0
Tuesday 3 Jan 2012 23:51

اتحاد بین المسلمین ہی کوئٹہ میں قیامِ امن کی ضمانت ہے، میجر نادر علی

اتحاد بین المسلمین ہی کوئٹہ میں قیامِ امن کی ضمانت ہے، میجر نادر علی
 میجر نادر علی ہزارہ قوم کے رہنما ہیں۔ انہوں نے 10 سال تک پاکستان آرمی میں خدمات انجام دیں۔ اس کے بعد سول ایڈمینیسٹریشن میں آئے اور بطور ڈپٹی کمشنر، اسسٹنٹ کمشنر اور ایڈیشنل چیف سیکرٹری کام کرتے رہے، تقریباً 40 سال تک انہوں نے قوم و ملت کی خدمت کی۔ انکی زیادہ تر سروس بلوچستان میں ہی گزری۔ کوئٹہ میں کئی رفاحی اداروں کے بانی ہیں۔ اسلام ٹائمز نے انکی خدمات، ہزارہ قوم اور کوئٹہ و بلوچستان کے موجودہ حالات کے بارے میں ان سے ایک گفتگو کا اہتمام کیا، جو قارئین کے استفادے کیلئے پیش خدمت ہے۔


اسلام ٹائمز:آپکا مکمل نام کیا ہے اور کن کن عہدوں پر رہ کر آپ نے قوم و ملت کی خدمت کی ہے۔؟
میجر نادر علی:مجھے لوگ میجر نادر علی کے نام سے پہنچانتے ہے۔ پاکستان آرمی میں میں نے 10 سال خدمات انجام دیں، اس کے بعد سول ایڈمینیسٹریشن میں آیا تو بطور ڈپٹی کمشنر، اسسٹنٹ کمشنر اور ایڈیشنل چیف سیکرٹری رہا ہوں، میری تقریباً 40 سال سروس رہی ہے، اور زیادرہ تر سروس بلوچستان میں‌ ہی گزری ہے۔

اسلام ٹائمز:قوم کیلئے آپکی خدمات اگرچہ بہت زیادہ ہے، لیکن مختصر طور پر اشارہ فرمائیں۔؟
میجر نادر علی:ہزارہ مومنین افغانستان کے رہائشی تھے اور افغانستان میں ظلم و جبر کی وجہ سے پاکستان کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے، اسی وجہ سے ہزارہ مومنین ذہنی دباو کا شکار تھے۔ میرا سب سے پہلا مقصد یہی تھا کہ ان کو اُس ذہنی دباو سے نکالوں اور انکی اخلاقی اقدار کو بڑھاو۔ یہی میرا مقصد تھا اور اسی مقصد پہ میں کام کرتا رہا، پہلے میری دلچسپی سیاست نہیں تھی، میں زیادہ تر سماجی کاموں میں حصہ لیتا تھا۔ اس سلسلہ میں میں نے کوئٹہ کے علاقے ہزارہ ٹاون میں گرلز کالج اور پھر وہاں پر گرلز ہائی اسکول تعمیر کیا اور یہی پر میجر نادر علی کے نام سے ادارہ بنایا جو کہ میرے خیال سے پورے بلوچستان میں ایسا واحد ادارہ ہے، جو تمام تر جدید تعلیمی سہولیات سے آراستہ ہے، اسکے علاوہ میں نے بینظیر ہسپتال تعمیر کروایا، جسکے بارے میں میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ کوئٹہ شہر میں تمام تر انتظامات کے لحاظ سے یہ ایک بہترین ہسپتال ہے، اور اسی وجہ سے میں سمجھتا ہوں کہ میں اپنے مقصد کے قریب تقریباً پہنچ گیا ہوں۔

اسلام ٹائمز:ملت کے اتحاد کے سلسلے میں آپکی کوشش اور اس سلسلے میں قوم کی رہنمائی بیان فرمائیں۔؟
میجر نادر علی:ملت کے اتحاد کے سلسلے میں میری پہلے سے کوشش رہی ہے کہ سب میں اتحاد و اتفاق ہو، اس سلسلے میں ہم نے ایک گرینڈ قومی جرگہ موسٰی کالج میں منعقد کیا تھا جس میں تمام اقوام کے رہنماوں نے شرکت کی اور سب نے اس گرینڈ قومی جرگہ میں حصہ لیا اور اس جرگہ کی سفارشات کو ہم نے اسمبلی میں بھی پیش کیا جو کہ بعدازاں اسمبلی سے پاس بھی ہوا، جرگہ کا مقصد یہی تھا کہ کوئٹہ کی تمام تر اقوام اکٹھے مل کر اتحاد و اتفاق سے خوشحال زندگی گزار سکیں۔ 

اسلام ٹائمز:ٹارگٹ کلنگ کرنے والوں کے مقاصد کیا ہیں اور وہ کیوں شیعیان حیدر کرار کو زیادہ تر ٹارگٹ کرتے ہیں۔؟
میجر نادر علی:ہمارا نظریہ ہے کہ مولائے متقیان امام علی علیہ السلام اور انکے بعد اللہ کی طرف سے انکے جانشین مقرر کئے گئے ہیں جبکہ دوسروں کا نظریہ ہم سے قدرے مختلف ہے۔ بلوچستان میں زیادہ تر شیعہ ہزارہ مومنین ہیں اور قبیلے کے لحاظ سے دشمنوں کو اچھا ٹارگٹ ملتا ہے۔ اسکے علاوہ ہزارہ مومنین کے نوجوان قابل اور مہذب ہیں۔ ہزارہ قبیلے کی شرح خواندگی 80 فیصد ہے (literacy rate) یہ سب باتیں ہمارے دشمنوں کیلئے قابل قبول نہیں ہیں اور وہ شیعیان حیدر کرار کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بناتے ہیں۔

اسلام ٹائمز:پچھلے انتخابات میں ہماری ناکامی کی اصل وجہ کیا تھی، گرچہ ووٹ بینک کے لحاظ سے ہزارہ مومنین طاقتور تھے۔؟
میجر نادر علی:کوئٹہ کے علاقے ہزارہ ٹاون میں ہزارہ مومنین نے ٹوٹل 6500 ووٹ کاسٹ کئے وہاں سے مولوی شمس الدین 4500 ووٹ لیکر ایم پی اے منتخب ہوئے، تو اس میں ہماری ہی غلطی تھی کیونکہ 6500 ووٹ ڈالنے کے باوجود بھی ہم ہار گئے، اس کا مطلب یہی ہے کہ ہم میں اتفاق نہیں تھا۔ اس انتخابات میں ہزارہ قبیلے کی طرف سے 2 امیدوار کھڑے ہوئے جسکی وجہ سے ہمیں جیت کی بجائے ہار کا سامنا کرنا پڑا۔ ہم نے ہزارہ قبیلے کی پارٹی کو بہت سمجھانے کی کوشش کی، لیکن وہ نہیں ‌مانے۔

اسلام ٹائمز:آنے والے انتخابات میں آپ خود حصہ لیں گے اور اگر حصہ لیں گے تو ایم این اے کیلئے یا ایم پی اے کیلئے؟ 
میجر نادر علی:آنے والے انتخابات کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا، جیسا کہ موجودہ وقت میں ادارے آپس میں الجھے ہوئے ہیں اس سے یہ پتہ نہیں چل پا رہا کہ آئندہ انتخابات ہونگے کہ نہیں ہونگے اور اگر ہونگے بھی تو کب ہونگے۔ دوسری جانب حکومت بھی ناکام ہو چکی ہے ہر طرف امن و امان کی حالت خراب ہے۔
 دریں اثناء میمو کا معاملہ بھی سامنے آیا ہے اور سب ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں۔ ان سب حالات میں قوم بہت پریشان ہے۔ اسی وجہ سے آنے والے انتخابات کیلئے اب تک ہم نے کوئی لائحہ عمل نہیں‌ بنایا جبکہ دوسری جانب ہزارہ قوم کے بارے میں بھی آپ کچھ پیشن گوئی نہیں کر سکتے کیونکہ یہ قوم مختلف گروپوں میں تقسیم ہے، اور مجھے امیدوار ہونے سے کوئی عذر نہیں، کیونکہ پہلے بھی میرا مقصد عوام کی خدمت کرنا تھا، اور اب بھی میں‌ عوام کی خدمت کر رہا ہوں، لہذا میرا مقصد عوام کی خدمت کرنا ہے نہ کہ ایم این اے یا ایم پی اے بننا۔ 

اسلام ٹائمز:سردار سعادت علی ہزارہ کی آمد کو آپ کس طرح دیکھتے ہے۔؟
میجر نادر علی:سردار سعادت علی ہزارہ کو میں نے ہزارہ ٹاون میں ایک تقریب کے دوران کہا تھا کہ سردار ہونے کی حیثیت سے آپ کو پوری قوم کو متحد کرنا ہو گا۔ ہمیں اس قدر بھی لاوارث نہیں‌ رہنا چاہیئے۔ کسی نہ کسی کو تو ماننا پڑے گا، لیکن یہاں پر مصیبت یہی ہے کہ کوئی کسی کی نہیں‌ مانتا، ہمیں چاہیئے کہ سردار سعادت علی ہزارہ کو یہ موقع دیں اور سردار سعادت صاحب کو نیوٹرل ہونا چاہیئے، اگر وہ نیوٹرل رہے تو مجھے اُمید ہے کہ وہ اپنے مشن میں کامیاب ہو جاینگے۔

اسلام ٹائمز:انڈونیشیا کے متاثرین کے بارے میں معلومات اور حادثے کے وقوع پذیر ہونے کے علیل و اسباب بیان فرمائیں۔؟
میجر نادر علی:اس کشتی میں گنجائش سے زیادہ افراد کو سوار کیا گیا تھا جسکی بناء پر کشتی سمندر میں ڈوب گئی۔ انڈونیشیا سے آسٹریلیا کی طرف جانے والی کشتی میں ہزارہ قبیلے کے 60-70 افراد سوار تھے، ہماری معلومات کے مطابق اس وقت 7 افراد زندہ بچ گئے ہیں۔ انڈونیشیا میں پاکستانی سفیر کو جو معلومات ملی ہیں، اسکی ایک کاپی مجھے بھی انہوں نے فیکس کی ہے اور ہمیں افسوس ہے کہ اس وقت جتنے بھی افراد لاپتہ ہیں ان کی شناخت نہیں ہو پا رہی۔ جب شناخت ہو جائے گی تو ہمیں پتہ چلے گا کہ کتنے لوگ زندہ ہے اور کتنے لوگ زندہ نہیں بچ سکے اور انہی وجوہات کی بناء پر میں سمجھتا ہوں کہ 2011ء ہزارہ قبیلے کیلئے اچھا نہیں گزرا، چونکہ اس سے پہلے ٹارگٹ کلنگ کے واقعات ہوئے ہیں، جب ٹارگٹ کلنگ کم ہوئی تو پھر ڈوبنے کا واقعہ پیش آ گیا، تو میں پورے قبیلے کے افراد سے کہوں گا کہ خدا سے دعا کریں اور مغفرت کی دعائیں مانگیں۔

اسلام ٹائمز:انڈونیشیا کے حادثے میں متاثرین کی امداد کے سلسلے میں آپکی خدمات اور کوشیش کیا رہی ہیں۔؟
میجر نادر علی:جب یہ واقعہ رونما ہوا تو میں فوراً متاثرین کے گھر گیا، ان سے معلومات حاصل کیں اور ان معلومات کی روشنی میں فوراً میں نے ایوان صدر سے رابطہ کیا اور ایوان صدر نے مجھے تسلی دی کہ وہ فوراً انڈونیشیا میں پاکستانی سفیر سے رابطہ کر کے حالات سے آگاہ کریں گے اور پھر ذاتی طور پر بھی میں نے انڈونیشیا میں مقیم پاکستانی سفیر سے رابطہ کیا۔ پھر سردار سعادت علی ہزارہ کی قیادت میں میٹنگ ہوئی اور فیصلہ ہوا کہ ہم اپنی طرف سے ایک وفد بھجوائیں گئے جو متاثرین کی شناخت کر سکے اور وہ وفد اس وقت انڈونیشیا میں ہے اور میتوں کی واپسی کے بارے میں ہم ابھی تک کچھ نہیں کہہ سکتے۔ 

اسلام ٹائمز:کیا ہمارے لوگ بےروزگاری کی وجہ سے فارن ممالک کی طرف رُخ کرتے ہیں یا کوئی اور وجہ ہے۔؟
میجر نادر علی:بےروزگاری تو پورے پاکستان کا مسئلہ ہے اور خصوصاً بلوچستان میں تو بےروزگاری اور بھی بڑا مسئلہ ہے۔ ہزارہ نوجوان محنتی اور پڑھے لکھے ہیں، اس لحاظ سے بلوچستان پیچے رہ گیا جبکہ ہم بہت آگے نکل گئے، لیکن بدقسمتی سے بلوچستان نے اتنی تیزی سے ترقی نہیں کی۔ ہمارے تعلیم یافتہ نوجوان زیادہ ہیں اور روزگار کے مواقع کم ہیں تو اس وجہ سے ہمارے لوگ مجبوراً باہر جاتے ہیں، یہ صوبہ ہمیں ایڈجسٹ نہیں کر سکتا، یہاں پہ وہ سہولیات نہیں ہیں جو کہ ایک تعلیم یافتہ نوجوان کو چاہیں۔ دوسری جانب بلوچستان میں میرٹ سسٹم نہیں ہے، یہاں پر کوٹہ سسٹم ہے جو کہ کسی بھی نوجوان کو قبول نہیں۔

اسلام ٹائمز:بیرون ممالک کی طرف رخ کرنے کیلئے آپ قوم کو کیا تجاویز دیں۔؟
میجر نادر علی:تعلیم حاصل کرنے کیلئے کسی بھی جگہ جانا چاہیئے اور موجودہ وقت میں آسٹریلیا یا یورپی ممالک کی طرف اگر رُخ کرتے ہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں اور یہ ہر کسی کا ذاتی فیصلہ ہوتا ہے۔ 

اسلام ٹائمز:اتحاد بین المسلمین کے قیام کیلئے آپکی خدمات، کوششیں اور مزید اس سلسلے میں کیا تجاویز ہیں۔؟ 
میجر نادر علی:پرانے زمانے میں عاشورہ کے بعد یوم حسین علیہ سلام منایا جاتا تھا، جس میں اہل سنت کے علماء بھی شرکت کرتے تھے، اسکے علاوہ محرم الحرام کے مہینے میں اہل سنت کے برادران ہمارے ساتھ مل کر عزادری میں شریک ہوتے تھے۔ وہ سلسلہ معلوم نہیں کیوں ختم ہوا۔ اگر وہ مجالس میں شرکت کرتے تھے تو ہمیں خود بھی انکی حوصلہ افزائی کرنا چاہیئے تھی۔ پہلے تو بھائی چارے کی فضاء تھی لیکن کچھ بیرونی ہاتھوں کے ملوث ہونے کی وجہ سے یہ سلسلہ خراب ہوا، لیکن اب اتحاد بین المسلمین ایک اچھا اقدام ہے اور خصوصاً بلوچستان کوئٹہ میں بہت ضروری ہے، جیسا کہ میں نے جرگہ کا ذکر کیا تو اس جرگہ میں بھی جمعیت علمائے اسلام کے جندواللہ صاحب، جماعت اسلامی کے متین آغا بھی آئے تھے، یہ ایک ایسا زمانہ ہے جس میں مسلمانوں کو آپس میں اکٹھا رہنا چاہیئے اور اکٹھے رہنے میں ہی کامیاب و سلامتی ہے اور ہزارہ قبیلے کے افراد کی ایک جماعت اس سلسلے میں کردار ادا کر رہی ہے، میں نے ہمیشہ انکی حمایت کی ہے اور انشاءاللہ انہیں ضرور کامیابی ہو گی۔

اسلام ٹائمز:پاکستان کے مسلمانوں کو آپ کیا پیغام دینا چاہیں گے۔؟
میجر نادر علی:پاکستان کے مسلمانوں کو چاہیئے کہ پاکستانی بنیں، اسکے وجود کیلئے دعا کریں۔ پاکستان کے وجود میں آنے سے پہلے ہزارہ قوم کے پاس کچھ نہیں تھا آج اگر ہمیں یا یہاں کے دوسرے مسلمانوں کو کچھ ملا ہے تو وہ صرف پاکستان کی بدولت ہے۔ اسی ملک نے ہمیں ترقی دی ہے، لہٰذا ہمیں چاہیئے کہ اس ملک کیلئے دعا کریں کہ یہ ہمیشہ کیلئے شاد و آباد رہے۔ ہمیں بیرونی ہاتھوں نے استعمال کر کے خراب کیا ہے، لیکن ابھی ہمیں سمجھنا چاہیئے کہ وہ ہمارے خیر خواہ نہیں ہیں، پاکستان ہی ہماری سرزمین ہے اور اسکی ترقی و خوشحالی کیلئے ہم سب کو کردار ادا کرنا چاہیئے۔

اسلام ٹائمز:ہزارہ قوم بالخصوص نوجوانوں کو کیا پیغام دینا چاہیں گے؟
میجر نادر علی:نوجوان ہر قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں اور آج ہزارہ قبیلے کی شرح خواندگی 85 فیصد ہے تو یہ صرف نوجوانوں کی محنت کی بدولت ممکن ہوئی ہے اور انشاءاللہ مستقبل میں ‌ہم 99 فیصد شرح خواندگی پاکستان کو دینگے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ بلوچستان کی بدقسمتی ہے کہ اتنی اچھی قوم سے فائدہ نہیں اٹھا رہی۔ آخر میں میں نوجوانوں کو یہی پیغام دینا چاہوں گا کہ تمام نوجوان تعلیم کی طرف توجہ دیں، اسی میں ہماری کامیابی ہے اور جب میں تعلیم کا کہتا ہوں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت ہمارے پاس صرف 1 ایم این اے اور ایم پی اے ہے اور اگر وہ ایک ایم این اے یا ایم پی اے بھٹک جاتا ہے تو اس کمی کو پورا کرنے کیلئے ہمارے پاس یہی راستہ بچ جاتا ہے کہ ہم انتہائی تعلیم یافتہ ہوں‌، ہمارے نوجوان حکومت کے اچھے عہدوں پر فائز ہوں، تاکہ ہم اس سیاسی کمی کو اچھے عہدوں کے ذریعے بیوروکریسی میں رہ کر پورا کر سکیں اور راستہ یہی ہے کہ بیوروکریسی میں جائیں، تاکہ ہماری سیاسی کمی پوری ہو سکے۔
خبر کا کوڈ : 127163
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش