0
Monday 27 Jan 2014 15:48
دھرنا دینا مظلوم کی آواز کو پہنچانا ہے جو ہم ضرور پہنچاتے رہینگے

سنی شیعہ علماء و خواص کو دہشتگرد تکفیریوں کیخلاف ایک عظیم اتحاد بنانا چاہئیے، مولانا باقر زیدی

پاکستانی تشیع کو صورتحال مزید بہتر بنانے کیلئے ایک بابصیرت قیادت کیطرف جانا چاہئیے
سنی شیعہ علماء و خواص کو دہشتگرد تکفیریوں کیخلاف ایک عظیم اتحاد بنانا چاہئیے، مولانا باقر زیدی
حجت الاسلام مولانا سید باقر زیدی مدرسہ المہدی اور جامعہ امامیہ کے پرنسپل اور ہئیت آئمہ مساجد و علمائے امامیہ کے سیکریٹری جنرل ہیں جبکہ اس وقت مسجد المصطفٰی (ص) گلشن معمار کراچی میں امامت کے فرائض بھی سرانجام دے رہے ہیں۔ آپ امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کراچی ڈویژن کے رکن ذیلی نظارت بھی رہ چکے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے عالم تشیع و پاکستانی تشیع، طالبان اور ان سے مذاکرات، سانحہ مستونگ کے خلاف ملت تشیع کے احتجاجی دھرنے، تکفیری دہشتگرد گروہ، اتحاد بین المسلمین جیسے موضوعات پر مولانا سید باقر زیدی کے ساتھ انکی رہائش گاہ پر ایک خصوصی نشست کی، اس حوالے سے آپ سے کیا گیا انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: عالم تشیع کہاں کھڑی نظر آتی ہے۔؟
مولانا سید باقر زیدی: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔۔۔۔۔ عالم تشیع دنیا میں ہر سیاست کا محور ہے اور ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد سے جو مکتب تشیع کے افکار نے ترقی کی ہے اور دنیا میں ظلم کے مقابلے میں چاہے وہ کہیں پر بھی ہو مقابلہ کیا ہے۔ دنیا میں ہر جگہ، پاکستان میں بھی سیاسی میدان میں مکتب تشیع کے افکار اہم کردار ادا کرتے ہیں، ان کو مدنظر رکھ کر سیاست گزاری کی جاتی ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا یہ بات صحیح ہے کہ پاکستانی تشیع عالم تشیع کے ہمقدم نہیں ہے اور عدم فعالیت یا کم فعالیت کا شکار ہے۔؟
مولانا سید باقر زیدی: ایسی بات نہیں ہے کہ پاکستانی تشیع عالم تشیع سے پیچھے ہے بلکہ تقریباً برابر ہے اور اگر ہم شہادت اور ظلم سے مقابلے کی بات کریں تو پاکستان میں ملت تشیع نے گذشتہ تقریباً تیس سالوں میں 60 ہزار سے زائد شہداء دیئے ہیں جو کہ ایران عراق کے بعد سب سے بڑی تعداد ہے۔ ملت تشیع پاکستان پیچھے نہیں ہے، ہاں انتہائی مشکلات ہیں ہمارے لئے، قیادت کے مسئلے میں مشکلات ہیں، منصوبہ بندی، اداروں کے حوالے سے کچھ مشکلات ہیں اور اس کی بڑی وجہ پاکستان کے معروضی حالات ہیں، سیاسی جماعتوں میں شیعہ بٹے ہوئے ہیں، علاقوں میں بٹے ہوئے ہیں، کسی ایک علاقے میں کثیر تعداد میں نہیں رہتے وغیرہ۔ مختلف معروضی حالات کے تحت اگر ہم تجزیہ کریں تو پیچھے نہیں ہیں کسی بھی صورت میں بلکہ ہم نے ہر طرح کہ حالات کو سہا ہے، مقابلہ کیا ہے، دباؤ میں نہیں آئے، کوئی ایسی چیز نہیں ہے کہ جو معرکے اور میدان جنگ میں پیش آتی ہو اور ہم نے نہ سہی ہو۔

اسلام ٹائمز: موجودہ صورتحال کو مزید بہتر بنانے اور آئیڈیل صورتحال میں جانے کیلئے کیا کرنا ہوگا۔؟
مولانا سید باقر زیدی: دیکھیں موجودہ صورتحال کو مزید بہتر بنانے اور آئیڈیل صورتحال میں تبدیل کرنے کیلئے ہمیں ایک متحد اور بابصیرت قیادت کی طرف جانا چاہئیے، اگر وہ حاصل نہ ہو سکے تو کوئی ایک ایسی قیادت کہ جو ان تمام چیزوں کی بصیرت رکھتی ہو، مضبوط ادارے بھی وجود میں لائے، بلاامتیاز عوام کیلئے کام بھی کرے اور اس کام کی بنیاد پر ظلم کے مقابلے میں صحیح سیاسی اقدامات کرے تو ہم اس قیادت کے بحران سے بھی گزر سکتے ہیں۔ اتحاد و وحدت کی کوشش کرنی چاہئیے اگر انہیں ہوسکے تو کوئی ایک منظم جماعت بھی، میں کسی خاص جماعت کا نام نہیں لونگا، لیکن اگر وہ اس پروگرام کے تحت کہ جو ہم نے عرض کیا ہے آگے بڑھے تو وہ کامیاب ہوسکتی ہے اور ہم بہتر صورتحال کی طرف بھی جاسکتے ہیں اور محسوس ہو رہا ہے کہ آئندہ آنے والے چند سالوں میں نئی جماعتیں جو دینی عنوان سے سامنے آئی ہیں، اگر وہ صحیح کام کریں تو اس مسائل کو حل کیا جاسکتا ہے اور ایک نکتے پر پہنچ سکتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: طالبان اور ان سے مذاکرات کے حوالے سے کیا کہیں گے۔؟
مولانا سید باقر زیدی: طالبان خود بخود وجود میں نہیں آئے، ماضی میں پاکستانی کی سکیورٹی ایجنسیز نے اسے کیسے اور کیوں وجود دیا، انکی کیا مصلحت تھی، آج وہ مصلحت باقی ہے یا بدل گئی ہے، طالبان میں لوگ ابھی بھی ان کے حامی ہیں، انکے کنٹرول میں ہیں یا ان کے کنٹرول سے نکل گئے ہیں یا ان کے اسلام و پاکستان دشمن طاقتوں نے اپنا ایجنٹ بنا لیا ہے، دہشتگردی، قتل و غارتگری کیلئے طالبان کو استعمال کرتے ہیں، بم دھماکے، خودکش حملے کرواتے ہیں، یہ ایک منظر نامہ ہے جس کے پیچھے عالمی ایجنڈا کیا ہے، مسلسل تجزیہ و تحلیل کرتے رہنا ہوگا۔ شاید عالمی ایجنڈا یہ رہا ہو کہ وہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو رول بیک کروانا چاہتے ہوں، پاکستان کے ٹکڑے کرنا چاہتے ہوں وغیرہ۔ 
اب یہاں جو محب وطن پاکستانی ہیں، جن میں سرفہرست ملت تشیع ہے جو یہ چاہتی ہے کہ پاکستان متحد رہے، پاکستان پر کوئی آنچ نہ آئے، ہم نے پاکستان بنایا تھا، اس کی بقاء و سلامتی کیلئے جنگل لڑ رہے ہیں۔ لہٰذا طالبان کو کسی بھی طرح سے کنٹرول کرنا چاہئیے، اس کیلئے ایک شدید آپریشن کرنا پڑے۔ مسئلہ یہ ہے کہ طالبان کے خلاف شدید آپرشن کون کرے گا، فوج جس نے طالبان کو پالا تھا، شاید آج بھی فوجی افسران کے ان سے روابط ہیں۔ دوسری جانب بعض علاقوں میں فوج نے کارروائیاں بھی کی ہیں۔ دیکھیں کسی بھی مسئلے کے حل کیلئے دو راستے ہوتے ہیں، سیاسی مذاکرات یا مسلحانہ کوشش، بہرحال ان سب سے اہم نکتہ پاکستانی سالمیت و بقاء ہے۔

اسلام ٹائمز: سانحہ مستونگ کے خلاف ملت تشیع پاکستان کی جانب سے دیئے گئے احتجاجی دھرنوں کے حوالے سے کیا کہیں گے۔؟
مولانا سید باقر زیدی: دیکھیں ہم مظلوم ہیں، ہمیں احتجاج کا حق ہے، جو لوگ دہشتگردی کر رہے ہیں انہیں آشکار کرنا ہماری ذمہ داری ہے، انکے خلاف آپریشن کا مطالبہ کرنا ہمارا حق ہے۔ ہم ملت تشیع دراصل پاکستان کی بقاء و سالمیت چاہتے ہیں، چاہے وہ کسی بھی طریقے سے ممکن ہو۔ دھرنا دینا مظلوم کی آواز کو پہنچانا ہے، وہ ہم ضرور پہنچائیں گے اور پہنچاتے رہیں گے۔ ہمارے مقاصد حاصل ہوں یا نہ ہوں، ہمیں آئمہ علیہم السلام نے جو تعلیمات دی ہیں، ضروری نہیں کہ ہمارا مقصد پورا ہو جائے، لیکن ہمارا کام اس مقصد کے حصول کیلئے ظلم کے خلاف میدان میں آنا ہے، ہم ایک زندہ قوم ہیں، ہمارا کام اپنے الٰہی نظریات پر ثابت قدم رہنا ہے، ہمارا سر کٹ جائے مگر جھکے نہیں، یہ اصل بات ہے۔

اسلام ٹائمز: پاکستان میں دہشتگرد تکفیری گروہ کیخلاف سنی شیعہ مسلمانوں کو کیا حکمت عملی اپنانا چاہئیے؟
مولانا سید باقر زیدی: سنی شیعہ مسلمانوں کے علماء و خواص کو اتحاد و وحدت کے ساتھ ایک عظیم اتحاد بنانا چاہئیے، اس اسلام و پاکستان دشمن تکفیری گروہ کے خلاف جو ملک میں پانچ فیصد بھی نہیں ہے۔ بات یہ ہے کہ پاکستان میں تکفیری گروہ منظم ہے اور اسے دہشتگردی کیلئے منظم کیا بھی گیا تھا جیسا کہ میں نے پہلے عرض بھی کیا اور اس تکفیری گروہ کو منظم کرنے والوں کے بارے میں بھی معلوم ہے کہ انہیں کس نے منظم کیا، کیوں کیا تھا اور ان کو عالمی استبداد نے اچک لیا ہے، جس میں سرفہرست امریکہ و سعودی عرب ہیں، سی آئی اے، موساد کی پالیسیوں کے تحت یہ تکفیری دنیا بھر میں اسلام کو بدنام کر رہے ہیں، دہشتگردی، قتل و غارتگری کر رہے ہیں۔ سنی شیعہ مسلمان اگر پاکستان میں متحد ہو جائیں تو یہ تکفیری گروہ خودبخود ناکام و نامراد ہو جائے گا۔ لہٰذا علماء و خواص کو آپس میں روابط کو مضبوط و منظم کرنا چاہئیے، اتحاد و وحدت کیلئے کوششیں مزید تیز کر دینی چاہئیے اور ایک مشترکہ مؤقف ان اسلام و پاکستان دشمن تکفیری دہشتگردوں کے مقابلے میں اپنانا چاہئیے اور اس پر عمل کرنا چاہئیے۔ اتحاد بین المسلمین کا نظریہ انتہائی اہم نظریہ ہے، جو کو پارہ پارہ کرکے عالمی استعمار اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے۔ لہٰذا اتحاد بین المسلمین کے ذریعے ہم دشمن کے 99 فیصد حملوں سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 345467
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش