1
0
Thursday 16 Jan 2014 12:55

کرم ایجنسی میں طے پانیوالا معاہدہ کسی کیخلاف نہیں، بلکہ عوام کی امنگوں کا ترجمان ہے، منیر سید میاں

کرم ایجنسی میں طے پانیوالا معاہدہ کسی کیخلاف نہیں، بلکہ عوام  کی امنگوں کا ترجمان ہے، منیر سید میاں
سید منیر سید میاں کرم ایجنسی کے میاں سادات کے معزز گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اورکزئی اور کرم دونوں ایجنسیوں میں زمینیں ہیں۔ تاہم انکی رہائش اکثر اسلام آباد میں ہوتی ہے۔ 1996ء کے عام انتخابات میں اورکزئی ایجنسی سے قومی اسمبلی کے ممبر رہ چکے ہیں۔ مئی 2013ء کے انتخابات کے نتیجے میں کرم ایجنسی میں طوری بنگش اقوام کے درمیان ہونے والے اختلافات کو ختم کرانے میں انہوں نے اہم رول ادا کیا۔ سید محمود جان میاں اور ڈاکٹر سید جاوید حسین میاں کی معیت میں طوری بنگش اقوام کے مابین ایک تاریخی معاہدہ کرایا جو 12 شقوں پر مشتمل ہے، جس پر فریقین کے 50 سے زیادہ عمائدین کے ساتھ ساتھ مرکزی جامع مسجد کے پیش امام علامہ شیخ نواز عرفانی نے نیک خواہشات و جذبات کا ذکر کرنے کے بعد دستخط کئے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے اس معاھدے کے حوالے سے سابق ایم این اے سید منیر سید میاں کے ساتھ گفتگو کی ہے، جسے قارئین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔ 

اسلام ٹائمز: طوری بنگش اقوام کے دو فریقوں کے مابین صلح کرانے کی کئی کوششیں اس سے قبل بھی ہوچکی ہیں لیکن وہ ناکامی سے ہمکنار ہوئیں۔ سید محترم آپ کو یہ آئیڈیا کسی نے دیا؟ یا خود ہی یہ فکر آپ کے ذہن میں آئی۔؟
منیر سید میاں: عید الضحٰی کے موقع پر اس دفعہ جب میں کرم ایجنسی آیا تو اپنی آنکھوں سے قوم کی دربدر حالت دیکھکر بہت درد محسوس کیا، چنانچہ فریقین کے درمیان صلح کرانے کی شدید ضرورت محسوس کی اور پھر بغیر کسی کے مشورے کے میں نے یہ اقدام کیا۔

اسلام ٹائمز: ظاہر ہے کہ ایسے امور تنہا انجام نہیں پاسکتے، ضرور کچھ لوگ اس کام میں آپ کے شریک کار ہونگے، کیا آپ انکے نام بتاسکتے ہیں۔؟
منیر سید میاں: جیسے کہ عرض کیا، میں نے خود ہی ابتداء کی۔ بعد میں، میں نے ڈاکٹر سید جاوید سابق ایم این اے، کونسلر سید محمود جان میاں اور دونوں فریقین یعنی انجمن حسینیہ و قومی مرکزی انجمن سے تعاون کی اپیل کی۔ چنانچہ قومی مرکزی انجمن کی طرف سے مجھے تین شخصیات سابق کونسلر سید محمد شیرازی، سیکرٹری انوریہ فیڈریشن رفیق حسین اور صوبیدار نصراللہ جان کے نام دیئے گئے۔ اسی طرح انجمن حسینیہ کی جانب سے حاجی محمد حسن، حاجی منصب علی اور پرنسپل اسلامیہ پبلک سکول محمد حسین کے نام دیئے گئے۔ ان 8 افراد نے میرے ساتھ اس معاہدے میں مکمل تعاون کیا۔

اسلام ٹائمز: فریقین کی جانب سے جو افراد دیئے گئے نیز آپ اور آپ کے علاوہ دو اور ثالثین پر دونوں فریقین راضی تھے یا نہیں۔؟
منیر سید میاں: کیوں نہیں، دونوں فریق راضی تو کیا، خود انہی کی طرف سے نام دیئے گئے تھے، معاہدے میں مرکزی کردار ادا کرنے والے افراد انہی کے اپنے افراد تھے۔

اسلام ٹائمز: قبائلی روایات کے مطابق فریقین سے "کلی اختیار" جسے پشتو میں "توئے وڑے واک" کہتے ہیں، لیا جاتا ہے یا پھر دونوں فریقین کی رضا مندی سے فیصلہ کیا جاتا ہے۔ آپ نے کونسا راستہ اختیار کیا تھا۔؟
منیر سید میاں: جیسا کہ معلوم ہے کہ کرم ایجنسی میں تین طرح کے فیصلے کئے جاتے ہیں۔ پہلا جرگہ رائے، یعنی موجود ممبران میں سے اکثریت کی رائے کو مدنظر رکھ کر فیصلہ کیا جاتا ہے۔ دوم کلی اختیار، جس کو پشتو میں "توئے واڑے واک" کہتے ہیں، جس میں فریقین سے کلی اختیار لیا جاتا ہے اور فیصلے سے مکمل بے خبر رکھ کر ان سے دستخط لئے جاتے ہیں۔ تیسرا راضی نامہ ہے، جس میں دونوں فریقوں کے مابین باہمی گفت و شنید کے بعد فیصلہ کیا جاتا ہے۔ جبکہ ہم نے راضی نامہ کیا یعنی دونوں فریقوں سے بار بار مشورہ کرکے انہی کے مشورے سے تمام معاملات طے کئے۔ جسے دونوں فریقین کی مکمل حمایت حاصل تھی۔

اسلام ٹائمز: معاہدے میں بعض الفاظ و اصطلاحات فقہی ہیں، جن کے متعلق عام افراد کو علم نہیں ہوتا، معلوم ہوتا ہے کہ معاہدے کو مرتب کرنے میں بعض علماء کرام نے بھی حصہ لیا ہے، نام بتا سکتے ہیں۔؟
منیر سید میاں: آغائے شیخ نواز عرفانی جو کہ مرکزی جامع مسجد میں پیش امام اور مرکزی امام بارگاہ میں وکیل مجتھد بھی ہیں، اس راضی نامے کو مرتب کرنے میں بار بار ہمیں مشورہ دیتے رہے اور انہوں نے ہمارے ساتھ تعاون کیا۔ 

اسلام ٹائمز: جب پیش امام صاحب نے معاہدے میں مکمل تعاون کیا ہے تو ان کی طرف سے اعتراض ناممکن ہے، کیا انکی جانب سے اب تک کوئی اعتراض سامنے آیا ہے۔؟
منیر سید میاں: پیش امام صاحب نے تو راضی نامے پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ ابھی تک میرے علم میں ایسی کوئی بات نہیں کہ وہ اس معاہدے سے ناراض ہیں۔ میں نے ان سے رابطہ کی کوشش کی، وہ کرم ایجنسی سے باہر ہیں، فون پر ڈائریکٹ رابطہ نہیں ہوا ہے۔

اسلام ٹائمز: دو یا تین دن پہلے پاراچنار میں اس حوالے سے کافی ہنگامہ آرائی ہوئی تھی، اس راضی نامے کو رد کرنے کیلئے جزوی طور پر جلسے جلوس بھی ہوئے۔ ان لوگوں کے اعتراضات اور تحفظات کیا ہیں۔؟
منیر سید میاں: ہمیں معلوم ہے کہ کچھ لوگ ہیں، جو گروہی یا انفرادی شکل میں، اس راضی نامے کی مخالفت کرتے ہیں۔ یہ قومی راضی نامہ ہے، کسی گروہ یا فرد کو اس پر اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں۔ واضح رہے کہ جو لوگ انجمن حسینیہ میں ہیں، وہ اس راضی نامے کی مخالفت کر رہے ہیں۔ وہ دو سال کی مزید مدت چاہتے ہیں۔ لیکن ہم نے معاہدے میں دو سال کا کوئی تذکرہ نہیں کیا ہے، دو سال کی شق موجود ہے، لیکن وہ قومی انجمن کی تشکیل کے بعد کیلئے ہے۔ کوئی اس سے غلط مطلب لیتا ہے تو یہ اسکا اپنا ذاتی مفاد ہوسکتا ہے، قومی مفاد نہیں۔

اسلام ٹائمز: جیسے کہ آپ نے کہا  آغائے نواز تو مخالفت نہیں کر رہے، تو کیا گڑ بڑ کرنے والوں کو آغا صاحب ہدایت نہیں کرتے۔؟
منیر سید میاں: دیکھیں معاہدے کو اسلام میں بڑی اہمیت حاصل ہے، شاید آپ کے علم میں ہو کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر رسول اللہ (ص) کے پاس ایک شخص نے عین اس وقت پناہ طلب کی، جب فریقین معاہدے پر دستخط کرچکے تھے، معاہدے کی ایک شق یہ تھی کہ اگر مکہ سے کوئی شخص بھاگ کر رسول اللہ (ص) کے پاس آجائے تو اسے واپس کیا جائے گا۔ جبکہ اگر مسلمانوں سے کوئی شخص بھاگ کر کفار مکہ کے پاس چلا جائے تو اسے واپس نہیں کیا جائے گا۔ اس شق کا رسول اللہ (ص) نے اتنا احترام کیا کہ اپنے پاس آنیوالے اس شخص کو واپس کر دیا، حالانکہ اسکی جان کو خطرہ تھا۔ اسکے باوجود رسول اللہ (ص) نے پناہ مانگنے والے سے کہا کہ میں آپ کی کوئی مدد نہیں کرسکتا، میں قطعاً معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کرسکتا۔ لہذا عرض یہ ہے کہ آغا صاحب ایک عالم دین ہیں، ان کو ہماری نسبت زیادہ معلومات ہیں۔ معاہدے کی اہمیت اور قوم کے اتحاد و اتفاق کے حوالے سے میرا خیال ہے کہ موجودہ حالات کے حوالے سے آغا صاحب کو بالکل بے خبر رکھا گیا ہو۔ آغا صاحب کو پتہ چل گیا تو وہ ضرور قدم اٹھائیں گے۔

اسلام ٹائمز: ناراض لوگوں کے متعلق آغائے نواز کو آگاہ کیا ہے۔؟
منیر سید میاں: ٹیلیفون کے ذریعے انہیں آگاہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ تاہم ابھی تک رابطہ نہیں ہوسکا۔ جبکہ کل دو بندوں نے آکر مجھ سے کہا کہ نواز آغا کے ساتھ ان کا رابطہ ہوا ہے۔ آغا صاحب نے کہا ہے کہ وہ دو دن میں آرہے ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ جو لوگ راضی نامے کے مخالف ہیں، میں ان کے ساتھ نہیں ہوں۔ 

اسلام ٹائمز: جو لوگ اس معاہدے سے ناراض ہیں، ان سے براہ راست آپ کا رابطہ ہوا ہے۔؟ 
منیر سید میاں: نہیں میرا ڈائریکٹ رابطہ تو نہیں ہوا، تاہم کرم ایجنسی کی اتنی بڑی آبادی ہے، کوئی 4 یا 5 افراد مخالفت کر بھی لیں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ راضی نامہ عوام کی اکثریت کی امنگوں کے عین مطابق ہے۔ معاہدہ کسی کے خلاف نہیں صرف انجمن کے طریقہ انتخاب میں تبدیلی کی گئی ہے۔ یعنی انتخاب کو عوام کے سپرد کر دیا گیا ہے۔ تو اس میں کسی کی حق تلفی نہیں ہوئی، بلکہ جس فریق کی بھی اکثریت ہو، ایوان (انجمن) میں انہی کی اکثریت ہوگی۔ تو اس میں کونسا عیب ہے۔

اسلام ٹائمز: قومی مرکزی انجمن کی تشکیل کس مرحلے میں ہے۔؟
منیر سید میاں: آبادی کے تناسب سے آٹھ اقوام کے لئے 35 نمائندے مقرر کئے گئے ہیں۔ سب نے مقررہ دنوں میں اکثریتی رائے سے اپنے اپنے نمائندوں کا باقاعدہ انتخاب کرکے انکے نام ہمیں دیئے ہیں۔ صرف دو اقوام رہتی ہیں، امید ہے کہ وہ بھی چند دنوں میں اپنے نمائندوں کے نام ہمارے حوالے کر دینگے۔

اسلام ٹائمز: معاہدے کی شق نمبر 4 میں ہے کہ اگر کسی قوم نے بروقت نمائندہ کا نام نہیں دیا تو ثالثان خود ہی ان کا نمائندہ منتخب کریں گے۔ ان کو وقت دیں گے یا خود ہی منتخب کریں گے۔؟
منیر سید میاں: ہمارے شیڈول کے مطابق 12 جنوری آخری تاریخ ہے، مقررہ مدت ختم ہوچکی ہے، تاہم جو اقوام رہتی ہیں، اگر کسی قوم نے آنے والے چند دنوں میں نمائندہ دیا تو ٹھیک، نہیں تو ہم شق نمبر 4 کے مطابق عمل کریں گے۔ 

اسلام ٹائمز:حلف برداری کے لئے کیا منصوبہ بندی ہے، یہ کہاں ہوگی اور کون حضرات نئے انجمن سے حلف لیں گے؟
منیر سید میاں: ہمارا موقف واضح ہے کہ 17 ربیع الاول پر حلف برداری ہوگی۔ اور حلف برداری کی تقریب مرکزی امام بارگاہ ہی میں ہوگی، جبکہ ممبران سے حلف ثالثین لیں گے۔

اسلام ٹائمز: بعض لوگوں کو شکایت ہے کہ آپ کو ثالثین اور معاونین کی حمایت حاصل نہیں، بلکہ آپ تنہا اس معاھدے پر مصر ہیں۔
منیر سید میاں: یہ ساری افواہیں ہیں۔ میں اکیلا نہیں ہوں۔ میرے ساتھ ڈاکٹر جاوید میاں اور سید محمود جان میاں شانہ بشانہ شامل ہیں۔ تاہم اس وقت سید محمود جان میں اسلام آباد میں ہیں جبکہ ڈاکٹر صاحب ایک مصروف ڈاکٹر ہیں انکی مصروفیات ہیں۔ ان دونوں کے ساتھ ساتھ متعلقہ تمام شخصیات ہمارے ساتھ شانہ بشانہ شامل ہیں۔ جو شیڈول کے مطابق عمل کریں گے۔

اسلام ٹائمز: معاہدے میں سیکرٹری کے انتخاب کا طریقہ واضح نہیں، یہ انتخاب کیسے کیا جائے گا؟ نیز انجمن کے لئے آئین اور منشور کیسے مرتب کریں گے۔؟
منیر سید میاں: معاہدے اور اسکے بعد جاری کردہ اعلامیہ میں واضح کیا گیا ہے کہ 17 ربیع الاول کے بعد فوری طور پر سیکرٹری کا انتخاب کیا جائے گا۔ انتخاب کا طریقہ کار بھی راضی نامے میں واضح ہے۔ جو وکیل مجتہد یعنی پیش امام اور مشران قوم کے مشورے سے منتخب ہوگا۔
آئین و منشور بھی ہم نے راضی نامے میں واضح کیا ہے۔ اراکین انجمن اور ثالثین نیا آئین مرتب کریں گے، جس پر کرم ایجنسی کے عوام عمل پیرا ہونگے۔

اسلام ٹائمز: سیکرٹری کا انتخاب ووٹ کے ذریعے یا مشورے کے ذریعے کیا جائے گا۔؟
منیر سید میاں:
ثالثین و پیش امام نئے اراکین انجمن کو مشورہ دیں گے، اس کے بعد اراکین انجمن فیصلہ کریں گے کہ کس طرح اور کس کا انتخاب کیا جائے۔؟

اسلام ٹائمز: موجودہ انتشار کے خاتمے اور قوم کے اتحاد کے حوالے سے کیا پیغام دیں گے۔؟
منیر سید میاں: مومنین سے میری گزارش ہے کہ معاہدہ کو خوب غور سے پڑھیں، اور پھر معاہدہ کو سامنے رکھ کر فیصلہ کریں۔ نیز ہر ایک سے گزارش ہے کہ ایسے پراپیگنڈے، تہمتوں، اور دل آزار پمفلٹوں سے مکمل گریز کریں، قوم کے اتحاد کی خود بھی کوشش کریں، دوسروں کو بھی تلقین کریں۔ تمام علماء کرام خصوصاً متعلقہ ذمہ دار علماء اور عمائدین سے میری گزارش ہے کہ معاہدے کے حوالے سے منفی کردار ادا کرنے سے قطعی گریز کریں۔ تعلیم یافتہ طبقے سے خاص امید ہے کہ دیکھیں کہ معاہدہ میں کونسا نقطہ قوم کے نقصان میں ہے۔ جب کوئی نقطہ کسی کے خلاف نہیں تو اسکی مخالفت کا کیا جواز ہے۔؟
خبر کا کوڈ : 340715
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

United Arab Emirates
Mashallah jeo
ہماری پیشکش