0
Wednesday 1 Feb 2012 00:32

طالبان سے مذاکرات میں پاکستان اور ایران کو نظرانداز کرنا امریکہ کی ناعاقبت اندیشی ہے، جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم

طالبان سے مذاکرات میں پاکستان اور ایران کو نظرانداز کرنا امریکہ کی ناعاقبت اندیشی ہے، جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم
لیفٹینٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم کا نام ملک کے ممتاز محققین اور سیاسی نشیب و فراز پر گہری نظر رکھنے والے بلند پایہ دفاعی و سیاسی تجزیہ نگاروں میں ہوتا ہے، ریٹائرڈ جنرل عبدالقیوم، پاکستان آرڈینسنس بورڈ اور پاکستان سٹیل ملز کے سابق چیئرمین رہے ہیں، نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے ممبر اور سابق وزیراعظم محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے ملٹری سیکرٹری کے فرائض بھی انجام دے چکے ہیں اور اس وقت نظریہ پاکستان فورم اسلام آباد کے صدر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں، اسلام ٹائمز نے جنرل قیوم سے امریکہ طالبان مذاکرات، سیاسی اور عسکری قیادت میں بڑھتی ہوئی دوری اور تحریک انصاف کی مقبولیت سمیت ملکی اور بین الااقومی صورتحال پر ایک تفصیلی انٹرویو کیا ہے جو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: قطر میں طالبان اور امریکہ کے درمیان ہونے والے مذاکرات کی نوعیت کیا ہے اور مستبقل قریب میں کیا ہونے والا ہے۔ لگتا ہے کہ کافی حد تک چیزیں طے پا گئیں ہیں۔؟

جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم: بنیادی طور پر سمجھنے والی بات یہ ہے کہ امریکہ کو افغانستان کے اندر 10 سال لڑائی لڑنے کے باوجود فتح نصیب نہیں ہوئی اور وہ اب بہت سی مشکلات کا شکار ہے، اوباما انتظامیہ پر اپنے ملک کے اندر معاشی اور سیاسی لحاظ سے کافی دباؤ ہے۔ امریکہ کی آنکھوں کے اوپر پہلے خون کا خول چڑھا ہوا تھا اور وہ مذاکرات کے لیے تیار نہیں تھے لیکن اب وہ اس نظریئے کے قائل ہیں کہ سیاسی مسئلے کا حل سیاسی ہونا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ملا عمر کو دہشتگردوں کی فہرست سے نکال دیا ہے اور اب بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔ 

ہم امریکہ کے اس عمل کو سراہتے ہیں، لیکن ایک پہلو کہ اس سارے عمل میں پاکستان کو اُس طرح شامل نہیں کیا جا رہا ہے جس انداز میں ہونا چاہیے تھا۔ افغانستان پاکستان کا برادر ملک ہے۔ اگر ایک تہائی پختون بھائی افغانستان میں ہیں تو دوتہائی پختون پاکستان میں ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے تہذیب و تمدن مشترک ہیں اور اس لیے یہ آپس میں کبھی بھی نہیں ٹوٹ سکتے، ہم آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ میرے خیال میں پاکستان کو مذاکرات میں شامل ہونا چاہیے اور امریکیوں کو ہر حال میں پاکستان کو شامل کرنا ضروری ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا ان مذاکرات میں ایران بھی کہیں نہ کہیں شامل ہے، یا انہیں بھی نظرانداز کیا جا رہا ہے؟
جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم: ایران بھی خطے کا ایک اہم ملک ہے لیکن بدقسمتی سے امریکیوں نے ایران کے ساتھ اپنے سینگ لڑائے ہوئے ہیں۔ اس لیے نہیں کہ امریکہ کو ایران سے خطرہ ہے بلکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اسرائیل کو ایران سے خطرہ ہے۔ اسرائیل امریکہ کا ناجائز بچہ ہے جس کی امریکہ حفاظت کرنا چاہتا ہے۔ سی موومنٹ نامی کتاب میں کہا تھا کہ ہمارے مڈل ایسٹ میں دو مفادات ہیں کہ ایک آئل ہے اور دوسرا اسرائیل ہے۔ امریکہ کے ایران کے ساتھ مسائل ہیں اس لیے وہ ان کو شامل نہیں کرنا چاہتے۔
 
ایران ایک اسلامی ملک ہے اور افغانستان کا ہمسایہ ہے، امریکہ سمجھتا ہے کہ اگر انہوں نے ایران کو ان مذاکرات میں شامل کیا تو افغانستان کے اندر امریکہ کے لیے مسائل بڑھ جائیں گے۔ ایران کو ان مذاکرات سے باہر نکال کر دانائی نہیں ہو گی۔ امریکہ کو ایران سے اچھے تعلقات قائم کرنے چاہیں۔ جب شاہ ایران تھا تو تمام امریکیوں کے ایران سے تعلقات ٹھیک تھے لیکن اب ٹھیک نہیں ہیں، حالانکہ اب بھی وہی ایران ہے، وہی لوگ ہیں تو اب کیوں نہیں چاہتے کہ ان سے تعلقات اچھے ہو جائیں۔ اس لیے کہ ایران کے اندر جمہوریت ہے اور وہ اپنے مفادات کی بات کرتے ہیں، لہٰذا ایران کو الگ رکھ کر علاقے کے مسائل حل کرنا اچھا نہ ہو گا۔

اسلام ٹائمز: قطر مذاکرات کے نتائج کیا برآمد ہونگے، کیا طالبان کی حکومت بن پائے گی، اہم بات یہ کہ یہ معاملہ کیسے آگے بڑھ پائے گا۔؟
جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم: اگر امریکہ کی مرضی اور خواہشات پوری ہونے کی بات کی جائے تو اس میں وہ چاہتا ہے کہ ان سب پختونوں کو تہہ و تیغ کر دیا جائے اور یہاں پر شمالی اتحاد والوں کی حکومت بن جائے جو امریکہ کی بات سنے، یہاں کرزئی رہے اور وہی آئین رہے جو امریکہ چاہتا ہے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستان، افغانستان اور ایران سب نکل جائیں اور وہ یہیں پر رہے۔ یہی تو ان کی سب سے بڑی خواہش ہے۔ کہتے ہیں کہ اگر خواہشیں گھوڑے ہوتے تو آپ بڑی تیز سواری کرتے۔ یہ خواہشات ان کی کبھی بھی مکمل نہیں ہو سکیں گی۔ اس لیے اب وہ مجبور ہیں کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کیے جائیں۔ 

اوباما کی گزشتہ تقریر میں اس نے کہا تھا کہ اب حالات ٹھیک ہو گئے ہیں اور ہم نے القاعدہ کی کمر توڑ دی ہے۔ کافی حد تک فوج ہم نے واپس بلا لی ہے اور 23 ہزار فوجی بعد میں بلا لیں گے۔ تو اس کے بعد سب کچھ ٹھیک اور اچھا ہو جائے گا۔ ان سے بندہ یہ پوچھے کہ 2003ء کے عرصے میں ہلاک ہونے والے امریکی فوجیوں کی تعداد 200 سے زائد نہ تھی تو اب 2011ء میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 1270 ہو گئی ہے تو اس سے کیا ثابت ہوتا ہے کہ حالات بہتر ہوئے ہیں یا خراب۔؟ 

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بانکی مون نے بھی اس بات کو تسلیم کیا ہے اور کہا ہے کہ افغانستان میں نیٹو اور امریکی افواج کی اموات میں 40 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر آپ بھاگنا چاہتے ہو تو کل کے آج بھاگ جاؤ، مگر پاکستان کو شامل کریں، ان دو ممالک کے درمیان خلا نہیں چھوڑنا چاہیے۔ یہاں ان کی مرضی نہیں چلے گی کیونکہ یہاں نہ وہ، نہ ان کا آئین رہے گا اور نہ ہی وہ کرزئی رہے گا جس کے بل بوتے پر حکومت کی جا رہی ہے۔
 
افغانستان کی دیانتدار فورس الیکشن کرائے، افغان حکومت کیسے بنتی ہے یہ سب اُن پر چھوڑ دیا جائے، اگر طالبان اکثریت میں ہیں تو انہیں حکومت بنانے دی جائے اور یہ اُن پر چھوڑ دیا جائے کہ الائنس بناتے ہیں یا پھر اپنی مرضی کی حکومت۔ ساری دنیا کا ٹھیکہ امریکہ نے تو نہیں اٹھایا ہوا ہے۔ ایران، سعودی عرب، ترکی اور پاکستان نے اپنا مضبوط سسٹم بنایا ہوا ہے تو افغانستان کو کیوں حق نہیں ہے۔؟ آپ ایک حد تک ہی کسی ملک کے معاملات میں دخل اندازی کر سکتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: مذاکرات کیلئے قطر ہی کا انتخاب کیوں کیا گیا؟ حالانکہ سہ فریقی کانفرنس ترکی میں ہوئی جہاں پاکستان، افغانستان اور ترکی کے سربراہان موجود تھے لیکن ان تینوں ممالک میں کسی ایک کو بھی منتخب نہیں کیا گیا۔؟
جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم: قطر دوہا میں امریکہ کا ایک اپنا اثر و رسوخ ہے، اسی طرح مڈل ایسٹ، بحرین میں اچھا خاصا اثر و رسوخ ہے۔ امریکیوں کے ان ممالک میں اپنے چینل بھی کام کر رہے ہیں۔ ترکی ایک مسلمان اور طاقتور ملک ہے، ترکی صرف مڈل ایسٹ کی نہیں بلکہ پورے اس خطے کی طاقت ہے، لہٰذا یہ کریڈٹ ترکی کو نہیں دینا چاہتے۔ اس لیے انہوں نے قطر کا انتخاب کیا ہے اور اس کام کے لیے انہوں نے قطر کو مناسب جگہ قرار دیا ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا ہم یہ توقع کر سکتے ہیں کہ ان مذاکرات کے نتیجے میں افغانستان میں امن قائم ہو جائے گا۔؟
جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم: امن قائم کی گارنٹی تو کوئی بھی نہیں دے سکتا۔ اتنی ساری کوششوں کے باوجود مڈل ایسٹ کے اندر کہاں امن ہے۔ لیبیاء، شام ان ملکوں میں کیا ہو رہا ہے، ہاں ہم امن قائم کرنے کی طرف اسے ایک بہت اہم قدم قرار دے سکتے ہیں۔ آپ دیکھیں کہ افغانستان کا ایک اپنا کلچر ہے، اپنی تاریخ ہے۔ وہاں کبھی بھی طاقتور مرکزی حکومت نہیں ہوتی۔ افغانستان میں مار دھاڑ والے لوگ کافی ہیں، ابھی امریکیوں نے ان کے دانتوں میں ہڈیاں ڈالی ہوئی ہیں۔ منشیات کا پیسہ کھایا ہوا ہے، لہٰذا فوراً ٹھنڈ تو نہیں پڑے گی۔

اسلام ٹائمز: پارلیمنٹ کی قراردادیں اور سلالہ چیک پوسٹوں پر نیٹو افواج کے حملے کے بعد ایک واضح پیغام دیا گیا تھا کہ اب ڈرون حملے نہیں ہونے دیں گے، مگر کچھ عرصہ خاموشی کے بعد دوبار شروع ہو گئے ہیں۔ سیاسی اور عسکری قیادت کی خاموشی کیا پیغام دے رہی ہے کہ معاملات طے پا گئے ہیں۔؟
جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم: بنیادی بات یہ ہے کہ اس وقت پاکستان میں کوئی حکومت نہیں ہے۔ زرداری اپنی ہیرا پھیری میں لگا ہوا ہے اور نہ ہی گیلانی کو کوئی فکر ہے اور نہ ہی فوج کنٹرول میں ہے، لہٰذا اس وقت ساری کنفیوژن ہے۔ اگر ذرا بھی اس میں غیرت کا مادہ ہے تو اس کو مستعفی ہو جانا چاہیے۔
اسلام ٹائمز: آرمی چیف نے یہ بھی بیان دیا تھا کہ چیک پوسٹ کے واقعہ کے بعد اب جواب ملے گا لیکن اب ان کو کس کی اجازت درکار ہے؟ یہ صورتحال دیکھ کر ایک عام پاکستانی کڑھتا ہے۔؟
جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم: فوج ایک الگ ڈیپارٹمنٹ ہے۔

اسلام ٹائمز: سلالہ چیک پوسٹوں پر نیٹو حملے ہوتے رہے لیکن ہماری فضائیہ نے کوئی اقدام نہیں کیا اور کہا گیا کہ انہیں اجازت نہیں ملی اور بعد میں کہا گیا کہ کوآرڈینیشن نہیں تھی، اس وجہ سے کوئی اقدام نہیں اُٹھایا گیا، کیا کہیں گے اس پر؟
جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم: یہی چیز قابل غور ہے کہ یہ کس نے چیک کرنا ہے کہ کس کی ذمہ داری ہے۔ جو ایک مملکت کے سربراہ ہیں اور آئین اور حکومت کو چلا رہے ہیں ان کو چاہیے کہ ان کو واضح پالیسی دیں کہ کس کے متعلق کیا اقدام اٹھانا ہے۔ جیسا کہ انہوں نے پہلے بھی یہ کہا تھا کہ جو کوئی آئے گا تو ہم حملہ کریں گے۔ ڈرون کو آپ نہیں گرا سکتے۔ ڈرون ایک چھوٹی سی مشین ہوتی ہے جس میں پائلٹ بھی نہیں ہوتا۔
 
پورے خطے میں اگر ڈرون کو صحیح و سالم اتارا ہے تو وہ صرف ایران نے اس کو اتارا ہے اور وہ بھی رشیاء کی مدد سے ڈرون کی تمام کمانڈز کو جام کیا گیا، اس ڈرون کو الیکٹرانیکل جام کر کے اتارا گیا۔ ان کو صاف صاف لوگوں کو بتانا چاہیے کہ ہم ڈرون کو نہیں اتار سکے تو اس کی کیا وجہ ہے۔؟ کیا ہم نے کبھی اس کو گرانے یا اتارنے کی کوشش بھی کی ہے۔؟ لوگوں کا یہ سوال تو بجا ہے کہ آپ نے تو کہا تھا کہ اگر کوئی ڈرون حملے ہونگے تو ہم اس کا ڈٹ کر جواب دیں گے۔

اسلام ٹائمز: جب ہماری حکومت یہ کہتی ہے کہ ڈرون کو ہم گرا سکتے ہیں تو اس کے کہنے کے بعد بالکل خاموشی چھا جاتی ہے۔؟
جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم: اس بات پر سو فیصد متوجہ نہیں ہوتے اور دھیان نہیں دیتے کہ ڈرون کب آیا اور کہاں حملہ کیا اور کیسے گیا۔

اسلام ٹائمز: مشرف کی واپسی کے حوالے سے سابق پچیس سے زائد جرنیلوں نے کچھ روز پہلے مظاہرہ کیا، قوم کو کیا پیغام دیا گیا ہے۔؟
جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم: 25 جرنیل نہیں تھے، جہاں تک میری معلومات ہیں وہ چار یا پانچ کی ہے، باقی سابق ریٹائرڈ افسران تھے جنہیں جرنیل کا نام دیا جا رہا ہے۔ ان میں زیادہ تر وہی لوگ ہیں کہ جب مشرف اقتدار میں تھا اور یہ ان کے قریب تھے، اب یہ کہتے ہیں کہ غیر سیاسی ہیں جبکہ اس وقت مشرف کے اسٹاف کے طور پر کام کرتے رہے ہیں، اب یہ کہتے ہیں کہ ہم سیاست کے پرچار اور جمہوریت کے لیے آتے ہیں۔ آرمی ریٹائرڈ حضرات کی جو نتظیم ہے اس نے اس کی مذمت کی ہے۔ مشرف کے ساتھ وہی چند لوگ ہیں جو اس وقت مشرف سے مستفید ہوئے ہوں گے۔

اسلام ٹائمز: ایک عام تاثر ہے کہ آرمی کا کوئی جنرل ریٹائرڈ ہو جائے اور چاہے اس نے آئین پاکستان کو دو مرتبہ ہی کیوں نہ توڑا ہو، اس کا احتساب نہیں ہو سکتا جبکہ سویلین کو دس دس سال جیل میں بند کر دیا جاتا ہے اور انہیں پھانسی تک پہنچا دیا جاتا ہے، ایسا تاثر کیوں ہے، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ مشرف کا احتساب ہونا چاہیے۔؟
جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم: سویلین بہت ڈھیٹ اور کرپٹ ہیں، ان کے اندر اچھا کردار نہیں ہے۔ آئین اور قانون کی خلاف ورزی کرنے والا ہر بندہ جوابدہ ہو سکتا ہے۔ یہ بات آپ کی سو فیصد درست ہے کہ مشرف نے آئین پاکستان کو توڑا ہے افواج پاکستان کا نام بدنام کیا ہے لیکن افسوس کہ اسے گارڈ آف آنر دلا کے بھیج دیا گیا۔

اسلام ٹائمز: بلوچستان کے بلوچ رہنما کہتے ہیں کہ ہمیں اس نکتہ پر پہنچا دیا گیا ہے کہ جہاں سے واپسی کا کوئی راستہ نہیں، اس ساری صورتحال کو کیسے بہتر بنایا جا سکتا۔؟
جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم: بلوچستان سمیت پورے ملک کا جو مسئلہ ہے وہ سیاسی قیادت کی کمزوری ہے جو کنٹرول نہیں کر پا رہی۔ بلوچستان کے مسئلے کا حل فوجی نہیں بلکہ سیاسی ہے اور یہ سیاسی حل سیاستدانوں نے ہی تلاش کرنا ہے۔ ان کی اپنی حکومتیں مرکز اور صوبوں میں موجود ہیں، افواج ان کے ساتھ ہیں، انٹیلی جنس ان کے پاس ہیں۔ قانون کی اتھارٹی ہے، عدالتیں کام کر رہی ہیں۔ یہ سب ان سیاستدانوں کی ہی ذمہ داری ہے۔ آپ دیکھیں کہ اگر فوجی حکومت ہو پھر تو فوج ذمہ دار ہے اور اگر سویلین حکومت ہو اور پھر بھی فوج ذمہ دار ہو تو یہ کہاں کا انصاف ہے۔ جب پرویز مشرف کی حکومت تھی تو اس وقت وزیراعلٰی کون تھا، پرویز الٰہی صاحب اس وقت پنجاب کے وزیراعلٰی تھے۔ 

وزیراعظم چوہدری شجاعت صاحب تھے۔ مشرف کو سپورٹ کرنے والے بیرسٹر، سیاستدان کہاں ہیں جو اس وقت تو بڑے حامی بنے ہوئے تھے اور آج مشرف پاکستان نہیں آ سکتا۔ جب اکبر بگٹی قتل ہوا تھا تو اس وقت چوہدری پرویز الٰہی وزیر اعلٰی پنجاب تھا، چوہدری شجاعت اور مشاہد حسین کے ہوتے ہوئے بگٹی قتل ہو گیا۔ بے شک آپ مشرف کو پکڑ لیں اور کٹہرے میں کھڑا کریں۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری جنرل پرویز مشرف کی سائیڈ لے گا۔ بلکہ چیف جسٹس کا کام صرف انصاف دینا ہے۔ یہ اپنی کرسیاں نہیں چھوڑنا چاہتے، یہ اندر سے کانے ہیں اور ان کا کوئی کردار نہیں اور یہ کنٹرول نہیں کر سکتے اور ان کو صرف اقتدار چاہیے۔

اسلام ٹائمز: امریکہ کی جانب ایک بیان جاری ہوا ہے کہ پاکستان کے ساتھ ایران گیس پائپ لائن منصوبہ رکوانے کے حوالے سے مذاکرات چل رہے ہیں، اس پر کیا کہیں گے۔؟
جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم: امریکہ کو اس طرح کے بیانات دینے سے باز آنا چاہیے۔ ہمیں بالکل گیس پائپ لائن کے حوالے سے ایران کے متعلق امریکہ کی کسی قسم کی کوئی بات نہیں سننی چاہیے۔ ایران سے معاہدہ ہمارے مفاد کی بات ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمیں گیس بحران کا سامنا ہے اور گیس کی یہاں شدید قلت ہے۔ ایران کی جانب سے گیس لائن باڈر تک پہنچ چکی ہے، لہٰذا پاکستان کو اس میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔

اسلام ٹائمز: کہا جا رہا ہے کہ عمران کو آگے لانے کیلئے اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ ہے اور وہ تیسری سیاسی قوت پیدا کرنا چاہ رہی ہے۔؟
جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم: میں یہ نہیں کہتا کہ اس کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ ہے یا اس کی مدد کر رہی ہے، میں صرف یہ کہتا ہوں کہ اگر اسٹیبلشمنٹ نہ ہو اور کوئی لیڈر دیانت داری کے ساتھ سامنے آئے اور ایک فورس بننی چاہیے تو ہر محب وطن پاکستانی چاہے وہ فوج میں ہے، چاہے واپڈا میں ہے یا ایگریکلچر میں ہے تو اس کی فیلنگز ہوں گی کہ اللہ کرے ہمارے سیاسی میدان میں طہارت آ جائے کیونکہ ہم کہتے ہیں کہ فوج نہ آئے بلکہ سیاستدان آنے چاہیں۔
 
اس حد تک شاید اسٹیبلشمنٹ کی ہمدردی ہو۔ باقی چھوٹی پارٹیاں ایم کیو ایم، فضل الرحمن کی پارٹی، عوامی پارٹی یہ اتحاد تو صرف اپنے مفاد کا اتحاد ہے، ان سے جان چھوٹے اور مضبوط لوگ اوپر آئیں لیکن لوگوں کو پیسے دے کر جلسوں میں شرکت کروانا میرا خیال نہیں کہ اس طرح عمران خان کی پارٹی کر رہی ہے۔ اس کے پاس اتنی استطاعت ہے کہ لاہور میں 2 لاکھ بندے اکٹھے کر لیں گے۔

اسلام ٹائمز: اصغر خان پٹیشن زیر سماعت ہیں، کیا سمجھتے ہیں کہ آئی ایس آئی کا سیاسی ونگ کوئی ایسا کام کرتا رہا ہے۔؟
جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم: اسلم درانی کا بیان عدالت میں جمع ہے۔ مرزا اسلم بیگ مانتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ چیف ایگزیکٹیو نے یہ کہا تھا کہ پیسے تقسیم کرو، اس وقت کے چیف ایگزیکٹیو صدر اسحاق خان مرحوم ہو چکے ہیں۔ صدر اسحاق کے کہنے پر آئی ایس آئی نے الیکشن سیل بنائے ہوئے تھے۔ الیکشن سیل نے ان کو کہا تھا کہ ایسے کرو، بہرحال معاملہ کورٹ میں ہے۔

اسلام ٹائمز: آپ نے تحریک انصاف میں شمولیت کا فیصلہ کیا تھا لیکن ابھی تک اعلان نہیں کیا ، اس کی کیا وجہ ہے۔؟
جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم: میں نے ان سے ملاقات کرنی ہے اس کے بعد ہی فیصلہ کروں گا، میں دیکھوں گا کہ میری تحریک انصاف میں شمولیت سے ملک کو کیا فائدہ ہو سکتا ہے۔ مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف صاحب سے میری ملاقات ہوئی تھی۔ انشاءاللہ ٹھیک اپنے مقررہ وقت پر بات آگے آ سکتی ہے۔ اگر میں کسی سیاسی فورم کے اوپر آ کر ملک کے لیے مستفید ہو سکتا ہوں تو انشاءاللہ ضرور آؤں گا۔ بہرحال جب یہ فیصلہ ہو گا تو سبھی کو پتہ چل جائے گا۔

اسلام ٹائمز: پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں اور اسے امریکہ ایران کے درمیان ٹینشن قرار دیا جا رہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ اگر ایران نے آبنائے ہرمز کو بند کر دیا تو مسئلہ اور بڑھے گا، اگر ایسا ہوتا ہے تو اس کے کیا اثرات مرتب ہونگے۔؟
جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم: یہ ملک کے لیے تباہ کن ہو گا۔ دنیا میں تیل کا 20 فیصد حصہ ایران سے نکلتا ہے۔ تیل ایکسپورٹ کرنے والا سب سے بڑا ملک سعودی عرب ہے۔ دس ملین بیرل یومیہ ایکسپورٹ کرتے ہیں۔ اگر ایران، یو اے ای کا تیل نہیں جاتا۔ ایران سمندر میں آبی سرنگیں لگا دیتے ہے، تو مزید مسئلے بڑھیں گے۔ اس لیے امریکہ کو بھی سوچنا چاہیے کہ ایران کے ساتھ اتنی زیادتی نہ کرے کہ ان کی پیٹھ دیوار سے لگ جائے کیونکہ جب ایسی صورتحال پیدا ہو گی تو شور مچے گا اور وہ تیل کے کنوؤں کو تباہ کریں گے۔ دنیا کے تیل کا 2/3 حصہ یہاں سے نکلتا ہے۔

اسلام ٹائمز: ایران کیلئے آبنائے ہرمز کی کیا اہمیت ہے۔؟
جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم: آبنائے ہرمز خلیج اومان اور خلیج فارس کے درمیان واقع ایک اہم آبنائے ہے۔ اس کے شمالی ساحلوں پر ایران اور جنوبی ساحلوں پر متحدہ عرب امارات اور اومان واقع ہیں۔ یہ آبنائے کم از کم 21 میل چوڑی ہے۔ یہ تیل کی دولت سے مالا مال خلیجی ریاستوں کے تیل کی برآمدات کا واحد بحری راستہ ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ روزانہ دنیا بھر میں تیل کی کل رسد کا 20 فیصد اس آبنائے سے گزرتا ہے۔ اس کو فلاپ کرنا ایران کے لیے کوئی مشکل نہیں۔ اس کو بلاک کرنے کا مطلب تیسری جنگ عظیم کا شروع کرنا ہے۔
 
چونکہ ایرانی اپنے بارڈر سے اس پر میزائیلوں سے اٹیک (حملہ) کر سکتے ہیں۔ آرٹیلری (توپ خانہ) لگا کر اس پر حملہ کر سکتے ہیں۔ یہ توپیں 30 کلومیٹر دور گولہ پھینکتی ہیں۔ اگر کسی ایک آئل ٹینکر کو بھی جہاز یا کسی طریقے سے گرا دیا تو وہ جل جائے گا اور یہ راستہ بلاک ہو جائے گا اور اگر یہ راستہ بند کر دیا گیا تو پھر تیل کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگے گیں اور سب سے زیادہ متاثر امریکہ ہو گا۔ دنیا کی پیدا کردہ انرجی امریکہ 25 فیصد استعمال کرتا ہے۔ امریکہ میں روز 20 ملین بیرل تیل کھپتا ہے۔ اس میں صرف 8 ملین بیرل خود پیدا کرتے ہیں جبکہ 12 ملین بیرل تیل باہر سے منگواتے ہیں اور یہ ضرورت وقت کے ساتھ ساتھ روز بروز بڑھ رہی ہے۔ آج سے پانچ چھ سال پہلے 44 فیصد اپنی ضروریات منگواتے تھے اور اب وہ 64 فیصد منگواتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: اگر آئل ٹینکر جل جاتا ہے اور آبنائے ہرمز بلاک ہو جاتی ہے تو اس جلے ہوئے جہاز کو نکالنے کیلئے کتنا ٹائم لگ سکتا ہے۔؟
جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم: وقت تو شاید تھوڑا ہی لگے لیکن جب جنگی حالات ہوتے ہیں تو ٹینکرز آ بھی نہیں سکتے ہیں۔ جب ٹینشن ہوتی ہے، جنگ لگی ہوتی ہے تو پھر ڈوبے ہوئے جہاز کو بھی نکالنا بھی بڑا مشکل ہوتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 134563
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش