارلیمانی نظام حکومت میں قومی مفادات کا ادراک رکھنے اور ان کو لاحق خطرات کو بھانپنے کی ساری ذمہ داری (عوام کی نمائندہ) پارلیمنٹ کے کندھو پر ہوتی ہے۔
قارئین قومی مفادات کو لاحق خطرات کا جائزہ لینے سے پہلے آئیے ہم یہ دیکھیں کہ ہمارے قومی مفادات ہیں کیا اور اگر مندرجہ ذیل قومی مفادات میں سے کسی ایک کو بھی کوئی خطرہ لاحق ہوا تو واقعی ہماری قومی سلامتی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ پہلا قومی مفاد یہ ہے کہ:
1۔ ہر صورت قومی یکجہتی اور یگانگت کو قائم رکھا جائے، چونکہ فرقہ واریت، لسانیت، مذہبی انتہا پسندی، سیاسی دہشتگردی اور صوبائیت و علاقائیت کی بنا پر خانہ جنگی سے ملک ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتے ہیں۔
2۔ لوگوں کی معاشی خوشحالی کے ہدف کو یقینی بنانا، غربت اور افلاس کی چکی میں پسی ہوئی مقروض قوم کو ایٹیمی ہتھیار اور میزائل اکٹھا نہیں رکھ سکتے۔
3۔ ملکی جغرافیائی سرحدوں کا ہر حالت میں دفاع کرنا اور ملک کے اندر لوگوں کے جان و مال اور آبرو کی حفاظت کرنا۔
4۔ دنیا میں بالعموم، ہمارے خطے اور ہمسایہ ممالک میں بالخصوص پرامن ماحول کا ہونا ہمارے قومی مفاد میں ہے، اس لئے پرامن، آزاد اور غیر جانبدار افغانستان پاکستان کی قومی سلامتی کیلئے ضروری ہے۔
5۔ پاکستان کی شہ رگ کمشیر کی ہندوؤں کے ناجائز قبضے سے سلامتی کونسل کی قراردادوں کیمطابق آزادی، تاکہ ہمارے دریاؤں کے پانی پر ہندوستان ڈاکہ ڈال کر ہمارا معاشی استحصال نہ کرسکے۔
6۔ پاکستان کے اندر ایک ایسا ماحول قائم رکھنا، جس میں نہ صرف پاکستانی مسلمان اپنے دین، ایمان، اعتقاد، اسلامی اقدار اور رسم و رواج کے مطابق (حیا کی حدود میں رہنتے ہوئے) مکمل آزادنہ زندگی بسر کرسکیں بلکہ قائد اعظم محمد علی جناح کے ارشادات اور ہمارے پیارے نبی کریم ص کے میثاق مدینہ کی روح کے مطابق ہر مذہب اور ہر فرقے کا فرد بھی ایک باوقار اور آزاد پاکستانی شہری ہونے کے ناطے اپنے آپ کو ایک قابل فخر پاکستانی سمجھیں۔
7۔ انصاف اور احتساب کے سنہری اصولوں کی روشنی میں مؤثر حکمران۔
8۔ صاف، ذمہ دار اور آزاد صحافت۔ 
قارئین مذکورہ بالا قومی مفادات میں سے کسی ایک کو خطرہ بھی قومی سلامتی کیلئے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ مذکورہ بالا مفادات میں کچھ اٹل اور کریٹیکل اور کچھ کم اہمیت کے حامل مفادات ہیں لیکن یہ سب ملکی سلامتی کیلئے ضروری ہیں۔ آپ صرف آخری نقطہ ہی لے لیں، اگر میڈیا کے محب وطن بھائیوں کی صفوں میں بیرونی جاسوس گھس آئیں اور سی آئی اے، موساد اور را میڈیا کو ایک نفسیاتی حربہ کیلئے بطور ہتھیار استعمال کرنا شروع کر دیں تو قومی سلامتی خطرہ کی زد میں آجائیگی، اس لیے ضروری نہیں کہ پاکستان کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا ناپاک خواب دیکھنے والے اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کیلئے صرف پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں پر فوجی یلغار کریں اور ہماری افواج کیساتھ ایک خونیں معرکے میں اپنا جانی نقصان کرنے کا رسک بھی لیں۔
دشمن کیلئے بہترین حکمت عملی یہ ہو گی کہ ایٹمی پاکستان کو میدان جنگ میں لائے بغیر اس تناور درخت کے تنے پر اندر سے دیمک کا ایسا حملہ کروایا جائے، تاکہ تنا کھوکھلا ہو جائے اور درخت کا وزن نہ سہار سکے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا دشمن بار بار افواج پاکستان کے کردار، انٹیلی جنس ایجنسیوں کی اہلیت اور ہمارے اسلامی تشخص پر حملہ آور ہوتا ہے اور ایک بہت بڑے منصوبے کے تحت ہماری معاشی، صحافتی، نفسیاتی، مذہبی اور نظریاتی سرحدوں پر تابڑ توڑ حملے بھی کر رہا ہے اور پوری قوم پارلیمنٹ کو فعال بنانے کی بجائے فوج کی طرف دیکھ رہی ہے۔
قارئین، میں اپنے کالموں میں لفاظی نہیں کرتا اور ایک فوجی سپاہی لفاظی کر بھی کہاں سکتا ہے، اللہ گواہ ہے جو کچھ میں پچھلے چار سالوں سے لکھ رہا ہوں، یہ ایک غیر جانبدار اور ادنٰی پاکستانی کے دکھی دل کی درد مندانہ آہ و پکار ہے، خدا جانتا ہے کہ ان سطور کو قلم کی نوک سے کاغذ پر اتارتے وقت بھی میری آنکھیں پُرنم ہیں، چونکہ سمجھ میں نہیں آ رہا کہ ہر لحاظ سے اتنی طاقتور قوم اتنی بے بس کیوں ہے۔ بلوچستان کی ناقابل بیان زہریلی صورتحال، کراچی کی ٹارگٹ کلنگ، قبائلی پٹی میں بے گناہ بھائیوں کا قتل، بے شرمی سے بیرونی مداخلت اور امداد روکنے کی دھمکیاں، اسلام آباد اور دین سے دوری، افواج پاکستان کی ساکھ پر حملے، یہ قومی یکجہتی کو تار تار کرنے کی دشمن کی چالیں نہیں تو اور کیا ہیں؟ اور اگر عوام کی معاشی خوشحالی بھی ہمارا ایک قومی مفاد ہے، جو کہ یقیناً ہے تو اس کی تباہی کیا ہماری قومی سلامتی کیلئے خطرہ نہیں۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ تین سالوں میں ملک مزید پانچ ہزار ارب روپے کا مقروض ہوا، جبکہ ساٹھ سالوں میں صرف چھ ہزار روپے کے قرضے لئے گئے، کیا اسمبلی نے اسکی منظور دی، پارلیمنٹ تو ٹس سے مس نہیں ہوتی، ہر کسی کو اقتدار سے محبت ہے۔ سٹیٹ بنک کا زندہ ضمیر گورنر مستعفی ہو گیا اور پھر ان قرضوں سے کونسی معاشی ترقی ہوئی۔ موجودہ بجٹ کا سالانہ خسارہ جو ظاہر کیا گیا وہ 940 ارب روپے کا ہے، لیکن معاشی دانشور کہتے ہیں کہ دراصل یہ خسارہ 450 ارب روپے ہو گا چونکہ اخراجات کو گھٹا کر اور آمدن کو غیر حقیقی بڑھا کر پیش کیا گیا ہے۔ اس صورتحال میں پاکستان ہر 24گھنٹے میں تقریباً 4ارب روپے اپنی آمدنی سے زیادہ خرچ کر رہا ہے۔ آئی ایم ایف ہمارے گلے میں پھندہ ہر سال سخت کرتا ہے۔
میں حیران ہوں کہ حفیظ شیخ جیسا دیانیدار اس تباہی کی صدارت کر رہا ہے، تاکہ وہ بہتر ہو جائے۔ ہندوؤں کی ملی بھگت سے صرف مغربی میڈیا ہی ہمارے اوپر حملہ آور نہیں، بلکہ امریکہ نے پاکستانی صحافتی برداری اور میڈیا میں بھی میر جعفروں اور میر صادقوں کو پالنے اور ان کو ہڈیاں ڈالنے کیلئے 50 ملین ڈالرز کی رقم الگ رکھ چھوڑی ہے۔
مشرقی سرحد سے کولڈ سٹارٹ ڈاکٹرین، مغربی سرحد کیساتھ ابیٹ آباد پر حملہ آور ہونیوالے اتحادیوں کے لباس میں بھیڑیے، ملک کے اندر ریمنڈ ڈیوس کی مکروہ فوج کی ایک بہت بڑی تعداد، خطے میں امریکہ کی موجودگی کی وجہ سے ایک جنگی ماحول، ہندوستان کا کشمیر پر قبضہ ہی نہیں، بلکہ ہمارے دریاؤں پر بند باندھنے کے ناپاک منصوبے بن رہے ہیں۔ یہ سب ایک بہت ہی سنجیدہ اور خطرناک صورتحال کی نشاندہی کرتا ہے، جو سارے ہمارے مذکورہ بالا قومی مفادات اور قومی سلامتی کیخلاف ہیں، لیکن ہم ہیں کہ پارلیمنٹ اور سیاسی قیادت کو جگانے کی بجائے فوج کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ پچھلے 48 گھنٹوں میں تقریباً 64 لوگ ڈرون حملوں سے مارے گئے۔ انسانی حقوق کی علمبردار ہماری بہن عاصمہ جہانگیر خاموش کیوں ہیں۔؟
یکم جولائی کو جنرل اشفاق پرویز کیانی کی ریٹائرڈ جرنیلوں سے ملاقات کے دوران میں نے وقفے میں ان سے بھی عرض کیا کہ فوج کی سیاست سے علیحدگی، اسکے محتاط استعمال اور سوات و مالاکنڈ میں بھاری جانی قربانیاں دیکر امن قائم کر لینے کے بعد بغیر کسی شک کے فوج کے وقار میں اضافہ ہوا، بعد میں بدقسمتی سے مئی، جون کے حالیہ واقعات کی وجہ سے بہت سارے لوگوں کو فوج پر جائز و ناجائز انگلیاں اٹھانے کا موقع بھی ملا، جس کا فوج کی طرف سے مؤثر دفاع کی ضرورت تھی، جو بدقسمتی سے نہ ہوا، اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ افواج پاکستان کی قیادت جنرل کیانی کر رہے ہیں۔ اکیسویں صدی کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے فوج کے اندر انقلابی تبدیلیاں لائے، انگریزوں کے دئیے ہوئے ملٹری سسٹم کو بدل ڈالے، پیشہ ورانہ تربیت پر زور دے اور ضرور یہ دیکھے کہ ماضی میں غلطیاں کہاں ہوئیں اور اس پاکیزہ پیشے میں ایک شفاف خود احتسابی کیسے کی جائے، تاکہ دشمنوں کے منہ بند ہو جائیں۔ ان حالات کے باوجود میری ناقص عقل میں ہماری فوج ہر حالت میں ہماری قوم کا ایک انمول اثاثہ ہے، لیکن اصل بات یہ ہے کہ قومی سلامتی کے حوالے سے افواج پاکستان کا کردار کلیدی تو ضرور ہے، لیکن کلی نہین بلکہ جزوی ہے۔
جنرل اشفاق پرویز کیانی جانتے ہیں کہ صرف ملٹری اسٹرٹیجی قومی سلامتی کو یقینی نہیں بنا سکتی۔ قومی سلامتی کے تحفظ کیلئے فوج کے علاوہ دوسرے اہم ٹولز، مؤثر پارلیمنٹ، مضبوط معیشت، پروایکٹو خارجہ پالیسی اور سفارت کاری، آزاد نظام عدل، منصفانہ نظام احتساب، غیر جانبدار لیکن قومی سلامتی کے حوالے سے نہایت ذمہ دار مضبوط میڈیا اور کرپشن سے پاک مؤثر حکمرانی کا نظام ہیں، یہ سارے اگر دیمک زدہ ہوں تو پھر ایک پیشہ ور اور مضبوط فوج بھی اکیلی کچھ نہیں کر سکتی، اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ان سب چیزوں کو آپس میں بُن کر دیکھنے کیلئے کوئی مؤثر قومی ادارہ وجود میں لایا جائے جو پارلیمنٹ، افواج پاکستان، دفتر خارجہ، وزارت داخلہ، وزارت اطلاعات اور وزارت خزانہ میں ربط پیدا کرے۔
اگر ایسا نہ ہوا تو قومی سلامتی کو خطرات رہیں گے، اس لئے یہ انہتائی ضروری ہے کہ جیسے میری ٹائم سکیورٹی کے معاملات پر چیف آف نیول اسٹاف وزیراعظم کے مشیر ہیں، اسی طرح جب تک نیشنل سکیورٹی اتھارٹی کا قیام عمل میں نہیں لایا جاتا، چیف آف آرمی اسٹاف اپنے فرائض نبھانے کے علاوہ نیشنل سکیورٹی ایشوز پر وزیراعظم کے معاون کا کردار بھی ادا کریں اور بار بار وزیراعظم مرکزی کابینہ، پارلیمنٹ اور عوام کو یہ بتاتے رہیں کہ کہ معاشی دیوالیہ پن ذاتی مفادات کی خاطر غیر اخلاقی سیاسی گٹھ جوڑ، وزیر خارجہ کے بغیر یتیم دفتر خارجہ، غیر پیشہ ور سفیر، غیر ذمہ دار میڈیا، کمزور حکمرانی اور عدلیہ کے احکامات کا تمسخر، غیر فعال پارلیمنٹ اور بے بس چیف ایگزیکٹو کے قومی سلامتی پر کتنے اندوہناک اثرات پڑ سکتے ہیں اور ان معاملات کو کم سے کم وقت میں کیسے سیدھا کیا جاسکتا ہے، جس کیلئے نیشنل سکیورٹی پالیسی اور اسٹرٹیجی بنا کر اس کی پارلیمنٹ سے منظوری لی جائے۔
خبر کا کوڈ : 85453
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش