0
Sunday 25 Nov 2018 00:31
اپوزیشن کا بس نہیں چل رہا ورنہ حکومت گرانے میں کوئی کسر نہ چھوڑیں

کرپٹ حکومتوں کا کچرا صاف کرنا چیلنج، 100 دن میں ہماری سمت واضح ہوچکی ہے، فیاض الحسن چوہان

یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کیلئے ہمارے لیڈر کے وژن سے نون لیگ اور پی پی پریشان ہیں
کرپٹ حکومتوں کا کچرا صاف کرنا چیلنج، 100 دن میں ہماری سمت واضح ہوچکی ہے، فیاض الحسن چوہان
پاکستان تحریک انصاف کے رہنماء اور صوبائی وزیر اطلاعات پنجاب فیاض الحسن چوہان 1970ء کو لاہور میں پیدا ہوئے، پیشہ کے لحاظ سافٹ ویئر انجینئر ہیں، انہوں 1994ء میں یونیورسٹی آف پنجاب لاہور سے معاشیات میں ماسٹر کیا، 2002ء میں راولپنڈی سے متحدہ مجلس عمل کے ٹکٹ پر پہلی مرتبہ صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے، 2008ء میں مسلم لیگ قاف کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑا لیکن حنیف عباسی سے سیٹ ہار گئے، 2018ء کے انتخابات میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ پہ صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ موجودہ ملکی صورتحال اور سیاسی ماحول کے بارے میں انکے ساتھ اسلام ٹائمز کا انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: حکومت گرانے اور این آر او کے حوالے سے بیرون ملک وزیراعظم نے جسطرح بیان دیا، خواجہ سعد رفیق نے پارلیمنٹ میں اسکی تردید کی ہے، کیا دوسرے ممالک میں داخلی سیاست پہ اسطرح بات کرنی چاہیئے، ہوم ورک کے بغیر بیانات سے ملکی ساکھ متاثر نہیں ہوتی۔؟
فیاض الحسن چوہان:
ساری کی ساری اپوزیشن ضروری نہیں کہ اس کا مخاطب ہو، عمران خان حکومت گرانے کی بات مولانا فضل الرحمٰن کے بیان کے تناظر میں کر رہے تھے، جس میں وہ اپوزیشن کو اکٹھا ہوکر حکومت گرانے کیلئے کہہ رہے تھے، اپوزیشن کا بس نہیں چل رہا، ورنہ حکومت گرانے میں کوئی کسر نہ چھوڑیں۔ اس شور کی وجہ قوم و ملک کا کوئی نقصان نہیں۔ انکا نقصان یہ ہے کہ اقتدار ان کے ہاتھوں سے نکل گیا، جو دس سالوں سے ان کے پاس تھا۔ اقتدار ان جمہوریت کے دعوے داروں کے ہاتھوں سے نہ کسی فوجی آمر نے چھینا تھا نہ کسی سول آمر نے، بلکہ ووٹ کی طاقت کے ذریعے جمہوری سیاسی جماعت تحریک انصاف نے چھینا ہے۔ اپوزیشن میں اتنی طاقت ہی نہیں کہ موجودہ حکومت کو کوئی فرق ڈال سکے، وزیراعظم اور تحریک انصاف حکومت کی کارکردگی سے سیاست کے میدان میں اپوزیشن کیلئے مشکلات بڑھتی جائیں گی، جس طرح پاکستان میں کرپشن کے خاتمے کی امید جاگی ہے، اپوزیشن کے آنے والے دن مشکل ہی ہیں۔ پاکستان کی سربلندی کے لئے موجودہ حکومت کے کردار سے اپوزیشن خائف ہے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کے لئے ہمارے لیڈر کے وژن سے نون لیگ اور پی پی پریشان ہیں، احتساب سب کا اور بلاامتیاز ہوگا، اطمینان رکھیں سارے کرپٹ جیل میں ہوں گے، نواز شریف نااہلی کے بعد کس حیثیت سے پارٹی کے قائد بنے ہوئے ہیں۔ عجیب بات ہے لیڈر ٹی وی پر اعتراف کرتا ہے اور رہنما دفاع کرتے ہیں، پہلی مرتبہ کسی حکومت نے 5 ہزار کے جعلی نوٹ پکڑے، یہ سچ ہے کہ بڑی محنت اور جدوجہد کیساتھ آصف زرداری کرپٹ بنے۔ پی پی کے دوست کہتے ہیں کہ ہوم ورک کر لیں پھر بیان دیں، ہم نے ہوم ورک کیا ہے، اسی لئے تو اتنی رقم سامنے آئی ہے، شوگر ملز اور زمینوں پر قبضے کس نے کئے، سب کو معلوم ہے، پی پی دوست سمجھیں ایان علی کے ذریعے اب پیسہ باہر نہیں جائے گا۔ منی لانڈرنگ کے خلاف وزیراعظم عمران خان ہی ایکشن لے سکتے تھے، منی لانڈرنگ اقامے کے نام پر ہوتی تھی، اقامے کا ڈرامہ ہم نے بے نقاب کر دیا ہے، ڈرائیور اور مالی کے نام پر جائیدادیں بنانے والے سامنے آرہے ہیں، مک مکا ہوتا تھا، اس لئے بیرون ملک سے پیسہ واپس نہیں آسکا، موجودہ حکومت مک مکا کی مخالف ہے، پیسہ تو بیرون ملک سے واپس آئے گا۔

اسلام ٹائمز: این آر او کے حوالے سے عمران خان نے بیانات دیئے ہیں، لیکن نواز شریف کہہ رہے ہیں کہ این آر او لینا ہوتا تو لندن سے واپس آکر جیل نہ جاتے، پھر اس بیان بازی سے کیا مراد ہے۔؟
فیاض الحسن چوہان:
این آر او حکومت نے دینا ہے، کیونکہ پراسیکیوشن کا فیصلہ حکومت ہی کرتی ہے، یہاں پورا زور لگالیں تب بھی مقدمات کو منطقی انجام تک پہنچانا بہت بڑی طاقت کا پراسس ہے، اگر حکومت کی خواہش موجود نہ ہو تو کسی کو یہاں سزا نہیں دلوائی جاسکتی ہے، اپوزیشن کے لیڈروں اور ان کی بھاری رقوم کے درمیان عمران خان کھڑے ہیں، اگر عمران خان آج اپنا ہاتھ ہولا کر لیں تو ان کی موجیں ہو جائیں گی۔ پاناما اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلوں کے پیچھے سیاسی جدوجہد بھی تھی، عوام اور عمران خان کھڑے نہ ہوتے تو کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا کہ پاناما کا فیصلہ ہوتا، عمران خان کی طویل جدوجہد پر انہیں کریڈٹ نہ دینا تاریخ کے ساتھ زیادتی ہوگی، این آر او ضروری نہیں براہ راست مانگا جائے، درمیان میں بہت سے ہمدرد لوگ ہوتے ہیں، ایسے لوگ کہتے ہیں کہ آپ آرام سے حکومت کریں، اس معاملہ کو بڑھانے کی کیا ضرورت ہے، اسمبلی میں بھی روز مشورے دیئے جاتے ہیں کہ حکومت کا کام جارحانہ ہونا نہیں بلکہ میٹھی میٹھی باتیں کرکے چلنا چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: نیب کے حوالے سے ڈاکٹر مجاہد کامران نے الزام لگایا ہے کہ ملزمان کی ہتک کی جاتی ہے اور بغیر ثبوت گرفتاریوں سے خوف و ہراس پھیلایا جا رہا ہے، کیا اسطرح انصاف کے تقاضے پورے کئے جا سکتے ہیں۔؟
فیاض الحسن چوہان:
نیب اور پولیس کے پیچھے جب تک سیاسی حمایت نہ ہو اتنے بڑے لوگوں کیخلاف کوئی ادارہ کھڑا نہیں ہوتا، بڑے لوگوں کیخلاف مقدمات چلنا، تفتیش آگے بڑھنا آسان نہیں ہوتا ہے، جب تک اس کے پیچھے سیاسی قوت نہ ہو، کوئی ادارہ آگے چلنے کی جرأت نہیں کرتا، پانچ سال بعد ادارے اتنے مضبوط ہوں گے کہ انہیں سیاسی حمایت کی ضرورت نہیں ہوگی، ہم اگر اپنی سیاسی حمایت واپس لے لیں گے تو یہ معاملات یہیں پر رک جائیں گے۔ حکومت نیب کو کسی کیخلاف کارروائی کرنے سے نہیں روک رہی ہے، نیب کی کارکردگی اتنی اچھی نہیں جتنی ہونی چاہیئے، نیب پر کئی بار درست تنقید کی جا رہی ہوتی ہے، ڈاکٹر عاصم اور دیگر لوگوں پر اتنے بڑے مقدمات بنائے گئے، بعد میں ان مقدمات کا پتہ نہیں چلا، پی ٹی آئی کے لوگوں کیخلاف کسی مقدمہ میں نیب کو کچھ نہیں کہا، نیب پی ٹی آئی کے رہنماؤں کیخلاف مقدمات میں آگے بڑھنے کیلئے بھی اسی طرح آزاد ہے، جس طرح باقی لوگوں کیخلاف آزاد ہے۔

نیب میں سیاستدانوں کیخلاف مقدمے چار فیصد سے بھی کم ہیں، وزارت قانون نیب قانون کے حوالے سپریم کورٹ کے فیصلے کا جائزہ لے رہی ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے کی روح کے مطابق عمل کرینگے، 10 سال میں نیب قانون میں کوئی ترمیم نہیں ہوئی، ہم سے کہا جا رہا ہے کہ 90 دن میں ترامیم کر لی جائیں۔ جتنی انکوائریاں اس وقت نیب میں چل رہی ہیں، اس میں سے ساڑھے چار فیصد انکوائریاں سیاستدانوں کی ہیں جبکہ 1.1 فیصد ریفرنس سیاستدانوں کے خلاف ہیں۔ نیب حراست میں کسی کیساتھ بھی زیادتی ہو رہی ہے تو اسکو دیکھنا چاہیئے، حکومت کسی بھی قسم کی زیادتی کے خلاف ہے، نیب کے حوالے سے ہمیں لکھ کر دیں، زبانی باتوں کا کوئی مقصد نہیں، قانون پر عمل درآمد کرانا ضروری ہے۔ تشدد اور عقوبت خانے کی کہانیاں جارحانہ اور منظم پروپیگنڈے کا حصہ ہیں، میگا کرپشن کے مقدمات کو منطقی انجام تک پہنچانا حکومت کی اولین ترجیح ہے۔

اسلام ٹائمز: ضرب عضب سمیت متعدد آپریشنز اور بے شمار قربانیوں کے باوجود کراچی اور اورکزئی جیسے واقعات کیوں پیش آرہے ہیں۔؟
فیاض الحسن چوہان:
چینی قونصل خانے پر حملہ سی پیک اور آئیڈیاز نمائش کو سبوتاژ کرنے کی کوشش ہوسکتی ہے، قونصل خانے پر حملہ کرنے والے تینوں دہشتگردوں کے پاس دستی بم اور دھماکہ خیز مواد بھی تھا، دہشتگردوں کے پاس کھانے پینے کی چیزیں بھی تھیں، دہشتگردوں کی کوشش تھی کہ قونصل خانے میں داخل ہوکر وہاں موجود لوگوں کو یرغمال بنایا جائے، پولیس نے بروقت کارروائی کرکے دہشتگردوں کی کوشش ناکام بنائی، پولیس کو سیلوٹ پیش کرتا ہوں جنہوں نے اپنے جانوں کی پرواہ کئے بغیر بروقت کارروائی کی، پولیس نے قونصل خانے کے قریب گھر میں جاکر چھت پر پوزیشن لیں، اس گھر کے مکینوں کا بھی شکریہ ادا کرتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: حالیہ دہشتگردی کا مخصوص وقت اور حملوں کے انداز کے بارے میں حکومت کیا سمجھتی ہے، یہ گذشتہ واقعات کا تسلسل ہے یا یہ کسی نئے کھیل کا حصہ ہیں۔؟
فیاض الحسن چوہان:
پاک چین دوستی گذشتہ کئی دہائیوں سے قائم اور مستحکم ہے، مگر جب سے دونوں ممالک نے چائنا پاکستان ایکنومک کوریڈور، ترقیاتی کاموں اور پاور پروجیکٹس کے معاہدے کئے ہیں اور ان پر کام شروع ہوا ہے، اس وقت سے پاکستان میں چین کے کئی شہریوں اور چینی تنصیبات پر مسلح حملے شروع ہوگئے، جن میں مقامی شرپسند خصوصاً مذہبی انتہا پسند گروپ، سندھی اور بلوچ انتہاء پسند اور قوم پرست شامل ہیں۔ چینی قونصلیٹ پر حملے کے علاوہ یہ سلسلہ مئی 2016ء کو کراچی کے نواحی علاقے گلشن حدید میں ایک ریمورٹ کنٹرول بم کے واقعہ میں ایک چینی انجینئر زخمی ہوا تھا۔ رپورٹس ہیں کہ یہ حملہ جئے سندھ متحدہ محاذ نے کیا ہے۔ مارچ میں اسی کالعدم سندھی قوم پرست جماعت نے سی پیک پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے چینی شہریوں پر حملوں کی دھمکی دی تھی۔

اس کے علاوہ قوم پرست جماعت نے ذولفقار آباد منصوبے جو کہ پاک چین کا باہمی منصوبہ ہے، پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا، جے ایس ایم ایم کو وزارت داخلہ نے دہشتگردی کی متعدد وارداتوں کے بعد 2013ء میں پابندی لگا کر کالعدم قرار دیا تھا اور اس کا سربراہ شفیع برفات جو کہ دہشتگردی میں مطلوب ہے، وہ جرمنی میں خود ساختہ جلاوطنی کی زندگی گزار رہا ہے۔ اسی طرح بی ایل اے اور تحریک طالبان پاکستان کا اتحاد بہت پرانا ہے، دہشتگردی کے حالیہ واقعات کو پورے خطے کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیئے، افغانستان کا عام شہری پاکستان سے متعلق پراپیگنڈے کے طوفان کی زد میں ہے، چینی قونصل خانہ حملے میں پولیس اور سکیورٹی فورسز کی کارکردگی کو سراہا جانا چاہئے، لوئر اورکزئی حملے میں کوئی نیا پن نہیں، البتہ کافی عرصہ بعد دہشتگردی کا کوئی بڑا واقعہ ہوا ہے، انڈیا کا افغانستان میں اثر و رسوخ ڈھکا چھپا نہیں ہے۔

اسلام ٹائمز: حکومت کے 100 روزہ ایجنڈے پر ناقدین کا کہنا ہے کہ کوئی قابل ذکر پیشرفت نہیں ہوسکی، حکومت کی کارکردگی اس قابل نہیں کہ حکومت میڈیا کے ذریعے عوام تک پہنچا سکے۔؟
فیاض الحسن چوہان:
خادم اعلیٰ نے بڑھکیں بہت ماریں، لیکن دس سال میں مسائل حل نہیں کرسکے۔ شہباز شریف نے انڈیانا جونز کی ٹوپی اور لانگ بوٹ پہن کر بڑھکیں ماریں، پنجاب کے ہیلتھ منسٹر کی زیادہ توجہ پیراگون سٹی پر تھی، شہنشاہ اعظم نے اپنے کاروبار کے لئے بیرونی دورے کئے. 10 سال میں پنجاب میں بڑے نعرے لگائے گئے، ماضی میں 270 ارب روپے اورنج ٹرین پر لگ جاتا تھا، مگر تعلیم کا بجٹ 100 ارب سے کم تھا. 10 سال سے ینگ ڈاکٹرز کا مسئلہ حل نہیں ہوا، کے پی میں صحت کے اندر جو کام ہوا، وہ کہیں نہیں ہوا، خادم اعلیٰ دس سال میں مسائل حل نہیں کرسکے. یہ ذہنی طور پر مفلوج ہوچکے ہیں، ملائشیا کی خاتون اول نے وزیراعظم عمران خان کا ہاتھ پکڑ کر تصویر بنوائی، تو نون لیگ والوں نے نریندر مودی کی نواز شریف کے ساتھ تصویر شیئر کر دی۔ شہباز شریف نے انڈیانا جونز کی ٹوپی اور لانگ بوٹ پہن کر بڑھکیں ماریں، پنجاب کے ہیلتھ منسٹر کی زیادہ توجہ پیراگون سٹی پر تھی، شہنشاہ اعظم نے اپنے کاروبار کے لئے بیرونی دورے کئے، لیکن ہم پہلے 100 دنوں میں ہی اپنی سمت واضح کرچکے ہیں، البتہ گذشتہ کرپٹ حکمرانوں کا کچرا صاف کرنا ایک چیلنج ہے۔

کیا ان جماعتوں کی حکومتوں نے عوام کی زندگی کو اس قدر خوشحال بنا دیا ہے کہ عوام بار بار اپنے ووٹ کے ذریعے اسے اقتدار میں لا رہے ہیں۔؟ ہمارے ملک میں ہر سال لاکھوں لوگ بھوک سے مر رہے ہیں، ہمارے ملک میں ہر سال لاکھوں عوام علاج سے محرومی کی وجہ سے جان سے جا رہے ہیں، ہمارے ملک میں ہر سال لاکھوں معصوم بچے دودھ سے محرومی کی وجہ جان سے جا رہے ہیں، ہمارے ملک میں لاکھوں خواتین زچگی کے دوران مناسب طبی سہولتوں کے فقدان کی وجہ موت کا شکار ہو رہی ہیں، ہمارے ملک میں ماں باپ کی کم آمدنی کی وجہ ایک کروڑ سے زیادہ بچے چائلڈ لیبر کا شکار ہو رہے ہیں۔ عوام یہ عذاب سابق حکومتوں میں بھگت رہے ہیں یا تین مہینے کے دوران انہیں ان عذابوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے؟ ہماری اپوزیشن ہرگز نہیں چاہتی کہ حکومت عوام کے مسائل حل کرکے اپنے پاؤں اتنے مضبوط کر لے کہ اسے ہٹانا مشکل ہو جائے، اسی خوف کی وجہ سے اپوزیشن جماعتوں نے حکومت کے خلاف پروپیگنڈے کا ایسا طوفان اٹھایا ہوا ہے کہ ایک مہم ابھی ختم نہیں ہوتی کہ دوسری شروع ہو جاتی ہے۔

اسلام ٹائمز: فیصل آباد، سرگودہا اور گجرانوالا میں وکلاء نے تمام سرکاری امور کو معطل رکھا ہوا ہے، حکومت کب ایکشن لیگی۔؟
فیاض الحسن چوہان:
کوئی چھپانے والی بات نہیں، حقیقت میں معاملے کا ابھی علم ہوا ہے، قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت کسی کو نہیں، مشتعل وکلاء نے قانون کے ماتھے پر ٹیکہ لگانے کی کوشش کی، قانون حرکت میں آئے، مشتعل وکلا کے خلاف ایکشن لیا جائے گا۔ چیف جسٹس سے درخواست ہے کہ وکلا کے خلاف نوٹس لیں، مشتعل وکلا کے لائسنس منسوخ ہونے چاہئیں، کار سرکار میں مداخلت کرنے والے وکلا کے خلاف کارروائی ہوگی، واقعے کی پوری تحقیقات کرکے ملوث لوگوں کے خلاف کارروائی ہوگی۔
خبر کا کوڈ : 763084
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش