0
Friday 24 May 2013 14:41

پاکستان میں کبھی شفاف اور آزادانہ انتخابات ہوئے ہی نہیں، فرح عاقل شاہ

پاکستان میں کبھی شفاف اور آزادانہ انتخابات ہوئے ہی نہیں، فرح عاقل شاہ

فرح عاقل شاہ کا تعلق صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور سے ہے۔ آپ عوامی نیشنل پارٹی کے رہنماء اور سابق صوبائی وزیر سید عاقل شاہ کی اہلیہ ہیں۔ سیاسی خاندان سے تعلق رکھنے والی محترمہ فرح عاقل آج کل سینٹ آف پاکستان کی رکن بھی ہیں۔ آپ سماجی اور سیاسی تقریبات میں اکثر و بیشتر شریک نظر آتی ہیں، اور خواتین کے حقوق کیلئے بھی آواز بلند کرتی رہتی ہیں۔ فرح عاقل شاہ اے این پی سے اپنی اٹوٹ وابستگی ظاہر کرتی ہیں۔ ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے موجودہ انتخابات میں عوامی نیشنل پارٹی کی شکست، اس کے پس پردہ محرکات، اور آئندہ کے سیاسی منظر نامہ سمیت صوبہ میں امن و امان کی صورتحال پر فرح عاقل شاہ کیساتھ ایک انٹرویو کا اہتمام کیا۔ جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: دہشتگردی کیخلاف جنگ میں اتنی قربانیاں دینے کے باوجود اے این پی کو حالیہ الیکشن میں بری طرح شکست ہوئی، اس کی کیا وجوہات ہیں۔؟
فرح عاقل شاہ:
دیکھیں، یہ ایک ہوا ہوتی ہے تبدیلی لانے کیلئے، اور جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ الیکشن سے پہلے ایک خاص قسم کا ماحول بنا دیا گیا تھا۔ ہمیں کچھ اشارے مل رہے تھے کہ کیسا سیٹ اپ آنے والا ہے اور کیا ہونے جا رہا ہے۔ جیسا کہ ہم نے دیکھا ہے کہ ایجنسیوں کا جھکاو بھی ایک خاص طرف تھا اور سرکاری عملے کا بھی۔ تو کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اس سارے سلسلے میں کافی سارے عوامل کارفرما تھے۔ اور دوسرا یہ کہ ہمارے پٹھانوں کا مزاج ایسا ہے کہ وہ ایک بار آزماتے ہیں اور دوسری بار اٹھا کر پٹختے ہیں۔ یہ سندھیوں کی طرح تو نہیں ہیں کہ مرے ہوئے لوگوں پر انہوں نے ووٹ دیئے ہیں اور سالہا سال سے دیتے آرہے ہیں۔ بی بی اور شہید بھٹو کو لیکر وہ ایک خاص طرف لگے ہوئے ہیں۔ وہ اپنا طرز عمل تبدیل نہیں کرتے، جبکہ یہاں پر مختلف سیٹ اپ ہے۔ وہ آپ کی بات ٹھیک ہے کہ ہم نے بہت قربانیاں دیں۔ اے این پی نے جتنی قربانیاں دی ہیں اتنی کسی نے نہیں دیں۔ صرف کارکن ہی نہیں بلکہ ہمارے لیڈز تک شہید ہوچکے ہیں۔ بہرحال دیکھیں اب آگے کیا ہوتا ہے۔

اسلام ٹائمز: آپ نے فرمایا کہ خیبر پختونخوا کے لوگ ایک بار ہی آزماتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں اے این پی کا مستقبل کیا ہوگا۔؟
فرح عاقل شاہ:
نہیں۔ انشاءاللہ ہم واپس آئیں گے، یہ مطلب نہیں ہے کہ چلے گئے ہیں تو دوبارہ کوئی نام و نشان نہیں ہوگا۔ واپس بھی آسکتے ہیں، یہ تو سیاست ہے، ایک میدان ہے۔ اتار چڑھاو تو آتے رہتے ہیں۔ ٹھیک ہے کہ اس مرتبہ ہم نہیں جیت سکے۔ لیکن انشاءاللہ ہم کوشش کریں گے اور واپس آئیں گے۔ یہ ایک طرح سے ہمارے لئے سبق بھی ہے کہ ہم اپنا چہرہ دیکھیں۔ پھر انسان سوچتا ہے کہ کیا غلطیاں کیں۔؟ کیا کمی رہ گئی۔؟ کن کن جگہوں پر ہمیں زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔؟ جو ہماری کمزوریاں ہیں ہم انہیں دیکھیں، سوچیں اور پہلے سے زیادہ بہتری کیساتھ میدان میں آئیں۔ یہ ہمارے لئے ایک قسم کا سبق ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا آپ سمجھتی ہیں کہ حالیہ انتخابات میں پرو طالبان قوتوں کو پروموٹ کرنے کی کوشش کی گئی۔؟
فرح عاقل شاہ:
نظر تو فی الحال یہی آ رہا ہے۔ الیکشن سے پہلے جس طرح کا ماحول بنا دیا گیا تھا کہ ایک خاص پارٹی کو ٹارگٹ کیا جا رہا تھا، کسی دوسری جماعت کو ٹارگٹ نہیں کیا گیا۔ اس کیلئے زمین تنگ کی گئی۔ پھر کہا گیا کہ ہم نے صاف اور آزادانہ انتخابات کرائے۔ صاف و شفاف انتخابات کا تو کوئی نام و نشان تک نہیں ہے۔ پاکستان میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ شفاف اور آزادانہ انتخابات ہوئے ہوں۔ یہاں کا طریقہ کار ہی ایسا نہیں ہے۔ ہم یہی تو چیخ رہے تھے کہ آپ کس قسم کا پاکستان دینا چاہ رہے ہیں۔؟ بین الاقوامی سطح پر کیا پیغام جا رہا ہے۔؟ ہم کونسی طاقتوں کو لانا چاہتے ہیں۔؟ دیکھیں، اب ہم ان کے بارے میں برا نہیں سوچتے۔ اب یہ طالبان کیساتھ مذاکرات کرتے ہیں یا کچھ اور۔ بس اس ملک میں امن آنا چاہئے اور ہماری بھی یہی کوشش تھی اور اس میں ہم کافی حد تک کامیاب بھی ہوگئے تھے۔ دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ لبرل سوچ کی حامل قوتوں کو دبایا جا رہا ہے۔ ان کو سکرین سے ہٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ شائد ان کو محسوس ہو رہا ہے کہ یہ ٹھیک نہیں ہیں۔

اسلام ٹائمز: امن و امان کی صورتحال طالبان کیساتھ مذاکرات کے ذریعے بہتر ہوسکتی ہے، افغانستان کے مسئلہ کے حل سے یا پھر کسی اور طریقہ سے۔؟
فرح عاقل شاہ:
بالکل۔ ہم تو پہلے بھی یہی کہتے رہے ہیں کہ اگر ہم اپنے ملک میں امن چاہتے ہیں تو اس کے لئے ہمیں اپنے ہمسایہ ملک افغانستان میں امن و امان کی صورتحال کو بہتر دیکھنا ہوگا۔ اگر افغانستان میں امن ہوگا تو اس کے براہ راست اثرات یہاں بھی مرتب ہوں گے۔ اگر آپ کے ساتھ والے گھر میں مسئلہ چل رہا ہو تو آپ کے گھر پر بھی اس کے اثرات پڑ سکتے ہیں اور آئے روز ہم دیکھتے ہیں کہ کرزئی صاحب ہمارے ملک پر الزامات کی بوچھاڑ کر رہے ہوتے ہیں۔ ہم اتنے طویل عرصہ سے انہیں سپورٹ بھی کر رہے ہیں لیکن پھر بھی وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان اس سارے کھیل میں ان کے خلاف ہے۔ تو بہت ضروری ہے کہ افغانستان میں امن ہو۔ وہاں پر امن ہوگا تو اس کے اچھے اثرات یہاں پر بھی ہوں گے اور دہشتگردی ختم ہوگی۔

اسلام ٹائمز: عوام کی جانب سے حالیہ انتخابات میں جن سیاسی قوتوں کو مینڈیٹ ملا ہے، عوامی نشینل پارٹی کیا اسے تسلیم کرتی ہے۔؟
فرح عاقل شاہ:
نہیں جی ٹھیک ہے، ہم اسے قبول کرچکے ہیں۔ ایسا نہیں تھا کہ ہمیں کچھ معلوم نہیں تھا۔ ہمیں تو 100 فیصد یقین تھا کہ ایسا ہوگا۔ جس طرح پہلے میں نے کہا کہ جو ماحول بن رہا تھا وہ اسی طرف اشارہ کر رہا تھا۔ پھر بھی ہم ان کے مینڈیٹ کو تسلیم کرتے ہیں، اور ہماری نیک خواہشات ہیں کہ وہ اس سلسلے کو آگے چلائیں۔ اللہ تعالٰی ان کو ہمت دے، لیکن یہ بہت بڑا چیلنج ہے ان کے لئے۔ اس وقت خیبر پختونخوا میں حالات کو کنٹرول کرنا بہت مشکل ہے۔ تاہم جس طرح وہ کہہ رہے ہیں کہ ہمارے پاس ایکشن پلان ہے تو دیکھتے ہیں کہ وہ کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: توانائی بحران ملک میں اپنی آخری حدوں کو چھو رہا ہے، اس مسئلہ کے حل کیلئے سعودی عرب سے قرض پر تیل حاصل کرنا بہتر رہے گا، ایران سے گیس یا پھر چین کا تعاون معاون ثابت ہوسکتا ہے۔؟
فرح عاقل شاہ:
ظاہر ہے کہ وہ ان کا پلان ہے۔ چین کے وزیراعظم نے بھی کہا ہے کہ ہم آپ کا توانائی کا مسئلہ حل کریں گے۔ جو ایران کیساتھ گیس پائپ لائن کا منصوبہ ہے اس پر وقت لگے گا۔ وہ ڈیڑھ سالہ منصوبہ ہے۔ اس کو مکمل ہوتے ہوئے ٹائم لگے گا۔ تاہم فوری طور پر ان کے پاس کیا پلان ہے، اس کو دیکھنا ہوگا۔ انہوں نے یہ تو کہہ دیا ہے کہ آئندہ تین ماہ یعنی جون، جولائی، اگست میں وہ انرجی بحران کو کنٹرول کریں گے۔ اب معلوم نہیں کہ یہ صرف بیان بازی ہے یا پھر واقعی ان کے پاس کوئی جامع منصوبہ موجود ہے۔ بہرحال لوڈشیڈنگ کی وجہ سے تو بہت مسئلے بنے ہوئے ہیں۔ اس مسئلہ کو حل ہونا چاہئے۔

اسلام ٹائمز: صدر زرداری نے الیکشن کے فوری بعد کہا کہ لبرل قوتوں کی انتخابات میں شکست میں بیرونی اور اندرونی قوتوں کا ہاتھ ہے۔ اے این پی اس بیان کو کیسے دیکھتی ہے۔؟
فرح عاقل شاہ:
سب کو معلوم ہے کہ یہ کونسی قوتیں ہیں۔ اس قسم کے بعض کچھ عوامل کارفرما تھے، جو نظر بھی آ رہے تھے۔ جب آپ کو اس قسم کے واضح اشارے مل جائیں کہ آپ اپنی الیکشن مہم ہی صحیح طریقہ سے نہ چلا سکیں اور آپ کے تمام مثبت اقدامات بھی منفی میں چلے جائیں تو بہت مشکل ہو جاتی ہے۔ ہمیں انتخابات میں کھلا میدان نہیں ملا۔ الیکشن کمیشن بہت دعوے کر رہا تھا لیکن سب آپ کے سامنے ہے۔ 11 مئی کو ظلم اور بے حسی کی انتہاء تھی کہ پشاور کے حلقہ پی کے 4 کے پولنگ اسٹیشنز پر میں جا رہی تھی تو اس حلقہ کے تمام پولنگ اسٹیشنز پر بجلی بند تھی۔ بہت برے حالات تھے۔ اندھیرا تھا۔ حکومت نے یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ ہم کم از کم بجلی تو فراہم کریں گے، صرف پولنگ والے دن ہی نہی بلکہ تین دن تک لوڈشیڈنگ نہیں ہوگی۔ لیکن تین دن تو دور کی بات جس دن پولنگ تھی، اس دن کسی پولنگ سٹیشن پر بجلی نہیں تھی۔ اس قدر برے حالات تھے۔ کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ یہ کس قسم کی پولنگ ہو رہی ہے۔ صاف نظر آرہا تھا کہ دھاندلی ہو رہی ہے۔ میں کہتی ہوں کہ یہ کہہ دینا مذاق ہے کہ پاکستان میں بڑے زبردست الیکشن ہوگئے ہیں۔

خبر کا کوڈ : 266919
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش