0
Wednesday 5 Oct 2011 20:53

پاکستان ریلوے تباہی کے دہانے پر، آخر وجوہات کیا ہیں؟

پاکستان ریلوے تباہی کے دہانے پر، آخر وجوہات کیا ہیں؟
ملتان:اسلام ٹائمز۔ ریلوے حکام کی عدم دلچسپی کے باعث ملک بھر میں چلنے والی ٹرینوں کی آمد اور روانگی کی تاخیر کا سلسلہ تھم نہیں سکا جبکہ مسافروں نے ریل کے ذریعے سفر کی بجائے کانوں کو ہاتھ لگا لیے ہیں، دوسری جانب ٹرینوں کی بندش کا سلسلہ بھی زور و شور سے جاری ہے، گھنٹوں تاخیر کی وجہ سے ٹرینوں کے ذریعے سفر کرنے والوں کی تعداد میں کمی کے باعث آمدن میں بھی کئی گنا کمی ریکارڈ کی گئی ہے جبکہ ریلوے حکام کے مطابق مطلوبہ تعداد میں انجنوں کی فراہمی تک اس بیگاڑ کو کسی صورت درست نہیں کیا جا سکتا، پاکستان ریلوے کے مردہ ہوتے گھوڑے کو زندگی کی مزید سانسیں دینے کیلئے حال ہی میں حکومت نے 11 ارب روپے جاری کئے لیکن دوسری طرف وفاقی وزیر ریلوے غلام بلور کا کہنا ہے کہ ریلوے کے مسافروں کی مشکلات ختم ہونے کا فی الحال کوئی امکان نہیں البتہ تمام تر ممکنہ وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے ہم اس تگ و دو میں مصروف ہیں کہ ان مشکلات کو جلد از جلد کم کیا جاسکے اور اگر بیل آوٹ پیکج نہ دیا جاتا تو شائد ریلوے کا بیڑہ بیٹھ جاتا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ دوماہ قبل تو محکمہ ریلوے کی یہ صورتحال ہو گئی تھی کہ ملازمین کو ایک ماہ کی تنخواہ بھی نہیں دی جا سکی کیونکہ وزارت خزانہ نے مرکزی بنک کو ایک عجیب حکم جاری کیا تھا کہ ریلوے کو فنڈز جاری نہ کئے جائیں، جس کے بعد ملکی تاریخ میں پہلی بار کئی ملازمین نے اپنی روزانہ کی آمدنی بنکوں میں جمع کرانے کی بجائے اسے اپنی اجرت اور حق سمجھ کر تنخواہ کے طور پر وصول کر لیا، ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ رواں سال جنوری میں ریلوے نے تیل کی مد میں پی ایس او کو 70 کروڑ روپے کا چیک جاری کیا لیکن بنک نے یہ کہہ کر چیک لینے سے انکار کر دیا کہ ریلوے کے اکائونٹ میں پیسے نہیں ہیں تو ہم چیک کا کیا کریں۔
پاکستان میں ریلوے لائن کی کل لمبائی 8163 کلو میٹر ہے، ریلوے کے موجودہ بحران سے قبل ملک میں روزانہ کی بنیاد پر 228 ٹرینیں مختلف روٹس پر چلتی تھیں جو سالانہ 65 ملین مسافروں کو اپنی منزل مقصود پر پہنچاتی تھیں لیکن اب تو 30 ٹرینوں کو جاری رکھنا بھی مشکل ہو گیا ہے، مسافروں کے علاوہ ریلوے تجارتی سامان کی ترسیل کا بھی بہت بڑا ذریعہ ہے جس سے آمدنی کا 39 فیصد حصہ حاصل ہوتا ہے، 80ء کی دہائی تک ریلوے انتہائی منافع بخش ادارہ تھا جس کی دو وجوہات تھیں، پہلی تو یہ کہ دیگر ٹرانسپورٹ کے مقابلہ میں کم کرایہ اور دوسری قدرے محفوظ اور آرام دہ سفر، لیکن اب یہ نوبت آن پہنچی ہے کہ مسافروں کا منزل مقصود پر 7،8 گھنٹے تاخیر سے پہنچنا معمول بن گیا ہے اور بعض اوقات تو تاریخیں بھی بدل جاتی ہیں، ریلوے کے پاس فی الوقت 552 میں سے صرف 220 انجن کار آمد حالت میں ہیں جن میں سے 100 انجن لمبے سفر سے پہلے ہی معذرت کر لیتے ہیں جبکہ 50 انجن اکثر دھوکہ دے دیتے ہیں، جس کے مطابق 30 فیصد انجنز پر ریلوے چل رہا ہے اور جو ادارہ اپنی استعداد کے 30 فیصد حصہ پر چل رہا ہو وہ ملازمین کو تنخواہیں کہاں سے دے گا، گذشتہ دنوں تو حالت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ روزانہ کی بنیاد پر 20 ٹرینیں بند ہونے کے اعلانات ہو رہے تھے لیکن اس ہنگامی صورتحال کے باوجود ریلوے کے وزیر طویل ترین دورہ امریکا پر رہے اور سرکاری فون کے ذریعے ایک آدھ مرتبہ محکمہ کی صورتحال پر متعلقہ افسروں سے تبادلہ خیال کر کے اپنے جمہوری حکومت کے رکن ہونے کا ثبوت ضرور دیا، ان حالات میں جی ایم ریلوے نے بھی اپنے وزیر کی پیروی کرتے ہوئے غیر حاضری کی اور یوں محسوس ہو رہا تھا کہ آخری ہچکیاں لینے والا محکمہ ریلوے اپنے کپتان اور نائب کی عدم موجودگی میں دم توڑ دے گا لیکن جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے۔
حکومت کی جانب سے ریلوے کو 11 ارب روپے کی ڈرپ لگانے کے بعد وفاقی وزیر اور جی ایم صاحب دونوں منظر عام پر آگئے اور انگریزی کی یہ مثل درست ثابت کر دی کہ ''شکست کا کوئی دوست نہیں ہوتا'' جس کے بعد وفاقی وزیر کی صدارت میں ریلوے کے بارے میں اجلاس ہوا اور یہ طے پایا کہ 11 ارب روپے کے پیکج سے 150 کارآمد انجن ریلوے کے بیڑے میں شامل کئے جائیں گے، یاد رہے کہ فوری طور پر کم از کم 300 انجنوں کی ضرورت ہے، تاہم اس اقدام سے آدھی مشکلات حل ہونے کا امکان پیدا ہو گیا ہے، اس کے علاوہ یہ بھی فیصلہ ہوا کہ 6 ارب روپے 100 انجنوں کی مرمت پر خرچ کئے جائیں گے جبکہ کسی بھی دوست ملک سے 50 انجن لیز پر حاصل کئے جائیں گے، جاننے والے جانتے ہیں کہ ریلوے انجن کی مرمت ایک پیچیدہ اور طویل عمل ہے اور بیان کئے گئے اعدادوشمار کے مطابق یہ مسئلہ 6 ماہ سے پہلے حل ہونا ممکن نہیں جبکہ لیز پر انجنوں کا حصول بھی سہانا خواب ہے، ریل انجن کوئی کھلونا بھی نہیں جسے ڈبے میں بند کرکے لایا جائے اور کھول کر استعمال کرنا شروع کر دیا جائے، بہرحال حکمرانوں کی ان منطقوں کو وہ ہی بہتر سمجھتے ہیں یہ عام شہریوں کی سمجھ میں آنے والی باتیں نہیں، لیکن مقتدر حلقوں کو قومی محکموں اور اداروں کے ساتھ اس طرح کھیلنے کی اجازت بھی نہیں دی جا سکتی۔
ملکی میڈیا میں ریلوے افسران اور ملازمین کی کرپشن کی خبریں بھی تواتر سے آتی رہتی ہیں، جس کی ایک مثال رواں سال کا ایک انتہائی افسوسناک کرپشن سکینڈل ہے جس میں مذکورہ محکمہ کے اعلٰی افسران ملوث ہیں، کرپشن کی اس کہانی میں بھی امریکہ کی غلامی کی جھلک نظر آتی ہے جہاں چین سے منگوائے گئے انجنوں کو جان بوجھ کر ناکارہ بنایا گیا، تاکہ سچے دوست اور پڑوسی ملک کو دھوکہ دیکر امریکیوں سے ڈالر بٹور کر جیب میں ڈالے جائیں، بے شک ملک و قوم کا نقصان ہی کیوں نہ ہو۔
 میڈیا رپورٹس کے مطابق اس کرپشن سکینڈل میں محکمہ ریلوے پاکستان کے اعلٰی افسران نے چین سے منگوائے گئے انتہائی کارآمد اور قدرے سستے انجنوں میں جان بوجھ کر استعمال شدہ تیل ڈلوایا جس کے بعد ان انجنوں کا جواب دینا لازمی ہو گیا اور پھر موقف یہ پیش کیا گیا کہ چین نے ناکارہ اور کم درجہ کوالٹی کے انجن بھیجے، یہ انجن واپس کئے جائیں اور آئندہ معاہدہ امریکی کمپنی کے ساتھ کیا جائے، یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ جس امریکی کمپنی کیساتھ بعض کرپٹ ریلوے افسران معاہدہ پر اصرار کر رہے تھے اس کے انجنوں کی قیمت چین سے منگوائے گئے انجنوں کے مقابلہ میں 5 گنا زیادہ اور کوالٹی بھی قابل اعتبار نہیں، کرپشن کی ایسی کئی کہانیاں اکثر ریلوے کے حوالے سے اخباروں اور الیکٹرانک میڈیا کی زینت بنتی رہتی ہیں، جن میں چند ایک سے ٹرین کے ذریعے سفر کرنے والے قارئین زیادہ بہتر طریقہ سے واقف ہوں گے جہاں ٹکٹ چیکر بغیر ٹکٹ سفر کرنے والے مسافروں سے رشوت یا بھتہ وصول کرتے ہیں اور جو مسافر ٹرین کے اندر ٹکٹ بنوانے کے خواہش مند ہوتے ہیں ان سے بھی پیسے تو وصول کر لئے جاتے ہیں لیکن ٹکٹ جاری نہیں کیا جاتا اور یوں یہ پیسے قومی خزانہ کی بجائے ٹکٹ چیکر کی جیب میں چلے جاتے ہیں، اکثر اوقات ریلوے ملازمین کی ملی بھگت سے سامان کی ترسیل بھی بغیر بلٹی کے ہوتی ہے۔
اب جبکہ ملک کا ایک بڑا ادارہ مذکورہ بالا وجوہات کی بناء پر تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے اور حکومت ازسرنو پالیسی مرتب کرنے کی بجائے 11 ارب روپے کا پیکج دیتی ہے، اس ساری صورتحال میں نظام اسی طرح سے چلانے کی کوشش کی گئی تو شائد بدقسمتی سے ریلوے کو پٹڑی سے اتار دیا جائے، ایسے متوقع حالات سے بچنے کیلئے دو امور پر توجہ دینا انتہائی ضروری ہو گا، ایک تو یہ کہ ملک و قوم سے مخلص، ایماندار اور اہل افراد کو ریلوے کی باگ دوڑ حوالے کی جائے اور دوسرا ایک ایسی ٹاسک فورس قائم کی جائے جو 3 ماہ کے اندر قابل عمل منصوبہ تشکیل دیکر اس ادارے کو بچا سکے، مذکورہ ٹاسک فورس کو بڑے پیمانے پر آپریشن کلین اپ کیلئے لائحہ عمل بنانے کا اختیار بھی ہو اور اس کی سفارشات کو قانونی تحفظ دینے کیلئے مناسب قانون سازی کی جائے اور ا س ادارے میں موجود کالی بھیڑوں کو نکال کر ان کیخلاف قانونی کارروائی بھی کی جائے، تاکہ آئندہ آنے والوں کیلئے عبرت کا پیغام رہے، ان تجاویز پر عمل کر کے ہی پٹڑی سے اترتے ہوئے محکمہ ریلوے کو واپس ٹریک پر لایا جاسکتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 103967
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش