0
Monday 27 Aug 2018 18:41
عمران خان اگر ہمارے چھ نکات پر عمل نہیں کرپاتے تو کم از کم اسکی راہ میں حائل رکاوٹ کی نشاندہی کر دیں

بلوچستانیوں کی ناراضگی عہدوں سے نہیں بلکہ اختیارات ملنے سے کم ہوگی، آغا حسن ایڈووکیٹ

پاکستان میں اپنے حقوق کیلئے آواز بلند کرنیوالوں پر غدار ہونیکے الزامات لگائے جاتے ہیں
بلوچستانیوں کی ناراضگی عہدوں سے نہیں بلکہ اختیارات ملنے سے کم ہوگی، آغا حسن ایڈووکیٹ
آغا حسن بلوچ ایڈووکیٹ بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات اور رکن قومی اسمبلی ہیں۔ وہ حاجی محمد حسن کے صاحبزادے ہیں۔ اپنی ابتدائی تعلیم کوئٹہ سے حاصل کرنے کے بعد قانون کی ڈگری کوئٹہ لاء کالج سے حاصل کی۔ زمانہ طالبعلمی سے بلوچستان نیشنل پارٹی کا حصہ رہے ہیں۔ 25 جولائی 2018ء کو ہونیوالے عام انتخابات میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کی نشست این اے 266 سے حصہ لیکر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ سردار اختر مینگل کے پی ٹی آئی سے طے پانے والے چھ نکاتی فارمولے پر عملدرآمد اور بلوچستان کے سیاسی و اقتصادی مسائل سے متعلق ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے انکا ایک مختصر انٹرویو کیا، جو قارئین کیلئے پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: سردار اختر مینگل صاحب نے قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس میں بہت سی تلخ باتیں کیں، اس غصے کی کیا وجوہات ہیں۔؟
آغا حسن ایڈووکیٹ:
ہمارے قائد سردار اختر جان مینگل نے قومی اسمبلی کے خطاب میں بلوچستان کے لوگوں کے درد کو پاکستانی قوم کے سامنے رکھنے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے اپنے خطاب میں تو پھر بھی نرمی کا مظاہرہ کیا ہے، ورنہ جو درد بلوچستان کے باسیوں کو لاحق ہے، اس کے حساب سے ان کے خطاب میں پھر بھی برادشت کا عنصر موجود تھا۔

اسلام ٹائمز: انکے خطاب کے موقع پر نجی نیوز چینلز نے تو کوئی کوریج نہیں دی، لیکن سرکاری نیوز چینل نے بھی سخت سوالات اٹھانے کے موقع پر سردار اختر مینگل کو کوریج نہیں دی، اسکی کیا وجہ ہے۔؟
آغا حسن ایڈووکیٹ:
یہ چیز ہمارے لئے نئی بات نہیں ہے۔ اس سے قبل بھی ہم اسلام آباد آئے اور اسی طرح کی محافل کا اے پی سی کی شکل میں انعقاد کیا، لیکن ہمیں ہمیشہ نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر ہماری محرومیاں تو اب نظروں سے اوجھل ہوچکی ہے۔

اسلام ٹائمز: آپکے مطالبات آئین و قانون کے مطابق ہیں، لیکن اگر آپکی آواز پھر بھی نہ سنی گئی تو پھر اس پارلیمان کا حصہ رہنے کا کیا فائدہ۔؟
آغا حسن ایڈووکیٹ:
ہمیں صرف میڈیا سے گلہ نہیں ہے، بلکہ ان لوگوں سے بھی ہے جن کی موجودگی وہاں پر ضروری تھی۔ جس طرح وزیراعظم یا اپوزیشن لیڈر کی موجودگی وہاں پر ضروری تھی۔ چاہے حکومت ہو، ریاست ہو، میڈیا ہو یا کوئی شخص، جو بھی مسئلہ بلوچستان کو حل کرنا چاہتا ہے، اسے چاہیئے کہ بی این پی کے ان چھ نکات پر عملدرآمد کرائے۔

اسلام ٹائمز: کیا بلوچستان کے تمام مسائل آپکی جانب سے پیش کئے گئے صرف یہی چھ نکات ہی ہیں۔؟
آغا حسن ایڈووکیٹ:
بلوچستان کے مسائل تو بہت ہی زیادہ ہیں، جنہیں اگر آپ گننے بیٹھیں تو سالوں گزر جائیں گے، لیکن یہ چھ نکات ان تمام مسائل کو حل کرنے کی جانب پہلا قدم ہے۔ ان مسائل کو حل کرنے کیلئے سب سے اہم رول حکومت کا ہوتا ہے۔ عمران خان جب حکومت میں موجود نہیں تھے، تب بھی انہوں نے ان نکات کے حوالے سے ہماری حمایت کا اعلان کیا تھا اور آج جبکہ عمران خان صاحب حکومت میں آئے ہے، تو باقی افراد کی طرح انہیں بھی ایک موقع دینے میں کوئی حرج نہیں۔

اسلام ٹائمز: بلوچستان کا مسئلہ محض سیاسی نہیں، بلکہ یہاں پر ریاستی اداروں کے بھی اپنے تحفظات ہیں۔ لہذا اگر عمران خان صاحب کام کرنا بھی چاہیں تو کیا انہیں یہ اختیار حاصل ہوگا۔؟
آغا حسن ایڈووکیٹ:
اگر عمران خان ہمارے مطالبات پر عملدرآمد کروانے میں ناکام ہوتے ہے تو اس ناکامی کے پیچھے کرداروں کو دنیا کے سامنے واضح کریں، پھر بھی ہمیں ان سے کوئی گلہ نہیں ہوگا۔ یہ مطالبہ تو ہم پچھلی حکومتوں سے بھی کر رہے تھے، لیکن انہوں نے خاموشی اختیار کر رکھی تھی۔

اسلام ٹائمز: ملکی میڈیا پر تو یہ دکھایا جاتا ہے کہ بلوچستان کی صورتحال ماضی کے برعکس بہتر ہوچکی ہے اور بلوچوں کے مسائل حل کئے جا رہے ہیں۔ کیا زمینی حقائق اس سے مختلف ہیں۔؟
آغا حسن ایڈووکیٹ:
صورتحال کی بہتری آپ کس چیز کو کہتے ہیں۔ کیا بلوچ وزیراعلٰی یا بلوچ چیئرمین سینیٹ منتخب کرنے کو آپ بہتری کہتے ہیں۔ کیا میڈیا پر خوف کے ماحول میں امن و امان کے قیام کو آپ بہتری سمجھتے ہیں۔؟ پاکستان کی تاریخ میں بلوچوں کو ہمیشہ اقتدار سونپے جاچکے ہیں، لیکن آج تک انہیں اختیارات نہیں دیئے گئے۔ ایک عام بلوچ یہی چاہتا ہے کہ جس زمین پر وہ کھیتی باڑی کرتا ہے، اس پر اس کے اختیارات کو غضب نہ کیا جائے۔ انہیں اپنے مستقبل کے فیصلے کرنے کا اختیار دیا جائے۔ بلوچوں کو اقتدار کی نہیں بلکہ اختیارات دینے کی ضرورت ہیں۔

اسلام ٹائمز: سردار اختر مینگل نے قومی اسمبلی میں لاپتہ افراد کی لسٹ کو پیش کیا، کیا واقعی ہزاروں کی تعداد میں بلوچ افراد لاپتہ ہیں۔؟
آغا حسن ایڈووکیٹ:
جو لسٹ ہم نے قومی اسمبلی میں پیش کی، اس کا سائز بلوچستان کے پی ایس ڈی پی فنڈز سے دوگنا ہے۔ اس لسٹ میں‌ 1992ء سے لیکر آج تک لاپتہ ہونیوالے افراد کی لسٹ موجود ہیں، ممکن ہے کہ اس لسٹ میں‌ شامل بعض افراد واپس آگئے ہوں۔ ان افراد کی کل تعداد 5128 تک آپہنچی ہے۔ یہ اعداد و شمار بھی 2017ء تک کی ہیں، اس میں‌ 2018ء کے افراد کو شامل نہیں‌ کیا گیا۔ اب بعض افراد کو انہی دنوں واپس چھوڑا گیا ہے اور بعض کو ایک دو سال قبل چھوڑ دیا گیا تھا۔ لیکن ہمارا موقف یہ ہیں کہ جتنے بھی افراد کو لاپتہ کیا گیا ہے، اگر انہوں نے کوئی جرم کیا ہے تو انہیں عدالتوں کے سامنے پیش کیا جائے۔ اس ملک میں عدالتی نظام ہے اور اسی عدالتی نظام کے تحت ہمارے ملکی اداروں‌ کو چلنا چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: عمران خان صاحب نے تو اسلام آباد میں واقع بلوچستان ہاؤس آنے تک کی زحمت بھی نہیں کی، جبکہ آپکے ووٹوں کی ضرورت انہیں تھی۔ تو چھ نکات پر عملدرآمد کیلئے آپ ان سے کیسے اچھی امید رکھ سکتے ہیں۔؟
آغا حسن ایڈووکیٹ:
جیسا کہ میں نے پہلے بھی عرض کیا کہ عمران خان اگر ہمارے چھ نکات پر عملدرآمد نہ بھی کریں اور صرف ان عناصر کو دنیا پر واضح کر دیں، جو انہیں کام کرنے نہیں دیتے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ کم از کم کل کو ہماری بلوچ قوم اپنی قیادت سے اس لئے ناراض نہیں‌ رہے گی کہ ہم نے ان کی آواز کو ایوانوں تک نہیں پہنچایا۔ ہماری ذمہ داری اپنے مظلوم عوام کی آواز کو صاحب اختیار تک پہنچانا تھا، اب آگے وہ عمل کرتے ہیں یا نہیں، یہ ان کی مرضی۔

اسلام ٹائمز: بلوچستان کے حوالے سے سابقہ حکومتوں سے کونسی غلطی ہوئی، جو آپکے مطابق عمران خان کو نہیں دہرانی چاہیئے۔؟
آغا حسن ایڈووکیٹ:
سب سے پہلے تو یہ ہے کہ اصل بلوچ قیادت کیساتھ انہیں‌ مسلسل رابطے میں‌ رہنا ہوگا، تاکہ بلوچستان کے مسائل سے آگاہ رہا جاسکے۔ ہمیں اس بات کا اندازہ ہے کہ بلوچستان کے مسائل ستر سال پرانے ہیں اور ایک ہی دن میں انہیں ٹھیک نہیں‌ کیا جاسکتا۔ لیکن اگر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جائے اور معاملات کو بہتر بنانے کی جانب اقدامات اٹھائے جائیں تو یقیناً حالات بہتر ہونگے۔ ہم قومی اسمبلی میں آزاد بینچوں پر اسی لئے بیٹھے ہیں، تاکہ ہم حکومت اور اپوزیشن، دونوں کے مثبت اقدامات پر ان کی حمایت کرسکیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ وہ بااختیار کمیٹیاں تشکیل دے اور ان بااختیار طبقے سے اجازت لیں، جن کے پاس بلوچستان سے متعلق اختیارات موجود ہیں۔

اسلام ٹائمز: صوبہ بلوچستان کو ترقیاتی فنڈز کی مد میں اربوں روپے دیئے جاتے ہیں، لیکن یہاں کی لوکل لیڈرشپ اسے کرپشن کی نظر کر دیتی ہے۔؟
آغا حسن ایڈووکیٹ:
جو فنڈز بلوچستان کو دیئے جاتے ہیں، اگر اسے خیرات کہا جائے تو بہتر ہوگا۔ بلوچستان کے لوگ خیرات نہیں بلکہ اپنے ساحل اور وسائل پر اختیارات چاہتے ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ یہاں کہ لوگوں نے کرپشن کی ہے، لیکن کیا ماضی کے حکمرانوں کو دھاندلی کے ذریعے ایوانوں تک نہیں پہنچایا گیا۔؟ اگر آپ اپنے من پسند افراد کو ایوانوں تک پہنچائینگے تو ان کی نیت صرف کرپشن کرنے کی ہی ہوگی۔

اسلام ٹائمز: بلوچستان نیشنل پارٹی کی قیادت پر اکثر اینٹی اسٹیٹ ہونیکے الزامات لگائے جاتے ہیں۔ اس حوالے سے آپکا کیا موقف ہے۔؟
آغا حسن ایڈووکیٹ:
ستر سالہ محرومیوں کے باوجود آج ہم پاکستان کی ہی بنائی ہوئی قانون ساز اسمبلیوں تک پہنچنے کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں اور اسمبلی میں پہنچ کر اسی قانون ساز اسمبلی سے وفادار رہنے کا حلف اٹھاتے ہیں، تو اس سے بڑھ کر ہم اپنی حب الوطنی کا کیسے ثبوت دیں۔؟ پاکستان میں کونسے سیاستدان، بیوروکریٹ، صحافی یا بزنس مین پر غدار ہونے کے الزامات نہیں لگے، جو ہم پر نہ لگوائے گئے ہوں۔؟ میں تو آپ کو اپنا شناختی کارڈ بھی دکھا سکتا ہو، جس میں مجھے پاکستانی ہونے کا سرٹیفیکٹ دیا گیا ہے۔ لہذا آپ خود انصاف کریں بلوچ قوم اور کس طرح اپنے آپ کو پاکستانی ثابت کرے۔؟ اس ملک کی بدقسمتی یہی رہی ہے کہ جو بھی اپنے حقوق کیلئے آواز بلند کرے، اس پر غدار ہونے کے الزامات لگائے جاتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: آپ نے افغان مہاجرین سے متعلق سخت موقف اپنائے رکھا ہے، کیا اس سے نفرتوں میں اضافہ نہیں ہوگا۔؟
آغا حسن ایڈووکیٹ:
جب آپ خود انہیں مہاجر کا عنوان دے رہے ہیں، تو ایک نہ ایک دن انہیں اپنے وطن واپس جانا ہوگا۔ ویسے بھی آج افغانستان کے بعض علاقوں میں امن و امان کی حالت پاکستان سے بہتر ہے، جبکہ ان کی معیشت میں بھی دن بدن بہتری آتی جا رہی ہے۔ ہم نے یہ کبھی نہیں کہا کہ ہمارے پشتون بھائی واپس جائیں، بلکہ پشتون تو خود ہمارے اپنے بھائی ہیں۔ ہم صرف ان افراد کو ان کے ملک باعزت طریقے سے واپس بھیجنا چاہتے ہیں، جو کہ پاکستان کے شہری نہیں۔ انہی افغان مہاجرین کی وجہ سے سب سے پہلے تو خود لوکل پشتونوں کا استحصال ہوتا ہے، جو پشتون برادر پاکستانی ہے، ان کے حقوق کا استحصال ان افغان مہاجرین کے ذریعے ہوتا ہے۔ میں تو خود بلوچ مہاجرین کیخلاف بھی ہوں، جو ایران سے آکر یہاں کے وسائل کا استحصال کرتے ہیں۔ بلوچستان سمیت پورے پاکستان میں صرف حقیقی پاکستانیوں کو یہاں پر شہری حقوق دینے ہونگے۔

اسلام ٹائمز: پاکستان میں‌ آنیوالی ہر نئی حکومت کے ملٹری اسٹیبلشمنٹ کیساتھ سرد تعلقات رہے ہیں۔ عمران خان صاحب کو عدم اعتمادی کی اس فضاء کو ختم کرنے کیلئے کیا کرنا ہوگا۔؟
آغا حسن ایڈووکیٹ:
یہ مسئلہ تو پاکستان کی تشکیل سے لیکر آج تک موجود رہا ہے اور اس کا حل مجھے نہیں لگتا کہ کسی کے پاس ہوگا۔ سول اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے اختیارات کا تعین ہونا چاہیئے اور جب ہر کوئی اپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے کام کرے گا تو یہ تصادم کبھی نہیں ہوگا۔ جس کی جو ذمہ داریاں بنتی ہیں، اگر اسے صحیح طریقے سے نبھائیں تو حالات بہتری کی جانب جاسکتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: گوادر کے مستقبل کو کیسا دیکھتے ہیں۔؟
آغا حسن ایڈووکیٹ:
گوادر کے چرچے تو میڈیا پر بہت ہوتے ہیں، لیکن ان گراؤنڈ ہمیں کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ گوادر میں دو مہینے سے بجلی نہیں، پانی کا فقدان، بنیادی انفراسٹرکچر کا فقدان اور دیگر انسانی ضروریات کی کمی کی وجہ سے گوادر کا برا حال ہے۔ سی پیک سے ملک کی تقدیر بدلنے کے دعوے کئے جا رہے ہیں، لیکن گوادر کے لوگوں کو پینے کا پانی تک میسر نہیں۔ ہمیں ترقی کے مخالف سمجھا جاتا ہے، جبکہ حقیقی ترقی کی تعریف یہ ہے کہ پہلے اس کی شروعات وہاں کی مقامی آبادی سے کی جائے۔ اگر مقامی آبادی ہی ترقی کا حصہ نہ ہو، تو وہ بے معنی ترقی کہلائے گی۔
خبر کا کوڈ : 746536
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش