0
Thursday 30 May 2013 19:49

قیادت کے فقدان کا شکار پیپلزپارٹی کو تنظیم نو اور نظریہ اپنانے کی ضرورت ہے، ڈاکٹر مہدی حسن

قیادت کے فقدان کا شکار پیپلزپارٹی کو تنظیم نو اور نظریہ اپنانے کی ضرورت ہے، ڈاکٹر مہدی حسن
پروفیسر ڈاکٹر مہدی حسن بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی لاہور کے ادارہ ابلاغیات کے سربراہ کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات کے بھی چیئرمین رہ چکے ہیں۔ اپنے سیاسی تجزیوں اور لبرل سوچ کی بنا پر بہت شہرت رکھتے ہیں۔ انتخابات میں پیپلز پارٹی کی شکست کے بعد اس جماعت کی حکمت عملی کیا ہونی چاہیئے اس پر اسلام ٹائمز نے ڈاکٹر مہدی حسن سے انٹرویو کیا ہے۔ جو قارئین کی نذر کیا جا رہا ہے۔  

اسلام ٹائمز: ڈاکٹر صاحب! لگتا نہیں کہ انتخابی نتائج بہت حیران کن ہیں۔ مسلم لیگ (ن) ہی سب کچھ کھا گئی۔ پیپلز پارٹی کو کچھ نہیں مل سکا؟ خیبر پختونخوا میں کیا ہوا؟
ڈاکٹر مہدی حسن: تمام انتخابی نتائج غیر متوقع نہیں سوائے تحریک انصاف کہ جو خیبر پختونخوا میں اکثریت حاصل کرنے کے بعد دوسری جماعتوں کے ساتھ مل کر حکومت بنا رہی ہے۔ جو جنوبی پنجاب کا رزلٹ ہے وہ unexpected ہے۔ باقی سنٹرل پنجاب کا رزلٹ امیدوں کے مطابق آیا ہے، کیونکہ مسلم لیگ (ن) ہمیشہ سے ہی یعنی جنرل ضیاءالحق کے دور سے ہی پنجاب مین سب سے پاور فل اور بڑی پارٹی رہی ہے اور پیپلز پارٹی کا down fall پنجاب میں اسی دور میں شروع ہوا تھا، جو مسلسل چل رہا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ آپ نے دیکھا کہ سندھ میں پیپلز پارٹی بہت آسانی سے اکثریت لینے میں کامیاب ہوگئی ہے، اور وہاں حکومت بھی تشکیل دینے جا رہی ہے جبکہ پنجاب میں اس کی پرفارمینس بہت مایوس کن رہی ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ پی پی پی میں جو اب ہیوی ویٹ لیڈرشپ ہے اس کی کمی محسوس ہو رہی تھی اور جو رہی سہی لیڈرشپ ہے بھی وہ سندھ میں ہے اور بھرپور طریقے سے سیاست میں حصہ لے رہی ہے اور اس کا رزلٹ بھی سامنے آگیا ہے۔

پنجاب میں پیپلز پارٹی کا کوئی ہیوی ویٹ لیڈر الیکشن کیمپین میں سامنے نہیں آیا، مثلاً آپ نے بھی دیکھا ہوگا کہ جنرل الیکشن میں جتنی بڑی سڑکیں لاہور کی ہیں گلبرگ، ڈیفنس، اقبال ٹاون جو مڈل کلاس کی آبادیاں ہیں، ان میں سے کسی بھی سڑک پر پیپلز پارٹی کا کوئی بورڈ یا فلیکس نظر آیا اور نہ ہی کوئی کارنر میٹنگ ہوئی۔ الیکشن کے دوران لگ رہا تھا کہ پی پی پی نے کوئی کوشش ہی نہیں کی کہ الیکشن جیتنا ہے اور جو رزلٹ آیا اس کی ان کو امید بھی تھی اور آنے والے رزلٹ نے ثابت کیا ہے کہ ان کی کارگردگی مایوس کن رہی ہے اور کیمپین میں بھی اس کو ثابت کیا۔ جس طرح کی کیمپین انہوں نے کی ان کو معلوم تھا کہ کیا رزلٹ آئیں گے۔

اسلام ٹائمز: انتخابات سے پہلے کہا جاتا تھا کہ ایک ہینگ پارلیمنٹ تشکیل پائے گی مگر ہینگ پارلیمنٹ تو نہیں آئی قومی اسمبلی اور پنجاب میں مسلم لیگ نون کو واضح مینڈیٹ ملا ہے۔ جس پر وہ خود بھی حیران ہیں۔؟
ڈاکٹر مہدی حسن: جو مینڈیٹ ملا ہے یا دلوایا گیا ہے۔ اس سے تو واضح ہے کہ مرکز میں ایک ہینگ پارلیمنٹ ہی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے پاس صرف سادہ اکثریت ہے، دو تہائی اکثریت نہیں۔ روایت کے مطابق آزاد ارکان کی اکثریت مسلم لیگ (ن) میں شامل ہوچکی ہے۔ اسی طرح سندھ کی چھوٹی جماعتیں نیشنل پیپلز پاٹی اور پیپلز مسلم لیگ جو کبھی پیپلز پارٹی کا حصہ تھیں، اب مسلم لیگ (ن) میں شامل ہوچکی ہیں۔ بلوچستان کے قوم پرست بھی مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ہیں۔ مولانا فضل الرحمان اور ایم کیو ایم نے ابھی تک حکومت میں شمولیت پر آمادگی ظاہر نہیں کی یا انہیں سنجیدہ دعوت نہیں دی گئی۔ لیکن یہ دونوں اقتدار سے باہر رہنے والی جماعتیں نہیں ہیں۔ تو یہ بات تو اب واضح ہوچکی ہے کہ اتحادی حکومت ہی بنے گی، کیونکہ فاٹا کے ارکان کے ساتھ بھی معاملات طے پاگئے ہیں، کیونکہ فاٹا کے جو آزاد ارکان الیکشن لڑتے ہیں وہ جو بھی پارٹی حکومت بناتی ہے، اس کے ساتھ ہوتے ہیں۔ واضح ہوچکا ہے کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت بن جائے گی۔ البتہ بلوچستان میں آپ کہہ سکیں گے کہ وہاں ہینگ ہاوس ہوگا۔ اس میں مسلم لیگ (ن) حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائے گی، باقی پارٹیوں اور آزاد امیدواروں کو شامل کرکے یہ صورت حال سامنے آچکی ہے۔

اسلام ٹائمز: صدر آصف علی زرداری صاحب کی چالیں کہاں گئیں۔ پیپلز پارٹی کے ساتھ پھر کیا ہوگیا ہے کہ قومی دھارے سے آوٹ ہو کر صرف سندھ صوبے تک محدود ہوگئی ہے۔؟
ڈاکٹر مہدی حسن: پہلے آپ کو بتایا تو ہے کہ پی پی پی کے ساتھ دو باتیں ہوئی ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ پی پی پی نے کافی عرصہ پہلے ہی اپنی جو اس کی نظریاتی سوچ تھی اس کو چھوڑ دیا ہے اور عوامی سیاست کا کوئی پروگرام، کوئی مہم ایسی نہیں چلائی کہ جس سے عوام خوش ہوئے ہوں۔ دوسری بات یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کو پنجاب میں سب سے زیادہ نقصان ہوا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ پنجاب میں پیپلز پارٹی کی لیڈرشپ موجود نہیں تھی۔ جن لوگوں کو یہ ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ وہ زیادہ تر باہر سے آئے لوگ ہیں۔ اصلی پیپلز پارٹی کے لوگ نہیں ہیں۔ جن کو پارٹی عہدے دیئے گئے انہیں پیپلز پارٹی کے ورکرز جو دل و جان سے پی پی پی کی خدمت کرتے تھے اور کرتے ہیں۔ مارشل لا میں کوڑے کھاتے رہے ہیں، ان کو یہ بات پسند نہیں آئی، جس کی وجہ سے اس طرح کیمپین میں حصہ نہیں لیا، جس طرح لینا چاہیے تھا یا جس طرح وہ ماضی میں لیا کرتے تھے۔

سیاسی جماعتوں اور سیاسی مہموں میں لیڈرشپ کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ بڑے نام جو جلسہ کرتے ہیں۔ ان میں لوگ شریک ہوتے ہیں۔ لیکن کوئی جلسہ ہوا اور نہ ہی کوئی کارنر میٹنگ منعقد کی گئی ہے۔ کسی بڑے شہر میں کوئی مہم نظر نہیں آئی۔ جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ لیڈرشپ کا پنجاب میں فقدان تھا۔ پیپلز پارٹی کی قیادت سندھ سے تعلق رکھتی ہے اور وہاں پارٹی جیتی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جو پروپیگنڈا چار پانچ سال تک کیا جاتا رہا۔ ان کے مخالفوں کی طرف سے ناکافی ثبوت، ناقص کارکردگی اور کرپشن کے الزامات۔ جس میں میڈیا کا جانبدارانہ رویہ بھی شامل تھا اور بھرپور ساتھ دیا گیا اور ایسے الزامات لگائے گئے کہ جن کا کوئی ثبوت مہیا نہیں کیا گیا، لیکن ثبوت نہ دیئے جاسکے، لیکن اس کا ایک جنرل منفی تاثر عوام میں ضرور قائم ہوا اور میں سمجھتا ہوں لوڈشیڈنگ کا سب سے بڑا نقصان ہوا۔ پی پی پی کے جو میڈیا پلانرز تھے، انہوں نے اس کو counter کرنے کی کوشش بھی نہیں کی کہ یہ بتاتے کہ پاکستان میں دہشت گردی کی فضا ہے۔ دہشت گردی کی وجہ سے جس کے ساتھ باقی مسائل بھی ہوتے ہیں جس کی وجہ سے گورننس اور حکومتی کارکردگی پر فرق پڑتا ہے۔ امن و امان اور مہنگائی ایسے مسائل ہیں کہ جو اس وقت تک ختم نہیں ہوسکتے جب تک دہشت گردی کو کنٹرول نہ کیا جائے گا، یا ختم نہیں کر دیا جاتا۔ اس وقت تک کوئی معاشی ترقی نہیں ہوسکتی۔

لیکن ہمارے ہاں تو کچھ ایسی سیاسی پارٹیاں بھی ہیں جو ان دہشت گردوں کو سپورٹ کرتی ہیں اور رواداری میں دہشت گردوں کو کہتے ہیں کہ ان کے اور ہمارے نظریات ایک جیسے ہیں۔ طالبان کے ساتھ ان کی ہم آہنگی ہے اور کہتے ہیں کہ ہم کو صرف ان کے طریقہ کار سے اختلاف ہے مگر ان کا جو فلسفہ ہے وہ درست ہے۔ پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور اے این پی یہ تینوں پارٹیاں وہ تھیں جن سے طالبان دہشت گرودں نے اوپن کہا تھا اور دھمکیاں دی تھیں کہ ان کو انتخابی مہم نہیں چلانے دیں گے اور نہ ہی چلانے دی اور یہ تینوں جماعتیں ایسا نہیں کرسکیں۔ ایم کیو ایم کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کو زیادہ فرق نہیں پڑتا کیونکہ ان کی جس طرح کی آرگنائزیشن ہے سندھ کے اندر اور کراچی میں حیدر آباد میں، ان کا ڈسپلن بہت زیادہ ہے اور وہ اپنے لیڈر کو جس طرح فالو کرتے ہیں۔ اس طرح کوئی پارٹی نہیں کرسکتی۔ لٰہذہ انہیں کوئی فرق پڑے گا۔ اگرچہ ان کے خلاف بھی بہت کچھ کیا گیا۔ ان کے خلاف دہشت گردی کی گئی، لیکن اے این پی اور پی پی پی کو اس میں زیادہ نقصان ہوا ہے۔

ہماری پارٹیوں کا دہشت گردی کے خلاف رویہ جو ہے کچھ پارٹیاں ان کو سپورٹ کرتی ہے ان کی اور جو ان کے خلاف بھی ہیں ان کا رویہ بھی دہشت گردوں کے خلاف معذرت خواہانہ رہا ہے۔ انہوں نے کوئی کوشش ہی نہیں کی۔ جو ان کو کرنی چاہیے تھی۔ ان کو چاہیے تھا کہ دہشت گردی کے خلاف پلان بناتیں، جو سائنسی طریقے سے بنایا جاتا کہ ان کے فلسفے کو مسترد کرتے، لیکن عوام کو یہ کوئی متبادل فلسفہ نہ دے سکے جو ان کا مقابلہ کرتے۔ اس طرح پیپلز پارٹی نے کوئی کوشش کی اور نہ ہی ہمیں نظر آئی۔

اسلام ٹائمز: کیا واقعی یہ تاثر درست ہے کہ آصف علی زرداری نے وہ کام کر دیا کہ پیپلز پارٹی کو ختم کر دیا جو فوج آمر جنرل ضیاءالحق اور جنرل پرویز مشرف نہ کرسکے؟
ڈاکٹر مہدی حسن: دیکھیں آصف زرداری صاحب کے دو disadvantages تھے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے ہمشہ سے جو رنگ اپنایا ہوا ہے، اس میں وہ بھٹو خاندان کی پرستش کرتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کو بھٹو کا نام ضرور سمجھا جاتا ہے اور لازمی ہے کہ یہ پروپیگنڈہ بھی سارا وہی تھا اور آپ نے حالیہ انتخابی مہم میں دیکھا کہ بھٹو خاندان کی قربانیون پر نوحے خوانی ہوتی رہی اور مرثیے پڑھے جاتے رہے۔ اس حد تک تو ٹھیک ہے لیکن ان کے منصوبہ سازوں کو یہ سوچنا چاہیے تھا کہ اب کیا وہ بھٹو خاندان سے وابستگی کی وجہ سے ہمدردی کا ووٹ جو سمجھتے تھے وہ ملے گا، وہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوں گے یا نہیں؟ بے نظیر بھٹو کے نام اور ذوالفقار علی بھٹو کی قربانیوں کے نام پر اس میں تو ان کو کوئی کامیابی نہیں ملی۔ 

دوسری بات یہ ہے کہ سیاسی مخالفین کی طرف سے جو ان پر الزامات لگائے جاتے رہے، ان کو counter نہیں کیا گیا اور نہ ہی کوشش کی گئی۔ اس کے بارے میں رواداری کے نام پر پیپلز پارٹی نے خاموشی اختیار کی اور کوئی واضح مخالفانہ پالیسی بنانے میں ناکام رہے۔ تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ کمیونیکیشن اور سیاسی رابطوں کی ناکامی ہے اور اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ کوئی ایسی لیڈر شپ پیپلز پارٹی میں نظر نہیں آتی۔ کوئی ایسا لیڈر نہیں تھا، جس نے کوئی پلان بنایا ہو یا کوئی پروگرام بناسکتا ہو ۔ ورنہ اصولاً تو یہ تمام عہدیدار اس وقت جو پیپلز پارٹی کے ہیں ان کو یا تو خود ہی استعفٰی واقعی دے دینا چاہیے تھا۔ کچھ لوگوں نے یہ کیا بھی ہے اور روایت بھی ہے کہ انتخابات میں اتنی بڑی ناکامی کے بعد تو انہیں استعفٰی دے دینا چاہیے تھا۔ ان لوگوں کو اور جنہوں نے استعفٰی نہیں دیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان سب کو عہدوں سے ہٹا دینا چاہیے۔ پیپلز پارٹی کی تنظیم نو کی ضرورت ہے۔ یہ مرحلہ گذرنے کے بعد نئے سرے سے کام شروع کر دینا چاہیے۔ جو بات اے این پی کے بارے میں بیگم نسیم ولی خان نے کہی ہے، میں سمجھتا ہوں کہ وہی پالیسی پیپلز پارٹی کی ہونی چاہیے اور نئے سرے سے جماعت کو بنایا جائے اور فیصلہ کرکے کہ کون سی آئیڈیالوجی ہے جسے پروموٹ کرنا ہے۔ وہ کام انہیں کر لینا چاہیے، تاکہ آئندہ کے لیے ان کی کارکردگی بہتر ہو جائے۔
خبر کا کوڈ : 268333
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش