2
0
Tuesday 13 Sep 2011 13:23

نائن الیون فاٹا کی تباہی کا باعث (2)

نائن الیون فاٹا کی تباہی کا باعث (2)
تحریر:ساجد حسین
قائداعظم نے کرم ایجنسی کے طوری و بنگش قبائل کے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ کرم ایجنسی کی حفاظت کے لیے انہی قبائل پر مشتمل ایف سی فورس، (کرم ملیشیا کے نام سے موسوم) اسی علاقے ہی میں تعینات ہو گی۔ لیکن ضیاء نے ایک اور ظلم کی بنیاد رکھتے ہوئے قائداعظم کے وعدے کو توڑ دیا اور طوری یا کرم ملیشیا کو وزیرستان، باجوڑ، مہمند اور دوسرے دور دراز علاقوں میں بھیجوا دیا اور وہاں سے القاعدہ اور طالبان نواز قبائل پر مشتمل ایف سی کو کرم ایجنسی میں تعینات کرکے ریاستی دہشت گردی کی راہ ہموار کر دی۔
 80ء کی دہائی بالخصوص 1984ء کے بعد امریکی سی آئی اے کے پارٹنر ضیاءالحق نے صدہ کی طرح پاراچنار کو بھی طوری بنگش قبائل سے خالی کر کے امریکی سی آئی اے کے جہادیوں کے حوالے کرنے کے لیے کئی بار جہادیوں اور افغان مہاجرین کی مدد سے لشکر کشیاں کیں، لیکن یہاں کے غیور و بہادر طوری بنگش قبائل نے سینکڑوں جانوں کا نذرانہ دے کر ضیاء حکومت اور امریکی سی آئی اے کے ان ناپاک عزائم کو ناکام بنا دیا۔ حتٰی کہ 25 جولائی 1987ء کو پوری کرم ایجنسی میں ہولناک جنگ کے بعد ضیاء نے پاراچنار کے ممکنہ بے دخل لوگوں طوری بنگش قبائل کے لیے میانوالی اور بھکر میں مہاجر کیمپ تک بنا دیئے تھے اور اہلیان پاراچنار کو یہ کہہ کر ڈرانا شروع کیا کہ یہ سرحدی علاقہ ہے اور کسی بھی وقت روس اور افغان حکومت کا نشانہ بن سکتا ہے، لہذا آپ لوگ ایک عرصہ کے لئے علاقہ چھوڑ کر میانوالی چلے جائیں، جہاں آپ کے لئے باقاعدہ بندوبست کیا جا چکا ہے اور جب افغان جنگ ختم ہو جائے اور حالات سازگار ہو جائیں تو آپ دوبارہ اپنے علاقے میں آ جائیں۔ تاہم اہلیان کرم نے یہ کر انکی پیشکش ٹھکرا دی کہ یہ ہمارا علاقہ اور مٹی ہے، روس یا کسی بھی جارح نے حملہ کیا تو اپنے علاقے کا دفاع کرنا ہم خود بہتر جانتے ہیں اور واقعی ’’جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے‘‘، پاراچنار کے طوری بنگش قبائل تو مہاجر نہیں بنے، جبکہ ضیاء اپنے جرنیلوں اور اپنے امریکی آقاوں سمیت 17 اگست 1988ء کو خود ہی مہاجر بن کر انجام کو پہنچ گیا۔
اسکے بعد ضیاء کی باقیات اسٹیبلشمنٹ نے پاراچنار دشمنی جاری رکھی اور 10 ستمبر 1996ء کو پاراچنار میں ایک بار پھر فسادات شروع کروائے اور پھر جنگ روکنے کے بہانے سینکڑوں گاڑیوں میں سیکورٹی فورسز کو اسلحہ سمیت پاراچنار کے راستے افغانستان بھیجوا دیا اور ایک ہفتے کے اندر کابل سمیت پورے افغانستان پر طالبان حکومت قائم
کرنے کا اعلان کر کے ایک بار پھر پاراچنار کو اپنے مفادات کا ایندھن بنا دیا گیا۔ 
نائن الیون اور دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ اور افغانستان پر امریکی قبضے کے بعد ایک بار پھر پاراچنار کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنے اور یہاں کے عوام کو قربانی کا بکرا بنانے کا منصوبہ بنایا گیا۔ اور ضیاء دور کی طرح ایک تیر سے دو شکار کرنے کی کوشش کی، تاکہ ایک طرف اپنے مفادات حاصل ہو جائیں جبکہ دوسری طرف پاراچنار سے بھی صدہ کی طرح طوری بنگش قبائل کا صفایا کرکے یہ علاقہ القاعدہ و طالبان اور دوسری دہشت گرد تنظیموں کے حوالے کر دیا جائے، اور افغانستان میں طالبان کے خود ساختہ نظام کی طرح پہلے فاٹا اور پھر پورے ملک میں نام نہاد ’’امارات اسلامی‘‘ کے نام پر امریکی اسلام نافذ کیا جائے۔
6 اپریل 2007ء اور اسکے بعد 16 نومبر 2007ء کو ملک بھر بالخصوص فاٹا و جنوبی پنجاب سے کالعدم تنظیموں القاعدہ نواز طالبان، سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی کے ذریعے پاراچنار پر یلغار و لشکر کشی کر کے حملے شروع کرائے گئے، لیکن جب پاراچنار کے غیور و بہادر عوام نے مزاحمت اور دفاع کرکے میدان جنگ میں دہشت گردوں کو شکست دی تو اسرائیل اور بلیک واٹر کے ایجنٹ طالبان نے غزہ کی طرح ٹل پاراچنار روڈ کو بند کرکے پاراچنار کا محاصرہ کر لیا۔ اقتصادی ناکہ بندی، بزدلوں کی طرح غیرانسانی اور غیر اخلاقی اقدامات شروع کئے اور یوں پاراچنار سے باہر سرکاری روڈ پر نہتے مسافروں پر بھی کوئی رحم نہیں کیا گیا اور انہیں بے دردی سے قتل کرنے جیسے اوچھے ہتھکنڈوں استعمال کئے گئے جو نہ صرف اسلام اور دنیا بھر میں رائج جنگی اصولوں بلکہ صدیوں سے رائج قبائلی روایات کے بھی خلاف ہیں۔ 
اس عرصے میں بچوں اور خواتین کو بھی معاف نہیں کیا گیا حتٰی کہ سرکاری ایمبولینس اور اس میں سوار خاتون نرس سمیت سرکاری عملے کو بھی نہایت بے دردی سے قتل کر دیا اور پھر پختون روایات کے منافی خاتون کی بیحرمتی کر کے اسکی ویڈیو بنا کر لواحقین کے زخموں پر نمک پاشی کرنے کی خاطر پاراچنار بھیجی۔ اسکے علاوہ بھی طالبان اور انکے مقامی حمایتی قبائل نے ایف سی کی موجودگی میں پاراچنار کے نہتے مسافروں کو بارہا سرکاری سرپرستی میں چلنے والے قافلوں
 (convoy) سے اتار کر ٹکڑے ٹکڑے کر دیا، لاشوں کی بے حرمتی کر کے آگ لگا دی اور پھر رقص ابلیس کر کے شیطان سے شاباش حاصل کی اور جس وقت طالبان یہ سب کچھ کر رہے تھے اس وقت حفاظت
پر مامور ایف سی اور ان کے اعلٰی افسران نہ صرف خاموش تماشائی کی طرح نظارہ کر رہے تھے بلکہ دہشت گردوں کی طرف سے لگائے جانے والے نعرہ تکبیر کا جواب بھی دے رہے تھے، جس کی ویڈیوز تک منظر عام پر آ چکی ہیں۔
اپریل 2007ء سے لیکر تا دم تحریر، 1500 سے زائد افراد شہید جبکہ 5000 سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔ طالبان کے مظالم کی وجہ سے اپر کرم اور لوئر کرم سے ہزاروں لوگ نقل مکانی کر چکے ہیں۔ لیکن پاراچنار کے عوام کے حوصلے اب بھی بلند ہیں جبکہ یہاں پاراچنار کے محب وطن طوری بنگش قبائل کا ایک سوال ہے کہ ٹل پاراچنار مین روڈ طوری بنگش قبائل کے لیے بند جبکہ طالبان، پاک فوج و ایف سی کے لیے کیوں کھلا ہے؟؟؟
9/11 فاٹا کی تباہی اور اشرافیہ کی عیاشی کا اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہو گا کہ ٹل پاراچنار روڈ بندش کو اشرافیہ سول و ملٹری بیوروکریسی نے اپنے لئے کمائی کا ایک ذریعہ بنایا ہوا ہے، روڈ کھلنے کی صورت میں پشاور تا پاراچنار آرام دہ ہائی ایس گاڑی میں فی مسافر جو ڈیڑھ سو روپے کرایہ لیا جاتا تھا۔ اب سرکاری کانوائے میں پشاور تا پاراچنار ایف سی کی بڑے بڑے کھلے ٹرکوں میں مسافروں کو جانوروں کی طرح بٹھا کر فی مسافر 1500 روپے کرایہ اور اسی طرح عوام کے لئے اشیائے خورد و نوش پہنچانے والے ٹرالر سے لوئر کرم میں چھپری چیک پوسٹ پر فی ٹرالر 40 ہزار روپے بھتہ وصول کرکے یہ رقم سول و ملٹری بیوروکریسی اور لوئر کرم میں موجود طالبان کمانڈر آپس میں بانٹ رہے ہیں۔ چنانچہ یہ 9/11 فاٹا کی تباہی اور اشرافیہ کی عیاشی نہیں تو اور کیا ہے، کوئی ہے جو اس ظلم پر بھی آواز اٹھائے۔؟
6 ماہ قبل مارچ کے مہینے میں طالبان کے ہاتھوں بگن لوئر کرم سے اغواء ہونیوالے افراد میں سے کچھ مسافر ابھی تک لاپتہ ہیں جبکہ اس سلسلے میں نہ صرف سرکاری حکام خاموش ہیں بلکہ سول سوسائٹی نے بھی مجرمانہ خاموشی اختیار کی ہوئی ہے جبکہ انہی مغویوں کے دیگر ساتھیوں سے 3 کروڑ روپے تاوان وصول کیا گیا۔ اس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ صومالیہ میں بحری قزاقوں کے ہاتھوں اغوا چند پاکستانیوں کی رہائی کے لئے دن رات ایک کر کے گھنٹوں کوریج دینے والا میڈیا اور شہر شہر گھومنے والی انسانی حقوق کی تنظیمیں طالبان کے ہاتھوں اغوا افراد میں سے اب تک لاپتہ پاراچناری مسافروں کے حوالے سے زبانوں پر تالے لگائے ہوئے ہیں۔ 
ازخود نوٹس لینے والی اعلٰی عدلیہ بھی خاموش؟ شاید پاراچنار کے محب وطن طوری و بنگش قبائل کا جرم یہی ہے کہ پاکستان بننے سے پہلے ان کے قبائلی عمائدین نے دہلی جا
کر قائداعظم کو پاکستان بنانے کے لئے ہر ممکن تعاون کی پیشکش کے علاوہ قیام پاکستان سے لے کر استحکام پاکستان 1965ء تک اور اسکے بعد 1971ء اور پھر کارگل محاذ کے بعد سے خون کے نظرانے دے کر قربانیاں دی ہیں۔ پاراچنار کے محب وطن طوری اور بنگش قبائل پاکستان سے محبت کرتے ہوئے آج تک پاراچنار کے سرکاری و غیرسرکاری سکولوں میں پاکستان کے ترانے پڑھتے ہیں۔ پاراچنار میں فوج اور ایف سی، پاراچنار کے محب وطن طوری و بنگش قبائل کی وجہ سے آج تک محفوظ ہیں، جن پر کوئی خودکش حملہ تو دور کی بات، فوج اور ایف سی والے اپنی فیمیلیوں کے ساتھ بڑے اعتماد کے ساتھ پاراچنار بازار میں بغیر ہتھیار کے گھومتے پھرتے اور سودا سلف خریدتے نظر آتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پاراچنار کے محب وطن طوری و بنگش قبائل کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک اور انکو ریاستی سرپرستی میں ظلم و جبر روا رکھ کر دیوار سے لگایا جا رہا ہے کہ انہوں نے ملک میں خودکش حملے، جی ایچ کیو اور پی این ایس مہران پر حملوں میں حصہ نہیں لیا۔ جبکہ ملک کے دیگر علاقوں اور قبائلی علاقوں میں آئے روز افواج پاکستان کے ساتھ لڑائی کو جہاد قرار دے کر خودکش حملے کئے جاتے ہیں، بغاوت پر مبنی آزادی کے ترانے گائے جاتے ہیں، ان علاقوں کے لئے ارباب اختیار نہ صر ف ترقیاتی پیکج کا اعلان کر رہے ہیں بلکہ دہشت گردوں کو عبرت ناک سزا دینے کی بجائے وی آئی پی پروٹوکول دے رہے ہیں، اس سے ملک میں دہشت گردی کیا خاک ختم ہو گی۔
تاہم اب بھی اسلام آباد اور راولپنڈی کے ایوان اقتدار میں بیٹھنے والے حکمرانوں کے پاس وقت ہے کہ  وہ فاٹا بالخصوص پاراچنار کے محب وطن طوری بنگش قبائل کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک ترک کر کے 4 سالہ غیرانسانی محاصرہ توڑ کر ٹل پاراچنار روڈ کھول دیں اور متعصب ایف سی کی بجائے پاک فوج اور کرم ملیشیا کی نگرانی میں حقیقی معنوں میں ٹل پاراچنار روڈ کو محفوظ کو بنائیں۔ پاراچنار پر لشکر کشی کرنے اور ایک درجن سے زیادہ مرتبہ مری معاہدے کی خلاف ورزی کرنے والے طالبان شرپسندوں کو سزا دے، وگرنہ یاد رکھیں کہ مظلوموں کی آواز براہ راست عرش الہی تک پہنچتی ہے اور ’’خدا کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔‘‘ 
نائن الیون اور دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ میں فاٹا بالخصوص پاراچنار کی تباہی اور چار سالہ غیرانسانی محاصرے کو سرفراز نے ایک شعر میں کیا خوب بیان کیا ہے۔
شعب  ابی  طالب، غزہ یا  کربلا  کہوں!
اے پاراچنار تو ہی بتا تجھے میں کیا کہوں
خبر کا کوڈ : 97711
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

United States
شکریہ آپ لوگوں کا
United States
پاراچنار کے حوالے سے معلومات مواد شائع کرنے پر آپ کے ادارے کے شکرگزار ہیں
ہماری پیشکش