0
Monday 21 Jan 2013 01:14
ہم اپنی وحدت کے ذریعے دہشتگردی کے خیبر کو فتح کرسکتے ہیں

عنقریب شیعہ قوم پاکستان میں ایک بڑا رول ادا کرنے کیلئے تیار ہوجائیگی، علامہ ناصر عباس جعفری

شہداء کوئٹہ کے مقدس خون نے ظالم حکومت کو دفن کر دیا
عنقریب شیعہ قوم پاکستان میں ایک بڑا رول ادا کرنے کیلئے تیار ہوجائیگی، علامہ ناصر عباس جعفری
علامہ ناصر عباس جعفری نے یکم جولائی 2012ء کو مینار پاکستان کے اجتماع سے خطاب میں اعلان کیا تھا کہ ہم نے اس سال کو میدان میں حاضر رہنے کا سال قرار دیا ہے، انشاءاللہ ہم قوم کو مایوس نہیں کریں گے۔ اس کے بعد سانحہ ڈھوک سیداں ہو یا کراچی میں ہونے والی ٹارگٹ کلنگ یا سانحہ چلاس پر پارلیمنٹ کے سامنے ایک ہفتے تک دیا جانیوالا احتجاجی دھرنا، ایم ڈبلیو ایم نے میدان میں رہ کر ثابت کیا کہ وہ ایک قومی جماعت بن چکی ہے اور اسکا ملک بھر میں تنظیمی اسٹرکچر مضبوط ہوچکا ہے۔ سانحہ کوئٹہ کے اگلے ہی روز علامہ ناصر عباس جعفری ایک وفد کے ہمراہ علمدار روڈ پر پہنچے اور وہاں شہداء کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ پوری قوم گھروں سے باہر نکلے، جب تک بلوچستان حکومت کو ختم کرکے گورنر راج نہیں لگایا جاتا پوری ملت سڑکوں پر دھرنا دیگی۔ علامہ ناصر عباس جعفری چار روز تک علمدار روڈ پر مظاہرین کے ساتھ بیٹھے رہے اور مطالبات کی منطوری سے لیکر شہداء کی تدفین تک اُن کے ساتھ رہے۔ اسلام ٹائمز نے ملت کی اس عظیم کامیابی پر اُن سے ایک تفصیلی انٹرویو کیا ہے، جو قارئین کیلئے پیش خدمت ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: بلوچستان حکومت کا خاتمہ اور گورنر راج کے نفاذ سے قوم کو ایک تاریخی فتح اور کامیابی نصیب ہوئی ہے۔ دوسرا شہداء کے مقدس خون نے پوری ملت کو وحدت کی لڑی میں پرو دیا ہے، آپ اسے کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟

علامہ ناصر عباس جعفری: بسم اللہ الرحمن الرحیم، جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ گذشتہ کئی برسوں سے ملت جعفریہ کے فرزندوں کو دہشتگردی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، اور اس عفریت کا دیگر مکاتب فکر بھی نشانہ بنے ہیں اور بن رہے ہیں، البتہ اہل تشیع کو دہشتگردی کا زیادہ نشانہ بنایا گیا ہے۔ اسی طرح کوئٹہ میں کئی برسوں سے بےگناہ لوگوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے لیکن قاتلوں کیخلاف کوئی اقدام نہیں کیا گیا۔ حتٰی کسی کو پکڑا تک نہیں گیا اور خود حکومت کوئٹہ میں باقاعدہ قاتلوں کی سرپرستی کرتی رہی۔ یہ بات سب کے سامنے ہے کہ اے ٹی ایف کی جیل سے قاتل بھاگے ہیں، دنیا جاتنی ہے کہ اس جیل میں کوئی کھڑکی نہیں ٹوٹی، کوئی تالا نہیں ٹوٹا اور قاتل جیل سے فرار ہوئے۔ وہاں کی حکومت کے وزراء اور وزیراعلٰی ان دہشت گردوں کے سرپرست اور دیگر کرینمینل گروہوں کیساتھ ملے ہوئے تھے۔ کوئٹہ میں جو آخری واقعہ پیش آیا، جس میں 100 سے زیادہ بیگناہ اور معصوم افراد شہید ہوئے اور  180 سے زیادہ زخمی ہیں، اس واقعہ نے پوری قوم کو ہلاکر رکھ دیا۔ وہاں کے لوگ تنگ آمد، بجنگ آمد کی وجہ سے گھروں سے نکلے ہیں۔ کوئٹہ کے غیور افراد  حالات سے مجبور ہوکر اپنے بچوں، عورتوں اور دیگر افراد کے جنازے اٹھا کر علمدار روڈ پر آئے اور احتجاج کیا۔

مجلس وحدت مسلمین نے اُن شہداء کی مظلومیت اور قاتلوں کو رسوا کرنے کیلئے مظلوموں کی حمایت میں پورے ملک میں دھرنوں کا اعلان کیا۔ جس کے نتیجے
میں پوری شیعہ قوم سڑکوں پر نکلی۔ گلگت بلتستان سے لیکر کراچی اور کوئٹہ سے پاراچنار تک، اسی طرح دنیا بھر میں پاکستانی سفارتخانوں کے باہر احتجاجی مظاہرے اور دھرنے دئیے گئے جو اپنی تاریخ رقم کرگئے ہیں، جن کی ابتک کوئی ایسی مثال پیش نہیں کی جاسکتی۔ آپ نے دیکھا اسپین، آسٹریلیا، انگلینڈ، امریکہ، عراق اور دیگر یورپی ممالک سمیت حتٰی انڈیا میں بھی پاکستان میں شیعہ نسل کشی کیخلاف پرزور احتجاج کیا گیا۔ لوگ گھروں سے نکلے اور سفارتخانوں کے سامنے آکر بیٹھ گئے۔ اسی طرح آپ پاکستان میں دیکھیں، بلاول ہاؤس کا گھیراؤ کیا گیا، اسی طرح شہروں میں، تحصیلوں میں، دیہاتوں میں، گھروں میں لوگ نہیں رہے اور ایک آواز بلند کی، دھرنوں کے وجہ سے پہلی بار پاکستان کی تمام شاہراہیں بند ہوگئیں۔ اس کے نتیجے میں سول سوسائٹی بھی ساتھ آگئی اور سیاسی جماعتوں نے بھی حمایت کرنا شروع کر دی۔ بڑی حد تک مذہبی قیادت بھی ساتھ آگئیں۔ پورے ملک میں مکتب تشیع کی مظلومیت نے ہر آنکھ کو نم کر دیا اور اُن کے دلوں کو اپنی طرف مائل کیا۔

میرا سلام ہو ان مظلوموں پر، جو منفی درجہ حرارت میں شدید سردی کے باوجود چار روز تک اپنے پیاروں کے جنازے لیکر بیٹھے رہے، حتٰی بارش ہوئی لیکن موسم کی شدت بھی ان کے حوصلوں کو شکست نہ دے سکی۔ میں وہاں موجود تھا اور موسم کی شدت کو خود محسوس کیا ہے۔ آپ نے دیکھا کہ شہداء کے خانوادوں نے جس ہمت سے اپنے مطالبات پیش کیے اور صبر سے بیٹھے رہے، پورا ملک ان کی حمایت کیلئے کھڑا ہوگیا۔ سکردو میں درجہ حرارت منفی 16 تھا، لیکن لوگ گھروں سے باہر نکلے اور دھرنے میں شریک رہے۔ لندن میں بھی منفی درجہ حرارت میں لوگ پاکستانی سفارتخانے کے سامنے بیٹھے رہے۔ بلآخر تشیع کے اتحاد نے حکمرانوں کو مجبور کیا اور انہیں مطالبات تسلیم کرنے پڑے۔ کوئٹہ کے شہداء کے خانوادوں نے کہا تھا کہ جب تک یہ ظالم حکومت دفن نہیں ہوتی، ہم ان شہداء کو نہیں دفنائیں گے۔ الحمداللہ اُن کے صبر اور حوصلے کی بدولت وہ ظالم حکومت دفن ہوگئی، وہ طاغوت جس کو سپریم کورٹ بھی نہیں ہٹا سکا، اس کو ملت تشیع نے اپنی وحدت سے عبرت ناک بنا دیا ہے۔ 

اس سے پتہ چلا کہ مکتب تشیع کتنی قدرت مند قوم ہے۔ اگر قوم اکٹھی ہو جائے تو اپنی وحدت کی طاقت کے ذریعے سے اپنے تمام مطالبات منوا سکتی ہے۔ اپنی وحدت کے ذریعے اس دہشت گردی کا مقابلہ کرسکتی ہے اور اس دہشت گردی کے خیبر کو فتح کر سکتی ہے۔ اس وحدت سے قوم کو یہ حوصلہ ملا ہے، یہ ہمت ملی ہے اور مجھے اُمید ہے کہ آئندہ آنیوالے دنوں میں لوگ دیکھیں گے کہ شیعہ قوم پاکستان میں ایک بڑا رول ادا کرنے کیلئے آمادہ ہو جائیگی، وہ رول جو اس قوم کیلئے شایان شان ہے۔ اب قوم کو دیوار سے نہیں لگایا جاسکتا۔ لوگ باہر نکل آئے ہیں۔ وہ موومنٹ جو 2008ء میں پارا چنار کے مظلوموں کی حمایت میں اسلام آباد سے شروع ہوئی تھی، آج عالمگیر ہوچکی ہے۔ پوری دنیا میں اس کے اثرات
نظر آ رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: اس فتح و کامرانی کا کریڈٹ کس کو دیں گے۔؟

علامہ ناصر عباس جعفری: اس کا کریڈٹ شیعہ قوم کو جاتا ہے، مرد و زن ساتھ مل کر نکلے، عزادار نکلے، طلباء نکلے، ماتمی نکلے، شہداء کے لواحقین نکلے، مدارس کے طلبا نکلے، غرض اس مقدس مقصد کی خاطر ہر کوئی نکلا، اس کا کریڈٹ ہر اس بندے کو جاتا ہے جو مظلوموں کی آواز کیلئے گھر سے نکلا ہے۔

اسلام ٹائمز: آپ شہداء کی تدفین تک وہیں رہے اور تمام چیزوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا، بتائیے گا اس دوران شہداء کے خانوادوں کے تاثرات کیا تھے۔؟

علامہ ناصر عباس جعفری: شہداء کے ورثاء نے جس استقامت کا مظاہرہ کیا اور پورا ملک اُن کی حمایت میں نکلا، اُن کے حوصلے بڑھے ہیں اور وہ واقعاً شکریہ ادا کرتے تھے پورے پاکستان کے عوام کا، اہل تشیع کا، سول سوسائٹی کا اور ہر اس بندے کا جس نے ان کا ساتھ دیا ہے۔ اس سے اُن کے حوصلے بڑھے ہیں۔ مجھے اُمید ہے کہ آنیوالے وقتوں میں کوئٹہ کے لوگوں کے اندر مایوسی ختم ہوگی اور ناامیدی کے بادل جھٹ جائیں گے۔ انشاءاللہ اس کے مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔

اسلام ٹائمز: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ان مطالبات کی منظوری کے اثرات نظر آئیں گے اور گورنر راج سے امن کی راہ میں بہتری آئے گی۔؟

علامہ ناصر عباس جعفری: گورنر صاحب کو بتایا گیا ہے کہ انہیں حکومت دی ہی اسی لئے گئی ہے کہ وہ صوبے میں امن قائم کریں۔ اُن کے ابتدائی اقدامات سے پتہ چل رہا ہے کہ وہ اس معاملے میں سنجیدہ کوششیں کر رہے ہیں۔ جیسے اُنہوں نے پی پی پی کے سابق وزیر کے گھر چھاپا مروایا اور اس کے گھر سے کئی ملزمان اور اسلحہ پکڑا گیا ہے، اسی طرح اور جگہوں پر بھی چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ انتظامیہ میں تبدیلی لائی گئی ہے۔ پولیس میں تبدیلی لائی جا رہی ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اس معاملے میں سنجیدہ ہیں۔ اُمید ہے کہ انشاءاللہ اُس کے جلد نتائج برآمد ہونگے۔

اسلام ٹائمز: اس احتجاج کے دوران وحدت عملی کا ثبوت دیا گیا ہے، اس سلسلہ کو مزید کیسے جاری رکھا جاسکتا ہے۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: مجھے کوئٹہ میں دھرنوں کے دوران پاکستان بھر سے ذاکرین، علماء، خطباء اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کے ٹیلی فونز آئے۔ آپ یہاں سے اندازہ کریں کہ ذاکر لوگ جہاں مجلس پڑھتے تھے وہاں دھرنا شروع ہوجاتا تھا۔ اس میں ذاکرین عظام نے بھی اہم رول ادا کیا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ قوم کو جب آواز دی گئی قوم باہر نکلی، اس لئے قوم کا اعتماد حاصل کرنا بڑا ضروری ہے۔ اس قوم کے ساتھ پہلے اعتماد کا سلسلہ ٹوٹ چکا تھا، عوام نااُمید ہوچکی تھی، مکمل مایوسی تھی، لیکن 2008ء سے میدان میں حاضر رہنا، مقامت کرنا، قوم کو مایوس نہ کرنا، اُن کی اُمید باندھنا، اُن کے ساتھ رابطہ برقرار رکھنا اور وہ بھی نئے سرے سے، الحمداللہ اس کے نتائج سامنے آرہے ہیں۔ آپ نے دیکھا کہ جب ہم لوگوں نے اعلان کیا کہ پورے پاکستان کے لوگ گھروں سے باہر نکلیں
اور واپس نہیں جانا ہے تو جہاں جہاں سے لوگ گھروں سے باہر نکلے واپس نہیں گئے، دھرنے میں بیٹھے رہے۔ تین تین دن تک دھرنے رہے۔ آپ جانتے ہیں رات کو ڈھائی، تین بجے اعلان ہوگیا کہ مطالبات تسلیم ہوگئے ہیں۔ ہم نے لوگوں سے کہا کہ آپ نے جب تک نہیں جانا جب تلک نوٹی فکیشن جاری نہ ہو جائے اور خاص طور پر جب تک گورنر صاحب اختیارات نہ سنبھال لیں۔ اگلے دن لوگ نماز ظہرین تک سڑکوں پر بیٹھے رہے۔ جب ہم نے اعلان کیا کہ وہ گھروں کو واپس جائیں تو لوگ واپس گئے۔

اسلام ٹائمز: مجلس وحدت مسلمین نے طاہر القادری کی حمایت کی، اس کی ضرورت کیوں پیش آئی اور اس کے دو ررس نتائج کیا ملیں گے۔؟

علامہ ناصر عباس جعفری: ہم یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے اندر جو طاقت کا توازن تھا وہ متاثر ہوچکا ہے۔ خاص نقطہ نظر رکھنے والے لوگوں اور فوج کے درمیان گذشتہ تیس سال سے تعلقات قائم ہوچکے تھے، جس نے بیلنس آف پاور کو متاثر کیا ہے اور اس چیز نے ملک کو مسائل کا شکار کر دیا ہے۔ یہ ایسے لوگ ہیں جن کا پاکستان کے دشمن ممالک کیساتھ تعلق ہے، جو پاکستان میں بدامنی چاہتے ہیں اور تخریب کاری چاہتے ہیں اور پاکستان کے سسٹم کو کمزور رکھنا چاہتے ہیں۔ پاکستان بیس کروڑ عوام کا ملک ہے، ایٹمی طاقت ہے، یہ دنیا کی سپر طاقت بن سکتا ہے، لیکن اسے ایسا الجھایا گیا ہے کہ یہ ملک ریجنل اور عالمی سطح پر کوئی کردار ادا نہ کرسکے۔
 
لہذا ہماری سوچ تھی کہ پاکستان کے اندر بریلوی مکتب فکر کی ایک بڑی تعداد ہے، جو ملک کی مجموعی آبادی کا تقریباً 70 فیصد حصہ ہیں، لیکن اس ملک کی باگ ڈور اور دیگر امور میں ان کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہی وجہ بنی کہ پاکستان میں طاقت کا توازن بگڑ گیا اور چند لوگوں نے ہر جگہ پر اپنی اجارہ داری قائم کر دی۔ اسلحہ اور دہشتگردی کے ذریعے اپنی مخصوص فکر کو نافذ کرنے کی کوشش کی گئی۔ آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ شیعہ مکتب فکر پاکستان میں دوسرے نمبر پر آتا ہے، یعنی آبادی کے لحاظ سے سنی بریلوی پہلے نمبر پر اور تشیع دوسرے نمبر ہے لیکن دونوں کو اس طرح الجھا دیا گیا ہے کہ یہ اتنی بڑی طاقت میں ہوتے ہوئے بھی کوئی رول ادا نہ کرسکتے۔

اب آتے ہیں آپ کے اصل سوال کی طرف، جب ہم نے دیکھا کہ بریلوی مکتب فکر کے لوگ بیداری اور سیاسی رول کی طرف جا رہے ہیں تو ہم نے مناسب سمجھا کہ ان کی حمایت کی جائے اور انہیں سپورٹ کیا جائے، تاکہ طاقت کا توازن دوبارہ سے قائم ہو جائے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر یہ توازن قائم ہو جائے تو پاکستان مشکلات سے نکل آئے گا۔ اب کیونکہ قادری صاحب بھی بریلوی مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں، ہم نے انہیں سپورٹ کیا، تاکہ بریلوی مکتب فکر کو پیغام جائے کہ اگر وہ سیاسی رول ادا کرنا چاہتے ہیں تو شیعہ قوم انہیں ویلکم کہتی ہے اور انہیں سپورٹ کرے گی۔ دنیا جانتی ہے کہ پاکستان بنانے میں دونوں مکاتب فکر کا اہم کردار ہے۔ لٰہذا آپ نے دکھا کہ جب ہم نے سپورٹ کا اعلان کیا تو اہل
سنت کی طرف سے اسے خوش آمدید کہا گیا۔

اسلام ٹائمز: اہم سوال یہ ہے کہ طاقت کا توازن بگڑا کیسے۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: دیکھیں، جب سے پاک فوج کا خاص نقطہ نظر کے لوگوں کیساتھ الحاق ہوا اور پاک فوج، ائیر فورس اور بری افواج میں ایک خاص نقطہ نگاہ سے تعلق رکھنے والے افراد کو بھرتی کیا گیا، جس سے یہ فوج ایک خاص مکتبہ فکر کی فوج بن گئی، نہ کہ مسلم فوج بنی۔ یہی وجہ ہے کہ یہ فوج اس خاص مکتبہ فکر کی حامی بنتی گئی، جس کے نتائج آج پاکستان میں دیکھتے ہیں۔ پاکستان کی کوئی جگہ محفوظ رہی، نہ عوام محفوظ رہے، فوج محفوظ رہی، نہ اُن کے ائیر بیسز محفوظ ہیں، نہ ہی نیول بیس محفوظ ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ایک ہی نقطہ نظر رکھنے والے کوئٹہ سے کراچی تک پورے پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث ہیں۔ ہر ایک کو مارتے ہیں، ہر ایک کیخلاف کام کرتے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں اُنہوں نے اہلسنت پیروں کی میتوں کو قبروں سے نکال کر لٹکایا، اُنہوں نے مزاروں پر حملے کئے، لہٰذا اُس شدت پسندی کا مقابلہ کرنے کیلئے بریلویوں کا سیاسی جدوجہد کیلئے آگے آنا خوش آئند ہے۔ اگر بریلوی مکتبِ فکر کے لوگ اور ہمارے ریاستی ادارے ایک دوسرے کے قریب ہوتے ہیں تو میرے خیال میں بیلنس آف پاور کو بحال کرنے میں یہ مفید ہوگا۔

اسلام ٹائمز: ابھی پاک آرمی کی طرف سے شائع کی جانیوالی کتاب ڈاکٹرائین میں پہلی بار بھارت کو دشمن ڈکلئیر کرنے کے بجائے داخلی محاذ اور غیر ریاستی عناصر کو ملک کی سلامتی کیلئے خطر قرار دیا گیا ہے، فوج کی اس اہم تبدیلی پر کیا کہیں گے۔؟

علامہ ناصر عباس جعفری: یہ بہت اچھی پیش رفت ہے۔ دیکھئے! پاکستان کے اندر دہشت گردی کی جتنی بھی کارروائیوں ہوتی ہیں خواہ وہ ہمارے خلاف ہوں یا اہل سنت بھائیوں کے، وہ کبھی بھی فرقہ واریت پر مبنی نہیں تھیں اور نہ ہیں، ہم اسے دہشت گردی قرار دیتے ہیں، یہ وہی طبقہ تھا، یہ وہی لوگ ہیں جو شیعوں پر، اہل سنت پر حملے کرتے ہیں، یہ وہی لوگ ہیں جو کرکٹ کی ٹیم پر حملہ کرتے ہیں، یہ وہی لوگ ہیں جو مارکیٹوں میں بم بلاسٹ کرتے ہیں، یہ وہی لوگ ہیں جو گلگت میں راستے میں آنے مسافروں کو بسوں سے اتار کر اپنی حیوانیت دکھاتے ہیں، یہ وہی لوگ ہیں جو خیبر پختونخوا میں حملے کرتے ہیں، غرض یہ ہر کسی پر حملے کرتے ہیں۔ میرے خیال میں اب پاک فوج کے اندر یہ سوچ پیدا ہوچکی ہے کہ ہمارا دشمن ملک کے اندر گھس چکا ہے۔ 

لہٰذ اب جب تک اسے داخلی محاذ پر کمزور نہیں کیا جاتا ہے، ملک کی فوج خارجی محاذ پر جنگ نہیں لڑسکتی۔ اب فوج کے اندر یہ سوچ پیدا ہونا شروع ہوگئی ہے کہ ان کیخلاف کارروائی کی جائے اور انہیں کمزور کیا جائے، شیعہ قوم نے انہیں پہلے ہی باخبر کر دیا تھا کہ جن غیر ریاستی عناصر کو تم پرموٹ اور تیار کر رہے ہو، ایک دن تمہیں انہیں ختم کرنا ہوگا اور یہ تمہیں مہنگے پڑیں گے۔ وہ بات سچ ثابت ہوئی کہ وہ جنگ جو پاکستان کے باہر لڑی جا رہی تھی، اب وہ ہماری سڑکوں پر
لڑی جا رہی ہے۔ جو فوج سرحدوں پر لڑا کرتی تھی، اب وہ ملک کے اندر لڑ رہی ہے۔ پاک فوج کے جوان اتنے 65ء اور 71ء کی جنگ میں نہیں مارے گئے، جتنے اس داخلی جنگ میں شہید ہوئے ہیں اور نقصان اٹھانا پڑا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ انہیں یہ بہت پہلے ہی کر لینا چاہیے تھا۔ آخر میں یہی کہوں گا کہ فوج ان عناصر کیخلاف لڑے، پوری ملت ان کی پشت پر ہوگی۔

اسلام ٹائمز: آئندہ الیکشن میں کوئی بڑی تبدیلی نظر آرہی ہے۔؟

علامہ ناصر عباس جعفری: میرے خیال میں پاکستان کے اندر جو سیاسی تقسیم ہے، جوڑ توڑ کی سیاست ہے، اس کو مدنظر رکھا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ آئندہ الیکشن میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئیگی، تاہم الیکشن کے قریب جا کر کچھ پتہ لگ سکے گا کہ آئندہ کی تصویر کیا بنتی ہے۔ اگر کوئی بڑی ڈیویلپمنٹ ہوتی ہے تو پھر کوئی تبدیلی ممکن ہے۔

اسلام ٹائمز: شام کے حالات کو کس طرح دیکھ رہے ہیں۔؟

علامہ ناصر عباس جعفری: امریکہ، برطانیہ، ترکی، سعودیہ، قطر سمیت کئی دیگر عرب ممالک نے مل کر شام کی حکومت کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ دنیا جانتی ہے کہ شام ایک مزاحتمی بلاک کا حصہ ہے، لہٰذا یہاں کی رجیم تبدیل کرنے کوشش کی جا رہی ہے، تاکہ دشمن اپنی من پسند حکومت لاسکے۔ اس مقصد کیلئے مذکورہ ممالک شام مخالف اور باغیوں کو مکمل سپورٹ کر رہے ہیں۔ لیکن بشار الاسد نے ہمت نہیں ہاری اور اس وقت وہ حالت جنگ میں ہے اور اس نے مخالفوں کو مایوس کیا ہے۔ اسرائیل اور امریکہ نے حزب اللہ سے شکست کھائی، حماس سے شکست کھائی، عراق میں شکست کھا چکے ہے، اسی طرح ایران سے بھی شکت کا مزہ چکھ چکے ہیں۔ اب انہوں نے ایک نیا حربہ استعمال کیا کہ شام پر حملہ کیا جائے اور شام کی حکومت کو گرایا جائے، تاکہ اسرائیل کو کسی حد تک ریلیف مل سکے، کیونکہ امریکہ کا گلف کے اندر بنایا ہوا سکیورٹی کا پلان دن بدن کمزور اور گر رہا ہے، اس کو سنبھالنے کیلئے اور خطے میں اپنا اثر و رسوخ کو قائم رکھنے کیلئے شام کی حکومت کو ختم کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہے۔
 
ہم سمجھتے ہیں کہ مزاحمت کا بلاک قوی ہے اور انشاءاللہ دشمن اپنے ارادوں میں نامراد ہوگا۔ ان کا پہلے یہ منصوبہ تھا کہ 15دن کے اندر یا ایک مہینے کے اندر اندر ہم شام کی حکومت کو گرا لیں گے، لیکن نہیں گرا سکے۔ مقاومت کا بلاک بہت تجربہ کار ہے اور اس میں کئی دیگر ممالک بھی شامل ہوچکے ہیں، جن میں ایران، عراق، لبنان، اور فلسطین شامل ہیں۔ شام میں مختلف ممالک سے دہشتگردوں کو جمع کرکے وہاں پر مختلف کارروائیاں کی جا رہی ہیں، البتہ شام نے بڑی حد تک ان پر قابو پالیا ہے، آپ نے دیکھا کہ شام نے ابھی تک اپنی فوج کا 10 فی صد بھی استعمال نہیں کیا۔ شام زیادہ تر جس چیز سے استفادہ کر رہا ہے وہ وہاں پر عوامی فوج ہے، جو دشمن کی فوج سے مقابلہ کرنے کیلئے بڑی جرات اور ہمت سے لڑ رہی ہے۔ جن کا ایمان بڑا قوی ہے، جس کے جذبے بڑے قوی ہیں۔ انشاءاللہ دشمن کو شام میں شکست فاش ہوگی۔
خبر کا کوڈ : 232943
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش