0
Monday 29 Apr 2019 09:21
بھارتی مسلمانوں کو اپنی روش میں تبدیلی لانی ہوگی

بھارت کے پارلیمانی انتخابات میں مسلم لیڈرشپ کی کمی کا احساس ہو رہا ہے، ڈاکٹر غلام حسین

ہمیں نام نہاد لیڈروں کو مسلمانوں سے نہیں جوڑنا چاہیئے
بھارت کے پارلیمانی انتخابات میں مسلم لیڈرشپ کی کمی کا احساس ہو رہا ہے، ڈاکٹر غلام حسین
ڈاکٹر غلام حسین بیگ ہندوستان کی ریاست حیدرآباد کی ایک مقبول و ہردلعزیز شخصیت ہیں، وہ 1967ء سے بحیثت فزیشن قوم کی خدمت کرتے چلے آرہے ہیں، ڈاکٹر غلام حسین آندھرا پردیش کے سب سے بڑے آئی ایس ایم اسپتال گورنمنٹ نظامیہ جنرل میڈیکل اسپتال کے چیف میڈیکل آفیسر رہ چکے ہیں، 1999ء میں ملازمت سے ریٹائرڈ ہونے کے بعد سے تاحال سماجی، معاشرتی، اصلاحی و دیگر مسائل پر سینکڑوں مضامین تحریر کرچکے ہیں اور قوم و ملت مسلمہ کی خدمت میں اپنے آپکو وقف کئے ہوئے ہیں، وہ ایک منجے ہوئے قلمکار بھی ہیں، اسلام ٹائمز کے نمائندے نے ڈاکٹر غلام حسین بیگ سے ایک خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کرام کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: بھارت میں پارلیمانی انتخابات جاری ہیں، تمام طبقے اس سیاسی کھیل میں سرگرم رول ادا کئے ہوئے ہیں سوائے مسلمانوں کے۔ کیا وجہ ہے کہ مسلمان اس حوالے سے خاموش نظر آرہے ہیں۔؟
ڈاکٹر غلام حسین بیگ:
دیکھیئے، مسلمانوں کی قیادت عام طور پر سیاسی لیڈر کم علماء کرام کے اردگرد زیادہ نظر آتی ہے۔ جتنا بڑا اجتماع علماء کرام کر لیتے ہیں، مسلم سیاسی لیڈر نہیں کر پاتے ہیں۔ اس کے علاوہ مسلمانوں کا رحجان دینی اجتماع میں زیادہ ہوتا ہے اور سیاسی اجتماع کو وہ وقت کا زیاں سمجھتے ہیں حالانکہ وہ خود اس میں ماہر ہوتے ہیں۔ مسلمانوں کو نظرانداز کرنے کا معاملہ بھی یہیں سے شروع ہوتا ہے، کیوںکہ جمہوری نظام خاص طور پر تکثیری جمہوری نظام میں سروں کی اہمیت بہت ہوتی ہے اور مسلمانوں کو جہاں سر دکھانا ہوتا ہے، وہ وہاں سے غائب رہتے ہیں۔ جس طرح جمعیۃ علماء ہند اور تبلیغی جماعت کے اجتماعات میں مسلمان فوج در فوج جمع ہوتے ہیں، اگر اسی طرح اپنے سیاسی، معاشی، تعلیمی اور معاشرتی مسائل کے سلسلے میں جمع ہو جائیں تو وہ دن دور نہیں جب مسلمانوں کے مسائل حل ہو جائیں۔ اگر ایسا ہوا تو مسلمانوں کی سیاسی حیثیت بھی بڑھ جائے گی اور وہ سیاسی بارگیننگ کی حالت میں ہونگے۔

اسلام ٹائمز: کیوں مسلمانوں کے درمیان کوئی بے باک سیاسی قیادت میسر نہیں ہو رہی ہے۔؟
ڈاکٹر غلام حسین بیگ:
مسلم لیڈروں پر عام طور پر مسلمانوں کے لئے کام نہ کرنے کا الزام عائد ہوتا رہا ہے اور اس میں بہت حد تک سچائی بھی ہے، لیکن یہ صرف ایک پہلو ہے۔ دوسرا رُخ مسلمان بھی ہیں، کیا وہ اپنے لیڈروں کا اسی شدت سے ساتھ دیتے ہیں، جس طرح کانشی رام اور مایاوتی کو ان کی کمیونٹی کے لوگوں نے دیا ہے۔ اگر مسلمان دو چار لوگ کہیں نکلتے ہیں تو ان میں بھی ایک کو امیر چننے پر زور دیا جاتا ہے، لیکن کیا اتنی بڑی آبادی کی قیادت کے لئے کسی کو ہم نے منتخب کیا ہے۔؟ ہماری بدقستمی ہے کہ ہم سیاسی میدان میں کسی کو فالو نہیں کرتے ہیں۔ کیا مسلمانوں نے کبھی اپنے معاشرے سے کسی مسلم لیڈر کو پیدا کیا۔؟ جب لیڈر پارٹی سے پیدا ہوں گے تو پارٹی کے لئے سوچیں گے، پارٹی کے رہنما ہدایات پر عمل کریں گے، پارٹی اعلٰی کمان کی ہدایت اور اشارے پر رقص کریں گے، تو پھر وہ مسلمانوں کی قیادت کیسے کرسکتے ہیں۔؟ ان کو پارٹی کی ہدایت ہوتی ہے کہ وہ صرف مسلمانوں کا ووٹ کیسے حاصل کرسکتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: دیکھا گیا ہے کہ ان انتخابات میں مسلم لیڈروں کے ٹکٹ کاٹ دیئے گئے ہیں، اس صورتحال کو آپ کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
ڈاکٹر غلام حسین بیگ:
پارلیمنٹ کے موجودہ انتخابات میں مسلم لیڈرشپ کی کمی کا احساس ہو رہا ہے اور ہاں کئی اہم پارٹیوں نے مسلم لیڈروں کے ٹکٹ کاٹ دیئے۔ لیکن ذرا اس بات پر غور کیجیئے کہ کیا وہ صحیح معنوں میں مسلم لیڈر تھے بھی۔؟ حقیقی معنوں میں دیکھا جائے تو وہ صرف پارٹی لیڈر تھے، یہ الگ بات ہے کہ وہ مذہباً مسلمان تھے۔ اگر وہ صحیح معنوں میں مسلمانوں کے لیڈر ہوتے یا انہوں نے مسلمانوں کے لئے بھلائی کا کام کیا ہوتا تو ان کے پیچھے مسلمانوں کی بھیڑ کھڑی ہوتی اور پارٹی کو مجبور ہوکر انہیں ٹکٹ دینا پڑتا ہے۔ کیوںکہ پارٹی کو ان لیڈروں کی اوقات معلوم ہے کہ وہ بلبلے کی مانند ابل سکتے ہیں اور جھاگ کی طرح بیٹھ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس کی حقیقت کچھ بھی نہیں ہے۔ جب ان سے انکے کام کے بارے میں سوال کیا جاتا ہے تو ذاتی کام کے علاوہ اجتماعی کوئی کام نظر نہیں آتا۔ زمینی سطح پر ان کا کوئی ایسا کوئی کام نہیں ہوتا ہے۔ یہ وقت ایسے لیڈروں کے لئے احتساب کا وقت ہے اور اس نوجوان نسل کے لئے سبق ہے، جو سیاست کے میدان میں آنا چاہتے ہیں۔ ہمیں ایسے نام نہاد لیڈروں کو مسلمانوں سے نہیں جوڑنا چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: حقیقی مسلم لیڈرشپ کہاں سے میسر ہوسکتی ہے۔؟
ڈاکٹر غلام حسین بیگ:
دیکھیئے مسلمان ہی اپنے اندر سے مسلم لیڈر پیدا کرسکتے ہیں، جو پارٹی کا علمبردار ہونے کے بجائے مسلمانوں کا بوجھ اٹھانے والا ہوسکتا ہے، لیکن مسلمانوں کو اپنی روش میں تبدیلی لانی ہوگی۔ مسلمان دس پندرہ برسوں میں اپنے اندر سے مسلم لیڈرشپ پیدا کرسکتے ہیں، جو پنچایت کی سطح سے لے کر اراکین پارلیمنٹ تک اہم ترین رول ادا کرسکتے ہیں۔ اس اہم کام کے لئے مسلمانوں کے ذی شعور افراد کو مل بیٹھ کر حکمت عملی مرتب کرنی ہوگی۔ ایک منصوبہ بندی کے تحت یہ کام ہوسکتا ہے۔

اسلام ٹائمز: آج یہاں حالات بہت دگرگوں ہیں اور مسلمان تذبذب اور مخمصے میں مبتلا ہیں کہ کس کو ووٹ دیں اور کسے نہ دیں۔ آپ انہیں کیا مشورہ دینا چاہیں گے۔؟
ڈاکٹر غلام حسین بیگ:
دیکھیئے اگر انہیں سیاست میں ایک شناخت پیدا کرنی ہے اور اپنی حالت بدلنی ہے تو انہیں کسی بے باک مسلم لیڈر کو بڑی تعداد میں حمایت دینی ہوگی۔ اس وقت بہت سے مسلم لیڈر انتخابی میدان میں ہیں، جو بہترین مقرر بھی ہیں، بہترین سوچ بھی رکھتے ہیں، کام کرنے کا حوصلہ و جذبہ بھی رکھتے ہیں، بس انہیں عوام کی حمایت کی ضرورت ہے اور عوام کی بے لوث حمایت سے وہ پارلیمنٹ کا منہ دیکھ سکتے ہیں۔ جہاں جہاں بھی مسلم لیڈر کھڑے ہیں، جن میں تھوڑی بہت بھی لیڈرشپ کی خاصیت ہے، انہیں ضرور کامیاب بنائیں۔ عوام کی تھوڑی سی عقل مندی، سمجھ داری اور اتحاد کے ساتھ حق رائے دہی کا استعمال انہیں بہت ساری مصیتوں سے بچا سکتا ہے۔ مسلمانوں اور خاص طور پر اہل علم، اہل ثروت، اہل رسوخ، علماء اور تمام اہل فکر کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس سمت میں ایک ساتھ بیٹھ کر اس مسئلے کو حل کریں اور خاموشی کے ساتھ کام کریں، تاکہ مسلمانوں کو پیغام جائے کہ کیا کرنا ہے اور کس سمت میں جانا ہے۔ متحدہ حکمت عملی مرتب نہ کرنا انہیں خوار و ذلیل کر دے گا۔

اسلام ٹائمز: حالیہ دنوں سعودی عرب میں درجنوں شیعہ حضرات کے فرضی الزامات کے تحت سفاکانہ سرقلم کئے گئے، اس حوالے سے آپکی تشویش جاننا چاہیں گے۔؟
ڈاکٹر غلام حسین بیگ:
سعودی عرب میں عرصہ دراز سے مسلکی اقلیتیں مصیبت میں ہیں۔ مسلکی اقلیتوں کی جائز اور برحق آواز کو دبانے کے لئے آل سعود پرامن سیاسی تحریک کے حامیوں اور کارکنوں پر دہشتگردی کا لیبل لگا کر نمائشی عدالتوں کا سہارا لیکر انتہائی بے دردی کے ساتھ سرقلم کر رہا ہے۔ مسلکی اقلیتوں کو خارج از اسلام قرار دیکر ان کے بنیادی حقوق سلب کئے جا رہے ہیں بلکہ حقوق طلبی کی بناء پر سر قلم کئے جا رہے ہیں۔ یہ صورتحال دنیائے انسانیت بالخصوص امت مسلمہ کے لئے چشم کشا ہے۔ بنیادی حقوق کے لئے پرامن جدوجہد کرنا کوئی جرم نہیں، بنیادی حقوق کی جدوجہد بین الاقوامی قوانین کی نظر میں نہ صرف جائز بلکہ قابل قدر بھی ہے، لیکن سعودی عریبیہ میں ایسی جائز جدوجہد کو بھی قابل جرم تصور کیا جا رہا ہے اور لوگوں کے سر قلم کئے جا رہے ہیں۔ یہود و نصاریٰ اور دنیا کے کفار و مشرکین سے گرم جوش رشتے جوڑنے والی حکومت آل سعود اپنے ملک کے کلمہ گو مسلمانوں کو حقوق طلبی کی بناء پر تہہ تیغ کر رہی ہے۔ اس قتل و غارتگری کے خلاف تمام مسلمانوں کو متحد ہوکر آواز بلند کرنی چاہیئے۔
خبر کا کوڈ : 791022
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش