1
0
Friday 17 May 2013 00:54

انتخابی نتائج، پیپلز پارٹی کے ساتھ کیا ہوا؟

انتخابی نتائج، پیپلز پارٹی کے ساتھ کیا ہوا؟
تحریر: ابن آدم راجپوت

11 مئی 2013ء کے انتخابی نتائج نے تجزیہ کاروں کو حیران کر دیا ہے کہ ان کے تمام اندازے اور فارمولے غلط ثابت ہوئے ہیں۔ حکمران حزب اختلاف اور اپوزیشن حکومت بن گئی ہے۔ کہتے ہیں کہ یہی جمہوریت کا حسن ہے کہ ایک پارٹی ناکام ہو، کارکردگی کا مظاہرہ نہ کرے تو لوگوں کے پاس ووٹ کی طاقت ہے، جس سے وہ حکمرانوں کو اقتدار سے نکال باہر کرسکتے ہیں۔ یہی کچھ پانچ بار حکومت کرنے والی پیپلز پارٹی کے ساتھ ان انتخابات میں ہوا ہے۔ لیکن جتنا مینڈیٹ مسلم لیگ (ن) کو ملا ہے یا خفیہ ہاتھوں نے ان کے کھاتے میں ڈالا ہے۔ یہ کسی کو بھی ہضم نہیں ہو رہا۔ کہ ایک پارٹی کو سندھ میں اکثریت مل جاتی ہے تو وہ پنجاب، خیبر پختونخوا اور بلوچستان سے بالکل فارغ ہو جاتی ہے۔
 
2008ء کے انتخابات میں پنجاب سے پیپلز پارٹی کو صوبائی اسمبلی کی 108 نشستیں ملیں، لیکن اسی پارٹی کو 2013ء میں صرف چھ نشستیں ملتی ہیں۔ تو کچھ تو ہوا ہے کہ جس کا اظہار تو الیکشن کے دوسرے دن سے ہی پاکستان کے مختلف شہروں میں دئیے جانے والے دھرنوں سے واضح ہوا ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت آئینی اور جمہوری نظام کی بہتری میں لگی رہی۔ لوگوں کی ضروریات کے بنیادی مسائل بجلی کی لوڈشیڈنگ، مہنگائی اور بیروزگاری پر توجہ نہیں دی گئی۔ پیپلز پارٹی 2008ء کے انتخابات میں قومی اسمبلی کے 342 کے ایوان میں 124 نشستوں کے ساتھ پہلے نمبر پر تھی۔ باقی اتحادیوں سے مل کر پانچ سالہ مدت پوری کی گئی۔ اسی مفاہمت کو لوگوں نے سمجھوتہ سمجھا کہ کسی سیاسی مخالف کو جیل نہیں بھیجا گیا۔ 

پیپلز پارٹی نے امریکہ کی جنگ تو لڑی اور اس کا نقصان بھی اٹھایا۔ آغاز حقوق بلوچستان پیکج دے کر وفاق پاکستان کو مضبوط کرنے کی کوشش کی گئی۔ بلوچوں کے زخموں پر مرہم رکھی۔ جس سے علیحدگی پسندوں کے منہ کچھ حد تک بند ہوئے اور ملک ٹوٹنے کا خدشتہ ٹل گیا۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے ذریعے جمہوری قدروں کو مضبوط کیا گیا۔ الیکشن کمیشن کو آزاد بنایا، صوبوں کو زیادہ اختیارات دے کر مضبوط اور وفاق کو کمزور بنایا گیا۔ لیکن یہ تمام ریڑھی لگانے والے اور تانگہ چلانے والے یا دیہاڑی لگانے والے مزدور کے مسائل نہیں تھے، یہ سیاسی ایشوز تھے، جن کا تعلق سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں سے تھا۔ عام آدمی ڈھونڈ رہا تھا کہ اسے گیس مل رہی ہے اور نہ بجلی۔ 

بجلی نہ ہونے کی وجہ سے رات کو آرام سے نیند پوری کرسکتا ہے اور نہ ہی دن کو دکانوں پر کام کرنے کے قابل ہوتا ہے۔ خاص طور پر یہ سب پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں کیا گیا جسے مسلم لیگ (ن) نے کیش کروایا۔ جس کا بدلہ پھر پنجابیوں نے پیپلز پارٹی سے انتخابات میں لیا۔ اگرچہ یہ بات درست ہے کہ لاہور کی فیروز پور روڈ پر میٹرو بس سروس چلا کر بڑا مہنگا منصوبہ دیا گیا، مگر مسلم لیگ (ن) کی صوبائی حکومت بجلی پیدا کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں دے سکی۔ جس سے واضح ہوتا ہے کہ عوام سے دونوں جماعتوں کو کتنی دلچسپی ہے۔ لیکن مسلم لیگ (ن) کی قیادت اور میڈیا مینجرز نے لوڈشیڈنگ کے ایشو کو اتنا اچھالا کہ ہر عوامی احتجاج سے پہلے مسلم لیگ (ن) کی طرف سے میڈیا دفاتر میں اس کی باقاعدہ اطلاع دی جاتی پھر وہاں سے مسلم لیگ (ن) کے منتخب رکن اسمبلی، وزیر یا خود وزیراعلٰی پہنچ جاتے اور باقاعدہ خطاب کرتے۔
 
جس کی میڈیا لائیو کوریج دیتا اور صدر آصف علی زرداری کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا۔ واپڈا کے دفاتر کو جلایا جاتا۔ اس طرح عوامی ایشوز پر وہ سب کچھ موجود تھا جو کسی بھی حکومت کو بدنام کرنے کے لئے ضروری ہوتا ہے۔ دوسری طرف اس میں بھی دو رائے نہیں کہ پیپلز پارٹی کے خلاف میڈیا اور عدلیہ کا رویہ معاندانہ رہا۔ وزیراعظم سے لے کر فیڈرل سیکرٹری تک کوئی بھی ایسا نہ تھا جو روزانہ کی بنیاد پر سپریم کورٹ پیشی بھگتنے کے لئے نہ جاتا۔ اس طرح حکومت مسائل کے حل کی بجائے، اپنی وضاحتیں پیش کرنے کی طرف زیادہ متوجہ ہوتی تھی۔
 
2013ء کے انتخابات میں پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر پاکستان تحریک انصاف کی آمد ایک نیا عمل ہے، جس نے تمام مقتدر پارٹیوں کو حیران کرکے خیبر پختونخوا اسمبلی میں اکثریت حاصل کرلی ہے، جبکہ قومی اسمبلی میں تیسری بڑی قوت بن کر ابھری ہے۔ لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ انتخابات میں پہلے کسی نے سوچا بھی نہ تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کا یہ حشر ہوگا۔ جو انتخابی نتائج سامنے آنے کے بعد ہوا ہے۔ تمام حلقوں میں امیدوار کھڑے کئے گئے۔ مسلم لیگ (ق)، اسلامی تحریک پاکستان اور سنی اتحاد کونسل کی حمایت بھی موجود تھی۔ مسلم لیگ (ن) کے ووٹ بینک کو تقسیم کرنے، جنوبی پنجاب کی تشکیل کا تاثر بھی دیا گیا اور زمینی حقائق پیدا بھی کئے گئے۔ پھر بھی وہ نتائج نہ مل سکے جس کی توقع کی جا رہی تھی۔
 
اس میں شک نہیں کہ پیپلز پارٹی کی طرف سے پنجاب کے خلاف وہ کچھ کہا اور کیا گیا، جس سے پنجاب دشمنی کا پراپیگنڈا مسلم لیگ نے خوب کیا، جس کا جواب پی پی پی کی میڈیا ٹیم کے پاس نہ تھا اور پیپلز پارٹی کے خلاف مینڈیٹ کا آنا ضروری تھا۔ پیپلز پارٹی کی قیادت نے کالاباغ ڈیم کے خلاف پراپیگنڈہ کیا اور فیصلہ دے دیا کہ مدتوں سے زیر التوا کالا باغ ڈیم تین صوبوں کی طرف سے مخالفت کی وجہ سے نہیں بنایا جا رہا۔ پیپلز پارٹی کی تنظیمیں بھی اس طرح سے خاص طور پر پنجاب میں فعال نہ تھیں، جتنی کہ کبھی ہوا کرتی تھیں اور الیکشن رزلٹ بہت اچھا آتا رہا ہے۔ پنجاب میں پیپلز پارٹی کے صدر منظور وٹو ایک ایسے شخص ہیں جن سے کوئی جیالا واقفیت نہیں رکھتا تھا۔ انہوں نے پیپلز پارٹی میں شمولیت سے پہلے متعدد جماعتیں بدلیں۔ ہمیشہ اقتدار میں رہنے کے عادی منظور وٹو جاگیردارانہ طرز سیاست رکھتے ہیں۔ جیالوں نے انہیں قبول نہیں کیا تھا۔ 

اسی طرح لاہور کی صدر ثمینہ خالد گھرکی ایک گھریلو خاتون تھیں جنہیں سیاست اور نہ ہی تنظیم چلانے کا تجربہ تھا۔ وہ انتخابات میں گریجوایشن کی شرط کی وجہ سے 2002ء کے الیکشن میں اپنے خاوند خالد گھرکی کی جگہ پر الیکشن لڑنے کے لئے میدان میں آئیں۔ انہوں نے تنظیم پر توجہ نہیں دی اور وہی ہوا کہ پنجاب کے دارالحکومت سے پیپلز پارٹی کا صفایا ہوگیا۔ لیکن اس کے باوجود اگر پیپلزپارٹی نے اپنی تنظیموں پر توجہ دی اور پنجاب کو تجربات کی آماجگاہ بنانے کی بجائے کسی جیالے کو صوبائی صدر بنایا تو یقینی طور پر آئندہ انتخابات میں دوبارہ پیپلز پارٹی اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکتی ہے۔
خبر کا کوڈ : 264706
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
سلام،
اچھا تجزیہ کیا ہے ابنِ آدم راجپوت صاحب نے۔ میرے خیال میں ایسا ہی ہوا جیسا آپ نے لکھا ہے اور پی پی پی کو ہرانے میں میڈیا نے سب اہم کردار ادا کیاہے۔
ہماری پیشکش