0
Sunday 25 Sep 2011 19:23

پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت کی جانب سے امریکہ کو دوٹوک موقف دینے کا فیصلہ کر لیا گیا

پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت کی جانب سے امریکہ کو دوٹوک موقف دینے کا فیصلہ کر لیا گیا
لاہور:اسلام ٹائمز۔ امریکہ کی فوجی و سیاسی قیادت کی الزام تراشی کے جواب میں پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت نے بھی متفقہ مؤقف اختیار کرنے اور "قومی مفاد پہلے" کی پالیسی اپنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیراعظم پاکستان نے اس سلسلے میں ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کی قیادت کو جبکہ آرمی چیف نے کور کمانڈرز کو اعتماد میں لیا ہے اور امریکا کے سامنے جھکنے کی بجائے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سے قبل امریکی افواج کے سربراہ، وزیر دفاع اور وزیر خارجہ کے بعد وائٹ ہاؤس نے بھی پاکستان کو دھمکی دی تھی کہ وہ حقانی گروپ سے اپنے روابط ختم کرے یہ اس کے حق میں بہتر ہو گا۔
دوسری طرف پاکستان کے متعلقہ اداروں نے امریکی دباؤ کو کسی بھی قیمت پر قبول نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور کہا ہے کہ پاکستان اپنے اسٹریٹجک مفادات پر کوئی دباؤ کسی قیمت پر قبول نہیں کرے گا، امریکی الزامات بے بنیاد ہیں، پاکستان سے تعلقات برقرار رکھنے کے فیصلے میں امریکی آزاد ہیں اور پاکستان ہر طرح کی صورت حال کا سامنا کرنے کو تیار ہے۔ وائٹ ہاؤس کی دھمکی کے بعد ایک فیصلہ ساز ادارے کے ذمہ دار نے "اسلام ٹائمز" کو بتایا کہ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کے دورہ سپین کے بعد ان سے ملاقات کرنے والے ذمہ داران کا کہنا ہے کہ امریکا کابل میں پے در پے حملوں اور افغانستان میں طالبان کی کارروائیوں سے بوکھلایا ہوا ہے، اسے یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ کیا کہے اور کیا کرے، امریکی فوج اور حکومت عوام میں بے وقار ہو رہی ہے اور خوف کے اس عالم میں وہ پاکستان کو قربانی کا بکرا بنانے پر تلے ہوئے ہیں مگر پاکستان اس کے لیے تیار نہیں، پاکستان نے اعلیٰ ترین سطح پر امریکہ کو دو ٹوک الفاظ میں یہ باور کرا دیا ہے کہ اگر امریکہ پاکستان کے ساتھ تعلقات برقرار رکھنا چاہتا ہے تو اسے پاکستان کی خود مختاری، آزادی اور پاکستان کے اسٹریٹجک مفادات کا احترام کرنا ہو گا اور اگر وہ تعلقات برقرار نہیں رکھنا چاہتا تو ہمیں اس سے کوئی پریشانی نہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان نے امریکیوں کو یہ بات نہ صرف وزیر خارجہ کے میڈیا پر بیان بلکہ اعلیٰ ترین سطح کی ملاقاتوں میں بھی انہی الفاظ میں باور کرا دی ہے کہ اگر امریکی الزام تراشیوں سے باز نہ آئے تو پاکستان امریکا سے اپنے تعلقات پر نظر ثانی کر سکتا ہے اور امریکا اس خطے میں پاکستان جیسے اتحادی سے محروم ہو سکتا ہے، اب یہ امریکی حکام کی مرضی ہے کہ وہ اس سلسلے میں کیا فیصلہ کرتے ہیں اور کون سی راہ اختیار کرتے ہیں۔ اس سوال پر کہ مشترکہ کارروائی کا کیا امکان ہے، عسکری ذرائع کا کہنا ہے کہ مشترکہ کارروائی کس کے خلاف؟ یہ نہیں ہو سکتا کہ امریکی الزام لگائیں اور ہم آنکھوں پر پٹی باندھ کر ان کے ساتھ چل پڑیں، ہماری ذمہ داری اپنی سرحدوں کے اندر ہے، وہاں اگر امریکیوں کے پاس کوئی ثبوت ہے تو پیش کریں، ہم پہلے ثبوت کا جائزہ لیں گے اور پھر کارروائی کریں گے لیکن اگر امریکا یہ کہے کہ کابل میں چونکہ حملہ آوروں سے پاکستانی جوس کے ڈبے ملے ہیں لہذا ہم آپریشن شروع کر دیں تو پاکستان میں فورسز کے خلاف لڑنے والوں سے تو امریکی اسلحہ ملا ہے، یہ امریکی فوج نے دیا ہے یا امریکی سی آئی اے نے؟ امریکا کو اس کا جواب دینا ہو گا۔ اگر امریکی کہتے ہیں کہ حقانی گروپ پاکستان میں ہے تو وہ اسے بارڈر پر روکیں، افغانستان کی سرزمین پر روکیں اور ثبوت فراہم کریں۔
پاکستان سے کبھی کسی لشکر یا جتھے نے افغان سرحدی چوکیوں پر حملہ نہیں کیا، جبکہ افغانستان سے آئے روز لشکر، پاکستانی سرحدوں پر حملے کرتے ہیں۔ امریکی فورسز، ایساف فورسز اور افغان نیشنل آرمی انہیں نہیں روکتی، بلکہ افغان آرمی ان کے کیمپس کو سہولیات فراہم کرتی ہے۔ یہ کس طرح ممکن ہے کہ پاکستان پر وہ جو چاہے الزام لگا دیں اور پاکستان ثبوت بھی دے تو وہ خاموشی اختیار کر لیں، اب امریکا کی باری ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنی سنجیدگی ظاہر کرتے ہوئے پاکستانی سرحدوں میں دراندازی کرنے والے حملہ آور فضل اﷲ اور دیگر گروپس کے خلاف کارروائی کرے۔ دو روز قبل افغان سرزمین سے پاکستانی ہیلی کاپٹر کو ہٹ کیا گیا ہے اس کے خلاف بھی کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔
وزارت خارجہ کے ایک ذمہ دار نے انکشاف کیا ہے کہ پاک امریکا تعلقات تاریخ کے بدترین مقام پر ہیں، پاکستان نے امریکا کو بتا دیا ہے کہ وہ تعلقات ختم کرنا چاہتا ہے تو اس کی مرضی، پاکستانی عوام کو اس موقع پر تنہا چھوڑنا اس کے لیے نقصان دہ ثابت ہو گا، پاکستان کو کوئی فرق نہیں پڑے گا لیکن اس دباؤ کے سبب پاکستان اپنی حکمت عملی تبدیل کرے گا نہ پاکستان میں کسی غیر ملکی فوجی کو برداشت کیا جائے گا۔ ایک سینئر عہدیدار سے جب یہ سوال کیا گیا کہ امریکا کیا کیا کر سکتا ہے؟ تو ان کا کہنا تھا کہ امریکا صرف دباؤ ڈال رہا ہے، عملی اقدام کرنا اتنا آسان نہیں، وہ دباؤ ڈال کر پاکستان کو جھکا سکتا ہے مگر اس وقت ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا، دوسرا یہ کہ وہ ایبٹ آباد طرز کی کارروائی پھر کرے اس کے جواب میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں، امریکیوں کو بھی بتا دیا گیا ہے پاکستان میں آئندہ کوئی حرکت، جنگ کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔ بھارت اور امریکا بھی اس سے آگاہ رہیں، ہم پوری طرح سے تیار ہیں۔
خبر کا کوڈ : 101398
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش