0
Sunday 15 May 2011 01:45

امریکہ نے اتحادی بن کر ہماری پیٹھ میں خنجر گھونپا ہے، ہمیں امریکہ کے سامنے لیٹنے کی بجائے کھڑا ہونا ہو گا، لیفٹینیٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم

امریکہ نے اتحادی بن کر ہماری پیٹھ میں خنجر گھونپا ہے، ہمیں امریکہ کے سامنے لیٹنے کی بجائے کھڑا ہونا ہو گا، لیفٹینیٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم
لیفٹینٹ ریٹائرڈ جنرل عبدالقیوم کا نام ملک کے ممتاز محققین اور سیاسی نشیب و فراز پر گہری نظر رکھنے والے بلند پایہ دفاعی و سیاسی تجزیہ نگاروں میں ہوتا ہے، قومی اور بین الاقوامی سیاست پر ان کے بے لاگ اور جاندار تبصرے انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں، آپ ایک اچھے کالم نگار بھی ہیں، اسلام ٹائمز نے ابیٹ آباد آپریشن میں اسامہ بن لادن کی پراسرار ہلاکت، دفاعی اداروں کی مبینہ غفلت اور قومی سلامتی پر اٹھنے والے سوالات پر مشتمل ایک تفصیلی انٹرویو کیا ہے اور کوشش کی گئی ہے کہ قارئین کےذہنوں میں اٹھنے والے تمام سوالوں کا جواب لیا جائے، اُمید ہے کہ اسلام ٹائمز کی اس کاوش سے قارئین کو موجودہ حالات سے آشنائی میں مدد ملے گی۔

 
اسلام ٹائمز:ابیٹ آباد میں امریکی آپریشن، سول اور عسکری قیادت کے متضاد بیانات، قوم حقائق جاننا چاہتی ہے، کیا ہوا، وہاں اسامہ تھا، نہیں تھا، ہماری ایجنسیوں اور دفاع پر مامور اداروں نے اُن طیاروں کو کیوں نہ روکا اور یہ لوگ کہاں سو گئے تھے، یہ وہ سوالات ہیں جنہیں عوام جاننا چاہتی ہے۔ اس ساری صورتحال کو آپ کیسے دیکھتے ہیں۔؟
لیفٹینیٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم:2 مئی کا واقعہ دراصل بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی اور ایک ایسے ملک کی طرف سے پاکستان کے خلاف ننگی جارحیت تھی جو دہشتگردی کیخلاف جنگ میں پاکستان کا اتحادی ہے اور بظاہر اپنے آپ کو پاکستان کا دوست ظاہر کر کے پاکستان کے ہوائی اڈے، بندرگاہیں، زمینی اور ہوائی راستے استعمال کر رہا ہے۔ ہماری مغربی سرحد کے دونوں طرف انسرجنسی تو ضرور ہے، لیکن سرحد کے اس پار ہمارے اتحادیوں کی موجودگی کی وجہ سے پاکستان اپنی سرزمین پر دو مئی جیسی امریکی یلغار کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ کچھ مغربی مبصر 11/9 کے واقعہ کو ایک ڈرامہ کہتے ہیں۔ حال ہی میں امریکہ کے ایک سابقہ ڈپٹی اسسٹنٹ سیکرٹری برائے خارجہ امور نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ امریکہ فوج کے حاضر سروس جنرل نے ان خدشات کی تائید بھی کر دی ہے کہ 11/9 والا واقعہ امریکہ نے خود کروایا تھا تاکہ عراق اور افغانستان پر حملے کی کوئی راہ نکالی جائے۔ امریکی آفیسر اس جنرل کا نام بھی امریکہ کی سپریم جیوری کے آگے رکھنے کو تیار ہے۔ اسی طرح جب تک اسامہ بن لادن کی ابیٹ آباد میں موجودگی کے کوئی واضح ثبوت سامنے نہیں آتے اس وقت تک اس واردات کو بھی ڈرامہ ہی سمجھا جائیگا، جس کا مقصد افواج پاکستان اور اس کی اعلیٰ ترین انٹیلیجنس ایجنسیوں کو بدنام کرنا مقصود ہے۔
اسلام ٹائمز:بعض دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی مدد کے بغیر یہ آپریشن کامیاب نہیں ہو سکتا تھا جبکہ بعض کی رائے ہے کہ پاکستان میں مذکورہ کاروائی ہماری حکومت کی اہلیت اور دفاعی اداروں کی مستعدی پر سوالیہ نشان ہے، آپ کیا کہیں گے۔؟
لیفٹینیٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم:دوسری جنگ عظیم میں جاپانیوں نے امریکی جزیرے ہوائی کی پرل ہاربر پر اچانک حملہ کر کے امریکہ کو حیران کر دیا تھا۔ اس وقت جنگی ماحول تھا اور جاپان امریکہ کا واضح دشمن بھی تھا۔ ابیٹ آباد پر حملہ امن کے ماحول میں اس ملک نے کیا جو دہشگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کا اتحادی ہے۔ اس لئے یہ بالکل ممکن ہے کہ مرے ہوئے اور برف میں جمے ہوئی اسامہ کی لاش کو لیکر یہ چالباز ابیٹ آباد آئے ہوں اور اس کو مار دینے کی خبر بنا کر عجلت میں واپس چلے گئے ہوں۔ اس میں دفاعی اداروں کی مستعدی پر حرف ضرور آیا ہے لیکن یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ ہماری پیٹھ میں چھرا ایک اتحادی نے گھونپا ہے۔
اسلام ٹائمز:آپ سمجتھے ہیں کہ ابیٹ آباد آپریشن میں ہماری فوج اور سی آئی اے میں کوئی انڈرسٹنڈنگ موجود تھی۔؟
لیفٹینیٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم:میرے خیال میں یہ درست نہیں، چونکہ ریمنڈ ڈیوس کے پاکستان کے خلاف جاسوسی کرتے پکڑے جانے کے بعد سی آئی اے اور آئی ایس آئی کے تعلقات میں کافی سرد مہری تھی، اور اس کے بعد دتہ خیل پر امریکی ڈرون حملوں میں 50 بے گناہ افراد کے ماورائے آئین و قانون قتل کے بعد صورتحال بالکل ایسی نہ تھی کہ آئی ایس آئی امریکی جاسوسوں سے کوئی انڈرسٹندنگ کرتی۔
اسلام ٹائمز:لوگ حقائق جاننا چاہتے ہیں، مایوسی بڑھ رہی ہے، اگر یہ کہا جائے کہ اکہتر والی صورتحال ہے تو بےجا نہ ہو گا، ایسی صورتحال میں قیادت کو کیا کرنا چاہیے۔؟
لیفٹینیٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم:بدقسمتی سے ملک میں قیادت کا بدترین خلا ہے۔ پارلیمانی نظام حکومت کے مطابق ملک کے چیف ایگزیکٹو وزیراعظم ہیں۔ لیکن ملک کی باگ ڈور اُن کے ہاتھ میں بالکل نہیں۔ حزب اختلاف بھی بدقسمتی سے اپنا کردار اس طرح ادا نہیں کر رہی، جس کی قوم توقع کر رہی تھی۔ سیاسی جماعتوں میں برائے نام جمہوریت ہے۔ جو اُن کا لیڈر کہہ دے وہ حرف آخر بن جاتا ہے۔ آئین میں اٹھارویں ترمیم کے بعد کوئی پارلیمنٹرین اپنے سیاسی قائد سے اختلاف کر کے اپنی نشت سے ہاتھ نہیں دھونا چاہتا۔ سیاسی خلا کی وجہ سے افواج پاکستان کی قیادت کو اُن امور میں بھی مبتلا کیا جا رہا ہے جن کی اُن کے پاس مہارت نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ ملکی نظام اور حکمرانی سے مطئمن نہیں۔ اس جمود کو صرف عوام ہی اگلے انتخابات میں دیانتدار اور نڈر قیادت کو سامنے لا کر توڑ سکتے ہیں۔
اسلام ٹائمز:کہا جا رہا ہے کہ امریکہ افغانستان سے جاتے جاتے کافی مسائل پیدا کر کے جائے گا۔؟
لیفٹینٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم:یہ سچی بات ہے کہ اگر امریکہ نےافغانستان سے اپنے انخلا کی صحیح منصوبہ بندی نہ کی تو مسائل بڑھ سکتے ہیں۔ خصوصاً ایسی صورت میں اگر پاکستان کو مرکزی کردار نہ ادا کرنے دیا گیا اور ہندوستان کی بےجا پذیرائی ہوتی رہی تو پھر افغانستان میں امن قائم نہیں ہو سکتا اور آفت زدہ اور مسائل میں گھرا ہوا افغانستان ہمیشہ پاکستان کی سردردی بنا رہیگا۔
اسلام ٹائمز:پاکستان میں دہشتگردی کی اصل وجوہات کیا ہیں، اس کے پیچھے کون سی سوچ کارفرما ہے، کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں تمام تر دہشتگردی کے پیچھے امریکی ہاتھ ہے۔؟
لیفٹینیٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم:پاکستان میں دہشتگردی کی اصل وجہ امریکہ کی عسکریت پسند خارجہ پالیسی اور غلط حکمت عملی ہے، اِن میں فلسطین، کشمیر، عراق اور افغانستان میں بین الاقوامی ناانصافیاں، پاکستان کے خلاف ڈرون حملے، اسرائیل اور ہندوستان کی ریاستی دہشگردی کی پشت پناہی شامل ہیں۔ پاکستان میں ہونے والی دہشتگردی دراصل ایک پراکسی جنگ ہے جس کے پیچھے را، موصاد اور سی آئی اے کا ہاتھ ہے۔ پاکستان کے اندر سی آئی اے کا ایک موثر جال ہے جس کا واضح ثبوت ریمنڈ ڈیوس جیسے سفارتی لباس میں جاسوسی کرنے والے افراد ہیں۔
اسلام ٹائمز:وطن عزیز میں تمام حکمران امریکہ کی جانب کیوں دیکھتے ہے، عوامی امنگوں کو کیوں پیروں تلے روند دیا جاتا ہے۔؟
لیفٹینیٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم:آمر امریکہ کی طرف اس لئے دیکھتے رہے کہ اُن کے اقتدار کی طوالت کی کنجی امریکہ کی جیب میں تھی۔ یہی وجہ ہے کہ عوامی خواہشات کا احترام کرنے کی بجائے ان آمروں نے وہی کچھ کیا جو امریکہ نے چاہا۔ سب سے زیادہ نقصان جنرل مشرف کے دور میں ہوا، جب ہم نے ہوائی راستے، ہوائی اڈے اور بندرگاہوں کے علاوہ زمینی راستے بھی دے دیئے۔ سیاسی قائدین میں سے صرف وہی امریکی رُعب کے نیچے آئے جو ملک کی اندرونی اخلاقیات سے بے نیاز سیاست کی وجہ سے اُن اعلیٰ ترین عہدوں پر پہہنچ گئے، جن پر وہ کام کرنے کی 5 فیصد بھی اہلیت نہیں رکھتے تھے۔ اقتدار پر جائز و ناجائز طریقے سے قبضہ پکا رکھنا، احتساب سے بچنا، مالِ حرام اکٹھا کرنا اور اگلے انتخابات کیلئے اپنی اپنی نشستیں محفوظ کرنے کیلئے لوٹ مار کو جاری رکھنے کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ سیاستدانوں کی یہ نسل امریکہ کو اپنے مفادات کیلئے آمروں سے بھی زیادہ موزوں لگتی ہے چونکہ امریکہ اپنی عوام کو بتاتا ہے کہ ہم پاکستان میں جمہوری حکومت سے ڈیل کر رہے ہیں۔
اسلام ٹائمز:کہا جا رہا ہے کہ اگر امریکہ کے ساتھ تعلقات خراب ہوئے تو پاکستان مسائل کا شکار ہوجائے گا، کیا اس بات میں کوئی وزن ہے۔؟
لیفٹینیٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم:یہ بات ٹھیک ہے کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات کو بالکل منقطع کر لینا ہمارے مفاد میں نہیں۔ لیکن بہترین حکمت عملی، اعلیٰ سفارت کاری اور بہترین Statesman ship سے ہم ضرور امریکہ کے ساتھ ایک قابل قدر اور باعزت رشتہ استوار کر سکتے ہیں۔ اور یاد رکھنے والی بات یہ بھی ہے کہ امریکہ پاکستان کے ساتھ اس لئے نہیں چمٹا ہوا کہ وہ پاکستان کا بڑا ہمدرد ہے۔ افریقہ غربت سے بدحال ممالک سے بھرا ہوا ہے، امریکہ کو اُن کی زبوں حالی کی پرواہ نہیں۔ پاکستان کو مالی اور فوجی امداد اس لیے دی جا رہی ہے کہ پاکستان امریکہ کیلئے بھی بہت اہم ہے۔
اسلام ٹائمز:موجودہ بحران سے کیسے نمٹا جائے، جب پوری دنیا پاکستان کیخلاف ہے، رائے عامہ ہمارے خلاف ہو چکی ہے اور کون سے ممالک ہیں جو ہماری مدد کرسکتے۔؟
لیفٹینیٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم:موجودہ بحران سے موثر طریقے سے نمٹنے کیلئے ہمیں امریکہ کے سامنے لیٹنے کی بجائے کھڑا ہونا ہو گا۔ سارے تعاون کو منجمد کر کے اتحاد کی شرائط پر دوبارہ غور کرنا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان، چین، روس، ایران، ترکی، سعودی عربیہ اور وسطی ایشائی ریاستوں کو ساتھ ملا کر ایک اور موثر بلاک بنا سکتا ہے۔ ہمیں اپنی خارجہ پالیسی میں بنیادی تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے۔ اس پر پارلیمنٹ میں مناظرے ہوں اور پھر حکومت دفتر خارجہ کو نیا وژن دے اور سارے سفیروں کو بلا کر بریف کیا جائے، لیکن سمجھنا یہ ضروری ہے کہ خارجہ پالیسی داخلی صورت حال کی کھوک سے جنم لیتی ہے۔ اس لئے ہمیں قومی یکجہتی، بہترین حکمرانی اور قانون کی پاسداری کی طرف آنا ہو گا۔
اسلام ٹائمز:مشرق وسطیٰ کی موجودہ صورتحال کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں، کہیں پر امریکہ اور اس کے حواری عوامی تحریکوں کی حمایت کر رہے ہیں تو کہیں پر آمریت کا ساتھ دیا جا رہا ہے، کیا کہیں گے۔؟
لیفٹینیٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم:امریکہ کے سابق صدر نلسن سے کسی نے پوچھا کہ آپ کے مشرق وسطیٰ میں کیا مفادات ہیں انہوں نے فوراً جواب میں کہا کہ صرف دو، ایک آئل اور دوسرا اسرائیل، اب بھی ان دو مفادات کو یعنی تیل کے کنوؤں پر قبضہ اور اسرائیل کی سلامتی کی حفاظت کو ذہن میں رکھ کر امریکہ کو اگر ڈکٹیٹر شپ موافق آتی ہو یا جمہوریت اس کو دونوں منظور ہیں۔ ایران جس کو اسرائیل اپنے لئے خطرہ سمجھتا ہے تو اسے شکست دینے کیلئے عراق کا جابر ڈکٹیٹر صدام حسین امریکہ کو قبول تھا لیکن بعد میں عراقی تیل کی دولت سمیٹنے کیلئے اس کو تحتہ دار پر لٹکا دیا۔ ایران میں شہنشاہت قابل قبول تھی، اب لیبیا میں کرنل قذافی ناقابل قبول ہے چونکہ وہ ایک ڈکٹیٹر ہے۔ مصر کے صدر حسنی مبارک کو پہلے پالا پھر اس کو ہٹنے کو اس لئے کہا کہ مصر میں جمہوری نظام ہونا چاہیے اور لوگوں کو اپنے قائدین منتخب کرنے کا حق ہونا چاہیے، لیکن فلسطین میں جب حماس کو جمہوری فتح نصیب ہو گئی تو وہ جمہوریت قابل قبول نہیں۔
اسلام ٹائمز:جنرل صاحب، قومی اسمبلی میں ہونے والے جوائنٹ سیشن سے کیا سمجھتے ہیں کہ عوام کا اعتماد بڑھا ہو گا اور مایوسی کے بادل جھٹ جائیں گے۔؟
لیفٹینیٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم:ہمیں پتہ ہے کہ ابیٹ آباد کے واقعہ سے قوم کا مورال ڈاون ہوا ہے اور قوم کے اندر مایوسی نے جنم لیا ہے، لیکن گھبرانے اور فکر کرنے والی کوئی بات نہیں، مایوسی کفر ہے۔ ابیٹ آباد میں ہم نے جنگ ہاری ہے جو کہ ٹیکنیکل جنگ تھی، لیکن جو پاکستان کی بقاء کی جنگ ہے وہ ہم لڑ رہے ہیں۔ دراصل ایک اتحادی نے ہمیں دھوکہ دیا ہے، جس کو ہم نے ائیر بیس دی ہوئی ہے جسے ہم نے اپنا گراونڈ اانفراسٹرکچر دیا ہوا تھا اس نے ہمارے ساتھ دھوکہ کیا ہے۔ اچھی بات ہے کہ پاک آرمی اور تمام دفاعی اداروں نے کہا کہ وہ پارلیمنٹ کے سامنے جواب دہ ہیں، پارلیمنٹ جو پالیسی بنائے گی اس پر عمل کیا جائے گا۔ عسکری قیادت نے پارلیمنٹ میں آ کر قومی نمائندوں کے سامنے جواب دینا اور اپنے آپ کو انُ کے سامنے جوابدہ کہنا ایک اچھی پیش رفعت ہے۔ ابیٹ آباد آپریشن کی ناکامی صرف آرمی کی ہی ناکامی نہیں بلکہ تمام اداروں کی ناکامی ہے، اس میں ہماری خارجہ پالیسی، سفارتکاری اور پوری قیادت کی شکست ہوئی ہے کہ جن پر پچھلے دس سالوں سے تکیہ کئے ہوئے ہیں اور ہماری خارجہ پالیسی اُن سے لنک ہے، اس جنگ میں ہمارے پینتس ہزار افراد شہید ہوئے اور وہ ہم پر اتنا بھی اعتماد نہیں کرتے کہ وہ ہمارے ساتھ انٹلیجنس شیئرنگ کریں۔ ہم ان سے ہر چیز شیئر کرتے ہیں، جب کہ وہ ہمیں قابل اعتماد نہیں سمجھتے۔ البتہ یہ سب ایک مخصوص حالات میں ہوا ہے، اس لئے قوم کو پریشان نہیں ہونا چاہیے۔
اسلام ٹائمز:جنرل صاحب پچھلے تریسٹھ برسوں سے سن رہے ہیں کہ امریکہ پاکستان کا دوست ہے، اتحادی ہے لیکن گذشتہ تاریخ میں کہیں پر بھی ثابت نہیں ہوا کہ امریکہ نے پاکستان کی مدد کی ہو یا مشکل وقت میں ساتھ کھڑا ہوا ہو۔ کیا یہ بات ہماری سول اور فوجی قیادت کو سمجھ نہیں آتی کہ ہماری خارجہ پالیسی کا کیا محور ہونا چاہیے اور اُسے کن خطوط پر استوار ہونا چاہیے۔؟
لیفٹینیٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم:ہمیں ابیٹ آباد کے واقعہ کو دیکھنا ہو گا کہ کس طرح ہوا، کون لوگ اس کے ذمہ دار ہیں اور اُن لوگوں کا تعین ہونا چاہیے۔ لیکن ہماری اسٹرٹیجیک سوچ یہ ہونی چاہیے کہ ہماری خارجہ پالیسی کی سمت ٹھیک ہے یا نہیں، نوائے وقت میں چھپنے والے کالم میں میں نے اسی نکتہ کا جواب دیا ہے کہ پچھلے تریسٹھ برسوں میں امریکہ نے کن کن مقامات پر پاکستان کا ساتھ نہیں دیا۔ سیٹو، سینٹو کیا، لیکن پینسٹھ اور اکتہر کی جنگ میں ہم پر پابندیاں لگا دی گئیں، چوہتر میں انڈیا نے ایٹم بم بنانا شروع کیا لیکن اسے نہیں روکا گیا، تاہم 1979ء میں ہمیں روکنے کیلئے پابندیاں عائد کر دی گئیں، سوویت یونین کو توڑنے اور اُسے شکست فاش سے دوچار کرنے میں پاکستان نے ایک اہم رول ادا کیا، لیکن ایسٹرن ممالک نیٹو کی گود میں گرنے لگے، صلے میں ہمارے ایف سولہ جہاز بھی روک لئے گئے، امریکہ نہ پیسے دیتا اور نہ ہی جہاز جبکہ ہم سے جہاز پارک کرنے کے بھی پیسے مانگے جا رہے تھے یعنی ہمیں ذلیل کرنے میں امریکہ نے کوئی کسر نہ چھوڑی۔ جب سوویت یونین کیخلاف جنگ ختم ہوئی تو سب اتحادی چھوڑ کر بھاگ گئے، چالیس لاکھ مہاجرین کو ہمارے صحن میں چھوڑ دیا گیا۔ یہ لوگ پھر آئے، ہم نے اپنا سب کچھ ان کا دے دیا، اس کے باوجود وہ کہہ رہے ہیں کہ ہم قابل اعتماد نہیں ہیں، دنیا جانتی ہے کہ ہم ناقابل اعتماد ہیں یا امریکہ۔ ان سب چیزوں کو دیکھنا چاہیے، ایک تلخ ماضی ہمارے سامنے ہے، جیسے فراموش نہیں کیا جاسکتا، اب ہمین اپنی فارن پالیسی کو نئی جہت دینا ہو گی اور خارجہ پالیسی کو چیف ایگزیکٹو کے دماغ سے نکلنا چاہیے اور اس پر فارن ریلیشن کمیٹی ڈسکس کرے، اس کے بعد پارلیمنٹ میں اُسے لایا جائے اور بحث کرائی جائے، خارجہ پالیسی کی جہتیں طے ہو جائیں تو اس کے بعد وزیر خارجہ، وزیراعظم اور صدر صاحب کو مختلف ممالک کے دورے کرنے جاہیں، جن میں چین، روس، ایران اور ترکی اور عرب ممالک شامل ہوں۔ ایسے تو نہیں ہو سکتا کہ آپ رات کو سوئیں اور دن کو بحرین چلے جائیں اور آپ کو پتہ بھی نہ ہو کہ آپ کس لئے یہاں آئے تھے، صدر صاحب چین کے پانچ دورے کر چکے ہیں، لیکن ابتک پتہ نہیں چل سکا کہ ان دوروں کا مقصد کیا تھا اور ان دوروں کے نتیجے میں پاکستان کو کیا ملا اور ابھی صدر صاحب روس کے دورے پر تھے لیکن افسوس کی بات یہ کہ اس میں وزارت خارجہ ساتھ نہیں، کیا معاملات ہوئے، اُن کو کون دوبارہ فالو آپ کرے گا، ان سب چیزوں پر سوچنا ہو گا۔
اسلام ٹائمز:ایک طرف انرجی کرائسسز ہے تو دوسری جانب ایران کی جانب سے پیش کی جانی والی کسی پیش کش کا کوئی اطمنان بخش جواب نہیں دیا گیا، جن میں ایک ہزار میگاواٹ بجلی اور سڑک کی تعمیر شامل ہے۔ دوسرا گیس کا منصوبہ ہے، انڈسٹریز بند ہو رہی ہیں، کیا وقت نہیں آ گیا کہ ہم علاقائی طاقتوں اور حقیقی دوست ممالک سے اپنے تعلقات کو مزید بہتر بنائیں۔؟
لیفٹینیٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم:یہی تو لمحہ فکریہ ہے، صاف شفاف الیکشن ہوئے، عوام نے اپنا مینڈیٹ دیا لیکن پراگرس زیرو، اس کی وجہ یہی ہے کہ ہمارا پورا نطام ہی ناقص ہے، جب اسمبلیوں میں جعلی ڈگریوں والے آئیں گے اور ٹکٹ کروڑوں روپے میں فروخت ہونگے، جب میرٹ نام کی کوئی چیز نہیں ہو گی تو پھر ایسے ہی لوگ حکمرانی کریں گے۔
اسلام ٹائمز:شبقدر واقعہ کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں جس میں اسی جوان شہید جبکہ کئی زخمی ہوئے، کیا اسے اسامہ کی موت کا ردعمل کہا جائے۔؟
لیفٹینیٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم:پاکستان ایک چابک والے گھوڑے کی طرح بن گیا ہے جسے ایک طرف اس کا اتحادی منہ پر طمانچہ مارتا ہے کہ تم قابل اعتماد نہیں ہو، اس لئے تمہیں کسی بات کے بارے میں نہیں بتائیں گے کیونکہ تمارے طالبان اور دہشتگردوں کے ساتھ تعلقات ہیں جبکہ دوسری جانب طالبان اور اسامہ کے حامی کہتے ہیں کہ حکومت تو امریکہ کے ساتھ ملی ہوئی ہے، لہٰذا اس طرح کی کاروائیاں جائز ہیں، تیسری جانب عوام کا مورال پہلے ہی ڈاون ہو چکا ہے کہ تم تو اپنے ملک کا دفاع ہی نہیں کرسکتے۔ اس کا مطلب واضح ہے کہ ہماری خارجہ پالیسی بالکل ناکام ہے، اس پر دوبارہ نظرثانی کی جائے۔ امریکہ کی آنکھوں میں آنکھں ڈال کر بتانا چاہیے کہ اب تمام چیزیں ہماری پارلیمنٹ طے کرے گی، اب آپ بتائیں کہ آپ لوگ افغانستان سے کب جا رہے ہیں، ملک میں تمام دہشتگری آپ کی وجہ سے ہو رہی ہے۔ امریکہ کو بتانا چاہیے کہ آپ کے آنے سے پہلے یہاں پر امن تھا، لیکن اب نہیں ہے۔
خبر کا کوڈ : 71909
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش