0
Saturday 28 Jan 2012 23:31

امریکہ اور مغربی طاقتوں کے زوال کے واضح آثار

امریکہ اور مغربی طاقتوں کے زوال کے واضح آثار
 تحریر: جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم

یورپ کے قرضوں کا بحران اب مزید گھمبیر ہو چکا ہے۔ کہا یہ جاتا ہے کہ یورپ میں اب مالیاتی بم پھٹنے شروع ہو گئے ہیں۔ 13 جنوری کو جب امریکہ فینانشل مارکیٹ بند ہوئی تو 9 یورپین ممالک کی کریڈٹ ریٹینگ دھڑم کر کے ایسی گری کہ پورے یورپ کی مالیاتی منڈیوں میں تہلکہ مچ گیا۔ حیرانگی کی بات یہ ہے کہ ان ممالک میں فرانس اور آسٹریا جیسے بہت اہم ممالک بھی شامل ہیں، جن کی کریڈٹ رئیٹنگ AAAسے نیچے جا گری۔ جب کسی ملک کی کریڈٹ ریٹنگ گرتی ہے تو دوسرے ممالک اور بین الاقوامی مالیاتی ادارے اُن کو اول تو قرضہ دینے سے انکاری ہو جاتے ہیں یا پھر قرضے پر سود کی شرح کو بڑھا دیتے ہیں۔ 

جب ان ممالک کو قرضے نہیں ملتے یا مہنگے قرضے ملتے ہیں تو ان ممالک کے ترقیاتی منصوبے بند ہو جاتے ہیں، بے روزگاری جنم لیتی ہے۔ اس طرح مالی اور معاشی معاملات اور دگرگوں ہو جاتے ہیں۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ دنیا اب ایک مزید زبردست گلوبل Double Dip ارلیشسن میں داخل ہونے والی ہے۔ کریڈٹ ریٹنگ ماضی میں بھی گرتی رہی ہیں لیکن 13جنوری کو جو کچھ ہوا، اس کی مثال حالیہ تاریخ میں نہیں ملتی۔ مثلاً فرانس اور آسٹریا کے علاوہ اٹلی، سپین، پرتگال، سائپرس، مالٹا، سلوواکیا اور سلووانیا سمیت بہت سارے ممالک کی کریڈٹ ریٹنگ کا گر جانا بہت غیر معمولی ہے۔ 

کچھ مغربی معاشی ماہرین کہتے ہیں کہ امریکہ کی موجودہ معیشت ساحل پر بنے ہوئے ایک ریت کے گھروندے سے کم نہیں۔ 2008ء کے معاشی بدحالی کی پہلی لہر نے کئی ملین امریکیوں کو نہ صرف بےروزگار کیا بلکہ کروڑوں لوگوں کو اپنے گھروں سے بھی ہاتھ دھونا پڑے۔ اب معاشی بدحالی کی دوسری سونامی اس ساحل سمندر سے ٹکرا رہی ہے۔ جس پر امریکہ اور یورپ کے ریت کے خستہ حال محل موجود ہیں۔ ایک ماہر معاشیات نے کہا:۔
 
"Economic Collapse takes time. The US greatest economic machine is most definitely declining. An other wave is comming. Many more will come some day America will be such a horror that it will be hard to believe that it is same place that many of us grew up in"
یعنی معاشی دیوالیہ پن اچانک نہیں بلکہ آہستہ آہستہ آتا ہے امریکی معاشی مشین یقیناً زوال کا شکار ہے۔ اب معاشی بدحالی کی اگلی لہر دروازہ کھٹکھٹا رہی ہے۔ اس کے بعد اور بہت ساری لہریں بھی آئیں گی اور امریکی معاشی نظام ایسے تباہ ہو گا کہ ہم امریکن پہچان بھی نہ سکیں گے کہ یہ وہ امریکہ ہے جہاں ہم نے پرورش پائی تھی۔
 
Simon Black لکھتا ہے کہ اب امریکہ سمیت مغربی ممالک اتنے مقروض ہو چکے ہیں کہ وہ یہ قرضے نہیں اتار سکتے۔ ایسی صورتحال میں جب آپ کی GDP کا بڑا حصہ سود ادا کرنے پر صرف ہو جائے تو معاشی ترقی ممکن نہیں۔ بیمار معیشت کو سیاسی اور کچھ مالی ٹیکے لگانے سے کام نہیں چلتا۔ ایک ایسا بین الاقوامی مالیاتی نظام جس کا سارا دارومدار بے معنی کاغذی کرنسی پر ہو، وہ ضرور ایک طویل مدت معاشی Depression کو جنم دے گا۔ اس کے ساتھ جب کسی ملک میں معاشی بدحالی آجائے وہاں Civil Unrest کی تحریکیں بھی جنم لیتی ہیں۔ 

تاریخ گواہ ہے کہ دنیا میں ماضی میں یہ عروج و زوال آتے رہے، مثلاً 27قبل مسیح میں عظیم رومن ایمپائر کا زوال اس وقت شروع ہوا جبAugustus بادشاہ بنایا گیا۔ اس کے بعد Tiberius ،Caligula ،Claudiusاور Nero کے ادوار میں صدیوں رومن سلطنت معاشی اعتبار سے سکڑتی رہی اور پانچویں صدی عیسوی میں جب رومن زوال پذیر ہوئے تو اس وقت آخری صرف پچاس سالوں میں دنیا کے تاریخی شہر روم سے تقریباً 75 فیصدی آبادی نقل مکانی کر چکی تھی۔ مغربی تجزیہ نگار کے مطابق جس طرح رومن ایمپائر، سویت یونین اور سلطنت عثمانیہ زوال پذیر ہوئے، بالکل اسی طرح اب مغربی سلطنت کا زوال شروع ہو چکا ہے۔
 
2012ء کا سال بہت اہم ہے اس میں امریکہ، فرانس اور روس کے صدارتی انتخابات بھی ہو رہے ہیں۔ ساتھ ساتھ امریکہ اور یورپ کا زوال بھی شروع رہے گا اور جیو پولیٹیکل، جیو اسٹرٹیجک اور جیو اکنامکس ماحول اپنا رنگ مزید بدلے گا۔ مالی اور انسانی سرمائے کی مغرب سے مشرق کی طرف ہجرت جاری رہے گی۔
 قارئین کرام، اب دیکھتے ہیں کہ بین الاقوامی سطح پر 2012 میں اور کونسے strategic مسائل قوموں کی برادری پر اپنے اثرات چھوڑیں گے۔
(1) پہلی بات تو یہ ہے کہ سال 2012ء میں بھی دنیا معاشی بدحالی اور مالی مشکلات کے چنگل میں رہے گی۔ اس سال بھی امریکہ، یورپ اور جاپان کا معاشی مشکلات سے باہر آنا مشکل نظر آتا ہے۔ چین، ہندوستان اور برازیل کے بھی مغربی معاشی مفکر 2012ء کے سال کو کوئی اچھا سال تصور نہیں کر رہے۔ چین کا Yuan ساری کوششوں کے باوجود گلوبل کرنسی نہیں بن سکے گا۔ مغربی دنیا کا غیر تسلی بخش Debt-to-GDP ریشو ایک سب سے بڑا مسئلہ رہے گا۔
 
(2) 2012ء میں دنیا کا ایک اور Strategically بہت اہم مسئلہ توانائی کے لیے زبردست بین الاقوامی رسہ کشی ہو گا۔ یہ تناؤ نہ صرف جاری رہے گا، بلکہ یہ بڑھ جائے گا۔ امریکہ جو پوری دنیا کی آبادی کا صرف 5% ہے وہ دنیا کی 25 فیصدی انرجی استعمال کرتا ہے۔ امریکہ روزانہ 20 ملین بیرل تیل استعمال کرتا ہے۔ جس میں سے صرف 8 ملین بیرل وہ خود پیدا کرتا ہے اور 12 ملین بیرل تیل ہرروز اس کو درآمد کرنا پڑتا ہے اور بیرونی انرجی پر اس کا انحصار جو پہلے 44 فیصدی تھا اب 64فیصدی ہو گیا ہے۔ یہ تیل زیادہ تر خلیج فارس کی ریاستوں اور سعودی عریبیہ سے آتا ہے۔ جہاں دنیا کے کل Proven تیل کے ذخائر کا تقریباً دوتہائی موجود ہے۔ سعودی عریبیہ دنیا کا سب سے بڑا تیل برآمد کرنے والا ملک ہے، جو ہر روز دس ملین بیرل تیل فروخت کرتا ہے۔
 
مسئلہ یہ ہے امریکہ اسرائیل کو خوش کرنے کے لیے ایران کو کہتا ہے کہ ایٹمی ہتھیار نہ بناؤ اور ایران پر پابندیاں لگا رہا ہے۔ ایران کہتا ہے کہ اگر یہ پابندیاں حد سے بڑھیں تو ایران سٹریٹ آف ہرمز کو بند کر دے گا۔ امریکہ کہتا ہے اس کا مطلب اعلان جنگ تصور کیا جائے گا۔ امریکہ افغانستان میں بھی اس لئے مار کھا رہا ہے چونکہ اس کی نظریں وسطی ایشائی ریاستوں کے تیل اور گیس کے ذخائر پر مرکوز ہیں۔ یہ دنگل سال 2012ء میں بھی جاری رہے گا۔ چونکہ گلوبل انرجی کی مانگ دن بدن بڑھ رہی ہے۔ شمالی افریقہ، خلیج فارس اور گلف آفGuinea سے اگر یورپ کو تیل میں رکاوٹ آئی تو یورپ کا روس پر دارومدار مزید بڑھ جائے گا۔
 
(3) مغربی تجزیہ کاروں کے مطابق 2012ء میں امریکہ کی گلوبل اسٹرٹیجک کریڈیبلٹی بہتر ہونے کے کوئی امکانات نہیں۔ معاشی مشکلات اور امریکہ کی اپنی رعونت اور غلط پالیسیاں بھی امریکہ کی بین الاقوامی ساکھ کو بہتر نہیں ہونے دیں گی۔
 
(4) یورپ کی بدحالی کا ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ جرمنی اور فرانس، معاشی اور مالیاتی معاملات کو یورپین کرنسی زون سے الگ کر کے نہیں دیکھنا چاہیے۔ جس سے یورپ کو نقصان ہو رہا ہے۔ یہ صورتِحال بھی 2012ء میں برقرار رہے گی۔
 
(5) عرب سپرینگ کے طوفان میں اگر مصر، انڈونیشا، لیبیا، یمن، بحرین اور شام میں اسلامسٹ آ گئے، جیسے مصر میں اخوان المسلمین 47 فیصدی نشستیں جیت چکے ہیں۔ تو یہ بھی امریکہ کے لیے باعث پریشانی ہے، چونکہ یہ امریکی زوال میں تیزی لائے گی۔
 
(6) 2012ء میں نائجیریا کی صورتِحال بھی بدتر ہو سکتی ہیں۔ نائجیریا میں انرجی کے ذخائر ہیں۔ امریکہ اور یورپ ان ذخائر میں دلچسپی رکھتے ہیں، لیکن نائجیریا میں مداخلت نہیں کر سکتے۔ چونکہ وہاں زبردست تناؤ ہے۔ نائیجریا میں اگر خانہ جنگی چھڑی تو یہ امریکہ اور مغرب کے لئے کوئی اچھی خبر نہ ہو گی۔
 
قارئین کرام، سال 2012ء کے متوقع غیریقینی بین الاقوامی ماحول میں پاکستان کی ترجیح تو صرف اپنے قومی مفادات کا تحفظ ہی ہونی چاہیے۔ اس سلسلے میں میری دیانتدارنہ رائے میں ہماری حکمت عملی کچھ یوں ہونی چاہئیں۔
 
(1) عدلیہ، انتظامیہ کبڈی میچ کا فوری خاتمہ اور سول ملٹری تعلقات کو قومی مفاد میں ہر حالت میں تسلی بخش سطح پر لانا۔ اس سلسلے میں اہم ترین کردار سپریم کورٹ کا ہے، جس کو دن رات کام کر کے NRO اور میمو مقدمات کو صرف آئین اور قانون کی روشنی میں جلد نمٹا دینا چاہیے اور چونکہ عدالت عالیہ کی نظر میں چیف ایگزیکٹو بادالنظر میں دیانت دار نہیں رہے۔ سپریم کورٹ کے احکامات پر عملدرآمد افواج پاکستان کی وساطت سے کروایا جائے۔ جو فوری طور پر عدلیہ کے احکامات کی روشنی میں عبوری حکومت بنائے۔ فوج کی نگرانی میں انتخابات کروائے اور قومی مفادات کے خلاف کام کرنے والوں کو ایسی سزائیں دی جائیں کہ اُن کے آنے والی نسلیں بھی آئندہ پاکستانی کے ایٹمی اثاثوں کا سودا نہ کر سکیں۔
 
(2) عبوری حکومت اور بعد میں آنے والی مستقل حکومت فوری طور پر ہرروز کے تقریباً ڈیڑھ ارب روپے کے نقصانات کو روک دے، اداروں کی فنانشل ری اسٹریکچرینگ کی جائے، ٹیکس کے نظام کو موثر بنایا جائے، ہنگامی بنیادوں پر مزید لوگ بیرون پاکستان بھیجے جائیں، تاکہ وہ پاکستان کے لیے زیادہ سے زیادہ زرمبادلہ کمائیں، نوٹ چھاپنے بند کر دیئے جائیں۔ ایران اور ترکمنستان سے مل کر انرجی کا فوری حل نکالا جائے۔ VIP کے موٹر کیڈ میں سکیورٹی کی صرف دو یا تین گاڑیوں سے زیادہ نہ ہوں، انگلستان کے وزیراعظم ٹولی بلیئر اور ملیشیا کے لیڈر مہاتیر محمد کے موٹر کیڈ میں راقم نے خود صرف ایک کار اور دو موٹر سائیکل دیکھے، جو باری باری اگلے چوک پر جا کر صرف چند منٹوں کے لیے ٹریفک روکتے تاکہ VVIP گذر جائے۔
 
سوٹزرلینڈ کے بینکوں سے ڈیڑھ ارب ڈالرز واپس پاکستان لا کر اور لٹیروں کی جائیدادیں اور شوگر ملیں بیچ کر حاصل شدہ رقم سے پاکستان کے چاروں صوبوں میں ہزاروں پرائمری سکول کھولے جائیں اور تعلیم کے فروغ کے لیے قائم کئے گئے اس سکول سسٹم کا نام ’’افتخار محمد چوہدی سکول سسٹم ‘‘ رکھا جائے، تاکہ آنے والی نسلیں صدیوں یہ نہ بھولیں کہ انصاف کی کرسی پر بیٹھے ہوئے ایک مرد مجاہد نے لٹیروں کے جبڑوں سے پاکستان کا نوچا ہوا گوشت کیسے واپس چھینا۔
خبر کا کوڈ : 133587
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش