0
Thursday 16 Aug 2018 11:50
نئے پاکستان کےلئے صرف پچیس ارب ڈالر کی ضرورت ہےاور اِس رقم کا بندوبست ہوچکا ہے

عمران خان کی حکومت ایک خاندان کا راج نہیں بلکہ عام آدمی کی اور آئین کی حکمرانی ہوگی، امجد علی نیازی

حکومت سازی کا پہلا مرحلہ خوش اسلوبی اور نہایت پُرامن طریقے سے انجام پایا
عمران خان کی حکومت ایک خاندان کا راج نہیں بلکہ عام آدمی کی اور آئین کی حکمرانی ہوگی، امجد علی نیازی
پاکستان تحریک انصاف کے چئیرمین اور متوقع وزیراعظم عمران خان کے آبائی علاقے میانوالی سے تعلق رکھنے رکن قومی اسمبلی امجد علی خان نیازی 1972ء میں پیدا ہوئے، 2013ء میں پہلی بار اور 2018ء میں دوسری بار پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر رکن قومی اسمبلی ہوئے ہوئے۔ انکا شمار عمران خان کے دیرینہ اور معتمد ساتھیوں میں ہوتا ہے۔ انکے ساتھ پی ٹی آئی کی متوقع حکومت اور اس سے وابستہ توقعات سمیت سیاسی صورتحال کے متعلق اسلام ٹائمز کا انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: نئے پاکستان کے خد و خال کیا ہیں، کیا یہ ایک خواب ہے یا اسکی عملی تعبیر بھی ممکن ہے؟
امجد علی خان:
میں پہلے بھی یہ کہتا ہوں، یہ میری نثری شاعری ہے کہ عمران خان کے نئے پاکستان میں ہر پیدا ہونے والا بچہ ،پیدائش کے بعد حکومت کی ذمہ داری قرار پائے گا۔اس کیلئے اس کے والدین کو باقاعدہ ہر ہفتے اس کے اخراجات کی رقم ملے گی ۔اس کی تعلیم اس کی صحت کی ذمہ داری حکومت پر ہوگی ۔چاہے وہ امیر کاہو یا غریب کا بچہ۔ہر وہ شخص جس کے پاس روزگار نہیں ہوگا اسے اُس وقت تک بے روزگاری الائونس ملے گا جب تک اسے روزگار نہیں مل جاتا ۔وہ تمام عورتیں اور مردجن کی عمر 65سال سے زیادہ ہوجائے گی انہیں پنشن ملے گی چاہے زندگی میں کبھی انہوں نے نوکری کی ہو یا نہ کی ہو ۔ ہر وہ آدمی جس کے پاس گھر نہیں ہوگا حکومت اسے کرائے پر گھر فراہم کرے گی اور اس وقت تک اس کا کرایہ خود ادا کرے گی جب تک وہ کرایہ ادا کرنے کے قابل نہیں ہوگا۔ہیلتھ کی سہولتیں تمام لوگوں کیلئے مفت ہوں گی۔ نئے پاکستان میں ہر شخص جو کام کرتا ہوگا وہ ضرور ٹیکس ادا کرے گا وگرنہ حکومت زبردستی ٹیکس لے گی ۔ ٹیکس کی شرح آمدن کے ساتھ بڑھتی جائے گی مثال کے طور پر سال میں دو لاکھ روپے کمانے والے پر بیس فیصد ٹیکس ہوگا دو لاکھ سے لے کر پچاس لاکھ کمانے والے پر چالیس فیصد ٹیکس ہوگا اور اس سے زیادہ کمانے والے کو ساٹھ فیصد ٹیکس ادا کرنا پڑے گا۔ ہر شخص کامکمل ڈیٹا کمپیوٹرائزڈ ہوگا۔کوئی شخص اپنی آمدنی چھپا نہیں سکے گا اور آمدنی چھپانے پر جرمانے کے ساتھ قید بامشقت کی سزا بھی ملے گی ۔ کوئی بڑا آدمی ہو یا چھوٹا سب کیلئے انصاف برابر ہوگا۔عدالتیں ہر شخص کو مکمل انصاف فراہم کریں گی۔ مقدمہ لڑنے کیلئے اگر کسی کے پاس رقم نہیں ہوگی تو اسے وکیل حکومت فراہم کرے گی۔

اسلام ٹائمز: یہ خیالات اور خواب تو بہت اچھا ہے، موجودہ معاشی صورتحال اس کی اجازت دیتی ہے؟
امجد علی خان:
یہ کسی پارٹی یا فرد کیلئے نہیں بلکہ ایک قوم اور ایٹمی قوت کیلئے پروگرام ہے، عمران خان کو نئے پاکستان کےلئے صرف پچیس ارب ڈالر کی ضرورت ہے اور اِس رقم کا بندوبست ہوچکا ہے۔ اسلامی ترقیاتی بینک پاکستان کو چار ارب ڈالر اور سعودی اسلامی بینک دو ارب ڈالر دینے کےلئے عمران خان کی حکومت کا انتظار کر رہے ہیں۔ تمام کاغذی کارروائی مکمل کرلی گئی ہے۔ آ ئی ایم ایف کی طرف سے بھی بارہ ارب ڈالر کے پیکیج پر مذاکرات کی دعوت مل چکی ہے۔ مذاکرات ستمبر کے پہلے ہفتے میںشروع ہو سکتے ہیں۔ چین بھی پاکستانی معیشت کو سنبھالا دینے کےلئے تقریباً بارہ ارب ڈالر کی پاکستان میں فوری سرمایہ کاری پر غور کر رہا ہے، اوورسیز پاکستانیوں سے بھی تقریباً دو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری متوقع ہے۔ یوں تقریباً بتیس ارب ڈالر کی بیرونی سرمایہ کاری کا امکان ہے۔ اگرپاکستانی معیشت میں فوری طور پر بیس ارب ڈالر کی رقم شامل ہو گئی تو ڈالر کی قیمت جو اس وقت ایک سو چوبیس روپے ہے، وہ ساٹھ روپے پر آجائے گی اور بیرونی قرضے آدھے ہوجائیں گے، کیونکہ قرضے تو ڈالر کی قیمت کے ساتھ بڑھتے ہیں اور پھر وہ دوسو ارب ڈالر جو پاکستانیوں کا سوئز بینکوں میں پڑا ہے اگر موجودہ حکومت اس رقم کو واپس لانے میں کامیاب ہو گئی تو وہ تمام خواب جو عمران خان نے دیکھے ہیں انہیں تعبیر مل جائے گی۔ پورا یقین ہے کہ عمران خان مہنگائی کے دیو کو فوری طور پر کنٹرول کرلیں گے۔ اس مقصد کےلئے انہوں نے جو اسد عمر جیسی اہل شخصیت کا انتخاب کیا ہے وہ ضروران کی توقعات پر پورا اترے گی۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہمیں پختہ یقین ہے اور نیت صاف ہے۔

اسلام ٹائمز: ترقیاتی منصوبے تو سابق حکومتوں نے بھی شروع کیے تھے، لیکن عام آدمی تک انکے ثمرات نہیں پہنچے، موجودہ حکومت میں ان میں کیا فرق ہے؟
امجد علی خان:
بڑا فرق ہے، یہ عوامی حکومت ہے اور پہلے شاہی راج تھا، جب نوازشریف کو اقتدار ملا تو بد قسمتی سے آئین کے الفاظ تو دیکھے، لیکن زمینی حقائق کو نہ سمجھا اور یہی غلطی تھی، جسے وہ آخر تک سمجھ نہ پائے۔ حکومت ملی تو بیرونی امدادیں کم ہو چکی تھیں، وہ موٹرویز کے وسیع منصوبوں کوترقی کا بنیادی ذریعہ سمجھتے تھے۔ انہوں نے سرمایہ کاروں کیلئے بہت سی مراعات کے اعلانات کئے، جن کا فائدہ صرف ان کے سیاسی حلیف ہی اٹھا سکتے تھے۔ ان کی لائی ہوئی روزگار اور خوشحالی کی سکیمیں نیچے اترتے ہی دم توڑ جاتی تھیں، ؛البتہ بڑے تاجروں نے عوامی مسائل سے سرکار کی غفلت کا خوب فائدہ اٹھایا۔ خوراک، ادویات، الیکٹرک، لوہا، سیمنٹ کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں۔ میرٹ میرٹ کی رٹ بے کس و بے نوا افراد کو دھتکارنے کا ذریعہ بن گئی۔ واپڈا، سوئی گیس جیسے قومی خدمت کے اداروں کے افسران نے حکمرانوں کی دیکھا دیکھی اپنے پروٹوکول اور سکیورٹی کے نظام بنا لئے اور عوام کیلئے کام کے طریقہ کار کو سخت سے سخت تر کر دیا، تاکہ کرپشن کی راہ ہموار کی جاسکے۔ بعض معروف لوگوں نے افسران کو رشوت کے ذریعے رام کرنے کی اپنی صلاحیت کو اپنی کامیابی کی کنجی قرار دیا، جسے حکمرانوںنے معمول کی بات کے طور پر قبول کرکے، ان کی حوصلہ افزائی کی۔

جہاں تک موجودہ سیٹ اپ کی بات ہے، خان صاحب خود بنیادی طور پر نہ سرمایہ دار ہے، نہ معروف معنوں میں جاگیردارہے، نہ ہی ملک کی حکومت اس کی نظر میں باپ داداکی کھوئی ہوئی میراث ہے، جس کو پا کرعیش و عشرت کی زندگی بسر کرنا، اس کا مقصد ہو، وہ ان گلیوں اور راستوں سے ناواقف بھی نہیں کہ ان کی چکاچوند اس کی آنکھوں کو خیرہ کر دے، وہ کوئی غیر ملکی یا کتابی نظریہ بھی لے کر نہیں آیا، جس کے خدوخال سے عام لوگ ناواقف ہوں اور ملک کے دانشوراس کی رنگا رنگ تشریح، تعبیر اور تاویلات کرتے پھریں۔ اس نے سستی شہرت کی خاطر کسی طبقے کو خوش کرنے کیلئے یہ بھی نہیں کہا کہ ہم حکومت میں آئے، تو فلاں جاگیر یا جائیداد تمہاری ہوگی۔ عمران خان کی خوش قسمتی یہ ہے کہ اسے اقتدار سنبھالتے وقت متنازع نوع کے چیلنجز کا سامنا نہیں، اس کی سوچ اور فکر واضح ہے۔ ایک طرف وہ مدینہ کی ریاست کا قائل ہے، تو دوسری طرف وہ اپنے وطن کودنیا بھر میں ہونے والی عمرانی، علمی اور معاشی ترقی کی راہ پر گامزن دیکھنا چاہتا ہے۔ اسکا خواب عام آدمی اور معروف معنوں میں خاص آدمی کے پاکستان کو ایک پاکستان بنانا ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا صرف اسٹیلشمنٹ کی سرپرستی سے جمہوری اقدار کو بالائے طاق رکھ کر نئے پاکستان کی تشکیل اور تکمیل ممکن ہے؟
امجد خان نیازی: یہ ایک غلط فہمی ہے جو وقت کیساتھ ساتھ ختم ہوتی جائے گی۔ ابھ تو ابتداء ہے، حکومت سازی کا ایک مرحلہ طے پا گیا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ یہ مرحلہ خوش اسلوبی اور نہایت پُرامن طریقے سے انجام پایا۔ اس سے بھی زیادہ خوش آئند یہ ہے کہ سیاسی قیادت میں ایک مفاہمانہ سوچ کارفرما نظر آئی۔ نامزد وزیر اعظم عمران خان کا سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر قومی، سیاسی رہنمائوں سے مصافحہ کرنا جمہوری اقدار کے فروغ کے حوالے سے حوصلہ افزا ہے۔ پاکستانی سیاست میں اسے ایک نئی روایت قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہو گا اور یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ یہ اگر قائم رہی تو ہمارے ملک میں جمہوریت حقیقتاً استحکام پکڑے گی، اس طرح نیا پاکستان بنانے کی راہ خود بخود ہموار ہو جائے گی، جس کا خواب اس ملک کے عوام نے ستر برس سے اپنی آنکھوں میں بسا رکھا ہے اور جن کی تعبیر کے لیے وہ دہائیوں سے منتظر ہیں۔ ہم نے ایک آزاد قوم کی حیثیت سے اپنی زندگی کا آغاز اگست کے مہینے میں کیا تھا اور اب اسے ایک نیک شگون کے طور پر لیا جا سکتا ہے کہ وطنِ عزیز میں ایک نئی حکومت کا قیام بھی اگست کے مہینے میں اور تقریباً انہی دنوں میں عمل میں آ رہا ہے، جب ہم ایک آزاد وطن کے حصول کی جنگ جیتے تھے۔ یوں لگتا ہے کہ پروردگارِ عالم نے اس قوم کی سن لی ہے اور ہمیں اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کا موقع دیا جا رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: ایک تاثر ہے کہ الیکٹیبلز کی سایست اپنا کر اشرافیہ کے تعاون سے پی ٹی آئی کیلئے اقتدار کی راہ ہموار ہوئی ہے، بھٹو دور جیسا عوامی رنگ نہیں، یہ کیسے عام آدمی کے مفادات کو ملحوظ رکھیں گے؟
امجد خان نیازی: ہماری قیادت کا رویہ اشرافیہ طرز کا نہیں ہے، لیکن یہ دسرت ہے کہ اس کے لیے محض سیاسی قائدین کا رویہ تبدیل ہونا کافی نہ ہو گا، بلکہ ملک کے ہر باشندے کو اس میں اپنا حصہ ڈالنا ہو گا اور یہ اس طرح ہو سکتا ہے کہ پاکستانی قوم اپنی سوچ میں وسیع پیمانے کی تبدیلی لائے۔ قومی سطح پر سوچ کی تبدیلی کی خصوصی ضرورت اس لیے بھی ہے کہ فی الحال ہم ایک غیر منظم قوم ہیں، اجتماعی کے بجائے انفرادی مفادات میں الجھی ہوئی قوم، جسے اپنی منزل کی سمت کا ہی اندازہ نہ ہو۔ اس صورتحال کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ نوجوان نسل یوم آزادی کچھ اس ڈھنگ سے مناتی نظر آئی کہ موٹر سائیکلوں سے سائیلنسر نکال کر صوتی آلودگی میں بے پناہ اضافہ کیا گیا اور قیمتی وقت ہلڑ بازی کرتے ہوئے گزارا گیا۔  یہ بڑوں کی ذمہ داری ہے کہ بچوں کو آزادی کے حقیقت کے بارے میں آگاہ کریں، انہیں بتائیں کہ یہ ارضِ وطن ہم نے آگ اور خون کا دریا پار کرکے حاصل کیا تھا اور یہ کہ یوم آزادی ہلڑ بازی کا نہیں بلکہ اس گہری اور سنجیدہ سوچ بچار کا مقام ہے کہ آیا، ہم نے وہ سارے مقاصد حاصل کیے، جن کو پیش نظر رکھ کر آزادی کے حصول کے لیے قربانیاں دی گئی تھیں؟ یہ خوشی کا موقع تو ہے لیکن ساتھ ہی خود احتسابی کا محل بھی ہے۔

یوم آزادی نئی امیدیں استوار کرنے اور نئی ہمتیں باندھنے کا دن ہے، جسے ہم یومِ تجدیدِ عہد بھی کہتے ہیں۔ وطن عزیز کی سات دہائیوں کی تاریخ جس انداز سے بنائی گئی، جس طرح کے حکمران یہاں آئے اور اداروں نے اپنی ذمہ داریوں میں جو کوتاہیاں برتیں، اس سے عوام کی اکثریت نا خوش ہے۔ لوگوں کو صاف پانی، خالص خوراک، صحت اور تعلیم، کام کرنے اور کمانے کے مواقع، مکان جیسی بنیادی سہولتیں نہیں مل سکیں، جن کا ریاست اپنے عوام سے وعدہ کرتی ہے۔ اس ناکامی کی کئی وجوہ ہو سکتی ہیں، مگر خرابیوں کی ایک مرکزی علت یہ تھی کہ یہاں طرز حکمرانی کے بہت سے تجربات کئے گئے اور زیادہ تر حکمرانوں نے ملکی دولت کو لوٹا، ریاستی قوانین کا مذاق اڑایا اور اداروں کو جان بوجھ کر برباد کیا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ پچھلے قریب دو اڑھائی عشروں سے یہ ملک سیاست اور حکمرانی کی حد تک دو خاندانوں کی جاگیر بن چکا تھا۔ حالات یہ صورت اختیار کر چکے تھے کہ قومی سطح پر عوام کے پاس انتخاب کا کوئی تیسرا قابل عمل وسیلہ موجود نہ تھا۔ اس صورتحال نے پاکستان کے عوامی حلقوں میں شدید ناامیدی اور لاچاری کی نفسیاتی کیفیت کو جنم دیا۔ اس ذہنی پژمردگی کے ساتھ اقوام کا جمود ایک فطری معاملہ ہے، تاہم پاکستان کے عوام کا فطری جذبۂ تحرک مبارکباد کا مستحق ہے کہ عوام نے سوچنے سمجھنے اور آگے بڑھنے کی ہمت نہیں ہاری، خود راستے پیدا کئے۔ ایک نئی قوت کو اقتدار فراہم کرنا، اس دور کی جمہوری تاریخ کا بہت بڑا واقعہ ہے۔ یہ اس امر کا ثبوت ہے کہ پاکستان کے عوام بنیادی طور پر مثبت فکر کے مالک ہیں اور ان کا انقلاب خونیں نہیں، جمہوری ہے۔
 
 
خبر کا کوڈ : 744841
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش