2
0
Thursday 25 Aug 2011 07:05
اسرائیل مصنوعی ریاست ہے جو زیادہ دیر تک برقرار نہیں رہ پائے گی

ایران اور حزب اللہ کی آواز پر بہت بڑی تبدیلی رونما ہونیوالی ہے، جنرل ریٹائرڈ حمید گل

ایران اور حزب اللہ کی آواز پر بہت بڑی تبدیلی رونما ہونیوالی ہے، جنرل ریٹائرڈ حمید گل
آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل حمید گل کا نام ملک کے ممتاز محققین اور سیاسی نشیب و فراز پر گہری نظر رکھنے والے بلند پایہ دفاعی و سیاسی تجزیہ نگاروں میں ہوتا ہے، قومی اور بین الاقوامی امور پر ان کے بے لاگ اور جاندار تبصرے انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے گزشتہ روز قبلہ اول کی آزادی اور مسئلہ فلسطین سے متعلق ان سے ایک تفصیلی انٹرویو کیا ہے، جو قارئین کی خدمت پیش ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: جنرل حمید گل صاحب، گذشتہ کئی دہائیوں سے قبلہ اول یہودیوں کے قبضے میں ہے، یوم القدس کی اہمیت اور افادیت کیا سمجتے ہیں، دوسرا اس مسئلے کو کس طرح حل کرایا جا سکتا ہے۔؟
جنرل حمید گل:
بات صرف قبلہ اول کی نہیں ہے، تاریخی اعتبار سے اتنی بڑی سیاسی ناانصافی کبھی ہوئی نہیں ہے کہ آپ خواہ مخواہ ایک جگہ جا کر لوگوں کو بے دخل کر دیں اور ان کی زمینوں پر قبضہ کر لیا جائے اور پھر ڈٹ کر وہاں اپنی زمین سمجھ کر بیٹھ جائیں، اسرائیل انہیں ظلم و بربریت کا نشانہ بناتے ہوئے ان کا مسلسل خون بہا رہا ہے۔ 1948ء سے لے کر آج تک کتنی دہائیاں گزر گئیں اسرائیل کیخلاف سلامتی کونسل میں 2 سو کے لگ بھک قراردادیں آ چکی ہیں، لیکن ایک مصنوعی ریاست کو سہارا دیا گیا۔ یہ ایک بہت بڑا ظلم ہے کہ سارا استعمار اس کی پشت پر کھڑا ہو گیا ہے، لیکن اب یہ چیز زیادہ دیر نہیں چلے گی۔ تاریخ کا پہیہ اب الٹا گھومنا شروع ہو گیا ہے، اگر وہ پہلے عالمی استعمار کے حق میں گھوما کرتا تھا جس میں انہوں نے نو آبادیاتی نظام قائم کئے، دنیا کے اوپر غلبہ حاصل کیا، دنیا کی دولت کو لوٹ کر اپنے خزانے بھر لئے اور اس کے بعد انہوں نے اپنا معیار زندگی بلند کر کے دوسری قوموں پر برتری حاصل کرنے کی کوشش کی، اب یہ تمام باتیں ختم ہیں۔ دنیا تیزی سے بدل رہی ہے، اب ان استعماری طاقتوں کو دیکھنا ہو گا اور محسوس کرنا ہو گا، اور ان لوگوں کو انصاف دینا ہو گا، جن سے ناانصافی کی گئی، جنہیں گھر بدر کیا گیا۔

اب تبدیلی کا وقت آ گیا ہے، وہ حسنی مبارک جس نے بیس برس پہلے فلسطینیوں کے ساتھ ظلم کیا اور معاہدے کیے اور اسرائیل کا ساتھ دیا، ان کی ناکہ بندی کی، اب وہ صورتحال بدل چکی ہے، نوجوان مصریوں نے سکندریہ میں فلسطین کا جھنڈا تک لگا دیا ہے، اسرائیلی قونصلیت پر چڑھ کر فلسطین کے پرچم کو لہرا دیا ہے۔ یہ تمام علامتیں بیدار نوجوان نسل کی ہیں جو اب تبدیلی اور انقلاب کے لئے کوشاں ہیں۔ جہاں تک بیت القدس کا تعلق ہے، یہ بیت القدس کوئی مسلمانوں نے جنگ کے ذریعے سے حاصل نہیں کیا تھا، یوروشلم سب سے پہلے یقیناً یہودیوں کا تھا کیونکہ وہی پہلے اس پر قابض تھے، اور یہ لوگ صاحب کتاب بھی ہیں۔ لیکن انہوں نے اتنی ناانصافیاں کیں، جس کی دنیا میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ حضرت عمر یوروشلم گئے اور بغیر کسی قتل و غارت کے فتح نصیب ہوئی اور راہب نے چابیاں انہیں سونپ دیں۔ اقتدار مسلمانوں کو منتقل ہوتے وقت ایک بھی یہودی وہاں پر موجود نہیں تھا۔ مطلب یہ ہے کہ ہم نے یوروشلم جنگ کے ذریعے نہیں لیا تھا بلکہ ایک مذہبی معاہدے کے ذریعے لیا تھا۔ حضرت عمر نے ایک بڑی زبردست بات کی تھی، انہوں نے کہا کہ تینوں مذاہب اہل کتاب ہیں، لٰہذا سب ملکر عبادت کریں، اور وہ لوگ بھی جنہیں شہر سے بےدخل کر دیا گیا، وہ آئیں اور یہاں آباد ہوں۔ تاریخ میں ملتا ہے کہ جب مسلمانوں کی حکومت بنی اُن نوے فیصد خاندانوں کو بلایا گیا۔

اسلام ٹائمز: جنرل صاحب، کیا ایک مصنوعی ریاست اپنا وجود برقرار رکھ سکے گی، اس حوالے سے عرب ممالک میں بیداری کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
جنرل حمید گل:
اسرائیل اب اگر اپنے وجود کو برقرار رکھنا چاہتا ہے تو اُس کیلئے صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ آزاد فسلطینی ریاست کا قیام ہے، پہلے بھی دنیا بھر میں مسلمانوں کے ساتھ یہودی رہا کرتے تھے، اس وقت کوئی قیامت نہیں آئی، انہیں ان کے حقوق ملا کرتے تھے۔ لیکن مغرب نے مسلمانوں کو کنٹرول کرنے کے خیال سے ایک چوکیدار کی ضرورت محسوس کی، جو مڈل ایسٹ کے اندر اُن کے مفادات کا تحفظ کر سکے، جن کا مقصد مسلمان ممالک کے تیل کی دولت پر کنٹرول کرنا تھا۔ لیکن اب یہ نہیں ہو گا۔ ترکی کا رویہ بدل گیا اور صدر عبداللہ گل اور طیب ارودگان جو فریڈم فلوٹیلا لیکر گئے، یہ ساری صورتحال اب اس بات کی غمازی کر رہی ہے کہ اب اسرائیل کو معاملہ کرنا ہے، کیونکہ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ عالمی استعماری قوتوں کو افغانستان میں بہت بری شکست ہو رہی ہے اور رخصتی کے عمل کا سسلسلہ شروع ہو گیا ہے اور یہاں سے اسے جلد شکست ہو گی۔ عالمی معشیت کا نظام گر رہا ہے، اب صورتحال برقرار نہیں رہ سکے گی۔

اسلام ٹائمز: جنرل صاحب، مسئلہ قدس و فلسطین میں پاکستان کیا کردار ادا کر سکتا ہے اور اسے کیا کردار ادا کرنا چاہیے۔؟
جنرل حمید گل:
جس دور میں تحریک خلافت چل رہی تھی اس وقت قائداعظم محمد علی جناح بیت المقدس اور فلسطین کے حوالے کھل کر بولے اور ساتھ دیا۔ فلسطین کا پاکستان کی تخلیق کے ساتھ بڑا گہرا ربط ہے، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ مولانا محمد علی جوہر فلسطین میں دفن ہیں، جو ہجرت کر کے وہاں گئے تھے، قائداعظم نے ڈیکلریشن کے خلاف بہت ساری تقریریں کیں یعنی وہ فلسطین کو پاکستان سے کم اہمیت نہیں دیتے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ یہ ایک ناجائز ریاست ہے جسے کسی صورت وجود میں نہیں آنا چاہیے کیونکہ وہ سمجتے تھے کہ اس سے پورے خطے میں خون خرابہ ہو گا، آج دیکھ لیں کہ قائداعظم کی بصیرت اور اُن کی پیش گوئی درست ثابت ہوئی، آج اس صہونی ریاست کی وجہ سے ہر جگہ خون خرابہ ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان کو بھی آواز بلند کرنی چاہیے، کیونکہ اگر آپ تخلیق پاکستان اور تحریک آزادی فلسطین کے اندر رشتوں کو تلاش کریں تو بہت ہی گہری زنجیریں ملیں گی۔

ایک بات واضح کرنا چاہتا ہوں کہ فسلطین کے حوالے سے زمین کا مسئلہ ہو سکتا ہے، لیکن مسجد اقصٰی کا تعلق تو دین سے ہے، جو زمین سے نہیں ہے۔ یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ ایک معاملہ زمین کا ہے کہ جو سیاسی ہے جبکہ دوسرا مسئلہ دینی ہے، دین کے مسئلے پر کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔ ایک مسئلہ جس کا تعلق ہی دین سے ہے، اسے کسی صورت نہیں چھوڑا جا سکتا۔ سعودی عرب میں اگر ہمارے مقدسات موجود ہیں اور اگر کوئی وہاں پر حملہ کر دے تو کیا ہم اس کو چھوڑ دیں گے، اصلاً نہیں۔ اور نہ ہی اُسے فراموش کر سکتے ہیں، اگر ہم نے بیت المقدس کو فراموش کر دیا تو کل کلاں کیا اسرائیل کی نگاہ سعودی  عرب میں موجود مقدسات پر نہیں ہو گی، ضرور ہو گی، تو ایسی صورتحال میں ہمیں فیصلہ کرنا ہو گا۔ پاکستانی قوم کو بیدار کرنے کی ضرورت ہے، ایسے بیدار کرنے کی ضرورت ہے جیسے تحریک خلافت کے وقت بیدار کیا گیا تھا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستانی قوم فلسطینی بھائیوں سے بے پناہ محبت کرتی ہے، جب یہان پر فلسطین کی موومنٹ چلی تو خواتین نے اپنے چوڑیاں اور زیور تک بیج کر اپنے فلسطینی بھائیوں کی امداد کی۔ یہ واقعات ہماری تاریخ کا حصہ ہیں، جنہیں ہم فراموش کرتے جا رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: جنرل صاحب، لیبیا کے مسئلے کو کس نگاہ سے دیکھ رہے ہیں جبکہ امریکہ سمیت متعدد ممالک نے اسے خوش آئند اور خوش آمدید کہا ہے۔؟
جنرل حمید گل:
میں یہاں کہتا چلوں کہ اب اسرائیل کا وجود برقرار نہیں رہ سکتا۔ کیونکہ عرب نوجوان جیسے کہ لیبیا کا سلسلہ چل رہا ہے، مجھ سے لکھوا لیں یہ خوش تو ہو رہے ہوں گے کہ قذافی کو نکال دیا ہے، لیکن یہ آگے جا کر سر کے اوپر بازو رکھ کر روئیں گے کیونکہ وہاں پر اسلامی حکومت قائم ہو جائے گی، اس پوری تحریک میں القاعدہ کے لوگ شامل ہونگے اور اسی طریقے سے مصر میں بہت بڑی تبدیلی آ گئی ہے۔ ترکی کا رویہ بدل گیا ہیں۔ خطے میں ایران اور حزب اللہ کی جو آواز ہے اس کے نتیجے میں ایک بہت بڑی تبدیلی رونما ہونے والی ہے۔ عراق میں تبدیلی آ چکی ہے، اب عالمی استعمار دیکھے گا کہ صرف اردن اور سعودی عریبیہ رہ گئے ہیں جو تبدیلی کے بغیر نہیں رہ سکیں گے، اسی طرح یمن میں بھی تبدیلی آ رہی ہے، صومالیہ کو دیکھ لیں، وہاں پر بھی تبدیلی رونما ہونے والی ہے۔ القاعدہ آہستہ آہستہ اسرائیل کے قریب ہوتی جا رہی ہے۔ یہ لوگ پاکستان اور افغانستان سے نکل کر ان ممالک کا رخ اختیار کر رہے ہیں، اب سعودی عریبیہ کا رویہ بھی بدلے گا۔ اس کے بعد امریکہ کے پاس نہ اس کا سیاسی حل ہو گا اور نہ ہی فوجی طاقت استعمال کر سکے گا۔

اسلام ٹائمز: جنرل صاحب، غزہ کو اسرائیل چاروں اطراف سے محصور کیے ہوئے ہے، کیا یہ صورتحال عالمی انسانی حقوق کے علمبرداروں کے منہ پر طمانچہ نہیں؟
جنرل حمید گل:
اب دیکھیں گزشتہ روز اسرائیلوں نے 15 آدمی شہید کر دیئے ہیں، غزہ کو محصور کر دیا گیا ہے، وہاں لوگ کھلے آسماں تلے بھوک اور پیاس سے مر رہے ہیں، انہیں سمندری حدود میں داخل نہیں ہونے دیا جا رہا۔ کیا یہ جمہوریت کے نام پر ظلم نہیں؟ انسانی حقوق کے علمبرداروں کو فلسطین میں ظلم نظر نہیں آ رہا؟ اور جب کوئی جہاد کیلئے نکلے تو وہ دہشتگرد ہے، جب انصاف نہیں ملے گا اس وقت لوگ اسلحہ لیکر نکلیں گے، جب کسی قوم سے اُن کے حقوق صلب کر لیے جائیں گے اور انہیں دیوار سے لگایا جائے گا تو پھر حق بنتا ہے کہ قوموں کے افراد اُن ظالمون کے ہاتھوں کو روکیں، اللہ کا بھی یہ حکم ہے کہ ظالمین کو ظلم کرنے سے روکا جائے۔ انسانی فطرت میں بھی یہی چیز شامل ہے کہ وہ ظلم کو زیادہ دیر تک برداشت نہیں کرتا۔ اب اسرائیل کو اپنا رویہ بدلنا ہو گا، یہ مصنوعی ریاست ہے اب زیادہ دیر تک برقرار نہیں رہ پائے گی۔ میرا خیال ہے کہ اگر اسرائیل نے رویہ نہ بدلہ تو یہ ریاست دو چار برسوں میں خود بخود تحیل ہو جائے گی۔

اسلام ٹائمز: جنرل صاحب،رفیق حریری کے قتل میں ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت حزب اللہ کو ملوث کیا گیا جبکہ سید حسن نصراللہ نے حریری قتل کے اہم ثبوت پیش کیے، لیکن عالمی طاقتیں اسے ماننے کیلئے تیار ہی نہیں ہیں، اس کے پیچے کیا سازش دیکھتے ہیں۔؟
جنرل حمید گل:
سازش یہی ہے کہ حسن نصراللہ نے کیونکہ ستمبر 2006ء میں اسرائیل کی ناک رگڑی تھی اور 33 روزہ جنگ میں اسرائیل کا تمام بھرم دنیا پر آشکار کر کے رکھ دیا تھا۔ صرف پانچ ہزار مجاہدوں نے اسرائیل کو شکست فاش سے دوچار کیا اور یہاں تک کہ ان کے لوگوں کو پکڑ لیا۔ حزب اللہ کی فتح نے عربوں کے اندر اسرائیل کے خوف کو مٹا کر رکھ دیا، جو ان طاقتوں کیلئے ایک بہت بڑا دھچکا تھا۔ دوسری طرف حزب اللہ نے الیکشن میں بھی میدان مار لیا، کچھ لوگ انہیں لبنان سے فارغ کرنا چاہتے تھے لیکن وہ لبنان کی پارلیمنٹ میں پہنچ گئے۔ تمام تر چال بازیوں اور پروپیگنڈے کے باوجود وہ انہیں شکست نہ دے سکے۔ اب کمیشن بنا دو، فلاں کر دو، فلاں کر دو۔ یہ جھوٹ کے ہتھکنڈے اور چال بازیاں ہیں جو اب نہیں چلیں گی۔ ان چند سالوں میں دنیا میں بہت بڑی تبدیلی آئی ہے اور بلآخر لوگوں کو اسلام کی جانب لوٹ کر آنا ہے۔ اسلام ہی متبادل نظام ہے، جس نے انسانیت کو پناہ دینی ہے، جس سے دنیا بھر میں امن قائم ہونا ہے۔

اسلام ٹائمز: جنرل صاحب،امام خمینی رہ کے فرمان پر پوری دنیا میں جمعتہ الوداع کو یوم القدس منایا جاتا ہے کیا آپ سمجتے ہیں کہ پاکستان میں تمام مکاتب فکر ملکر دنیا کو باور کرائیں اور اس احتجاج میں حصہ لیں، جبکہ حکومتی سطح پر موثر سفارتکاری کا راستہ اپنایا جائے اور عالمی فورمز پر دباو ڈالے تو مسئلہ قدس اور فلسطین حل کی جانب بڑھ سکتا ہے۔؟
جنرل حمید گل:
متحد ہونا چاہیے، اس حوالے سے عرب لیگ کا فورم موجود ہے۔ لیکن اس کے اندر عرب حکمران حائل ہیں۔ اب ایران نے آواز بلند کی ہے سب کو سوچنا چاہیے، ایران اور عربوں کے درمیان مصالحت ہونی چاہیے۔ امریکہ عربوں کو ڈرا رہا ہے کہ ایران کے ہاتھ بم آ جائے گا تو تمارا کیا ہو گا۔ تو اس کا حل یہی ہے کہ تم بھی بم بنا لو۔ سعودی عریبیہ، مصر، ترکی سب بنا لیں، اس سے کیا قیامت آ جائے گی۔ اگر مغربی دنیا کا ہر چھوٹا بڑا ملک بم رکھ سکتا ہے اور بنا سکتا ہے تمہیں کس نے روکا ہے۔ اگر اسرائیل کے پاس بے شمار ایٹم بم پڑے ہوئے ہیں تو پھر ایران کو کیوں حق حاصل نہیں، سب رکھیں، امریکہ خواہ مخواہ سارے مخمصے اور شکوک و شبہات پیدا کر رہا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایران اور سعودی عریبیہ کی آپس میں انڈر سٹینڈنگ ہونی چاہیے اور محبت کے رشتے قائم ہوں، یہ کام پاکستان بخوبی انجام دے سکتا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان اعتماد پیدا کرا سکے۔ لیکن اس کی شرط یہ ہے کہ یہاں کوئی بابصیرت قیادت میسر آ جائے تو کام ہو سکتا ہے۔

اسلام ٹائمز: جنرل صاحب، کہا جا رہا ہے کہ کراچی کے حالات خراب کرنے میں عالمی طاقیں ملوث ہیں جو یہ چاہتی ہیں کہ پاکستان کو اندر کے معاملات میں الجھا دیا جائے تاکہ وہ بین الاقوامی سطح پر کوئی کردار ادا نہ کر سکے۔؟
جنرل حمید گل:
عالمی طاقتوں کو یہ پتہ نہیں ہے کہ وہ اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماریں گے اگر پاکستان کے اندر ابال آتا ہے تو وہ اسلامی انقلاب کی طرف چلا جائے گا۔ جیسا کہ اب امریکہ افغانستان کے اندر محدود ہو چکا ہے، پھنس گیا ہے، اگر پاکستان کے اندر انقلاب آ جاتا ہے تو امریکہ کے لیے بہت مسائل پیدا ہوں گے اور انڈیا کے لئے سب سے زیادہ مسئلہ پیدا ہو گا۔ اب ہندوستان کے اندر بھی ایک بغاوت اٹھ رہی ہے۔ جیسا کہ انا ہزارے کھلم کھلا کہہ رہا ہے کہ ہمیں انقلاب چاہیے اور پاکستان کے اندر بھی لوگ کہہ رہے ہیں کہ ہمیں انقلاب چاہیے اور میں خود بھی اس کا داعی ہوں کہ انقلاب چاہیے، کیونکہ انقلاب کے بغیر معاملات حل نہیں ہونگے، اس ساری صورتحال کا سارے کا سارا کریڈیٹ افغانستان کو جاتا ہے کہ جہاں نہتے، بیچارے، کسمپرسی کے شکار، بوری نشین لوگ امریکہ کو شکست دے رہے ہیں۔ یہاں پاکستان اور ایران دونوں کو ملکر اُن کی مدد کرنی چاہیے، یہ مدد مسلکی بنیاد پر نہیں ہونی چاہیے۔ حزب اللہ نے اپنی جگہ پر ایک بہت بڑا کارنامہ سرانجام دیا ہے کہ انہوں نے سب کو ایک امید دلائی ہے، لیکن افغانستان میں ایک تاریخ کا فیصلہ ہو رہا ہے۔ میں یہاں بتاتا جاوں کہ حزب اللہ کی فتح صرف حزب اللہ کی فتح نہیں بلکہ پورے عالم اسلام کی فتح ہے۔ اسی طریقے سے افغانستان کی فتح بھی سارے مسلمانوں کی فتح ہے۔
صحافی : نادر عباس بلوچ
خبر کا کوڈ : 94118
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

انٹرویو ایسے افراد سے کرنا چاہئے۔ حمید گل کا ایک ایک لفظ نوٹ کرنے کے قابل ہوتا ہے۔ آپ آئندہ بھِی کچھ اسی پایہ کے افراد سے انٹرویو کیا کریں چھوٹے مولویوں سے انٹرویو کرنے سے نہ کرنا ہی بہتر ہے۔
Pakistan
ye dekho kia lekha hay
ہماری پیشکش