0
Saturday 31 Dec 2011 23:56

رہبر معظم سید علی خامنہ ای سے ہونے والی ملاقاتیں یادگار ہیں، سینیٹر پروفیسر ابراہیم خان

رہبر معظم سید علی خامنہ ای سے ہونے والی ملاقاتیں یادگار ہیں، سینیٹر پروفیسر ابراہیم خان
جماعت اسلامی خیبر پختونخوا کے امیر اور سینٹ کے رکن پروفیسر محمد ابراہیم خان 28 ستمبر 1954ء کو ہنجل امیر خاں تحصیل و ضلع بنوں میں پیدا ہوئے، آپ کالج میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران ہی اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ ہو گئے، 1973ء سے 1975ء تک اسلامی جمعیت طلبہ بنوں کی ذمہ داری ادا کی، 1975ء سے 1977ء تک گومل یونیورسٹی میں اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم رہے اور پھر 1977ء سے 1980 تک ناظم اسلامی جمعیت طلبہ ڈیرہ اسماعیل خان کے عہدے پر فائز رہے، اس کے بعد آپ جماعت اسلامی پاکستان سے وابستہ ہو گئے اور پھر 1981ء سے 1982ء تک قیم جماعت اسلامی بنوں اور 1982ء سے 1984ء تک قیم جماعت اسلامی ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کی ذمہ داری ادا کرتے رہے، 1982ء میں تعلیم کی تکمیل کے بعد پروفیسر ابراہیم صاحب کی گومل یونیورسٹی کے جرنلزم ڈیپارٹمنٹ میں بطور لیکچرار تقرری ہوئی اور یہاں پر 1985ء تک خدمات انجام دیتے رہے، جون 1985ء میں قیم جماعت اسلامی صوبہ سرحد (خیبر پختونخوا) مقرر ہوئے اور 1994ء تک خدمات سرانجام دیتے رہے، اپریل 1994ء میں جماعت اسلامی صوبہ سرحد کے امیر منتخب ہوئے اور اکتوبر 2003ء کو سینٹ آف پاکستان کے ممبر منتخب ہوئے، اس کے بعد فروری 2006ء میں دوبارہ رکن سینٹ کے لیے آپ کا انتخاب عمل میں آیا، پروفیسر ابراہیم کا شمار صوبہ کی اہم مذہبی و سیاسی شخصیات میں ہوتا، اسلام ٹائمز نے ابراہیم صاحب کے ساتھ ایک انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔

اسلام ٹائمز:جماعت اسلامی نے ملک میں اسلامی انقلاب کیلئے حالیہ تحریک شروع کی ہے، اس کے تناظر میں پوچھنا چاہوں گا کہ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ پاکستانی قوم حقیقی معنوں میں اسلامی انقلاب کی متمنی ہے۔؟
سینیٹر پروفیسر ابراہیم خان:میں سمجھتا ہوں کہ اگر پاکستانی قوم کو یہ موقع دیا جاتا اور کھلا میدان مل جاتا تو پاکستان میں اسلامی انقلاب بہت پہلے آ چکا ہوتا، فروری 1949ء میں قرارداد مقاصد کی منظوری کے موقع پر جماعت اسلامی کا ایک بھی رکن پارلیمنٹ میں موجود نہیں تھا، لیکن عوامی دبائو کے تحت جماعت اسلامی نے اس وقت کی اسمبلی کو مجبور کیا کہ اس بات کو تسلیم کر لیا جائے کہ حاکم اعلٰی اللہ تعالٰی کی ذات ہے، اور جمہور کے منتخب نمائندے امانت کے طور پر اس اختیار کو استعمال کرینگے کہ وہ اللہ تعالٰی کے سامنے بھی جوابدہ ہونگے اور جمہور کے سامنے بھی، اس کے بعد دستور آتے رہے اور پھر آخری دستور جو 1973ء میں بنا اور آج تک نافذالعمل ہے اس میں اسلامی دفعات تسلیم کر لی گئیں جو کہ ہماری کامیابی ہے، لیکن ہم نے ابھی تک پارلیمانی کامیابی حاصل نہیں کی، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں ایجنسیاں لوگوں کو اٹھاتی اور گراتی ہیں، اور عام ووٹر کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ تبدیلی اس کے ووٹ سے نہیں بلکہ فوج یا امریکہ کے ذریعے آتی ہے، یا پھر فوج اور امریکہ ملکر تبدیلی لاتے ہیں۔

اب حالات بدل رہے ہیں، اس لئے ہمیں امید بلکہ یقین ہے کہ انشاءاللہ عوام کا فیصلہ درست ہو گا، ہم عوام کے سامنے آئیں گے اور اس لئے جماعت اسلامی نے سب سے پہلے اپنا منشور پیش کر دیا ہے، امانت و دیانت اور عدل و انصاف کے ذریعے ہی ملک و قوم کے مسائل حل ہو سکتے ہیں، اس وقت ہمارے مسائل کی بنیاد کرپشن ہے اور کرپشن کا مسئلہ امانت دار اور دیانتدار قیادت کے ذریعے حل ہو سکتا ہے، ملک میں امن و امان کا جو گھمبیر مسئلہ ہے وہ عدل و انصاف کے ذریعے حل ہو سکتا ہے، یہی ہمارا منشور ہے، مدینہ منورہ کی وہ اسلامی ریاست جس کی بنیاد نبی کریم ص نے ڈالی تھی وہ ہمارے لئے رول ماڈل ہے، نبی ص نے اس وقت میثاق مدینہ کے نام سے جو دستور پیش کیا تھا آج بھی دنیا اس بات کو تسلیم کر رہی ہے کہ وہ پہلا تحریری دستور ہے، اور ہم اسی نقش قدم پر چلتے ہوئے پاکستان میں اسلامی انقلاب لانا چاہتے ہیں، ہمیں یقین ہے کہ اب عوام ہمارا ساتھ دینگے، اب کسی طالع آزما کو موقع نہیں ملے گا اور سیاست میں ایجنسیوں کا کھیل بھی ختم ہونے والا ہے۔

اسلام ٹائمز:کیا آپ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں ایسی شخصیات موجود ہیں جو اسلامی انقلاب برپا کرنے میں قوم کی قیادت کر سکیں۔؟
سینیٹر پروفیسر ابراہیم خان:انقلاب اصولوں کی بنیاد پر آتے ہیں، حسن البنٰی کو 1948ء میں شہید کر دیا گیا تھا لیکن مصر میں تو آج انقلاب آیا ہے، یہ اسلام کے اصول ہیں جن کی بنیاد پر انقلاب آتے ہیں، تیونس میں راشد الغنوشی موجود ہیں لیکن وہاں بھی اسلام کے اصولوں پر لوگوں نے تبدیلی کی بنیاد رکھی، لہٰذا پاکستان میں قوم کو شخصیات کے پیچھے لگانے کی بجائے ہم اسلام کے اصول سکھانا چاہتے ہیں، شخصیات تو آنی جانی ہیں، آج ایک شخصیت ہے کل دوسری ہو گی، جس طرح کل قاضی صاحب تھے آج منور حسن صاحب ہیں اور کل کوئی اور ہو گا، اگرچہ شخصیات کی اہمیت سے بھی کوئی انکار نہیں کر سکتا لیکن لیکن اصل بات اصولوں کی ہے، اور اصولوں کی بنیاد پر کوئی انقلاب آئے تو وہ دیرپا ہوتا ہے، اگر شخصیت کی بنیاد پر تبدیلی آتی ہے تو اس شخصیت کے جانے کے بعد وہ تبدیلی بھی ختم ہو جاتی ہے، ہم اسلام اور قرآن و سنت کے اصولوں کی بنیاد پر تبدیلی لانا چاہتے ہیں۔

اسلام ٹائمز:خیبر پختونخوا کافی عرصہ سے دہشتگردی کی لہر کی لپیٹ میں ہے، آپ کے خیال میں اس دہشتگردی کے پیچھے دشمن ممالک کی ایجنسیاں ہیں یا پھر اس میں ہمارے ہی لوگ ملوث ہیں۔؟
سینیٹر پروفیسر ابراہیم خان:بیرونی ممالک کی ایجنسیاں ہی نہیں بلکہ امریکہ خود اس خطے میں موجود ہے، اور جو کچھ ہو رہا امریکہ اس میں ملوث ہے، امریکہ کی موجودگی کی وجہ سے اس خطے کا امن تباہ و برباد ہو چکا ہے، امریکہ یہاں سے نکل جائے سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا، ہمارے حکمران امریکہ کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں، پرویز مشرف امریکیوں کا گھوڑا تھا، شمسی ایئر بیس کو تو خالی کرا لیا گیا لیکن اس وقت بھی دالبدین، پسنی اور غازی ائیر فورس کمپائونڈ امریکہ کے قبضے میں ہیں، امریکہ ہمارے ملک کا امن و امان تباہ کرنے کا باعث بنا ہے، مشرف اپنے جلسوں میں اعلان کرتا رہا کہ اگر آپ کو میری پالیسیاں قبول ہیں تو ق لیگ کو ووٹ دیں لیکن عوام نے ق لیگ کو مسترد کیا، ہونا یہ چاہیے تھا کہ پیپلزپارٹی کی حکومت سابقہ امریکی پالیسیوں کو ختم کرتی، لیکن آصف زرداری نے مزید شدت کیساتھ ان پالیسیوں کو جاری رکھا، اکتوبر 2008ء میں اس وقت کے ڈ ی جی ملٹری آپریشنز جنرل شجاع پاشا نے ایوان کو جو بریفنگ دی تھی اسکے معنی یہ تھے کہ وہ پرویز مشرف کی پالیسی پر پارلیمنٹ سے مہر توثیق ثبت کرنا چاہتے ہیں لیکن پارلیمنٹ نے ان کا ساتھ نہیں دیا۔

زرداری اور گیلانی کی حکومت نے پارلیمنٹ کا ساتھ دینے کی بجائے پرویز مشرف کی پالیسیوں کو جاری رکھا، بات یہاں تک پہنچ گئی کہ 2 مئی کو ایبٹ آباد کا واقعہ ہو گیا، 13 مئی کو پھر پارلیمنٹ کا اجلاس ہوا، جس میں پارلیمنٹ نے 2008ء کی قرارداد پر عمل درآمد کا مطالبہ کیا لیکن آج تک اس قرار داد پر عملدرآمد نہیں ہوا، آج جب میمو گیٹ کی وجہ سے زرداری پر کچھ حرف آنے لگا ہے تو وہ فوج اور سپریم کورٹ کیخلاف بولنے لگے ہیں، اب یہ ثابت ہو گا کہ منصور اعجاز کے اس میمو میں زرداری کا کتنا ہاتھ ہے، انگلیاں زرداری کی طرف ہی اٹھ رہی ہیں کہ انہوں نے امریکی فوج اور امریکی حکومت کو کہا ہے کہ آپ میرا ساتھ دیں، میں فوج کو آپ کا تابع بنائوں گا، پرویز مشرف کی کمانڈ میں فوج امریکہ ہی کے تابع رہی ہے، ایبٹ آباد واقعہ اور سلالہ حملے کے بعد فوج امریکہ کے مخالف ہونے لگی ہے، ہم تو روز اول سے کہتے رہے ہیں کہ آپ امریکہ کا ساتھ دے کر غلطی کر رہے ہیں، اور مشرف کی کمانڈ میں ہونے والی غلطیوں کا ازالہ کرنا ہماری فوج پر لازم ہے اور زرداری جو ہمارے دشمن امریکہ سے فوج کیخلاف مدد مانگ رہے ہیں یہ غداری ہے۔

ہم چاہتے ہیں کہ ہر ایک کی پوزیشن واضح ہو، فوج کہتی ہے کہ ہمارا اندرونی احتسابی نظام موجود ہے، لیکن مشرف کیخلاف کوئی ایکشن نہیں لیا گیا، فاٹا اور پاٹا میں ایکشن ان ایڈ آف سول پاور ریگولیشنز پر دستخط کر کے زرداری نے فوج کو وہ اختیارات دیئے ہیں جو کسی کے پاس نہیں، جس کے تحت کسی کو بھی کسی بھی وقت قتل کیا جا سکتا ہے، ہم ان سے پوچھتے ہیں کہ یہ اختیار کس بنیاد پر دیا گیا ہے، ہم اس حوالے سے سپریم کورٹ گئے لیکن ہمیں عدالت سے گلہ ہے کہ اس نے آج تک اس کیس کو ٹیک اپ نہیں کیا، ہم نے آئینی تقاضوں کے باعث فاٹا نہیں پاٹا کیلئے عدالت سے رجوع کیا، لیکن رجسٹرار نے یہ اعتراض لگا دیا کہ اس پٹیشن میں ملاکنڈ کا کوئی فرد موجود نہیں ہے، حالانکہ میں نے درخواست دائر کی اور میں اسی صوبے کا باشندہ ہوں، مجھے اس حوالے سے سپریم کورٹ سے شکوہ ہے کہ اس نے میری درخواست سماعت کیلئے منظور نہیں کی، اب اس درخواست میں ہم نے ملاکنڈ کے افراد کے نام بھی ڈال دیئے ہیں لیکن ابھی تک سماعت کی تاریخ مقرر نہیں ہوئی۔

ہم چاہتے ہیں یہ سارے مسائل حل کئے جائیں، امریکہ یہاں موجود ہے اور ہم اس کیخلاف صف آراء ہونے کیلئے تیار ہیں، لیکن ہمارے جرنیل کہتے ہیں کہ ہم امریکہ کا مقابلہ نہیں کر سکتے، ہم کہتے ہیں کہ اللہ کے فضل سے ہم امریکہ کا مقابلہ کر سکتے ہیں، اللہ ہمارے ساتھ ہو تو امریکہ ہم سے شکست کھائے گا، ہم سات سمندر پار کر کے امریکہ پر حملہ آور نہیں ہو رہے بلکہ امریکہ ہم پر حملہ آور ہو چکا ہے، امریکہ نے ہم پر حملے کئے لیکن ہمارے جرنیلوں نے بزدلی کا مظاہرہ کیا، امریکہ عراق اور افغانستان میں شکست کھا چکا ہے، وہ ایران کا بال تک بھیگا نہیں کر سکا، اور انشاءاللہ پاکستان کے ہاتھوں بھی امریکہ کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑے گا، زرداری اور گیلانی کہتے ہیں کہ ہم امریکہ کا کھاتے ہیں لیکن میں کہتا ہوں کہ ہم اللہ کا دیا ہوا کھاتے ہیں، امریکہ میں ہمارے 500 ارب ڈالر پڑے ہیں  جو ہمارے حکمران لیکر گئے تھے اور وہی ہمیں امداد کی شکل میں واپس ملتا ہے، امریکہ ہمیں کچھ نہیں دے رہا، کیری لوگر بل کے تحت ڈیڑھ ارب ڈالر سالانہ دینے کی بات کی گئی، دو سال کا عرصہ گزر چکا ہے اور ہمیں 3 ہزار ملین ڈالر ملنے چاہئے تھے لیکن اب تک 189 ملین ڈالر ملے ہیں۔

ہماری افواج کو امریکہ سے کچھ نہیں مل رہا، اللہ کے فضل سے ہم اپنے طور پر الخالد ٹینک تیار کر رہے ہیں، چین کے تعاون سے ایف16 سے بہتر جے ایف 17تھنڈر تیار ہو رہے ہیں، امریکہ ہمیں طیارے دے رہا ہے لیکن چین تو ہمارے ساتھ ٹیکنالوجی بھی شیئر کر رہا ہے، مشرف دور میں بھی ہم سے پوچھا جاتا تھا کہ اگر ہماری جگہ آپ ہوتے تو کیا کرتے؟ ہمارا جواب اس وقت یہ ہوتا تھا کہ ہم ایران اور چین سے بات کرتے، ایمانی جزبہ ہوتا تو کسی سے بھی بات کرنے کی ضرورت نہیں تھی لیکن دنیاوی لحاظ سے اگر ہم ایران اور چین کیساتھ بات کرتے تو امریکہ افغانستان پر حملہ آور ہی نہ ہوتا اور پاکستان کی یہ صورتحال بھی نہ ہوتی، جس طرح مشرف امریکہ کے سامنے بچھ گیا تھا زرداری اور گیلانی بھی اسی طرح لیٹے ہوئے ہیں، اور امریکی کی یہاں موجودگی کی وجہ سے پاکستان کو مشکلات درپیش ہیں۔

اسلام ٹائمز:سلالہ حملے کے بعد کیا آپ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی حکومت اور سٹیبلشمنٹ کی امریکہ کیساتھ تعلقات کی پالیسی تبدیل ہو گئی ہے، یا پھر یہ وقتی ردعمل ہے۔؟
سینیٹر پروفیسر ابراہیم خان:ظاہری طور پر محسوس ہو رہا ہے کہ تبدیلی آئی ہے لیکن حقیقت میں تبدیلی نہیں آئی، پاک فوج نے امریکہ سے کنارہ کشی اختیار کر لی ہے جبکہ حکومت نے اب تک امریکہ سے علیحدگی کا اعلان نہیں کیا، میرا خیال ہے کہ حکومت فوج کے ہاتھوں مجبور ہوئی، جس کی وجہ سے شمسی ایئر بیس کو خالی کروایا اور ناٹو سپلائی لائن کو منقطع کیا، لیکن جس طرح کہ میں نے بتایا کہ اب بھی کئی بیسز امریکہ کے قبضے میں ہیں، شمسی ایئر بیس کا بھی اب تک امریکہ کے قبضے میں رہنا بہت معنی خیز ہے، اس حکومت کے دور میں کم از کم یہ نہیں ہونا چاہئے تھا، آمر کے جانے کے بعد پالیسی میں تبدیلی آنی چاہئے تھی، اور اب باقی ایئر بیسز کو بھی امریکہ سے واگزار کرانا چاہئے، ہم دس سال سے چیخ رہے تھے اور اب ہماری بات درست ثابت ہو رہی ہے، اب فوج کو یہ احساس ہونے لگا ہے کہ ہماری پالیسی غلط تھی، فوج اور حکمران ہمیں اب تک باور کراتے رہے ہیں کہ ہم امریکہ کے بغیر نہیں جی سکتے، اب یہ بات ثابت ہو رہی ہے کہ الحمد اللہ ہم خود جی رہے ہیں، اس وقت نہ تو ہم سیاسی اور معاشی طور پر امریکہ پر انحصار کئے ہوئے ہیں اور نہ ہی ملٹری اعتبار سے ہم امریکہ پر انحصار کر رہے ہیں، حکمرانوں کو بھی اس بات کا احساس ہو جانا چاہئے کہ جتنی جلدی ممکن ہو ہم امریکہ سے علیحدگی اختیار کر لیں۔

اسلام ٹائمز:آئندہ الیکشن آپ کب منعقد ہوتے دیکھ رہے ہیں، اور کیا آئندہ دینی جماعتوں کو آگے آنے کا موقع مل سکے گا۔؟
سینیٹر پروفیسر ابراہیم خان:اگر یہ حکومت اپنی مدت پوری کرتی ہے تو آئین کے مطابق 18 نومبر 2012ء کو یہ سیٹ اپ ختم ہو جائے گا، اس کے بعد پھر 6 ماہ کے اندر انتخابات ہونے چاہیں، اس اعتبار سے آئندہ الیکشن کیلئے ایک سال سے کم عرصہ رہ گیا ہے، لیکن اس وقت صورتحال ٹھیک نہیں ہے، گذشتہ روز ہی تیل، گیس اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کا اعلان ہوا ہے جس پر قوم سراپا احتجاج ہے، حکمرانوں کے عیش و عشرت میں کسی قسم کی کمی نہیں آ رہی، حال ہی میں صدر زرداری کے کچن کی تزین و آرائش پر 25 کروڑ روپے خرچ ہوئے ہیں جبکہ سیلاب متاثرین کے گھروں کی تعمیر کیلئے فی خاندان 20 ہزار روپے دیئے گئے جو تمام خاندانوں کو نہیں ملے، اس میں بھی اے این پی اور پیپلزپارٹی کے کارکنوں کو ہی نوازا جا رہا ہے، اس تمام تر صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے ممکن ہے کہ موجودہ حکومتی سیٹ اپ نومبر سے قبل ہی ختم ہو جائے۔
 
دوسری جانب میمو گیٹ سکینڈل بھی چل رہا ہے، بجائے خود کو پاک و صاف ثابت کرنے کہ زرداری سپریم کورٹ کو دھمکیاں دے رہے ہیں، اس سے قبل بھی زرداری پر الزامات عائد ہونے پر یہ کہا گیا کہ انہیں استثنٰی حاصل ہے، استثنٰی حاصل ہونے کا دعویٰ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ جرم تو وہ کر چکے ہیں لیکن چونکہ استثنٰی حاصل ہے اس وجہ سے ان پر ہاتھ نہیں ڈالا جا سکتا، جب وہ صدر نہیں رہیں گے تو استثنٰی بھی نہیں رہے گا، آصف زرداری اب پانی میں چھری دیکھنے لگے ہیں اس لئے وہ سپریم کورٹ پر برس پڑے ہیں، اس بنیاد پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ نومبر سے قبل بھی الیکشن متوقع ہیں۔

آپ کے سوال کے دوسرے حصہ کے بارے میں یہ کہوں گا کہ دینی جماعتوں کے اتحاد کے حوالے سے بات چیت ہوتی رہی ہے، مولانا فضل الرحمان صاحب کے ساتھ ہمارے مذاکرات کے کئی دور ہوئے، متحدہ مجلس عمل کی بحالی کیلئے مجالس ہوئیں، سب سے پہلے اسلام آباد میں مولانا فضل الرحمان کی سرکاری رہائش گاہ پر مجلس عمل کے قائدین اکٹھے ہوئے، وہاں مولانا فضل الرحمان کو کہا گیا کہ آپ حکومت چھوڑ دیں اس کے بعد مجلس عمل کو بحال کرنے کی بات ہو سکتی ہے، جبکہ مولانا کا اصرار اسی بات پر تھا کہ آپ مجلس عمل بحال کریں اور مجھے فیصلہ سنا دیں میں حکومت چھوڑ دوں گا، لیکن بات اٹکی رہی، اس کے بعد پروفیسر ساجد میر نے اسلام آباد میں ایک دعوت کی، پھر علامہ ساجد علی نقوی صاحب نے تمام قائدین کو مدعو کیا، اس کے بعد جے یو پی کی جانب سے کراچی میں رہنمائوں کو اکٹھا کیا گیا، اس موقع پر یہ طے ہوا کہ پہلے معاملات کو حتمی شکل دے دی جائے اور پھر باقاعدہ اعلان کر دیا جائے، مولانا فضل الرحمان صاحب حکومت سے علیحدگی پر آمادہ نہیں تھے جبکہ دوسرے رہنمائوں کا موقف تھا کہ پہلے آپ حکومت سے علیحدہ ہوں پھر مجلس عمل بحال ہو سکتی ہے، بہرحال اس بات پر اتفاق نہیں ہو سکا۔

اس کے بعد وفاقی وزیر اعظم سواتی کا مذہبی امور کے وزیر حامد سعید کاظمی سے جھگڑا ہوا، اور پھر معاملہ سپریم کورٹ پہنچ گیا جس کے بعد وزیراعظم نے دونوں وزراء کی چھٹی کر دی، بعدازاں اعظم سواتی نے مولانا کی ساری وزارتیں ختم کروا دیں، مولانا صاحب مرکزی حکومت سے تو علیحدہ ہو گئے لیکن زرداری کیساتھ ان کے مراسم برقرار ہیں، بلوچستان اور گلگت بلتستان میں جے یو آئی پیپلزپارٹی کی حکومتوں میں شامل ہے، فضل الرحمان سے یہ بھی تقاضا ہے کہ انہیں پیپلزپارٹی سے مکمل علیحدگی اختیار کرنا ہو گی، مولانا فضل الرحمان کی اپنی منطق بڑی مضبوط ہے اور وہ دلائل دیتے ہیں لیکن اتفاق نہ ہونے کی وجہ سے مجلس عمل بحال نہیں ہو رہی، ہم سمجھتے ہیں کہ اگر مجلس عمل پائیدار بنیادوں پر بحال ہوتی ہے تو ٹھیک ہے لیکن کچھ عرصہ بعد پھر توڑنے کیلئے مجلس عمل کو فعال کرنا ٹھیک نہیں ہو گا، مجلس عمل ایک آپشن ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ دینی جماعتوں کا اتحاد بہت ضروری ہے، اگر آئندہ الیکشن سے قبل مجلس عمل بحال نہیں ہوتی تو ہماری کوشش ہو گی کہ دینی جماعتوں کی سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہو، ہمارا ووٹ تقسیم نہیں ہونا چاہئے، ہم ایک دوسرے کے حلیف ہوں اور حریف نہ بن جائیں۔

اسلام ٹائمز:گذشتہ دنوں جامعہ پنجاب میں اسلامی جمعیت طلبہ کی جانب سے پیش آنے والے واقعہ سے اتحاد کی فضاء کو دھچکا پہنچا، آپ کے خیال میں اس معاملہ کو کس طرح حل کیا جائے کہ آئندہ ایسا کوئی واقعہ رونما نہ ہو۔؟
سینیٹر پروفیسر ابراہیم خان:اس واقعہ کے بارے میں میں نے اخبارات میں پڑھا اور اسلامی جمعیت طلبہ نے اپنی ویب سائٹ پر اس کی کوئی وضاحت بھی کی تھی، لیکن میں اس وضاحت سے مطمئن نہیں ہوں، وہ وائس چانسلر پر الزام عائد کر رہے ہیں کہ وہ فرقہ واریت پھیلا رہا ہے، باقی وضاحت نہیں کی گئی کہ واقعہ کی بنیاد کیا چیز بنی اور یہ واقعہ کیوں پیش آیا، اس بارے میں مکمل معلومات میرے پاس نہیں ہیں کہ واقعہ کیسے پیش آیا اور کس کی کیا زیادتی ہے، گزشتہ دو روز سے میں امیر جماعت منور حسن صاحب کیساتھ خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع کے دورے پر تھا، منور حسن صاحب اس دوران مسلسل رابطے میں تھے، جس کے نتیجے میں کمیٹی بھی قائم ہو گئی ہے۔
 
اس سے قبل قاضی حسین احمد صاحب کے دورہ امارت میں بھی اس قسم کا واقعہ ہوا تھا، اس وقت قتل تک ہو گئے تھے، الحمد اللہ اس مرتبہ ایسی کوئی صورتحال نہیں بنی، چند رفقاء زخمی ہوئے ہیں لیکن وہ بھی نہیں ہونا چاہئے تھا، اس حوالے سے میں بہت معلومات نہیں رکھتا اس لئے کسی فریق پر ذمہ داری نہیں ڈال سکتا، البتہ میرے جذبات یہ ہیں کہ اس واقعہ کو نہیں ہونا چاہئے تھا، لیکن ہوا ہے تو اس کے ذمہ داروں کا تعین ہونا چاہئے اور غلطی کا ازالہ بھی ہونا چاہئے، میں سمجھتا ہوں کہ دینی لوگوں کے ایک دوسرے کیساتھ بہترین تعلقات ہونے چاہیں۔

اسلام ٹائمز:آپ رہبر معظم انقلاب اسلامی جناب سید علی خامنہ ای سے ملاقاتیں کر چکے ہیں، ہمارے قارئین کو ان ملاقاتوں کے بارے میں آگاہ کریئے گا۔
سینیٹر پروفیسر ابراہیم خان:میری پہلی ملاقات ان سے 1994ء میں ہوئی تھی جب میں پہلی مرتبہ قاضی حسین احمد کی قیادت میں ایران گیا تھا، اس وقت رہبر معظم سے بہت قریب سے ملاقات ہوئی، ہمارا وفد پانچ چھ رفقاء پر مشتمل تھا، یہ یادگاری ملاقات رہبر معظم کے دفتر میں ہوئی، اس موقع پر بہت اچھی گفتگو ہوئی، اس کے بعد 2004ء سے میں مسلسل ہر سال ایران جا رہا ہوں، مجع جہانی تقریب بین المذاہب اسلامی جس کے جناب آیت اللہ محمد علی تسخیری صاحب سربراہ ہیں کے تحت ہر سال کانفرنس منعقد ہوتی ہے، اس کانفرنس میں میں مسلسل شریک رہا ہوں، اس دوران 12 تا 17 ربیع الاول ہفتہ وحدت ہوتا ہے، اس موقع پر رہبر معظم کے دفتر کے ہال میں سیرت کے حوالے سے جلسہ بھی منعقد ہوتا ہے، ایک سال خاتمی صاحب کی بھی تقریر سنی، احمدی نژاد صاحب کو بھی ہر سال سنتے ہیں، رہبر معظم بھی سیرت کے حوالے سے تقریر کرتے ہیں، 2006ء میں منعقد ہونے والی القدس کانفرنس کے موقع پر بھی رہبر معظم سے قریبی ملاقات ہوئی تھی۔
خبر کا کوڈ : 126623
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش