0
Monday 8 Dec 2014 01:44

گلگت بلتستان کا الیکشن اہلیت، قابلیت اور اپنی تاریخ کی بنیاد پر لڑینگے، ناصر عباس شیرازی

گلگت بلتستان کا الیکشن اہلیت، قابلیت اور اپنی تاریخ کی بنیاد پر لڑینگے، ناصر عباس شیرازی
سید ناصر عباس شیرازی ایم ڈبلیو ایم پاکستان کے مرکزی سیکرٹری سیاسیات ہیں۔ پیشہ کے اعتباز سے قانون دان ہیں۔ تنظیمی کیریئر کا آغاز امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے پلیٹ فارم سے کیا۔ سرگودھا ڈویژن کے صدر رہے، بعد ازاں مرکزی صدر بھی منتخب ہوئے اور طلباء حقوق کے لئے نمایاں خدمات سرانجام دیں۔ طلباء تنظیموں کے درمیان تعلقات کو فروغ دیا، تعلیمی اداروں میں مار دھاڑ کی سیاست کی حوصلہ شکنی کی اور طلباء تنظیموں کو ‘‘جیو اور جینے دو’’ کے اصول پر متحد کیا۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی سیاسی کامیابیوں کا سہرا بھی ناصر شیرازی کے ہی سر ہے۔ بھکر کے حالیہ ضمنی الیکشن اور آئندہ گلگت بلستان کے انتخابات میں ایم ڈبلیو ایم کی پالیسی سمیت ایران میں ہونے والی تکفیریت کے خلاف عالمی کانفرنس سے متعلق ایک انٹرویو کیا ہے، جو پیش خدمت ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: بھکر الیکشن میں احمد نواز نوانی فقط 600 ووٹوں سے ہار گیا، کہا جا رہا ہے کہ اگر ایم ڈبلیو ایم پاکستان عوامی تحریک کا ساتھ نہ دیتی تو یقیناً ایک شیعہ امیدوار الیکشن جیت جاتا، یہ کیسی حکمت عملی ہے کہ آپ لوگ ایک شیعہ امیدوار کی شکست کا باعث بن رہے ہیں۔ اگر یہی حکمت عملی جاری رہی تو آئندہ دیگر حلقوں کا کیا منظر نامہ بنے گا۔؟
ناصر عباس شیرازی: سب پہلے تو اسلام ٹائمز کا شکر گزار ہوں کہ آپ لوگوں نے مجھے موقع دیا ہے کہ میں اس موضوع پر بات کرسکوں اور اپنا نکتہ نظر عوام تک منتقل کر سکوں۔ اگر مجلس وحدت مسلمین کی پالیسی کی بات ہے تو یاد رکھیں کہ گذشتہ الیکشن یعنی 2013ء کے انتخابات میں ایم ڈبلیو ایم نے اس حلقے میں براہ راست اپنا امیدوار کھڑا کیا۔ ان میں یہ حلقہ یعنی پی پی 48 اور قومی اسمبلی کا حلقہ شامل تھا لیکن اس صوبائی حلقے میں کیونکہ شیعہ امیدوار کھڑا تھا اس لئے ایم ڈبلیو ایم نے لوکل انڈرسٹینڈنگ کی اور اپنا امیدوار اس حلقے سے بٹھا دیا اور صرف قومی اسمبلی کے حلقے سے اپنے امیدوار احسان اللہ خان کو کھڑا کیا۔ وہ بھی اس لئے کہ اس حلقے میں کوئی معقول شیعہ امیدوار نہیں کھڑا تھا۔ یہ یاد رہے کہ پی پی 48 سے گذشتہ الیکشن میں ایم ڈبلیو ایم نے اپنا امیدوار کھڑا کرکے بٹھایا تھا، لیکن اس کی کچھ شرائط تھیں۔ 2013ء کے الیکشن سے قبل ہم نے بھکر کے ایک مقامی ہوٹل میں ایک کانفرنس بلائی تھی جس میں حمید اللہ خان نوانی سمیت ان کی فیملی کے دیگر احباب موجود تھے، وہاں ہم نے اپنی پالیسی بیان کی تھی اور کہا تھا کہ یہ درست ہے کہ اس مرحلے پر ہم شیعہ امیدوار کے مقابلے میں اپنا امیدوار کھڑا نہیں کرینگے، لیکن اس کے ساتھ ہی تین شرائط بھی بیان کی تھیں کہ ہر وہ امیدوار جس کی حمایت کا ہم اعلان کریں گے یا اس کے حق میں اپنا امیدوار کھڑا نہیں کرینگے، وہ امیدوار اپنے حلقے میں بھی مکتب اہل بیت کا دفاع کریں گے اور اسی طرح وہ اپنی پارٹی اور اسمبلی میں بھی مکتب اہل بیت کا دفاع کریں گے۔

ہم نے واضح
کیا تھا کہ اگر کوئی امیدوار یہ تینوں کام نہیں کرتا، یعنی وہ حلقے کی سطح پر، پارٹی کی سطح پر اور اسمبلی میں شیعہ اصولوں کا دفاع نہیں کرتا اور شیعہ حقوق کی بات نہیں کرتا تو پھر اسے کوئی حق نہیں ہے کہ وہ شیعوں کی نمائندگی کرے یا شیعوں سے ووٹ لے۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ وہ ووٹ شیعہ ہونے کی وجہ سے مانگے لیکن جب شیعوں کا ساتھ دینے کی بات آئے تو وہ اس جماعت کے ساتھ کھڑا ہو جو تکفیریوں کی سب سے بڑی حامی ہو اور وہاں کوئی آواز تک نہ اٹھائے۔ لٰہذا یہ جو ایک سال گزرا ہے اس میں بھکر کی سرزمین پر کئی واقعات ہوئے ہیں، جن میں سے کوٹلہ جام کا ایک بڑا واقعہ ہے، اس کے علاوہ وہاں ریاستی دہشتگردی کی انتہاء ہوئی ہے، اس کے علاوہ مجلس وحدت مسلمین کی تمام لیڈر شپ پر وہاں داخلے پر پابندی لگا دی گئی، حتیٰ علامہ ناصر عباس جعفری سے لیکر علامہ امین شہیدی، مولانا عبدالخالق اسدی اور مولانا اصغر عسکری سمیت دیگر تمام دوستوں پر بھکر داخلے پر پابندی لگا دی گئی۔

مجلس وحدت مسلمین کے مقامی عہدیداروں کو قید و بند کیا گیا اور انہیں جیلوں میں جانا پڑا۔ انہیں بےگناہ مختلف ٹارچر سیلوں میں رکھا گیا اور کہا گیا کہ آپ مجلس وحدت مسلمین چھوڑ دیں۔ اسی طرح تقریباً 150 افراد کو شیڈول فور میں ڈال دیا گیا اور سینکڑوں لوگوں کو اب بھی انسداد دہشتگردی کی عدالت میں سرگودھا میں پیش ہونا پڑتا ہے۔ اسی طرح ہمارے امیدوار احسان اللہ خان جس نے اپنے حلقے میں شیعہ ووٹ قائم کرنے اور وہاں ایک شیعہ جماعت کو کھڑا کرنے کی کوشش کی ہے انہیں جیل میں ڈال دیا گیا، ایک کیس سے فارغ ہوتے تھے تو دوسرے کیس میں ڈال دیا جاتا تھا۔ اسی حلقے میں اگر ہماری کوئی واحد امید تھی تو وہ نوانی برادران تھے لیکن انہوں نے کوئی رسپانس نہیں دیا، ہمارے سیاسی شعبے نے ان سے رابطہ کیا، حتیٰ ان کی ذاتی مشکلات میں ان سے رابطہ کیا، جب ان نوانی برادران کے ڈاکٹر پر حملہ ہوا تھا تو ہمارا ایک وفد ان کے پاس گیا اور میں نے خود ان سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا اور ان کے ساتھ کھڑے ہوئے۔ جب عدالت نے ان کیخلاف فیصلہ دیا تب بھی ہم نے پوری کوشش کی اور مختلف جگہوں پر رابطہ کرکے اس فیصلے کو واپس لینے کیلئے اپنی بھرپور کوشش کی۔

ہم ہر محاذ پر ان کے ساتھ کھڑے ہوئے لیکن جب ہمارے لوگوں کو مسائل پیش آرہے تھے اور انتظامیہ کی جانب سے بےگناہ افراد کو پکڑا جا رہا تھا اور ٹارچر سیلوں میں رکھا جا رہا تھا تو اس وقت باوجود ہمارے رابطہ کرنے کے، انہوں نے کوئی رسپانس نہیں دیا اور کوئی تعاون نہیں کیا۔ انہوں نے تشیع کے دفاع کیلئے کوئی ایک قدم نہیں بڑھایا، اس کا واضح ثبوت ہمارے اکابرین پر لگی پاپندی ہے، اس کا واضح ثبوت وہ سینکڑوں بےگناہ لوگ ہیں جو انسداد دہشتگردی کی عدالت میں کسیز بھگت رہے ہیں، جن میں اکثریت بےگناہ ہے۔ اسی طرح اس کا واضح ثبوت وہاں پر لوگوں کا شیڈول فور میں ہونا ہے۔ اتنے بڑے مسائل میں اس سیاسی خاندان
کا وہاں پر ایک رول بنتا تھا جو انہوں نے ادا نہیں کیا اور حکومت وقت کو سپورٹ کیا۔ ابھی نون لیگ کی اس حلقے میں کیا حکمت عملی تھی، انہوں نے اعلان کیا تھا کہ نوانی یا نیازی امیدوار میں سے جو جیتے گا اس کو پارٹی میں قبول کیا جائیگا۔ اس وجہ سے دونوں میں سے کسی بھی امیدوار کو ٹکٹ جاری نہیں ہوا تھا۔

اب میرا آپ سے سوال ہے کہ وہ بڑے تکفیری ہیں جو بھکر کی سرزمین پر کام کر رہے ہیں یا وہ بڑے تکفیری ہیں جو ملکی سطح پر کام کر رہے ہیں۔؟ یہ بھی آپ کے ذہن میں رہے کہ یہ سیٹ نوانی خاندان نے خالی نہیں کی بلکہ نیازی نے خاندان کی ہے۔ لٰہذا ہمارے خلاف جو تکفیری گروہ تھا وہ پہلے سے ہی حکومت میں موجود تھا، تشیع کو نشانہ بنانے کا جو کام تھا وہ ہو رہا تھا وہ رکا تھوڑا ہی تھا۔ اس سے زیادہ تکفیری ہمارے خلاف اور کیا کرسکتے ہیں۔؟ اس سے زیادہ وہ کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ اس سے پہلے شیعہ اکیلے تھے، اس سیاسی موومنٹ کے نتیجے میں شیعہ سنی اکٹھے چلے ہیں، پورے خطے میں ایک موومنٹ ہوئی ہے اور ایک بڑی سطح پر ایک تحرک آیا ہے اور اس تحرک کے نتیجے میں جو چیز جیت گئی ہے اور آپ الیکشن ہار گئے ہیں، پی پی 48 سے آپ کے علم میں لانا چاہتا ہوں کہ مجلس نے کوئی اپنا امیدوار کھڑا نہیں کیا اور کسی دوسرے یعنی سنی امیدوار کی حمایت نہیں کی ہے، مجلس نے ایک شیعہ امیدوار کی حمایت کی ہے۔ اصولی طور پر ہماری حکمت عملی کے مطابق اگر کوئی سنی امیدوار جو تمام تر شرائط پر پورا اترتا ہو، اس کی حمایت کی جاسکتی ہے۔

ہم نے پاکستان عوامی تحریک کے امیدوار کی حمایت کی ہے جو مکتب اہل بیت سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ وہ شخص ہے جس کے خاندان میں شہداء ہیں، شہید غضنفر عباس کہاوڑ اسی خاندان سے تعلق رکھتا تھا جسے شہید کر دیا گیا تھا۔ مجلس نے اس خطے میں شیعہ سنی وحدت کو پروان چڑھایا ہے جو ہمیں لانگ ٹرم فائدہ دیگی اور ملکی سطح پر اس کا فائدہ ہوگا۔ نقصان اس لئے نہیں ہوگا کہ کیونکہ یہ سیٹ پہلے بھی اسی خاندان کے پاس تھی جو دل کے عارضہ میں مبتلا ہونے کے باعث وہ ایم پی اے صاحب فوت ہوگئے اب وہ سیٹ دوبارہ اسی خاندان کے دوسرے فرد کے پاس چلی گئی ہے۔ یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ ہم نوانیوں کے مخالف نہیں ہیں، سیاست میں دشمنی نہیں ہوا کرتی، اگر نوانی آج بھی اپنی اصلاح کرلیں تو ہم انہیں اپنے دلوں میں اور اپنے امور میں جگہ دینے کیلئے تیار ہیں۔ لٰہذا نوانیوں کو ثابت کرنا ہوگا کہ وہ مسلم لیگ نون کے نہیں ہیں، انہیں ثابت کرنا ہوگا کہ وہ خطے میں مکتب اہل بیت کے دفاع میں اپنا کردار ادا کریں گے، انہیں ثابت کرنا ہوگا کہ وہ اسمبلی میں بھی اور پارٹی میں بھی تشیع کا دفاع کریں گے۔

اب میں ایک سوال اٹھانا چاہتا ہوں کہ کیا یہ وہی نوانی نہیں ہیں جنہوں نے اپنی سیٹ خالی کرکے شہباز شریف کی جھولی میں ڈال دی اور انہیں بلامقابلہ الیکشن جتوایا۔ کیا یہ درست نہیں کہ اسی شہباز شریف کا وزیر قانون رانا ثناءاللہ ایک
حلقے کے فاصلے پر دہشتگردوں کی ریلی کو لیڈ کرتا رہا ہے اور تکفیروں کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر شیعہ کافر کے نعرے لگواتا رہا۔ کیا ان برادران کا حق نہیں بنتا تھا کہ اس موضوع پر اسمبلی کی سطح پر اور پارٹی کی سطح پر اس موضوع پر اسٹنڈ لیتے۔؟ کیا مکتب اہل بیت سے تعلق رکھنے کی بنیاد پر ان کی کم سے کم یہ ذمہ داری نہیں بنتی تھی کہ یہ اس موضوع پر اسٹینڈ لیتے۔ اس پارٹی کا بائیکاٹ کرتے جس پارٹی کا وزیر قانون کالعدم جماعت کی ریلی میں شیعہ کافر کے نعرے لگاتا ہے۔ جس پارٹی میں تکفیروں کو پورے پاکستان میں پشت پناہی کرنا معمول بن گیا ہو۔ جس پارٹی میں ہمارے قاتلوں سے اعلانیہ مذاکرات کئے جاتے ہیں۔ ان سارے معاملات پر ان نوانیوں کا کوئی ایک بیان دکھائیں جو کسی مقامی یا قومی اخبار میں چھپا ہو۔؟ جس میں تکفیریوں کی حمایت سے لیکر دہشتگردوں کی رہائی تک انہوں نے کوئی ایک بیان جاری کیا ہو اور اس پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہو۔

اس بات کو مانتا ہوں کہ کم وسائل اور وہ مسائل جو گذشتہ ایک سال سے ہمیں درپیش تھے، جو میں بیان کرچکا ہوں، اس کی وجہ سے اس حلقے میں اس طرح کام نہیں کرسکے جس کی وجہ سے ہمیں وہ ووٹ نہیں پڑے جو پڑنے چاہیئں تھے۔ لیکن جو چیز اس حلقے میں جیتی ہے وہ شیعہ سنی وحدت ہے، جو چیز اس حلقے میں ہاری ہے وہ تکفیریت ہے۔ یہ دو تین سال کا معاملہ نہیں ہے، آج ہم اس خطے میں اپنے اتحادیوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اہل سنت ہمارے ساتھ ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر کھڑے ہیں، تکفیری تنہا ہوگئے ہیں۔ وہ حساس علاقہ جہاں گذشتہ ایک سال کے دوران درجنوں لوگ مارے جاچکے ہیں، وہاں اب شیعہ سنی ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر کھڑے ہیں، وہاں شیعہ سنی وحدت کا ماحول بنا ہے، جسے ہم لیکر آگے چلیں گے۔ یہ ماحول نوانی برادران پیدا نہیں کرسکتے تھے جو مجلس وحدت مسلمین نے بنایا ہے۔

اسلام ٹائمز: گلگت بلتستان اسمبلی کے الیکشن آنیوالے ہیں، آپکی حکمت عملی کیا ہوگی، کیونکہ ممکن ہے کہ تحریک جعفریہ یا اسلامی تحریک بھی اپنے تشخص کے ساتھ الیکشن میں وارد ہو، ایسی صورت میں آپ لوگ جنہوں نے گلگت بلتستان اسمبلی کا الیکشن بھرپور انداز میں لڑنے کا اعلان کیا ہوا ہے، اس نازک خطے میں آپکی پالیسی کیا ہوگی۔؟
ناصر عباس شیرازی: اس علاقے میں تین پارٹیاں الیکشن میں بھرپور کامیابی حاصل کرنے کے بعد حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی ہیں، جن میں پیپلزپارٹی، تحریک جعفریہ اور مسلم لیگ نون شامل ہیں۔ یہ گیند عوام کے کورٹ میں ہے کہ وہ کارکردگی کی بنیاد پر ان پارٹیوں کو جانچیں کہ پیپلزپارٹی کی کارکردگی کیا رہی اور اسی طرح دیگر جماعتوں نے خطے کی خوشحالی کیلئے کیا رول ادا کیا۔ کیا جو وعدے الیکشن میں ان سے کیے گئے تھے وہ پورے ہوئے؟، کیا وہ انہیں کچھ دینے میں کامیاب رہے اور کیا وہ عوام کی مشکلات حل کرسکے۔ یہ عوام کی دلی تمنا ہے کہ اب وہ ان کو آزمائے جو ابھی آزمائے نہیں گئے، عوام چاہتے ہیں کہ اب ان
کو آزمایا جائے جو زیر سوال نہ رہے ہوں۔ کوئی ایسا ہو جس نے ان کی ہر مشکل میں ان کا ساتھ دیا ہو، جو ان کے ساتھ کھڑا ہوا ہو، کوئی ایسا جو شیعہ سنی وحدت کو پیدا کرے اور تکفیرت کو ختم کرکے شیعہ سنی اتحاد کو پروان چڑھائے۔ کوئی ایسا جو بلاتفریق اس خطے کے مفادات کا تحفظ کرسکے اور بلاتفریق عوام کی خدمت کرسکے۔

کوئی ایسی جماعت جو اس خطے کے حوالے سے 15 سے 20 سال تک کا پلان رکھتی ہو اور کوئی ویژن رکھتی ہو۔ کوئی ایسا جو اس خطے کے وسائل سے اس خطے کے عوام کو بہرہ ور کرسکے، اس خطے کے مظلوم اور محکوم عوام کی خدمت کرسکے، میرے خیال میں اس الیکشن میں بات ایجنڈے پر کی جائیگی۔ مجلس وحدت مسلمین ایک موثر ایجنڈے اور موثر پروگرام کے تحت میدان میں آئے گی، اس الیکشن میں ایجنڈے، پروگرام اور تاریخ کی جنگ ہوگی جو آپ عوام کے سامنے رکھیں گے۔ گلگت بلتستان کے عوام باشعور ہوچکے ہیں، انہوں نے مسلم لیگ نون اور پیپلزپارٹی سمیت دیگر جماعتوں کا چہرہ دیکھا ہوا ہے، وہ ان کو آزما چکے ہیں، انہوں نے مشکل حالات میں تمام جماعتوں کا چہرہ دیکھا ہے کہ کون ان کے حقوق کیلئے میدان میں کھڑا رہا ہے۔ اس وقت عوام کیلئے جو بڑا انتخاب ہے وہ مجلس وحدت مسلمین ہے، ہم اپنے اندر پائی جانے والی کمزوریوں کو بھی دور کریں گے، اور کوشش کریں گے کہ اپنا ایجنڈا اور اپنا پروگرام خطے کے عوام کے سامنے پیش کرسکیں۔ ہمارے لئے اس وقت توجہ کا مرکز گلگت بلتستان ہے۔

اسلام ٹائمز: تحریک جعفریہ پاکستان بھی الیکشن میں کھڑی ہوتی ہے تو پھر شیعہ ووٹ تو تقسیم ہوجائیگا۔؟
ناصر عباس شیرازی: دیکھیں ہم فرقہ وارانہ بنیاد پر ووٹ نہیں مانگیں گے، ہم اہلیت، قابلیت، صلاحیت اور اپنی تاریخ کی بنیاد پر ووٹ مانگیں گے، ہم عوام سے سوال کریں گے کہ کیا ہم نے سانحہ چلاس میں آپ کا ساتھ چھوڑا؟، کیا سانحہ بابو سر میں آپ کا ساتھ چھوڑا؟، کیا ملک بھر میں ہونے والی ٹارگٹ کلنگ میں آپ کے ساتھ کھڑے نہیں ہوئے، کیا ہم نے شیعہ سنی وحدت کیلئے کام نہیں کیا، کیا ہم نے گندم کی سبسڈی پر پورے پاکستان کی سیاسی جماعتوں کا اتحاد بنا کر گلگت بلتسان کے عوام کی سپورٹ نہیں کی اور انہیں ان کا حق نہیں دلایا اور اس وقت تک پیچھے نہیں ہٹے جب تک کہ حکومت نے گھٹنے نہیں ٹیکے۔ انشاءاللہ یہ چیزیں اس الیکشن میں فیصلہ کن کردار ادا کریں گی۔ ہم نے اس بار جو گلگت بلتستان کے عوام کی رائے دیکھی ہے، انشاءاللہ اس الیکشن کا نتیجہ ان اصولوں کی بنیاد پر آئے گا، انشاءاللہ وہ شخصیتوں کے غلام نہیں بنیں گے اور نہ ہی جذباتی نعروں کے زیراثر آکر ووٹ دیں گے۔ پھر کہتا ہوں کہ اس بار الیکشن اہلیت، لیاقت، قابلیت، صلاحیت اور تاریخ کی بنیاد پر لڑا جائیگا۔ ہر جماعت کا ٹریک ریکارڈ سامنے آئیگا۔

اسلام ٹائمز: تکفیریت کیخلاف ایران میں ہونیوالی عالمی کانفرنس میں آپ بھی شریک ہوئے، اس کے اغراض و مقاصد کیا تھے اور کس حد شرکت رہی۔ اس کانفرنس
کے نتائج کیا دیکھ رہے ہیں۔؟
ناصر عباس شیرازی: مجھے یہ سعادت نصیب ہوئی کہ میں بھی اس وفد کا حصہ تھا جو علامہ ناصر عباس جعفری کی زیرقیادت اس کانفرنس میں شریک ہوا۔ اس کانفرنس میں 80 سے زائد ممالک شریک تھے جن میں افریقی ممالک بھی شامل ہیں، ایران میں اپنی نوعیت کی یہ پہلی کانفرنس تھی جس میں تکفریت کو موضوع بنایا گیا تھا۔ یہ پہلا اوپنر تھا جس کے بعد کانفرنسز کی چین چلے گی۔ پوری دنیا میں اس طرح کی کانفرنسز منعقد ہوں گی اور سرگرمیاں شروع ہوں گی۔ اس کانفرنس میں اہم موضوع اہل سنت حضرات تھے، عراق و شام میں سب سے زیادہ جو تکفریت کے باعث متاثر ہوئے ہیں وہ اہل سنت حضرات ہیں، لٰہذا انہیں طاقتور بنانا ہے اور انہیں ان کی ذمہ داریوں کا احساس دلانا اہم موضوع تھا۔ اگر اہل سنت حضرات تکفریت کے خلاف کھڑے ہوتے ہیں تو ان کے مقدس مزارات بچیں گے، ان کی مقدس ہسیتیاں اور صوفی حضرات بچیں گے، اگر اسٹنڈ نہیں لیں گے تو یہ عفریت سب کو اپنا نشانہ بنائے گا۔ اس لحاظ یہ پروگرام ایک مثالی پروگرام رہا۔ یہاں ایک چیز واضح کروں کہ علامہ ناصر عباس جعفری کیونکہ بھکر پروگرام میں مصروفیات کے باعث پہلے دن شریک نہیں ہوسکے تھے، اس لئے پاکستان سے ملت تشیع کی نمائندگی مجلس وحدت مسلمین کی جانب سے علامہ محمد امین شہیدی نے کی اور ایک بڑے پلیٹ فارم سے خطاب کیا۔ انشاءاللہ اس کام کو ہم پاکستان کی سطح پر آگے بڑھائیں گے اور پاکستان میں شیعہ سنی وحدت کو پروان چڑھائیں گے اور تکفیرت کے مقابلے میں ایک آہنی دیوار بنیں گے۔

اسلام ٹائمز: حکومت کیخلاف چلنے والی تحریک کا کیا بنا اور اب کیا دیکھتے ہیں۔؟
ناصر عباس شیرازی: اس حکومت کے بارے میں پہلے بھی مثال دیتا ہوں اور اب آپ کے سامنے وہ مثال پیش کرتا ہوں کہ اس حکومت کی مثال سیلاب میں گھری ان عمارتوں جیسی ہے جو سیلاب کے پانی میں گھر گئی ہیں، جن میں کوئی پناہ نہیں لیتا، ان میں کوئی رہائش نہیں رکھتا، کوئی اس عمارت کو محفوظ پناہ گاہ تصور نہیں کرتا، پی ایم ایل این کی حکومت اب ایسے بن چکی ہے۔ عوامی جدوجہد کے بعد یہ حکومت بھی اتنی ہی کمزور ہوچکی ہے جتنی سیلاب سے گھری عمارتیں ہوا کرتی ہیں۔ فقط ایک سال کے اندر اپنے زوال کو کوئی حکومت نہیں چھو سکتی ہے جتنا اس حکومت نے چھوا ہے۔ بلآخر انہوں نے عوامی طاقت کے سامنے سرنڈر کیا ہے، جو تیل کی قیمتوں میں ریلیف مل رہا ہے یہ عوامی طاقت اور جدوجہد کا ہی نتیجہ ہے۔ دنیا میں 35 فی صد تیل کی قیمتیں کم ہوئی ہیں لیکن اس کے اثرات پاکستان میں اس طرح نہیں پہنچے جس طرح پہنچنے چاہیئے تھے۔ یہ تحریک کمزور نہیں ہوئی بلکہ اور بڑھی ہے، اب یہ تحریک شہروں میں پھیل رہی ہے۔ مجلس وحدت مسلمین اپنی اتحادی جماعتوں اور پی ٹی آئی کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کر رہی ہے۔ یہ تحریک بڑھ رہی ہے رکی نہیں۔ ہم اس جدوجہد کو جاری رکھے ہوئے ہیں اور یوں اصلاحات کا ایجنڈا بھی آگے بڑھ رہا ہے۔
خبر کا کوڈ : 424094
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش