0
Friday 3 Aug 2018 01:18
پاکستان مخالف عناصر اور گریٹ گیم کی نئی استعماری پیش قدمی کا ادراک ضروری ہے

دھاندلی کا واویلا کرنیوالوں اور عالمی سطح پر پاکستان کیخلاف تنقید کرنیوالوں کا ایجنڈا ایک ہی ہے، علی اصغر لہڑی

دہشتگردی ملک میں عدم استحکام اور افراتفری پیدا کرنیکا ایک مربوط پلان ہے
دھاندلی کا واویلا کرنیوالوں اور عالمی سطح پر پاکستان کیخلاف تنقید کرنیوالوں کا ایجنڈا ایک ہی ہے، علی اصغر لہڑی
پاکستان تحریک انصاف سرگودہا کے رہنماء غلام علی اصغر خان لہڑی موجودہ انتخابات میں پی پی 80 سے پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ہیں۔ انہوں نے 2013ء میں آزاد حیثت میں الیکشن میں حصہ لیا تھا، لیکن کامیابی حاصل نہیں کرسکے۔ اپنی ملنساری اور عوامی انداز کیوجہ سے بے حد مقبول ہیں، موجودہ سیاسی صورتحال اور پی ٹی آئی کی آئندہ حکمت عملی کے متعلق ان کیساتھ اسلام ٹائمز کا انٹرویو قارئیں کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: اگر اپوزیشن نے دھاندلی سے متعلق مہم چلائی تو تحریک ابھر سکتی ہے، پی ٹی آئی کیا حکمت عملی اپنائے گی۔؟
غلام علی اصغر لہڑی:
اپوزیشن کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، جمہوریت کا اہم تقاضا ہے، مثبت تنقید سے میڈیا کے ذریعے حکومت کو بھی لائن ملتی ہے، یہ حکومت کیلئے بھی اچھا ہوتا ہے۔ لیکن جو لوگ دھاندلی کا شور مچا رہے ہیں، یہ اب مایوس ہوچکے ہیں، ہارے ہوئے اور شکست خوردہ عناصر فرسٹریشن کا اظہار کر رہے ہیں، یہ غیر جمہوری طرز عمل ہے، جو ملک کے لئے خوش آئند نہیں، یہ اتنے فراخدل نہیں کہ اپنی شکست تسلیم کریں، ان کی اصلیت بہت جلد سامنے آنیوالی ہے، یہ پہلے بھی الیکشن میں بے نقاب ہوچکے ہیں، پاکستانی عوام نے انہیں ایک دم مسترد کر دیا ہے۔ بظاہر جو پارٹیز متحد نظر آرہی ہین، ان کے دل جدا جدا ہیں، انہوں نے تحریک کیا چلانی ہے، یہ خود اکٹھے نہیں رہ سکتے، پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلی بار نہیں ہوا کہ جنہیں انتخابات میں عبرتناک شکست ہوئی ہے، وہ احتجاج کی دھمکی نہ دے رہے ہوں۔ نئی حکومت یا پی ٹی آئی کا لائحہ عمل عمران خان اپنی وکٹری اسپیچ میں بیان کرچکے ہیں۔ ہر معاملے اور ہر ایشو کو خوش اسلوبی سے حل کرسکتے ہیں۔ عمران خان کی مثبت اپروچ ہی ہماری حکمت عملی ہے، ملک ترقی بھی کریگا اور کرپٹ لوگوں کیخلاف احتساب بھی ہوگا، لوٹا ہوا مال واپس آئیگا، ملک کو نقصان پہنچانے والی ہر کمزوری کو دور کرینگے۔ پاکستانی عوام نے اپنا فیصلہ دیدیا ہے، یہ لوگ پاکستانی قوم کی نمائندگی کا حق کھو چکے ہیں، اب یہ دھوکہ نہیں دے سکتے۔ پی ٹی آئی کو عوام کی اکثریت کی حمایت حاصل ہے۔

اسلام ٹائمز: کپتان نے جنہیں ڈاکو قرار دیا، اب انہیں ساتھ ملا لیا ہے، نون لیگ اور پیپلزپارٹی نے یہی کیا، پی ٹی آئی اور ان میں جو فرق تھا وہ ختم ہوگیا، اصولوں کی خلاف ورزی کے بعد ساکھ برقرار رکھ سکیں گے۔؟
غلام علی اصغر لہڑی:
اگر اشارہ قاف لیگ اور چوہدری برادران کی جانب ہے تو میری رائے یہ ہے کہ زرداری اور شریف برادران جیسے لوگوں سے بہتر ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ ڈرائیونگ سیٹ کپتان کے پاس ہی رہیگی، اس لئے کس قسم کی فکر کی ضرورت نہیں، سب ٹھیک چلے گا، ایجنڈا بھی پورا ہوگا اور کرپشن بھی برادشت نہیں کی جائیگی۔ اس میں حرج ہی کیا ہے کہ لوگوں کی جانب سے منتخب ہو کر آنیوالے لیڈروں کو اچھی پالیسی کیساتھ چلایا جائے، سیاست اور ریاست کا کاروبار اگر چلے تو اس میں ملک  و قوم کا فائدہ ہے۔ جن لوگوں کو اعتراض ہے، وہ اپنے گریبان میں جھانکیں۔ اسی طرح یہ حقیقت ہمیشہ سامنے رکھنی چاہیے کہ ملک میں موجود سسٹم کی قباحتیں ابھی موجود ہیں، نمبر گیم پوری کرنے کے بغیر چارہ نہیں۔ جو لوگ الیکشن لڑتے ہیں، وہی آگے آتے ہیں، یہی جموریت ہے، کوئی طریقہ ممکن نہیں، یہاں پہ جو لوگ عمران خان کے وژن اور طریقہ کار سے واقف اور راضی ہیں وہی ساتھ دے رہے ہیں، ہمارا ایجنڈا چونکہ شفافیت، خوشحالی اور انصاف ہے تو جو بھی ہامرے ساتھ چلے گا، اسکا مطمع نظر یہی ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت بنتے دیکھ کر کچھ لوگ حواس کھو بیٹھے ہیں، اب وہ کئی طرح کی تنقید کرینگے، حکومت کو فیل اور ناکام بنانے کیلئے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت طاقت کے ذریعہ نہیں بلکہ ذمہ داری ہے، پی ٹی آئی اسے بخوبی انجام دیگی۔ کے پی کے کی حکومت سب کے سامنے ہے، وہاں تو جو لوگوں کی توقعات پہ پورا نہیں اترتا، اسے دوبارہ منتخب نہیں کرتے۔

اس کا مطلب ہے کہ عمران خان نے ڈلیور کیا ہے، اسی لئے کے پی کے، کراچی اور پنجاب کے لوگوں نے اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ ہمارا مقصد پاکستان کی خدمت کرنا ہے، پاکستان کی معیشت شدید بحران کا شکار ہے، ملکی معیشت کو بحران سے نکالنے کیلئے اسد عمر مشاورت کر رہے ہیں، عوام کیلئے خوشخبری ہے کہ قومی وسائل ان پر ہی خرچ ہوں گے، اسد عمر نے ابھی سے معیشت کی بہتری کیلئے تیاریاں شروع کر دی ہیں، 5 سال میں ایک کروڑ نوکریوں کی فراہمی یقینی بنائیں گے۔ حکومت فوری طور پر ایسے اقدامات اٹھائے گی کہ جس سے مسائل میں کمی واقع ہو۔ اصولوں کی قربانی وہ دیتے ہیں، جن کے پاس پروگرام نہ ہو، جنکی کوئی سوچ نہ ہو، عقل سے تہی دامن ہوں، لیڈر شپ کی سب سے بڑی خوبی وژن ہے، قوت ارادی ہے، سمجھنے اور عمل درآمد کی صلاحیت ہے، پی ٹی آئی کی قیادت اس سے مالامال ہے، دوسرے ہم سیاست کو کاروبار نہیں سمجھتے، اپنے آپ کو قابل اعتماد سمجھتے ہیں، ہماری کامیابی سے ہر پاکستانی احساس مسرت سے سرشار ہے، اب پورے ملک میں پولیس گردی، معاشی دہشت گردی ختم ہوگی اور بیرون ملک میں موجود پاکستانیوں کا اعتماد بڑھے گا، اب انہیں پتہ ہے کہ ہمارا پیسہ اور دن رات کی کمائی کسی کی ذاتی تجوریوں میں نہیں جائیگی، بلکہ نیک نیتی کیساتھ ملکی خزانے میں امانت کے طور پر استعمال ہوگی، یہ اعتماد صرف عمران خان کی قیادت پہ ہے، کسی اور کی یہ پوزیشن نہیں۔

اسلام ٹائمز: داخلی چیلنجز اپنی جگہ ہیں، خارجہ محاذ پہ آئی ایم ایف اور امریکہ کا گٹھ جوڑ موجود ہے، کیا عمران خان یہاں بھی اپنے اصولوں پر قائم نہیں رہ پائیں گے۔؟
غلام علی اصغر لہڑی:
افغانستان پر امریکی حملے کے بعد سے لیکر آج تک جو کچھ ہم نے دہشت گردی کے خلاف کیا، وہ ساری دنیا کے سامنے ہے، مگر اس کے باوجود آج بھی ڈومور کے مطالبات ہم سے ہی کئے جا رہے ہیں۔ وعدے کے مطابق ہمیں ہمارے حصے کی رقم بھی روک لی جاتی ہے، ہمیں پریشرائز کرنے کی خاطر امریکی حکمران یہ بولی بول رہے ہیں۔ بلوچستان میں دشمن ممالک کی ایجنسیوں کی دہشت گردانہ کارروائیاں اور ان سے حاصل کردہ ثبوتوں کے باوجود ہم اس قابل نہیں ہوسکے کہ عالمی برادری کی رائے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کرسکیں، پی ٹی آئی اس کمی کو پورا کریگی، مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی افواج کے آئے روز ظلم و ستم اور نہتے کشمیریوں پر آگ خون کی بارش کے باوجود، بھارتی ریاستی دہشت گردی کو عالمی فورم پر پوری قوت سے اٹھا کر کشمیری بھائیوں کے زخموں پر مر ہم نہ رکھ سکے، لیکن اب ایسا نہیں ہوگا، الٹا اس درجہ بھارتی ریاستی ظلم و ستم کے باوجود ،ہمیں ہی کشمیر میں مداخلت کا طعنہ دیکر ہمارے ہی لوگوں کو بھارت کی جانب سے ان کے حوالے کرنے جیسے مطالبات کا سامنے آنا ہماری خارجہ پالیسی اور تھینک ٹینکس کیلئے سوچنے کا مقام ہے۔

عمران خان کا ایجنڈا بالکل درست ہے، اس سے کئی ممالک کو پریشانی ہوگی، بھارت اور کئی ممالک کی نیندیں حرام ہوگئیں، پہلے بھی عالمی قوتوں نے ڈبل گیم کھیلا ہے اور پاکستان کی قربانیوں کی ستائش سے بھی گریز کیا ہے، جبکہ پاکستان نے دہشتگردی کے خلاف خطے میں جنگ کے ضمن میں اب تک بے شمار معاشی و جانی نقصانات برداشت کئے ہیں۔ پاکستان مخالف عناصر اور گریٹ گیم کی نئی استعماری پیش قدمی کا ادراک ضروری ہے۔ دہشتگردی ملک میں عدم استحکام اور افراتفری پیدا کرنے کا ایک مربوط پلان ہے، اسے بروقت ناکام بناکر ملک کو غیر ملکی سازشوں سے محفوظ کرنے کی ضرورت ہے، قوم ہم وطنوں کی دہشتگردوں کے ہاتھوں لاشیں دیکھنے کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ سی پیک سے متعلق امریکی سیکرٹری خارجہ کا بیان اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ عمران خان کی تقریر نے یہ واضح کر دیا کہ عمران خان ایک جماعت کے ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان کے وزیر اعظم بن کر کام کریں گے، انہوں نے جو چین، بھارت اور ہندوستان سے متعلق باتیں کی ہیں، وہ بالکل درست ہیں، انکا اعتماد بھی قابل ذکر ہے، امید ہے کہ پاکستان کے لئے اچھے ثابت ہوں گے۔

عمران خان نے باتیں ٹھیک کی ہیں، ملک کو بہت سارے چیلنجز پیش ہیں، آئی ایم ایف کے ساتھ بہت باتیں ہوں گی، کوئی شک نہیں کہ افغانستان سے بہتر تعلقات چاہتے ہیں، بھارت لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کرتا رہتا ہے، اس پر دو ٹوک اور واضح پالیسی اختیار کریں گے، خارجہ پالیسی کے معاملات پر موثر حکمت عملی کیساتھ چلیں گے، ہمیشہ زمینی حقائق کو دیکھتے ہوئے پالیسیاں اور حکمت عملی بنائی جاتی ہے۔ اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ انتخابات میں امریکی اور بھارتی حواریوں کی شکست کے بعد عالمی طاقتیں پاکستان پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہی ہیں، دھاندلی کا واویلا کرنے والوں اور سفارتی محاذ پر پاکستان کیخلاف بیان بازی کرنیوالوں کا ایجنڈا ایک ہی ہے۔ آئی ایم ایف پیکیج کو سی پیک سے مشروط کرنا درست نہیں ہے، کوئی بھی سی پیک کی کامیابی میں رکاوٹ نہیں بن سکتا ہے۔ چین پاکستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے، چینی صدر کے ون بیلٹ ون روڈ وژن کا حصہ ہیں، چینی حکام پاکستان کو اپنا گہرا دوست سمجھتے ہیں۔ امریکہ بار بار ڈو مور کا مطالبہ کرتا ہے، ہمیں ڈو مور کہنے والے دیکھیں کہ انہوں نے کیا کیا ہے، آئی ایم ایف بیل آؤٹ پیکیج پر امریکہ کا بیان نامناسب ہے، اب پاکستان کو کہا جا رہا ہے افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لایا جائے۔

پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھاری قیمت چکائی ہے، پاکستان نے 17 سال سے جاری جنگ کی بھاری قیمت ادا کی ہے، وزیرستان میں ہم نے بہت کامیابی حاصل کی ہے۔ امریکہ بھارت کے دفاعی تعلقات کو بہتر کرنے کے لئے سرمایہ کاری کر رہا ہے، ہم امریکہ سے اپنی رقم کا مطالبہ کریں تو کہتے ہیں کہ ان کے پاس پیسے نہیں ہیں، یہ اس وقت کیا جا رہا ہے، جب امریکہ نے ہمیں ہمارے پیسے دینے ہیں۔ امریکہ کو انتخابی فنڈ کی مد میں پاکستان کو ادائیگیاں کرنی ہیں، امریکی انتظامیہ کو معلوم ہے پاکستان کو اقتصادی چیلنجز درپیش ہیں، ہمیں امریکہ کے پیسے نہیں چاہئیں، پاکستان اس کے بغیر بھی کام کر رہا ہے۔ نئی حکومت ترجیحی بنیاد پر پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے پر کام جاری رکھے گی۔ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے سے پاکستان کے عوام کے لئے مشترکہ ثمرات اور خوشحالی آئے گی۔ ہم جانتے ہیں کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری نہ صرف دونوں ملکوں کے درمیان ایک اہم منصوبہ ہے بلکہ اس منصوبے سے پورے خطے کی ترقی میں مدد ملے گی۔

اسلام ٹائمز: توہین عدالت کیس لیگی رہنماؤں کو نااہلی کی سزائیں ہوئی ہیں، اس سے جمہوری عمل کے تسلسل میں رکاوٹ نہیں آئیگی۔؟
غلام علی اصغر لہڑی:
عدلیہ اور نیب سمیت تمام آئینی اداروں کو اپنا کام کرنے کا موقع ملنا چاہیے۔ یوں تو علیم خان کو بھی نیب نے طلب کر رکھا ہے، حالانکہ وہ وزارت اعلیٰ کے متوقع امیدوار بھی تھے، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلوں سے غیر جمہوری انداز رکھنے والی سیاسی قیادت کی جی حضوری کرنے والا ٹولہ انجام کو پہنچا، ان لوگوں کو وزارتیں گالیاں دینے پر ملی تھیں، آج عدالت کے فیصلے کے بعد سب لوگ احتیاط برتیں گے۔ نواز شریف نے جن لوگوں کو رکھا ہوا تھا، ان میں اس کے علاوہ کوئی بات نہیں کہ گالم گلوچ کیں، ان لوگوں کی کوئی قابلیت نہیں ہے، یہ سزا کو بھی اعزاز سمجھیں گے، جس میں جتنا ظرف ہو اتنی بات کرتا ہے۔ عدلیہ کے خلاف بیانات کی نئی سوچ سامنے آئی تھی، سزا موزوں ہے، عدالت سے سزا پانے والوں کا سیاسی مستقبل تاریک ہی ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست میں اس قسم کے رجحان کی حوصلہ شکنی بہت ضروری ہے، عدلیہ کے خلاف بیانات کی نئی سوچ سامنے آئی تھی، عدالت کی توہین کرنے والوں کو سزا ملنی چاہئے، عدلیہ کی توہین آئین کیخلاف ہے، جب بھی غلطی ہو تسلیم کرکے معافی مانگ لینی چاہیے۔

اسلام ٹائمز: مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ آرمی چیف بتائیں، وہ دشمن کون ہیں جنہیں ووٹ کے ذریعے شکست دی گئی ہے، اس پہ کیا کہیں گے۔؟
غلام علی اصغر خان لہڑی:
بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ مولانا فضل الرحمان نے آرمی چیف کا بیان سمجھے بغیر اپنی مرضی کا مطلب نکال لیا، سپہ سالار کا بیان الیکشن مہم کے دوران ہونے والے دہشت گردی میں ملوث قوتوں کیخلاف تھا۔ لیکن میرے خیال میں مولانا صاحب نے یہ بیان سوچ سمجھ کر دیا ہے، وہ نہ صرف فوج کے دشمن ہیں بلکہ فوج کو بھی اپنا دشمن قرار دے رہے ہیں، یہ بدحواسی نہیں بلکہ پاک آرمی کے متعلق منور حسن کے بیان کی طرح ان کے دل کی بات زبان پہ آئی ہے، مولانا فضل الرحمان کو الیکشن میں بدترین شکست کا جھٹکا تھا، آرمی چیف کے دہشت گردوں کے خلاف دیئے گئے بیان کو اپنا مطلب پہنا دیا۔ یہ ایک حقیقت ہے پاکستانیوں نے ووٹ کا فرض نبھا کر دشمن طاقتوں کو ہرا دیا۔ آرمی چیف نے ووٹ کی طاقت سے دہشت گردوں کو شکست دینے کی بات کی۔ فضل الرحمان نے بیان کو اپنی شکست سے جوڑ دیا، ان کا بیان الیکشن کے پرامن انعقاد کے حوالے سے تھا۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کا بیان واضح اور اُن الیکشن مخالف دشمن قوتوں سے متعلق تھا، جنہوں نے انتخابی مہم کے دوران ملک میں دہشت پھیلانے کی کوشش کی تھی۔ یہ صاف بات تھی جو بچے کو بھی سمجھ آ رہی تھی، پھر اس پہ اس طرح کے کمنٹس دراصل پاکستان دشمنی اور ملک دشمن قوتوں کو خوش کرنے کی کوشش ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا پنجاب اور کے پی کے کی وزارت اعلیٰ کے حوالے سے پارٹی تقسیم کا شکار ہے۔؟
غلام علی اصغر لہڑی:
ہماری نشستیں عمران خان کی امانت ہیں، وہ جو بھی فیصلہ کریں ہمیں منظور ہوگا۔ تحریک انصاف کو واضح اکثریت مل چکی ہے، وزیراعلیٰ پنجاب سے متعلق فیصلہ عمران خان کریں گے۔ ارکان قومی اسمبلی پی ٹی آئی میں شامل ہوچکے ہیں، پی ٹی آئی کو خواتین کی مخصوص 33 نشستیں ملیں گی، جبکہ پی ٹی آئی کو اقلیتوں کی 5 نشستیں ملیں گی۔ حکومت پھولوں کی سیج نہیں ہوگی، عمران خان نے جو کہا ہے، اس پر عمل کریں گے، پاکستان کے عوام کو عمران خان سے بہت امیدیں ہیں۔ پنجاب نہیں بلکہ پورے ملک میں انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے، جس کیلئے اتحاد اور یگانگت ضروری ہے، کپتان کی ٹیم میں کوئی تقسیم نہیں، نہ ہی کسی کی یہ کوشش کامیاب ہوگی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی قیادت کا شریف برادران کی طرح ذاتی مفادات پہ مبنی کوئی ایجنڈا نہیں، اس لئے جو تحریک انصاف میں ہے، وہ جانتا ہے کہ قومی مفاد ہی مقدم ہے، اس لیے اقتدار کی رسہ کشی کسی صورت پیدا ہو ہی نہیں سکتی، اگر ایسا ہوا تو یہ ایک المیہ ہوگا، لیکن عمران خان کا دامن صاف ہے، ان کی ٹیم بھی ہر صورت اس معیار پہ پورا اترے گی، ورنہ جس طرح بیس اراکین اسمبلی کو پارٹی سے نکالا گیا، پاکستان کی تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔
خبر کا کوڈ : 740636
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش