0
Monday 11 Mar 2019 12:12
دہشتگردی کیخلاف کارروائیوں کو حتمی نتائج تک پہنچایا جائیگا

آج کے دور میں آئی ٹی کے بغیر ترقی سے ہمکنار ہونا ممکن نہیں، کامران بنگش

آج اگر ہم مرکز اور صوبوں میں حکومت کر رہے ہیں تو اس میں بڑا کردار ہمارے نوجوانوں کا ہے
آج کے دور میں آئی ٹی کے بغیر ترقی سے ہمکنار ہونا ممکن نہیں، کامران بنگش
وزیراعلٰی کے معاون خصوصی برائے سائنس اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی کامران بنگش کا شمار پی ٹی آئی کے نوجوان اور انتہائی متحرک رہنماؤں میں کیا جاتا ہے۔ کامران بنگش نے 2006ء میں پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی جس کے بعد وہ گراس روٹ لیول سے شریک ہوتے چلے گئے۔ 2009ء میں وہ پشاور کے ضلعی سیکرٹری اطلاعات مقرر ہوئے جبکہ 2007ء سے 2010ء تک پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا سیل کے سربراہ رہے۔ بعدازاں 2010ء میں پی ٹی آئی ضلع پشاور کے نائب صدر بنائے گئے جبکہ دو سال تک انصاف ڈاکٹرز فورم کے کوارڈینیٹر بھی رہے۔ کامران بنگش پی ٹی آئی کی نیشنل یوتھ کونسل میں شامل رہے اور اس دوران نمایاں کام کیا۔ پی ٹی آئی کی حکومت نیا بلدیاتی سسٹم لے کر آئی تو کامران بنگش ٹاؤن کونسلر منتخب ہوئے اور پھر عام انتخابات تک اس پلیٹ فارم سے فعال کردار ادا کرتے رہے یہی وجہ ہے کہ جب پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم کا مرحلہ آیا تو کامران بنگش کو پارٹی نے ٹکٹ جاری کر دیا، جنہوں نے پھر عام انتخابات میں پشاور بھر میں سب سے زیادہ یعنی 31 ہزار ووٹ لے کر صوبائی اسمبلی کے حلقے سے کامیابی حاصل کی اور اس کے بعد پارٹی قیادت نے ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کیلئے ان کو صوبائی کابینہ کا حصہ بنانے کی منظوری دی چونکہ خود کمپیوٹر سائنس کے گریجویٹ ہیں اس لئے ان کو آئی ٹی کا محکمہ حوالے کیا گیا جس کے بعد سے وہ انتہائی فعال انداز میں مصروف عمل ہوگئے۔ صوبائی وزیر کی اسلام ٹائمز سے ہونے والی گفتگو انٹرویو کی صورت میں قارئین کے پیش خدمت ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: جس ویژن کے تحت آپ نے آئی ٹی کا محکمہ لیا تھا اس پر کس قدر عملدرآمد ہوسکا ہے؟
کامران بنگش:
اگر دیکھا جائے تو ہمارے صوبے میں محکمہ سائنس اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی کا شمار چھوٹے محکموں میں کیا جاتا ہے، کیونکہ اگر ایک طرف اس کا سٹاف انتہائی کم ہے تو دوسری طرف اس کا بجٹ بھی بہت کم ہوا کرتا ہے۔ مگر اس کا پوٹینشل بہت زیادہ ہے جب صوبائی کابینہ کی تشکیل ہو رہی تھی تو میں نے خود ہی اپنے لئے اس محکمے کا انتخاب کیا تھا کیونکہ مجھے اس کی اہمیت کا بخوبی احساس تھا۔ جب اس محکمے کی ذمہ داری مجھے ملی تو پہلے روز سے ہی اس حوالے سے کام شروع کردیا۔ اس وقت بھارت کی آئی ٹی ایکسپورٹ 167 ارب ڈالر سالانہ ہے جبکہ ہماری آئی کی ایکسپورٹ صرف ایک ارب ڈالر سالانہ ہے۔ اب اس میں اضافے کیلئے ہم اپنا کردار ادا کرنے کیلئے تیاریوں میں مصروف ہیں۔ میری خوش قسمتی یہ تھی کہ جب ذمہ داریاں سنبھالیں تو مجھے تیار گراؤنڈ ملا تھا۔ سابق دور میں شہرام خان نے اس حوالے سے کافی کام کیا ہوا تھا، ہم نے سٹارٹ اپ کیلئے درشل کے نام سے پراجیکٹ شروع کیا جبکہ یوتھ ایمپلائمنٹ پروگرام کے تحت تربیتی کورس کروا رہے ہیں۔ ہر سال فارغ ہونے والے ہزاروں گریجویٹس کو مناسب ماحول اور ان کی سکلز گروتھ کیلئے بھی کام جاری ہے، ہم سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں جدید رجحانات پر مبنی ٹیکنالوی کو فروغ دینے کی کوشش کر رہے ہیں، کیونکہ مستقبل میں ترقی سائنس اور ٹیکنالوجی پر عبور حاصل کرنے میں ہی مضمر ہے۔ ٹیکنالوجی کے میدان میں نت نئی جہتوں اور رجحانات کیلئے اکیڈمی نے گریجویٹس کو تیار کرنا ہے تاکہ ہم ٹیکنالوجی کی دنیا میں نت کی روایات اور چیلنجز کے سلسلے میں بیرونی دنیا کے ساتھ دوڑ میں شامل ہوسکیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ سائنس و ٹیکنالوجی گریجویٹس نئے خیالات و نظریات کے ساتھ اپنی تحقیقی سرگرمیوں کو آگے لے کر جائیں تاکہ ملک کا نام روشن کرسکیں۔ دنیا میں انفارمیشن ٹیکنالویی کا ایک ایکویسسٹم ہوتا ہے جس کی طرف ہم بھی بڑھ رہے ہیں۔ آج ایک اندازے کے مطابق دنیا میں تقربیاََ 30 ہزار ڈیٹا سائنسدانوں کی قلت ہے جبکہ سائبر سکیورٹی انٹرنیٹ آف تھنکنگ، آرٹیفیشل انٹیلی جنس و دیگر آئی ٹی کے ایسے پہلو ہیں جن میں ترقی کی زیادہ ضرورت ہے۔ لہٰذا نوجوانوں اور ہمارے یونیورسٹی کے گریجویٹس کو اس طرف دھیان دینا چاہیئے۔ صوبائی حکومت نے آئی ٹی کے فروغ اور اس سیکٹر سے روزگار کے مواقع حاصل کرنے کیلئے کئی منصوبوں پر کام شروع کیا ہے جس کے سلسلے میں "ودہ" کے نام سے ایک پروگرام شروع کیا جارہا ہے جس کے ذریعے آئی ٹی کمپنیز کو رجسٹرڈ کرکے ان کی بزنس ڈویلپمنٹ کیلئے اقدامات اٹھائے جائیں گے اور اس سے سالانہ 2 بلین ڈالر کی آمدن کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ ریڈی سپیز کے نام سے ایک اور آئی ٹی منصوبے کے ذریعے تقریباََ 700 لوگوں کو روزگار کے مواقع ہاتھ آئیں گے۔ فری لانسنگ میں ہم اسوقت دنیا میں چوتھے نمبر پر ہیں، امریکہ پہلے جبکہ بھارت دوسرے نمبر پر اب ہماری کوشش ہے کہ ہم دنیا میں دوسرے نمبر پر آجائیں۔ اسی طرح خواتین کو گھر بیٹھے روزگار کیلئے تمام پروگراموں میں 50 فیصد حصہ رکھا جارہا ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے خیبر پختونخوا حکومت اس سیکٹر کی ترقی کیلئے عملی اقدامات کررہی ہے اور اس سلسلے میں آئی ٹی بورڈ کثیرالجہتی منصوبوں پر کام کر رہی ہے، کیونکہ آج کے دور میں آئی ٹی کے بغیر ترقی سے ہمکنار ہونا ممکن نہیں کہ جدید دور میں ہر شعبے میں آئی ٹی کا انتہائی اہم عمل دخل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صوبائی حکومت ذاتی طور پر اس شعبے کو آگے لانے کیلئے کوشش کررہی ہے۔

اسلام ٹائمز: پی ٹی آئی کو نوجوانوں کی کافی حمایت حاصل رہی ہے ان کے نمائندے کے طور پر ان کیلئے کیا اقدامات کئے جارہے ہیں؟
کامران بنگش:
آپ نے بالکل ٹھیک کہا نوجوان پی ٹی آئی کی اصل طاقت ہیں آج اگر ہم مرکز اور صوبوں میں حکومت کر رہے ہیں تو اس میں بڑا کردار ہمارے نوجوانوں کا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے ہمیشہ نوجوانوں کے مسائل حل کرنے کے حوالے سے بات کی اور آج بھی نوجوان ان کی ترجیحات میں سر فہرست ہیں، کیونکہ نوجوان ہمارے ملک کا اثاثہ اور قیمتی سرمایہ ہیں اور قوم کی نوجوان نسل سے بہت سی امیدیں وابستہ ہیں۔ نئی نسل کو اس ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا کیونکہ نوجوان نسل نے ہی اس ملک کو ترقی سے ہمکنار کرنا ہے۔ ہماری حکومت نوجوانوں کو نظرانداز کرنے کی بجائے ان کو مرکز نگاہ رکھتے ہوئے پالیسیاں ترتیب دینے میں مصروف ہے۔ اس مقصد کیلئے حکومت نے صوبے میں باصلاحیت نوجوانوں کی سائنسی اور حقیقی صلاحیتوں کو نکھارنے کیلئے ایک جامع منصوبہ بندی شروع کی ہے جس کے تحت علاقائی سطح پر سائنس میلوں کے انعقاد کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ مذکورہ سائنسی میلوں میں سکولوں، عصری و فنی علوم کے کالجوں اور یونیورسٹیز کے طلباء و جنرل پبلک حصہ لے سکیں گے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جمہوریت کو پروان چڑھانے میں بھی نوجوانوں کا کردار نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ نوجوانوں کا جمہوری روایات اور اس کے متعلقہ فورم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا فخر کی بات ہے کیونکہ نوجوانوں کیلئے بنیادی جمہوری فورمز وہ سیڑھیاں ہیں جن میں تربیت حاصل کرنے کے بعد ہمارے نوجوان ملک کے ایوانوں میں عوام کی بہتر نمائندگی کریں گے۔ ہم چاہتے ہیں کہ وہ ملک وقوم اور اس صوبے کی ترقی کیلئے جدوجہد کریں اور اس ملک کیلئے منفی سوچ رکھنے والے عناصر کی اپنے مثبت خیالات کے ذریعے حوصلہ شکنی کریں جبکہ اپنی انفرادی کامیابی پر قومی کامیابی کو ترجیح دے کر تاریخ بنانے کیلئے اپنی توانائیاں صرف کریں۔ ہمارے نوجوان گذشتہ انتخابات میں اُٹھے اور 25 جولائی کو اپنا فیصلہ دیا تو پوری قوم کو معلوم ہوا کہ اصل فورس ہی نوجوان طبقہ ہے۔ مجھے نوجوانوں کے پروگراموں میں شرکت کرکے سب سے زیادہ خوشی ہوتی ہے، ہماری خواہش ہے کہ نوجوان معاشرے کی رہنمائی اور آگاہی کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔

اسلام ٹائمز: ملک بھر میں پہلی ڈیجیٹل پالیسی لانے کا اعزاز خیبر پختونخوا کی موجودہ حکومت کو حاصل ہوا ہے اس پالیسی کے حوالے سے تفصیل بتائیں۔
کامران بنگش:
جی ہاں یہ خوشگوار حقیقت ہے کہ ڈیجیٹل پالیسی بنانے کے سلسلے میں ہمارے صوبے نے دیگر صوبوں پر سبقت حاصل کی ہے کیونکہ صرف خیبر پختونخوا ہی نے ڈیجیٹل پالیسی تیار کی ہے۔ ہم سائنس و ٹیکنالونی کی ترقی کیلئے ایک خاص حکمت عملی پر کام کررہے ہیں اور ڈیجیٹل اکانومی، ڈیجیٹل اسکلز اور ای گورننس کے فروغ جبکہ حکومتی کارکردگی کی بہتری کیلئے اقدامات کئے جارہے ہیں، جیسا کہ میں نے بتایا کہ صوبائی حکومت نے صوبے کی تاریخ کی پہلی ڈیجیٹل پالیسی بنائی ہے، جو ڈیجیٹل گورننس، ڈیجیٹل سکلز، ڈیجیٹل رسائی اور ڈیجیٹل اکانومی کے چار بنیادی ستونوں پر مشتمل ہے۔ چاروں صوبوں میں ہمارے صوبے نے پہل کرکے ڈیجیٹل ٹرانسفارمیشن کے فروغ کیلئے پالیسی بنائی ہے، ہمیں حکومت میں آنے کے بعد ڈیجیٹل شعبے میں متعدد اہداف دیئے گئے جس کے حصول کیلئے ہماری آئی ٹی انڈسٹری اور عملے کی ٹیم کے مابین مسلسل مشاورت کے بعد ہی پالیسی کو ہتمی شکل دی گئی۔ صوبے کی ڈیجیٹل پالیسی کے بنیادی خدوخال میں شامل ہے کہ کیسے حکومتی سطح پر عوام کو دی جانے والی خدمات کے طریقہ کار کو بہتر بنایا جائے اور گورننس کے انتظام کو بہتر کیا جائے جبکہ 2019ء میں سمارٹ سٹی کانفرنس کا انعقاد بھی ہمارے پروگرام میں شامل ہے۔ تقریباََ پانچ محکموں میں ای آفیسز کے قیام کیلئے کام ہورہا ہے جبکہ سائبر سکیورٹی کیلئے ہمارا سائبر ایمرجنسی رسپانس سیل متحرک انداز میں کام کر رہا ہے۔ ڈیجیٹل سکلز کے بارے میں یوتھ ایمپلائمنٹ پروگرام کے تحت 8 ہزار لوگوں کی تربیت کی جاری ہے جبکہ گوگل اور ریکل، مائیکروسافٹ اور فیس بک کے ساتھ ہماری ٹیم کام کرتی ہے تاکہ نوجوانوں کو تکنیکی مہارت سے آراستہ کیا جائے۔ ارلی ایج پروگرام کے تحت چھٹی، ساتویں اور آٹھویں جماعت کی بچیوں کو تربیت فراہم کی جاری ہے تاکہ ان میں تخلیقی صلاحیتیں اجاگر کی جائیں، اس سے 16 ہزار بچیاں مستفید ہوچکی ہیں اور محکمہ ابتدائی و ثانوی تعلیم کیساتھ اس پروگرام کو نصاب کا حصہ بنانے کا معاملہ زیرِغور ہے کے ڈیجیٹل اکانومی کے سلسلے میں بھی ہم نمایان اقدامات اٹھا رہے ہیں اور رشکئی اکنامک زون میں 10 فیصد ٹیکنالوی انڈسٹری کو دیا جائے گا جبکہ ہری پور کے مقام پر ڈیجیٹل سٹی کی فری فیزیبلٹی ہوچکی ہے اور ڈیجیٹل ادائیگیوں کے نظام کو فروغ دینے کیلئے کوششیں کی جاری ہیں۔ یونیورسل سروس فنڈ کے تحت وفاق نے صوبے کو اپنا پورا شیئر دینے کی یقین دہانی کرائی ہے، اس پالیسی میں ملک کے سب سے پسماندہ سمجھے جانے والے سابق فاٹا کے انضمام شده نئے اضلاع کے لوگوں کو ڈیجیٹل رسائی کی فراہمی پر خاص طور پر زور دیا گیا ہے۔ پالیسی صوبے میں ڈیجیٹل ٹرانسفارمیشن کی سہولیات کیلئے بڑھتی ہوئی نجی و سرکاری شراکت پر توجہ مرکوز کرتی ہے۔ یہ پالیسی ضم شدہ نئے اضلاع یعنی سابق فاٹا کی تعمیر اور وفاقی حکومت کی جانب سے آئی سی ٹی خدمات میں صوبائی حصے کی فراہمی پر تیز رفتار عمل درآمد پر بھی زور دیتی ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا پالیسی کی تیاری میں تمام سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیا گیا ہے؟
کامران بنگش:
جی بالکل! اس پالیسی کی تیاری میں تمام سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیا گیا ہے۔ یہ پالیسی زمینی حقائق پر مبنی ہے اور حقیقت پسندانہ اہداف کے حصول کیلئے آسانیاں فراہم کرتی ہے۔ صوبائی حکومت مذکورہ پالیسی میں کسی بھی مفید تجویز کو شامل کرنے کیلئے ہمیشہ سے تیار ہے اور صوبے کے عوام کے وسیع تر مفاد میں اس میں بہتری لانے اور اسی کے اہداف کے حصول کیلئے معاون کسی بھی تجویز کو سراہے گی۔ صوبے میں نئے ضم شدہ اضلاع، ڈیجیٹل انفراسٹرکچر میں ملک کے دیگر حصوں سے بہت پیچھے ہیں جبکہ دوسری جانب پورے صوبے میں باصلاحیت نوجوانوں کی بڑی تعداد میں استعداد موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ پالیسی ان وسائل سے زیادہ سے استفادہ حاصل کرنے پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے۔

اسلام ٹائمز: صوبائی محکموں کو پیپر لیس بنانے اور لینڈ ریونیو ریکارڈ کو کمپیوٹرائزڈ کرنے کے حوالے سے پیش رفت سے کس قدر مطمن ہیں؟
کامران بنگش:
ہماری سابق صوبائی حکومت کے دور میں اسی حوالے کام شروع کیا جاچکا تھا، جس کی رفتار اب مزید بڑھائی جاری ہے۔ صوبے کی پہلی ڈیجیٹل پالیسی کی کابینہ سے منظوری سے پہلے متفقہ طور پر قرار داد منظور ہوئی تھی کہ اگلے 5 سال میں سرکاری امور روایتی کاغذی کارروائی سے ڈیجیٹل نظام پر منتقل کئے جائیں گے جس پر اب تیزی سے پیش رفت جاری ہے۔ سول کورٹس اور ہائی کورٹ کی آٹومیشن کے سلسلے میں بھی وزیر قانون کے ساتھ بات چیت ہوئی ہے تاکہ عدالتوں کے نظام میں جدت لائی جائے اور عوام کو عدل و انصاف کی فراہمی کا نظام تیز تر ہوسکے۔ لوکل گورنمنٹ حکام کے ساتھ سٹیزن فیسلٹیشن سنٹر بنانے کیلئے بھی اقدامات کئے جارہے ہیں۔ یہ افسوسناک حقیقت ہے کہ صوبے میں انٹرنیٹ 1995ء میں متعارف کیا گیا تھا لیکن سرکاری اداروں کا سارا کام اب بھی زمانہ قدیم کے کاغذوں اور فائلوں کے ذریعے ہوتا ہے، اس ناکارہ سسٹم کو چلانا وقت اور وسائل دونوں کا ضیاع ہے جبکہ یہ خدمات کی فراہمی میں بھی باعث رکاوٹ ہے۔ سرکاری ادارے اپنے پرائیویٹ ای میل ایڈریس استعمال کررہے ہیں۔ یہ عمل نہ صرف سرکاری اور پرائیویٹ معاملات کو کم کرتا ہے بلکہ سکیورٹی رسک بھی پیدا کرتا ہے، اس لئے اب پیپر لیس ماحول کی تیاری کیلئے کام جاری ہے۔ ساتھ ہی رہائشی مکانات اور اراضیات کے خریدوفروخت کے روایتی طریقہ کار کو Automated نظام پر منتقل کرنے پر غور کیا جا رہا ہے، جس کا مقصد شہریوں کو انتقالات اور اراضیات کی خریدوفروخت میں آسانیاں پیدا کرنا اور اس نظام کو شفاف بنانا ہے۔ تحریری معاہدات Deeds کے طریقہ کار کو روایتی نظام سے ڈیجیٹلائز طریقے پر ڈالنے سے شہری ایک آسان سسٹم کے تحت اراضیات، پراپرٹی اور رہائشی مکانات کے انتقالات اور ایگریمنٹس کرسکیں گے جو کسی بھی ابہام سے مبرا ڈیجیٹل نظام ہوگا۔ موجودہ روایتی طریقہ کار میں شہریوں کو درپیش مشکلات کا ازالہ ای اسٹامپ پیپرز کے نظام سے ممکن ہوسکے گا، اس طریقہ کار کو مرحلہ وار اپنانے پر غور کیا جارہا ہے۔ اس حوالے سے تمام متعلقہ محکمہ جات سے مل بیٹھ کر طریقہ کار وضع کیا جائے گا، لینڈ ریکارڈ کپیوٹرائزیشن کیلئے اب تک دس اجلاس ہوچکے ہیں۔ اس سلسلے میں وزیر خزانہ تیمور سلیم جھگڑا اور وزیر مال خلیل احمد کا شکرگزار ہوں کیونکہ دونوں اس معاملے میں بھر پور تعاون کررہے ہیں جبکہ وزیراعلٰی محمود خان بھی مکمل سرپرستی کررہے ہیں۔ 7 اضلاع کا لینڈ ریکارڈ رواں سال کے اواخر تک کمپیوٹرائزڈ ہوجائے گا جس سے عوام کو پٹوار اور پٹواریوں کی چیره دستیوں سے نجات مل جائے گی۔

اسلام ٹائمز: پشاور نے پی ٹی آئی کو بھر پور مینڈیٹ دیا ہوا ہے پشاور کیلئے کوئی جامع منصوبہ بندی کی جاری ہے؟
کامران بنگش:
ہماری حکومت سے قبل پشاور کو ہر دور میں نظرانداز کیا جاتا رہا ہے، ہماری سابق صوبائی حکومت کے دور میں ایک طرف پشاور کیلئے بی آر ٹی کا تحفہ دیا گیا تو دوسری طرف چڑیا گھر بھی بنایا گیا، تجاوزات کے خلاف تاریخی آپریشن بھی ہوا۔ اسوقت پشاور کی تاریخی حیثیت کی بحالی کیلئے ہماری کوششیں جاری ہیں۔ پشاور ہم سب کا شہر ہے، یہ پورے صوبے کا مرکز ہے۔ پشاور کی بحالی کیلئے شہر سے منتخب ہونے والے نمائندے باہمی مشاورت میں مصروف ہیں، ہم اس حوالے سے بڑے مسائل کی نشاندہی کرکے حل کیلئے جامع پلان تشکیل دینا چاہتے ہیں، پشاور کو کسی بھی صورت نظر انداز میں ہونے دیا جائے گا۔

اسلام ٹائمز: آپ کا حلقہ شہری علاقے سے ہے اپنے حلقے کے مسائل کے حل کیلئے کیا حکمت عملی وضع کی؟
کامران بنگش:
پارلیمانی سیاست میں حلقے کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ یہ بنیادی اکائی ہوا کرتی ہے۔ میری کوشش ہے کہ اپنے حلقے کے تمام مسائل بروقت حل کرسکوں، اس مقصد کیلئے قریبی رابطے میں رہتا ہوں اور کھلی کچہریوں کا سلسلہ بھی شروع کیا ہوا ہے۔ حلقے کے عوام سے باہمی روابط تیز تر اور آسان بنانے اور ان کے مسائل سے بروقت آگاہی حاصل کرنے کیلئے جلد سٹیزن ایپ متعارف کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ مذکورہ سٹیزن ایپ کے ذریعے ان کے حلقے کے عوام اور ایم پی اے ان سے اپنے مسائل کے ازالے کیلئے براہ راست رابطہ کرسکیں گے۔ عوام نے ہمیں ووٹ اپنے درپیش مشکلات کے خاتمے کیلئے دیا ہے لہٰذا اس سلسلے میں وہ اپنی طرف سے ہر مکن قدم اٹھائیں گے۔ عوام کے بنیادی مسائل کا عمل ہمارا مطمع نظر ہے، یہی وجہ ہے کہ مقامی سطح پر عوام کے مسائل و مشکلات سے آگاہی حاصل کرنے اور ان کے حل کیلئے فوری اقدامات اٹھانے کیلئے صوبائی حکومت نے کھلی کچہریوں کا سلسلہ شروع کیا ہے تاکہ عوامی عدالت میں منتخب نمائندے اور متعلقہ اداروں کے حکام عوام کے مسائل سے آگاہی حاصل کرلیں اور ان کے حل کیلئے اقدامات اٹھائیں۔ سرکاری حکام عوام کے خادم ہیں اور عوامی خدمت میں اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھائیں۔ کھلی کچہری کا مقصد عوام کے پاس جا کر ان کے مسائل کی شنوائی اور اس کا حل ہے، لہٰذا عوامی منتخب نمائندے اور سرکاری حکام اپنی اس ذمہ داری کو من و عن پورا کریں گے کیونکہ عوامی خدمت میں کسی بھی قسم کی کوتاہی قابل قبول نہیں۔ پاکستان تحریک انصاف نے عوام سے ووٹ نظام میں مثبت تبدیلی لانے اور انہیں ان کے بنیادی حقوق کی فراہمی کے نام پر لیا ہے، حکومت اپنے اس وعدے کو پورا کرتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ منتخب نمائندے عوامی عدالت میں اپنے احتساب کیلئے حاضر ہوتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: صوبائی حکومت کی صفوں میں وقتاََ فوقتاََ اختلافات کی خبریں سامنے آتی رہتی ہیں، باہمی عدم اعتماد کی بڑی وجہ کیا ہے؟
کامران بنگش:
ہمارے ہاں بدقمستی سے اختلاف رائے کو اختلافات کا نام دیدیا جاتا ہے، جو بہت افسوسناک امر ہے، کیونکہ اختلاف رائے تو جمہوریت کا حسن ہے۔ اسوقت صورتحال یہ ہے کہ تمام وزراء وزیراعلٰی محمود خان کی قیادت میں پوری طرح سے متحد ہیں۔ وزیراعلٰی کو تمام کابینہ اور اراکین صوبائی اسمبلی کی واضح اور بھر پور حمایت حاصل ہے۔ تمام فیصلے باہمی مشاورت اور اتفاق رائے سے کئے جارہے ہیں، ہمارے پاس فضول باتوں میں الجھنے کیلئے وقت ہی نہیں کیونکہ ہم سب اپنے اپنے اہداف کے حصول کیلئے سرگرم عمل ہیں، تمام کام انتہائی فریڈلی ماحول میں ہورہا ہے۔

اسلام ٹائمز: کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائیوں کا آغاز ہوچکا ہے کیا لگتا ہے کہ اس بار کارروائی سابقہ ادوار سے مختلف ہوگی؟
کامران بنگش:
دیکھیں کالعدم تنظیمیں پاکستان میں کیا کچھ کرتی ہیں یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے، ڈھکے چھپے وہ لوگ یا وہ قوتیں ہیں جو ان کو سپورٹ کرتی ہیں یا ان کو اپنے مقاصد کیلئے ملک کے خلاف استعمال کرتی ہیں یا پھر پاکستانی سرزمین کو دوسرے ممالک کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے جس سے پاکستان کی دنیا بھر میں بدنامی ہوتی ہے۔ یہ نیا پاکستان ہے، نئے پاکستان کی سوچ پرانے پاکستان کی سوچ سے مختلف ہے۔ اس بار سول قیادت اور عسکری قیادت ایک پیج پر ہے جس سے پاکستان کے بہت سے مسائل حل ہوں گے۔ اسی اکائی کی بنیاد پر ان تنظیموں کے خلاف کارروائی بھی گذشتہ ادوار سے مختلف ہوگی۔ پہلے کچھ دیر کیلئے کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائیاں ہوتی تھیں مگر کچھ ہی دیر بعد سب کچھ بھلا دیا جاتا تھا مگر اب ایسا نہیں ہے، دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں کو حتمی نتائج تک پہنچایا جائے گا۔

اسلام ٹائمز: انٹیلی جنس رپورٹس کے مطابق پاکستان پر بھارت اسرائیل اور ایک تیسرے ملک نے حملے کی منصوبی بندی کی، لیکن تیسرے ملک کا نام مخفی رکھا گیا ہے جسکی وجہ سے سوشل میڈیا صارفین میں ایک نہ ختم ہونے والی بحث چھڑ گئی ہے آپ کی اس حوالے سے کیا رائے ہے؟
کامران بنگش:
اس میں کوئی شک نہیں کہ بہت سے ممالک پاکستان کے دشمن ہیں۔ بھارت ہو اسرائیل یا دیگر ممالک جن کو پاکستان کے وجود سے تکلیف ہے وہ روز اول سے ہی حملے کرتے آئے ہیں، خواہ وہ سرحدوں سے ہو، تعلیمی ہو، ثقافتی ہو، مذہبی ہو وغیرہ وغیرہ۔ سوشل میڈیا پر میں نے بھی دیکھا ہے کہ مختلف قفہوں سے تعلق رکھنے والے لوگ چھوٹی ذہنیت کی وجہ سے اپنے ہی اسلامی برادر ممالک کو الزام دے رہیں جو سراسر ظلط ہے۔ ہماری یہ بدقسمی رہی ہے کہ ہر مسئلے کو تعصب اور جزبات کی نظر سے دیکھتے ہیں اور صرف دیکھتے ہی نہیں بلکہ اپنا فیصلہ بھی سنا دیتے ہیں، کیونکہ ہمارا مائنڈسیٹ ہی ایسا بنا دیا گیا ہے۔ ہمیں چاہیئے کہ ہم اپنے اسلامی برادر ممالک پر الزام لگانے سے گریز کریں اور سلجھی ہوئی مہذب قوم ہونے کا ثبوت دیں۔ جہاں تک انٹیلی جنس اداروں کی بات ہے تو وہ بہتر جانتے ہیں کہ کس کا نام لیا جانا ہے اور کس کا نہیں، اس حوالے سے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔
خبر کا کوڈ : 781957
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش