2
0
Sunday 26 Jan 2014 22:18

اتحاد کا ثمر کامیابی، امید، حوصلہ اور دشمن کی مایوسی ہے، مولانا باقر عسکری

اتحاد کا ثمر کامیابی، امید، حوصلہ اور دشمن کی مایوسی ہے، مولانا باقر عسکری
جھنگ سے تعلق رکھنے والے مولانا باقر عسکری جامعہ بعثت سے فارغ التحصیل ہیں اور خواتین کے مدرسہ مدیر مسئول ہونے کیساتھ ساتھ امام جمعہ کے فرائض بھی سرانجام دے رہے ہیں۔ تدریس، تعلیم و تربیت اور تبلیغی سرگرمیوں کے علاوہ اتحاد بین المومنین اور اتحاد بین المسلمین کیلئے ہمہ وقت کوشاں رہنے والے بہترین قدرت الکلام کے مالک خطیب کا کہنا ہے کہ زمانہ طالب علمی میں آئی ایس او کے ماحول نے انکی شخصیت پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ اسلام ٹائمز کے ساتھ خصوصی بات چیت میں مختلف امور پر انہوں نے جو اظہار خیال کیا وہ حسب ذیل ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: آپ کے خیال میں جھنگ سے شروع ہونے والے فرقہ وارانہ تشدد کے کیا اسباب ہیں؟
مولانا باقر عسکری: پاکستان کے شیعہ سنی مسلمانوں کے درمیان تفرقہ انگیزی، ریاست کو کمزور کرنے اور ایک ناکام ریاست کے طور پر پیش کرنے کی سازش ہے۔ فرقہ وارانہ تشدد امریکہ اور اسرائیل کے ایماء پر ہو رہا ہے۔ بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ حکومتی ادارے اسکو روکنے میں کامیاب نہیں ہوئے بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ ادارے خود اس سازش کا حصہ ہیں۔ سیاستدان بلاتفریق نااہل اور مفاد پرست ہیں، جسکی وجہ سے دشمن کو اس کا موقع ملتا ہے کہ مذہبی منافرت کو ہوا دے۔ دشمن ہمارے اپنے افراد کو خرید کر اس چیز کو راسخ کرنا چاہتا ہے کہ مسلمان آپس میں لڑ رہے ہیں۔ اب تو نہ صرف میڈیا کے ذریعے بلکہ باقاعدہ ادارے بنا کر اس منصوبہ بندی کو کامیاب بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ دشمن دراصل مسلمانوں کی بیداری سے خوفزدہ ہے اور ہمیں الجھانا چاہتا ہے۔

اسلام ٹائمز: دشمن اگر سازش کے ذریعے مسلمانوں میں تفریق ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے تو اس کا تدارک کیسے ہو سکتا ہے؟
مولانا باقر عسکری: اس کی روک تھام اور مسلمانوں کے درمیان اتحاد کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ علماء اپنا کردار ادا کریں۔ اگر فقط علماء اور خواص کو ایک پلڑے میں رکھیں اور دوسرے میں عوام کو، تو خواص اور باحیثیت لوگوں کا وزن زیادہ ہو گا۔ اگر وہ اپنا کردار ادا کریں تو اسکا تدارک ممکن ہے۔ علماء اپنی اپنی جگہ پر عوام کو تلقین کریں کہ باہمی اختلافات کو بنیاد بنا کر تفرقہ میں نہ پڑیں، بلکہ تحمل اور برداشت سے کام لیں۔ دشمن کی عالمی سازش ہے جسکو ناکام بنانے کے لیے تمام مکاتب فکر کے علماء کا مشترکہ طور پر لائحہ عمل بنا کر اس سازش کو ناکام بنانا چاہیئے۔ یہ درست ہے کہ اسکا براہ راست ہدف کوئی ایک مسلک ہی ہو، لیکن یہ سمجھنا اور سمجھانا بہت اہم ہے کہ دشمن کی نگاہ میں کوئی ایک فرقہ ہدف نہیں بلکہ وہ شیعہ سنی دونوں مسالک کے خلاف ایک سازش کے طور پر پورے عالم اسلام کی طاقت کو توڑنے کے لیے فرقہ واریت کو ہوا دے رہا ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ اس دفعہ عید میلاد النبی کے جلوسوں میں شیعہ سنی اتحاد کا جو مظاہرہ ہوا ہے اسکی مثال بارش کے پہلے قطرے جیسی ہے۔ اگر اسی فضا کو برقرار رکھا جائے تو دشمن کی تمام سازشیں ناکام بنائی جا سکتی ہیں۔ اس موقع پر جو وحدت اور اتحاد کا منظر سامنے آیا ہے اسکی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ مشترکہ اجتماعات کی برکت سے دوریاں ختم ہو رہی ہیں اور نفرتیں مٹ رہی ہیں۔ میلاد النبی کی برکت سے اتحاد کی کوششیں اور کاوشیں اگر پہلے فقط خیال کی حد تک ذہنوں میں محدود تھیں تو وہ تھوڑی سے توجہ اور چارہ جوئی سے عملی ہو گئی ہیں۔ اس موقع پر ہم نے ثابت کیا ہے کہ مسلمان ایک ہیں اور دشمن کے تمام منصوبے ناکام بنائے جا سکتے ہیں۔ ابھی جب مستونگ میں زائرین کی بس پر حملہ کیا گیا اور ہم نے امامبارگاہ سے ایک احتجاجی جلوس نکالا، اس جلوس کے اختتام پر منہاج القرآن کے ذمہ داروں نے خود ہمارے پاس آ کر شکوہ کیا کہ آپ نے ہمیں احتجاجی پروگرام کا بتایا نہیں، احتجاج کے اس اچانک بنائے جانے والے پروگرام میں اہلسنت حضرات بھی دہشت گردی کیخلاف مظلوم ہزارہ برادری کے ساتھ تھے۔ اتحاد ہی میں پاکستان اور ملت پاکستان کی بقا ہے۔

اسلام ٹائمز: اہل تشیع خود گروہ در گروہ تقیسم ہیں تو کیسے دوسرے مسالک کو اتحاد کی دعوت دیں، آپ کیا کہیں گے اس حوالے سے؟
مولانا باقر عسکری: پاکستان کے اہل تشیع میں مختلف وجوہات کی بنا پر فکری اور گروہی اختلافات ہیں۔ لیکن ایک ایسی چیز ہے جس پر کسی کو کوئی اختلاف نہیں اور سب اس کے لیے ایک جان ہیں، وہ ہے عزاداری امام حسین علیہ السلام۔ اس نکتہ اتحاد کی کیا اہمیت ہے اور کس طرح بظاہر گروہوں میں منقسم نظر آنے والے شیعہ، امام حسین علیہ السلام کے نام اور آپ کے پیغام پر دل و جان سے ایک ہیں، اسکا عملی مظاہرہ دنیا نے راولپنڈی کے چہلم کے موقع پر دیکھا ہے۔ دشمن نے بھی دیکھا کہ شیعہ علماء کونسل، مجلس وحدت مسلمین، تحریک نفاذ فقہ جعفریہ سمیت تمام گروہ، عزاداری کے تحفظ کی خاطر جمع تھے۔ یہ بہترین مثال ہے جسکو سامنے رکھتے ہوئے تمام مسلمان اتحاد اور وحدت کی قوت کو سمجھ سکتے ہیں۔ میرے خیال میں اتحاد کے بےمثال مظاہرے کی وجہ سے ربیع الاول کے تمام پروگرام کامیابی سے ہمکنار ہوئے۔ یہ اتحاد کی برکات کو ہمیشہ کے لیے ملحوظ رکھنے کی بہترین مثال تھی۔ جب اہل تشیع اتحاد اور وحدت کی بات کرتے ہیں تو انہوں نے عزاداری کے صدقے میں اپنی جگہ اسکا عملی نمونہ بھی پیش کر دیا ہے کہ اختلافات خواہ کسی بھی نوعیت کے ہوں انکے باوجود، مسلمانوں کے درمیان اخوت کا رشتہ اور اتحاد کی فضا برقرار رہ سکتی ہے۔ جس طرح ہم نے عزاداری کے حوالے سے کسی دباو کو قبول نہیں کیا اور کوئی لچک نہیں دکھائی اسی طرح مسلمانوں کے مشترکہ دشمن کے مقابلے میں بھی کسی چیز کو خاطر میں نہیں لانا چاہیئے۔ تمام مسلمانوں کو یہ سمجھنا ہو گا کہ اتحاد کا ثمر یہ ہے کہ کامیابی ملتی ہے، امید پیدا ہوتی ہے، حوصلہ بڑھتا ہے، نفرتیں ختم ہوتی ہیں اور دشمن مایوس ہوتا ہے۔

اسلام ٹائمز: مولانا صاحب اتحاد کی اہمیت تو ظاہر اور ثابت ہے، اس کے باوجود کمی کس چیز کی ہے؟
مولانا باقر عسکری: میں نے جامعہ بعثت سے تعلیم حاصل کی اور مولانا مظہر کاظمی صاحب سے کسب فیض کیا ہے۔ ہمارے استاد حد درجہ خلیق اور متواضع ہیں، ایک چیز جو انکا وصف ہے اور انہوں نے ہمیں تلقین کی ہے وہ یہ ہے کہ جو بھی کوئی اچھا کام کرتا ہے اسکا ساتھ دیں اور منفی رویہ اختیار نہ کریں۔ میں سمجھتا ہوں فقط ایک سوچ کافی نہیں بلکہ شہید حسینی کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ اتحاد و اخوت کے فروغ کے لیے دشمن کی سازش کو ناکام بنانے کے عزم کے ساتھ اتحاد کا مزاج درکار ہے۔ یہ اسی نورانی مزاج اور قائد شہید علامہ عارف حسین حسینی کی نورانیت کا نتیجہ ہے کہ اتحاد کو فروغ دینے اور اسکے لیے عملی اقدام کرنے کی کوشش جاری ہے اور اس کے ثمرات بھی سامنے آ رہے ہیں۔

ایک لمبے عرصے کے بعد نئی قومی تنظیم (ایم ڈبلیو ایم) نے اخلاص کے ساتھ کوشش کی نئی امید پیدا ہوئی، ہم نے انکا ہمیشہ ساتھ دیا ہے۔ کسی بھی نئے یا پرانے کام یا کوشش کو مورد تنقید قرار دینا آسان ہے، لیکن اہم یہ ہے کہ ملک و ملت کی ترقی اور استحکام کے لیے ہونے والی کوششوں میں فعال اور متحرک عناصر کا ساتھ دیا جائے۔ اتحاد و اخوت کا یہ تقاضا ہے کہ اپنی اپنی جگہ پہ بغیر تفریق کے کام کرنے والے، خدمت انجام دینے والے تمام گروہوں کا ساتھ دیا جائے، نہ انکی مخالفت کی جائے۔

اسلام ٹائمز: عمومی طور پر یہ تاثر موجود ہے کہ مدارس سے فارغ التحصیل طلاب اجتماعی عمل کا حصہ نہیں بن پاتے بلکہ فقط نماز باجماعت اور تدریس تک ہی خدمات کا دائرہ محدود رکھتے ہیں، آپ کیا سمجھتے ہیں؟
مولانا باقر عسکری: یہ تاثر اس لیے پایا جاتا ہے کہ ہمارے مدارس میں کسی حد تک ماحول ہی ایسا ہے۔ لیکن جس ادارے سے مجھے تحصیلات کی تکمیل کا موقع نصیب ہوا، وہاں اس کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے کہ طلاب فقط نماز، نماز باجماعت اور دعائے خیر تک اسلام کے پیغام کو محدود نہ سجھیں بلکہ اجتماعی عمل کا حصہ بنیں اور معاشرے میں فعال کردار ادا کریں۔ میں سمجھتا ہوں کہ جامعہ بعثت کے ساتھ ساتھ زمانہ طالب علمی میں آئی ایس او نے یہ شعور عطا کیا کہ انفرادی اور ذاتی دائرے سے نکل کر ملت اور معاشرے کے لیے کوشش و کاوش کریں۔ مدارس کے نظام میں اس کی گنجائش موجود ہے کہ طلاب کی اجتماعی تربیت پر توجہ دی جا سکے۔ ایک طالب علم ہونے کے ناطے میری یہ رائے ہے کہ ملت کے نوجوانوں میں اجتماعی شعور بیدار کرنے میں جو کردار آئی ایس او کا ہے وہ شائد کسی ادارے کا نہیں۔ اس کا ایک حل یہ ہے کہ مدرسے اور یونیورسٹی کے درمیان رابطے کو فروغ دیا جائے۔ اس کا بہترین موقع آئی ایس او اور مدارس کے طلاب کا باہمی میل جول ہے۔ اب بھی اور اس سے پہلے بھی ہمارا رابطہ رہا ہے امامیہ طلبہ سے، اسکے بہت اچھے اثرات مرتب ہوئے ہیں، کالجز کے اسٹوڈنٹس پر بھی اور مدارس کے طلاب پر بھی۔ فیصل آباد، چینیوٹ، جھنگ، ڈی جی خان، مظفر گڑھ، لیہ اور سندھ تک ہم نے آئی ایس او کے پروگراموں میں شرکت کی ہے اور آج خود ہماری عملی زندگی میں اسکے بہت اچھے اثرات ہیں۔

اسلام ٹائمز: آپ خواتین کے ایک مدرسے کے مسئول ہیں، آپ کے نزدیک خواتین کی دینی تعلیم کی کیا اہمیت ہے؟
مولانا باقر عسکری: خواتین کا زندگی میں نہایت اہم کرادر ہے۔ انسان کی ابتدائی تربیت گاہ اس کی ماں کی گود ہے، اگر یہی ماں تربیت یافتہ ہو تو یقینی طور پر اس کی گود میں پرورش پانے والا بچہ اچھے تربیتی ماحول سے فیضیاب ہوگا۔ اس سلسلہ میں جامعہ بعثت کا کردار بہت اہم ہے۔ بعثت اور بعثت سے مربوط مدارس میں خواتین کی دینی تعلیم اور دینی تربیت پر خاص توجہ دی گئی ہے۔ عورت کی تربیت کا مطلب پورے خاندان کی تربیت ہے اس لیے مدارس کی گنجائش سے زیادہ، تبلیغات کے ذریعے خواتین کو دین کی طرف راغب کرنے اور انہیں اجتماعی شعور دینے کی مسلسل کوششیں جاری ہیں۔ خود ہمارے مدرسے کی بنیاد 2007ء میں رکھی گئی۔ مدرسے میں طالبات کی تعداد بچاس تک ہے، جنکے دو بیجز فارغ ہو چکے ہیں۔ یہاں نہ صرف نحو اور صرف کی تعلیمی نصاب مکمل کروایا جاتا ہے بلکہ قرآن مجید، نہج البلاغہ، صحیفہ کاملا، آداب زندگی اور خانوادگی امور کی اسلامی تربیت کا اہتمام ہے۔ اسی طرح خواتین کی تربیت کے پیش نظر ہماری فارغ التحصیل طالبات تبلیغات کے لیے مختلف جگہوں پر جاتی ہیں، جسکے بہت اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ لوگوں میں دینی تعلیم کیطرف رجحان میں اضافہ ہوتا ہے۔ وہ خود آ کر خواہش ظاہر کرتے ہیں کہ ہماری بچیوں کو مدرسے میں داخلہ دیں تا کہ یہ علم دین سے مزین ہوں۔

اسلام ٹائمز: اجتماعی زندگی میں خواتین کا کردار بھی بہت اہم ہے، اجتماعی تربیت کے حوالے سے آپ کے تربیتی عمل میں کیا اہتمام ہے؟
مولانا باقر عسکری: اس حوالے سے ہر مدرسے میں مختلف مقابلہ جات کروائے جاتے ہیں اور طالبات کو معاشرے میں تبلیغ کے لیے مختلف علاقوں میں روانہ کیا جاتا ہے، جہاں انکی عملی تربیت ہوتی ہے۔ مشکلات بھی ہوتی ہیں لیکن ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اگر والدین اپنی بچیوں کی عفت اور عزت کو ہمیشہ کے لیے محفوظ رکھنا چاہتے ہیں تو انہیں دینی تعلیم سے آراستہ کریں۔ خواتین کی تربیت کے لیے بہترین عمر پرائمری سے میٹرک تک کی عمر ہے، جس عمر میں انکی ذاتی اور اجتماعی تربیت آسان بھی ہے اور دیرپا بھی ہے۔ ہمیں ذہن نشین رکھنا چاہیئے کہ دنیا کی تاریخ مرد اور عورت دونوں کے کردار سے مکمل ہوئی ہے۔ اس وقت مسلمان معاشروں کو دشمن کی ثقافتی یلغار کا سامنا ہے اسکے اثرات کو زائل کرنے میں سب سے زیادہ کردار خواتین کا ہے۔ عورت کی اجتماعی ذمہ داریوں کا تقاضا ہے کہ وہ تربیت یافتہ ہو اور دشمن کے ثقافتی حملوں کا جواب دینے کے قابل ہو۔ جامعہ بعثت سے مربوط تمام مدارس سال میں ایک دفعہ کنونشن میں جمع ہوتے ہیں جہاں مختلف علاقوں کے مدارس کے طلاب اور طالبات الگ الگ ایک دوسرے کے ساتھ اکٹھے ہو کر ایک دوسرے کے مسائل اور ماحول سے آشنا ہوتے ہیں اور تبلیغات اور تعلیم و تربیت کے تجربات ایک دوسرے کو منتقل کرتے ہیں جس کا بہت اچھا اثر انکی شخصیت کے اجتماعی پہلو پر پڑتا ہے۔

اسلام ٹائمز: بحیثیت امام جمعہ آپ بتایئے کہ نماز جمعہ کا اجتماعی کرادر کتنا اہم ہے؟
مولانا باقر عسکری: دین اسلام کی تعلیمات اور سیرت اہلبیت علیہم السلام میں جمعے کی اہمیت روشن ہے۔ یہ معاشرے کو زندہ رکھنے، بے راہ روی، لادینیت، اور دشمنان اسلام کی سازشوں سے بچانے کا بہترین پلیٹ فارم ہے۔ مسلمانوں کی اجتماعی مشکلات کو سمجھانے اور انکا حل تلاش کرنے کے سلسلے میں جمعے کے اجتماع کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔
خبر کا کوڈ : 345072
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

اللہ تعالٰی ایسے با حوصلہ خادمین ملت کی توفیقات میں اضافہ فرمائے۔ (آمین)
جزاک اللہ۔ خدا جامعہ بعثت اور ان کے جوانوں کو سلامت رکھے، جو پاکستان میں اپنا بھترین کردار ادا کر رھے ھیں۔
ہماری پیشکش