0
Tuesday 26 Feb 2013 01:06

2008ء کے انتخابات کے بائیکاٹ کا جماعت اسلامی کو نقصان ضرور ہوا، لیکن پشیمانی نہیں، منور حسن

2008ء کے انتخابات کے بائیکاٹ کا جماعت اسلامی کو نقصان ضرور ہوا، لیکن پشیمانی نہیں، منور حسن
1944ء میں پیدا ہونے والے سید منور حسن طالب رہنما کے طور کمیونسٹ نظریات کی حامل نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے صدر رہے۔ مولانا ابوالاعلٰی مودودی کی تحریروں سے متاثر ہو کر 1960ء میں اسلامی جمعیت طلبہ میں شامل ہوئے اور کراچی یونیورسٹی میں تنظیمی خدمات سرانجام دیں۔ بعدازاں جماعت اسلامی میں شامل ہوگئے۔ انہوں نے ایوب خان کے خلاف یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ اور ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف پاکستان نیشنل الائنس میں متحرک سیاسی کردار ادا کیا۔ 1977ء کے انتخابات میں پی این اے کی ٹکٹ پر کراچی سے قومی اسمبلی کے اتخابات میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کئے۔ 1993ء سے جماعت اسلامی کے مرکزی سیکرٹری جنرل اور 2009ء میں قاضی حسین احمد کے بعد امیر جماعت اسلامی منتخب ہوئے۔ اسلام ٹائمز نے سیاسی صورت حال پر سید منور حسن سے انٹرویو کیا ہے۔ جو قارئین کی نظر کیا جا رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: سید منور حسن صاحب! جماعت اسلامی نے 2008ء کے انتخابات میں حصہ نہیں لیا تھا، اس پر پشیمانی تو ہوئی ہوگی۔؟
سید منور حسن: دیکھئے، اصولی موقف اپنانے میں کوئی پشیمانی نہیں ہوتی، آل پارٹیز ڈیموکریٹک موومنٹ (اے پی ڈی ایم) نے اور متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) نے مل کر یہ فیصلہ کیا تھا کہ ہم الیکشن کا بائیکاٹ کریں گے۔ اس لئے کہ فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کے ہوتے ہوئے جو الیکشن ہوں گے وہ مشرف کے حق میں جائیں گے اور اس کی credibility میں اضافہ ہوگا۔ کچھ لوگ (مسلم لیگ ن) back out کرگئے اور ان لوگوں نے الیکشن مین حصہ لیا، لیکن بہت بڑی تعداد ان پارٹیوں کی تھی جنہوں نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔ جن میں بلوچستان اور سندھ کی قوم پرست جماعتیں بھی تھیں۔ اس لئے بہت سارے اس میں شامل تھے، جنہوں نے بیکاٹ کیا تو اس اعتبار سے کوئی پشیمانی کی بات نہیں، کیونکہ ہم اصولی موقف پر جمے رہے۔ البتہ 2008ء کے انتخابات کے بائیکاٹ کا نقصان بہت ہوا۔ اس لیے کہ جس سوسائٹی میں الیکشن ہوتے ہیں تو الیکشن سے سیاسی پارٹیوں کے قد کاٹھ کا پتہ چلتا ہے اور ان کے بارے مین پتہ چلتا ہے کہ جو 29 کے تھے اب 25 کے ہیں اور جو 25 کے تھے وہ اب 29 کا ہوگیا ہے۔ وہ صحیح ہے یا غلط یہ الیکشن ہی طے کریں گے۔

اسلام ٹائمز: جماعت اسلامی اس بار کس ایجنڈے کے ساتھ انتخابات میں حصہ لینے جا رہی ہے۔؟
سید منور حسن: ویسے تو جماعت اسلامی نے اپنا منشور بھی شائع کر دیا ہے۔ اس کو لوگوں میں ظاہر کر دیا ہے، اعلان بھی باقاعدہ کر دیا ہے، لیکن ہمارے ہاں عام طور پر لوگ منشور کی طرف کم کم ہی دیکھتے ہیں اور جو لوگ حکمران ہیں ان کا منشور تو وہی ہے، جو انہوں نے پانچ سالوں میں کیا ہے۔ وہ کارکردگی ان کی اہلیت کے بارے میں بھی بتاتی ہے اور قوم اور ملک سے محبت کے بارے مین بھی بتاتی ہے کہ کتنا ان کا تعلق عوام اور ملک سے ہے۔ جماعت اسلامی دراصل ان تمام ایشوز پر پچھلے پانچ سالوں سے نظر رکھے ہوئے ہے اور ان کو حل کر رہے ہیں۔ عوام کو ریلیف دینے میں، حالات کو بہتر بنانے میں اور امن و امان بہتر بنانے میں اور ان کو improve کرنے کی بات ہے، لیکن اصل میں ہمارے ہاں تو مسئلہ ہے کہ قانون اور آئین کی بالادستی ہو۔ 
1973ء کا آئین اگر کسی کی نظر میں بہت اچھا ہے تو کسی کی نظر میں اچھا نہیں ہے۔ تب بھی وہ برا نہیں تھا۔ اس پر اگر عمل کیا جاتا ہے، اگر اس کی کوشش کی جائے اور پھر یہ کہ کرپٹ لوگوں کے کے ذریعے، کرپشن فری سوسائٹی کیوں نہیں قائم ہوسکتی، تو ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ایسی قیادت سامنے لائیں اور ایسے لوگوں کو سامنے لائیں گے، جو خود بھی کرپٹ نہیں ہیں اور جن کا ماضی بھی اچھا ہوگا۔ 500 کے قریب ہمارے ایسے لوگ ہیں جو بلدیات میں منتخب ہوتے رہے ہیں، ان مین قومی اور صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ کے اراکین منتخب ہوتے رہے ہیں، یا وہ انتخابات میں حصہ لیتے رہے ہیں۔ لیکن ایک لحاظ سے ان سب کا دامن داغ دھبوں سے پاک ہے، اور وہ خود بھی کرپشن فری ہیں تو ان کے ذریعے ہی کرپشن ختم کی جائے گی۔

اسلام ٹائمز: سید صاحب! کون سی جماعت ہے، جس سے اب جماعت اسلامی اتحاد کرے گی یا جن سے آپ کا اتحاد ہوسکتا ہے، ان میں ایم ایم اے کی بحالی ہے، مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف۔ ان میں کون سی جماعت آپ کے زیادہ قریب ہے۔؟
سید منور حسن: ایم ایم اے کی بحالی تو ہو چکی ہے اور مولانا فضل الرحمان اس کو بحال کرچکے ہیں۔  پشاور میں ایک پریس کانفرنس میں اس کا اعلان کیا گیا تھا تو اس اعتبار سے وہ خود ہی ایم ایم اے ہیں، ایم ایم اے میں تو انہوں نے اب اپنے علاوہ کسی کی گنجائش چھوڑی ہی نہیں۔ اس لئے وہ آپشن تو انہوں نے خود ہی ہمارے لئے close کر دیا ہے۔ ہم بھی ان کو مبارک باد دیتے ہیں۔ وہ خوش رہیں، شاد رہیں اور اپنے حصے کا کام کرتے رہیں۔ باقی تمام صوبوں کے اندر ہر پارٹی کو ایک سے زیادہ اتحادی بنانے یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی کم سے کم سیٹوں پر ضرورت ہوگی۔ جس کے لیے موقع اور جگہ کی مناسبت سے ہی بارگین ہوگی۔ اس لئے ہم پاکستان تحریک انصاف سے رابطے میں ہیں، ن لیگ سے بھی ہمارا رابطہ ہے اور ایڈجسٹمنٹ کی حد تک مولانا فضل الرحمان کی پارٹی سے بھی ہمارے لوگوں کے رابطے ہیں، لیکن صرف کے پی کے (خیبر پختونخواہ) میں۔

اسلام ٹائمز: ایم ایم اے تو بحال ہوتی نظر نہیں آتی، باقی دونوں جماعتوں میں سے آپ زیادہ کس کے قریب ہیں، ن لیگ یا پی ٹی آئی۔؟
سید منور حسن: حتمی طور پر تو جب الیکشن کی تاریخ کا اعلان ہوگا، تبھی فیصلے کی آخری اور حتمی گھڑی نظر آئے گی، لیکن ابھی اس میں کافی وقت لگے گا۔ چیزیں سیٹ ہونے میں وقت لگتا ہے، لیکن میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ الیکشن کی تاریخ کے بعد بہت ساری چیزیں میچیور ہوں گی اور نئی چیزیں بھی ہوں گی۔

اسلام ٹائمز: طالبان نے آپ کا نام ان تین لوگوں میں رکھا ہے کہ جن سے وہ کہتے ہیں کہ یہ لوگ ہمیں گارنٹی دیں تو ہم فوج سے مذاکرات کریں گے۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ آپ کا نام انہوں نے اس لئے دیا ہے کہ وہ آپ کو اپنے زیادہ قریب سمجھتے ہیں، اور کیا اس دوران آپ کا ان کے ساتھ کوئی رابطہ ہوا۔؟
سید منور حسن: یہ دوسری بات زیادہ اہم ہے۔ میں بھی اس انتظار میں ہوں کہ کوئی رابطہ ان کی طرف سے ہونا چاہیے۔ جس بھی نوعیت کا رابطہ ہو، تاکہ ہمیں یہ اندازہ ہوسکے کہ وہ کس قسم کی ضمانت چاہتے ہیں اور ہم سے کس قسم کی ضمانت کی توقع رکھتے ہیں اور انہیں کیا مطلوب ہے کہ جس کے بارے میں ہمیں بتاسکیں، لیکن میں اس کے باوجود یہ سمجھتا ہوں کہ اس پیشکش کو سرکار کی طرف سے قبول کر لینا چاہیے، یہ بہت اچھی پیش کش ہے۔ بڑی سے بڑی جنگیں بھی مذاکرات کی میز پر ہاری اور جیتی جاتی ہیں۔ دشمن کے ساتھ بھی بیٹھنا پڑتا ہے۔ 

آپ دیکھیں سلالہ پر حملے کے باوجود بھی فوج امریکہ کی ترجمان بنی ہوئی ہے کہ نیٹو سپلائی بحال ہو، حالانکہ ہمارے اتنے فوجی مارے گئے، جو کچھ ایبٹ آباد میں ہوا، جو کچھ نیول بیس پر ہوا۔ سب کو معلوم ہے کہ کس نے کیا ہے۔ یہ طالبان تو اپنے لوگ ہیں۔ اپنے ملک کے شہری ہیں، اگر ان سے کوئی غلطی بھی ہوئی ہے تو بھی میں سمجھتا ہوں کہ بڑا دل کرکے اس مسئلے میں سب سے پہلے حکومت اور فوج کو آگے آنا چاہیے۔ میری تو ہمشہ سے ہی یہ رائے رہی ہے اور میں نے اس کا اظہار ہمیشہ کیا بھی ہے کہ طالبان کا پاکستان میں شاید بڑا وہ گروپ ہے، جس کو فوج نے الگ کیا ہے اور ان سے کئے ہوئے وعدوں کو پورا ہی نہیں کیا، اور اس کے نتجے میں heart burning ہوئی ہے اور تحفظات ہیں، تو فوج کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ ان کو حل کرے۔ انا کا مسئلہ نہ بنائے۔ ان کی غلطیوں کو معاف کرے۔ ان کی شرائط کو پورا کریں۔ اس لیے اس پیشکش کو قبول کیا جانا چاہیے اور اس پر پیش رفت ہونی چاہیے۔
خبر کا کوڈ : 241606
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش